• 20 اپریل, 2024

صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے (حضرت مسیح موعودؑ)

صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت مفتی محمد صادقؓ (صحابی حضرت مسیح موعودؑ) بیان کرتے ہیں کہ 1895ء میں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ علیہ السلام کے کلمات طیبات کاغذ پر نوٹ کرکے لاہور لے آتا اور احمدیوں کو سنایا کرتا۔ ان کلمات طیبات میں سے جو چیزیں آپؑ نے بیان فرمائیں ان میں سے زیر عنوان یہ فقرہ ہے کہ ’’صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے۔‘‘

مکرم ایڈیٹر صاحب البدر لکھتے ہیں کہ یہ نصیحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند لوگوں (جن میں محمد نواب خان صاحب تحصیل دار بھی شامل تھے) کی بیعت لینے کے بعد اپنے خطاب میں فرمائی تھی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے یہ دھوکہ ہے۔ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ جلدی راست بازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہئے اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ5 ایڈیشن 1984ء)

خود احتسابی پر خاکسار کے چند ایک آرٹیکلز اس سے قبل الفضل آن لائن کا حصہ بن چکے ہیں اور بے شمار آرٹیکلز اور اداریوں میں اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر سرسری طور پر یا ثانوی طور پر ذکر کر آیا ہوں۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کلمہ طیبہ پر اس لیے طبع آزمائی کرنے جارہا ہوں کہ یہ نصیحت دراصل آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل کی تصدیق و تائید کررہی ہے کہ میں روزانہ سوتے وقت دن بھر کے اعمال کا جائزہ لیتا ہوں۔

ایک انسان کو اپنی زندگی میں اپنا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کے بہت سے اوقات یا ادوار آتے ہیں جیسے ہر شمسی و قمری سال میں داخلے کے وقت، رمضان المبارک کا مبارک مہینہ،عیدین، طلباء کے لئے نئے سال میں ترقی اور دیگر عہدوں پر ترقی کرنا وغیرہ وغیرہ۔ان کے علاوہ اپنا جائزہ لینے کی ایک بہت ہی کارآمد گھڑی یا ساعت وہ ہے جب انسان رات کو عارضی طور پر اپنے اوپر موت وارد کرنے لگتا ہے یعنی سونے لگتا ہے اور یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب انسان بسا اوقات پرانی یادوں کے دریچوں میں کھو جاتا ہے اور مستقبل کے سہانے خوابوں کی دنیا میں آ آباد ہوتا ہے۔ یہی وہ اہم گھڑی ہے جب انسان اپنا خود ممتحن بن کر امتحان لیتا ہے اور خود ہی مارکنگ کرتا ہے اسے self-examine یا خود احتسابی بھی کہتے ہیں۔خود احتسابی کیلئے یہ پیریڈ اس لیے اہم ہوتا ہے کہ انسان کو دن بھر اپنے کیے (کام) مستحضر بھی ہوتے ہیں اور محاسبہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ ویسے تو انسان کی طبیعت اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ جب بھی وہ قدم اُٹھاتا ہے یا کوئی غلط کام کربیٹھتا ہے تو اسے اسی وقت احساس ندامت ہوجاتا ہے اور محاسبہ کا احساس ہونے لگتا ہے لیکن چونکہ اس وقت زندگی کا پہیہ چل رہا ہوتا ہے اور ایک کام کے بعد اگلا کام انتظار کررہا ہوتا ہے اس لیے احتساب کا وقت اس طرح میسر نہیں ہوتا جتنا رات کو جب انسان خالی الذہن ہو کر سوچ و بچار کرتا اور اپنے غلط کیے پر نادم ہوتا ہوا اپنے اللہ سے معافی مانگتا ہے اور آئندہ نئے ارادوں اور جذبوں کے ساتھ بہتری کی طرف آگے بڑھنے کا عزم کرتا ہے۔

جہاں تک مجموعی طور پر خود احتسابی کے مضمون کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو مخاطب ہوکر وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ (الحشر: 19) (کہ ہر جان نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے) کہتے ہوئے خود احتسابی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ جبکہ سورۃ البقرہ آیت285 میں یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ کہہ کر احتساب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف لی ہے کہ اللہ تمہارے ہر کردنی اور ناکردنی کے بارے میں محاسبہ کرے گا۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو دانا قرار دیا ہے جو اپنا محاسبہ ساتھ ساتھ کرتا چلا جاتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتا چلا جاتا ہے۔

(ترمذی کتاب صفۃ القیامتہ و الرقائق)

اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما کا یہ قول تو ایک مومن کو ہر وقت بیدار رکھتے ہوئے محاسبہ نفس کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ حَاسِبُوْ اقَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا

(ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق)

اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ ایک اور مقام پر وَزِنُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُوْزَنُوْا کے الفاظ ملتے ہیں جس کے معنی ہیں کہ اپنے نفس کو ماپ تول کر رکھو قبل اس کے کہ تمہارا ماپ تول کیا جائے۔

دوبارہ اپنے اصل مضمون کہ ہر شام کو محاسبہ کرلینا چاہئے کی طرف لوٹتے ہوئے حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ایک ارشاد تحریر میں لاتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
صوفیاء نے لکھا ہے آدمی کو چاہئے ہر شام کو سوتے وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ میں نے جو کام کئے وہ لہو ولعب تونہ تھے۔

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ345)

اور اپنے متعلق آپؓ فرماتے ہیں کہ
میری تو یہ حالت ہے کہ میں جمعہ کے لئے نہارہا تھا۔ نفس کا محاسبہ کرنے لگا اور اس خیال میں ایسا محو ہو ا کہ بہت وقت گزر گیا۔ آخر میر ی بیوی نے مجھے آواز دی کہ نماز کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے۔ اگر میری بیوی مجھے یاد نہ دلاتی تو ممکن تھا اسی حالت میں شام ہو جاتی۔

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ438-439)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

چودھویں تربیتی کلاس ناصرات الاحمدیہ بانجل گیمبیا

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 14)