• 19 اپریل, 2024

علم کی اہمیت ، افادیت ، معانی اور اقسام

قرآن کریم ، احادیث نبویہؐ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء سلسلہ کے ارشادات

علم ایک بے پایاں سمندر ہے اور درحقیقت حقائق الاشیاء کا نام ہے۔ انسان اور دیگر مخلوقات میں بنیادی فرق علم کا ہی ہے کہ ان میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کریں۔ جبکہ انسان ذرائع کو استعمال کرکے اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے ۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سکھاتاہے۔علم اور معلومات میں وہی فرق ہے جو information اور knowledge میں ہے۔کوئی بھی مشہور عظیم شخص کب پیدا ہوا، کہاں پیدا ہوا، اس کی قوم نسل رنگ وغیرہ کیا ہے، اس کی ابتدائی زندگی کہاں گزری اس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی۔ یہ سب باتیں اس کے بارے میں معلومات تو فراہم کرسکتی ہیں لیکن اس کی ذات و شخصیت اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں اس کی کامیابی کے بارے میں جاننے کے لئے علم کی مدد درکار ہوگی۔ اسی طرح کسی بھی شے مثلًا راکٹ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کی ایک مخصوص شکل و ہیئت ہوتی ہے اور وہ خلا میں جاتا ہے محض معلومات ہیں۔ راکٹ کن سائنسی اصولوں کے تحت بنایا جاتا ہے اور کیسے آسمان کی طرف پرواز کرتا ہے یہ علم سے ہی جانا جاسکتا ہے۔

عِلْم کے لغوی معنی

عربی زبان میں عَلِمَ یَعْلَمُ کسی چیز کو کما حقُّہٗ جاننا، پہچاننا، حقیقت کا ادراک کرنا، یقین حاصل کرنا، محسوس کرنا اور محکم طور پر معلوم کرنا۔ اس طرح ادراکِ حقیقت کرنے والے کو عَالِمٌ کہتے ہیں جس کی جمع عالِمُوْنَ آتی ہے۔اس مادہ کے بنیادی معنی کسی چیز پر ایسے نشان کے ہیں جس سے وہ شے دیگر اشیاء سے متمیز ہوسکے۔اَلْعَلَمُ وَالْعَلَامَۃُ۔ ایسی نشانی جس سے کوئی شے پہچانی جاسکے۔ ریگستانوں یا دوسرے راستوں میں راہ کی پہچان کے لئے جو چیزیں کھڑی کردی جاتی تھیں انہیں بھی عَلَامَۃٌ یا عَلَمٌ کہتے تھے۔ بڑے اور لمبے پہاڑ کو بھی عَلَمٌ کہتے ہیں۔ اس کی جمع اَعْلَامٌ ہے اور جھنڈے کو بھی اسی لئے عَلَمٌ کہتے ہیں کہ اس سے ایک جماعت دوسری کو پہچانتی ہے۔ اسی سے عَالَمٌ ہے جس کے معنی ہیں مَا یُعْلَمُ بِہِ۔ یعنی وہ شے جس کے ذریعے کسی چیز کا علم حاصل کیا جائے۔ چونکہ خدا کا عِلْم کائنات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس لئے ساری کائنات عَالَمٌ کہلائی جانے لگی جس کی جگہ عَالَمِیْنَ ہے۔
عِلْمٌ کا درجہ معرفت اور شعور سے زیادہ بلند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے لئے عِلْمٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے معرفت یا شعور کا نہیں۔ چنانچہ خدا کو عَالِمْ یا عَلِیْمٌ کہتے ہیں عَارِفٌ (معرفت رکھنے والا) یا شَاعِرٌ (شعور رکھنے والا) نہیں کہہ سکتے۔ وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ۔ ہر صاحبِ علم کے اوپر علیم یعنی خدا کے ہے۔اس صفت کو عَلَّامُ الْغُیُوْبِ کے لفظ سے بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ عِلْمٌ اور مَعْرِفَۃٌ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ معرفت کسی چیز کے آثار و قرائین میں غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن علم کے لئے یہ ضروری نہیں۔ ثانیًا معرفت کا لفظ بیشتر اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کوئی چیز ادراک کے بعد دھیان سے نکل جائے اور پھر دوبارہ اس کا ادراک ہو لیکن علم میں یہ صورت نہیں ہوتی۔
عربی نہایت جامع زبان ہے جس میں ایک ہی کیفیت کے مختلف پہلوؤں کے لئے مختلف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔کوئی ایک لفظ کسی بھی اسم اور فعل کی تمام کیفیات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید میں اس کی جابجا مثالیں ملتی ہیں۔

علم کی اقسام

علم کی دوقسمیں ہیں ۔ علم لدنی جسے علم وہبی بھی کہتے ہیں اور علم کسبی۔ علم لدنی یا وہبی ایسے علم کو کہتے ہیں جو بذریعہ وحی و الہام منجانب اللہ عطا ہو اور اس میں انسان کی کوشش کو ذرہّ برابر بھی دخل نہ ہو۔
فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ اٰتَیۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا۔ (الکہف:66) پس وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک عظیم بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے بڑی رحمت عطا کی تھی اور اُسے خود اپنی جناب سے علم بخشا تھا۔
دوسرا علم وہ ہے جس کی استعداد تمام انسانوں میں رکھ دی گئی ہے۔اسے دورِ جدید کی اصطلاح میں سائنسی علوم کہا جاتا ہے۔ ایسے علوم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ ؕ وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ کَذٰلِکَ۔ (الفاطر:28-29) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی اتارتا ہے۔ پھر ہم طرح طرح کے پھل اس سےپیدا کرتے ہیں جن کے رنگ الگ الگ ہیں اور پہاڑوں میں بعض سفید ٹکڑے ہیں اور بعض سرخ ہیں ان کے رنگ جدا جدا ہیں اور کالے سیاہ رنگوں والے بھی ہیں۔اور اسی طرح لوگوں میں نیز زمین پر چلنے پھرنے والے جانداروں میں اور چوپایوں میں سے ایسے ہیں کہ ہر ایک کے رنگ جدا جدا ہیں۔
علم کسبی کی بھی آگے دو قسمیں ہیں ۔ایک علم تو وہ ہے جس کو فرض کفایہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں میں سے چند لوگ اس کو حاصل کرلیں تو کافی ہے ہر ایک کو یہ علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے علم تفسیر ،علم حدیث،علم فقہ وغیرہ.۔
علم کی دوسری قسم فرض عین ہے۔ جو ہر مسلمان کو حاصل کرنافرض ہے ، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ، اس کے بغیر وہ اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا۔ مثلا اسلام کے پانچ ارکا ن اور اس کی تفصیل جاننا جو ظاہری عبادات ہیں ، اور ایمان اور اس کے چھ ارکان اس کی تفصیل معلوم کرنا ، جو دین اسلام کے اہم عقائد ہیں،روز مرہ کے بعض معاملات جو حلا ل ہیں اور وہ معاملات جو حرام ہیں ،انہیں جاننا۔ یہ علم دین کی کم سے کم مقدار ہے جو ہر مسلمان کو معلوم کرنا فرض ہے۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں۔
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمٌ فِيْ الْقَلْبِ، فَذَاکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَ عِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَتِلْکَ حُجَّۃُ اللہِ عَلَی عِبَادِہِ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ۔ کتاب الزھد)

علم دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو دل میں ہے تو وہ نفع بخش علم ہے اور دوسرا علم جو زبان پر ہوتا ہے اور وہ بندوں کے خلاف اللہ کی حجت ہے۔
کتاب مواعظ امام شافعیؒ میں حضرت امام الشافعیؒ سے منسوب ایک قول ہے۔
’’قَالَ الشافِعِي رَحِمَهُ اللٰهُ اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الدِّيْنِ وَهُوَ الْفِقْهُ وَعِلْمُ الدُّنْيَا وَهُوَ الطِّب‘‘ علم تو دو ہی ہیں۔ دین کا علم اور اجسام کا علم یعنی علوم باطنی و ظاہری یا علوم روحانی و جسمانی۔
علم کی اقسام کے بارے میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ نے علم کو تین درجوں پر منقسم کیا ہے یعنی علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ اور عام کے سمجھنے کے لئے ان تینوں علموں کی یہ مثالیں ہیں کہ اگر مثلاً ایک شخص دور سے کسی جگہ بہت سا دُھواں دیکھے اور دھوئیں سے ذہن منتقل ہو کر آگ کی طرف چلا جائے اور آگ کے وجود کا یقین کرے اور اس خیال سے کہ دھوئیں اور آگ میں ایک تعلق لاینفک اور ملازمت تامہ ہے۔ جہاں دھواں ہوگا ضرور ہے کہ آگ بھی ہو۔ پس اس علم کا نام علم الیقین ہے اور پھر جب آگ کے شعلے دیکھ لے تو اس علم کا نام عین الیقین ہے اور جب اس آگ میں آپ ہی داخل ہو جائے تو اس علم کا نام حق الیقین ہے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کے وجود کا علم الیقین تو اسی دنیا میں ہو سکتا ہے۔ پھر عالم برزخ میں عین الیقین حاصل ہوگا۔ اور عالم حشر اجساد میں وہی علم حق الیقین کے کامل مرتبہ تک پہنچے گا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد 10 صفحہ402)

علامہ ابن عبدالبراندلسی اپنی کتاب’’جامع بیان العلم و فضلہٖ‘‘علم کی اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’علم کی تعریف علماء نے یہ کی ہے کہ علم یقین و ظہور کا نام ہے۔ پس جو بات یقینی ہو، ظاہر ہو، معلوم ہے لیکن جو آدمی یقین نہیں رکھتا بلکہ دوسروں کی دیکھا دیکھی کہنے لگتا ہے وہ عالم نہیں۔علوم کی دو قسمیں ہیں۔
ضروری اور کسبی۔ علم ضروری وہ علم ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ غوروفکر کی ضرورت نہ ہو اور حواس و عقل سے بداہتًا معلوم ہو۔
علم کسبی وہ علم ہے جو نظرواستدلال سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ جلی اور خفی۔ جو علم علوم ضروریہ سے قریب ہے وہ جلی ہے اور جو دور ہے وہ خفی ہے۔ اسی طرح معلومات کی بھی دو قسمیں ہیں۔ شاہد و غائب۔ جو بداہتًا معلوم ہو شاہد ہے اور جو شاہد کی دلالت سے معلوم ہو غائب ہے۔
تمام اصحاب ادیان کے نزدیک علوم تین طرح کے ہیں۔ اعلیٰ، اوسط، ادنیٰ۔ علم اعلیٰ علم دین ہے جو خدا کی اتاری ہوئی کتابوں اور اس کے انبیاء کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس علم میں اپنے دل سے گھڑ کر کوئی بات کہے۔ علم اوسط دنیاوی علوم کو کہتے ہیں جیسے طب اور ہندسہ وغیرہ۔ ان علوم کی معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بات دوسری بات پر قیاس کی جاتی ہے اور ایک نوع کو دوسری نوع کی مدد سے شناخت کرتے ہیں۔ علم ادنیٰ صنعت و حرفت، دستکاری، ورزش وغیرہ کا علم ہے جیسے پیراکی، شہ سواری، تیراندازی، خوش نویسی وغیرہ فنون جو اعضاء و جوارح کی مشق سے حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ (اردو ترجمہ صفحہ 155)
اس زمانہ کے حکم و عدل سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں احیائے دین و علومِ دین کا بیڑا اٹھایا وہاں کالج کی تعلیم کو بھی علوم ضروریہ قرار دیا۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے علوم ضروریّہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستعفی ہوچکتے ہیں۔‘‘

(فتح اسلام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 4)

علم خزانہ ہے

قرآن کے مطابق ہر دور میں منکرین و مخالفین انبیاء علیہم السلام ان پرایک ہی نوعیت کے اعتراضات کرتے اور ان سے ایک ہی قسم کے مطالبات کرتے ہیں اور ایک حدیث کے مطابق آخری زمانہ کے مسلمان یہودونصاریٰ کی مکمل پیروی و مشابہت اختیار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار نے نبی اکرم ﷺ کا یہ کہہ کر انکار کیا کہ نہ تو ان کے پاس خزانہ ہے اور نہ ہی فرشتے ان کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔
فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ نَذِیۡرٌ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ۔ (الھود:13) پس کیا (کسی طرح بھی) تیرے لئے ممکن ہے کہ اس وحی میں سے جو تیری طرف کی جاتی ہے کچھ ترک کر دے، کیونکہ تیرا سینہ اِس سے سخت تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اس کے ساتھ کوئی خزانہ اتارا گیا یا اس کے ہمراہ کوئی فرشتہ آیا۔ تُو محض ایک ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
اسی طرح مسیح و مہدی ؑ کے خزانہ تقسیم کرنے کو مسلمانوں نے ظاہری مال و دولت تقسیم کرنا سمجھا اور جب یہ علامت بدیہی طور پر سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نظر نہ آئی تو مندرجہ بالا آیت میں مذکور منکرین کی طرح یہ کہہ کر ان کا انکار کردیا کہ مرزا صاحب نے نہ تو کوئی مال و دولت تقسیم کیا بلکہ الٹا چندے مانگتے رہے اور نہ ہی دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کسی مینار پر نازل ہوئے۔سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

یہاں مال سے دنیاوی مال مراد نہیں ہے بلکہ روحانی خزائن مراد ہیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
عِلْمٌ لَا یُقَالُ بِہِ کَکِنْزٍ لَا یُنْفَقُ مِنْہُ۔
جس علم کو بیان نہ کیا جائے وہ اس خزانہ کی طرح ہے جس میں سے خرچ نہ کیا جائے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ۔ کتاب الزھد)

وَ قَالَ الْعَوْفِي عَنِ ابْنِ عَبَّاسَ کَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ عَلْمٌ وَ کَذَا قَالَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرُ وَ قَالَ مُجَاِہُد صُحُفٌ فِیْھَا عِلْمٌ۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر الطبری)
تفسیر ابن کثیر اور تفسیر الطبری میں ذکر ہے حضرت ابن عباسؓ، سعید بن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ سورۃ الکہف میں دو یتیموں کے گھر کی دیوار کے نیچے دبے جس خزانہ کا ذکر ہے وہ علم ہے۔ حَدَّثَنَا یُوْنُسُ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ قَالَ الْعِلْمُ خَزَائِنُ وَ تَفْتَحُھَا الْمَسْأَلَۃُ۔ یونس کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے کہا ’’علم خزانہ ہے اور سوال اس کو کھولتا ہے‘‘

(سنن الدارمی۔ المقدمہ)

قرآن میں علم کی اہمیت

اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؐ پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ .عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ۔ (العلق:2-6) پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ اُس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تیرا ربّ سب سے زیادہ معزز ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
نبی اکرمﷺکی بعثت کا ایک مقصد علم سکھانا ہے۔
ھُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡن۔(الجمعہ:3) وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔
علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ نصیحت فرمائی کہ ہر دم علم میں اضافہ کی دعا مانگتے رہیں۔
. (طٰہٰ:115) اور یہ کہا کر کہ اے میرے ربّ! مجھے علم میں بڑھادے۔
علماء کی تعریف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔ (الفاطر:29)یقیناً اللہ کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔
خشیت ایسے رعب کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل میں قائم ہوجائے اور اس کا اثر انسان کے اعضاء و جوارح پر بھی قائم ہوجائے یعنی سر اور آنکھیں جھُک جائیں۔یعنی علم والے متکبر نہیں بلکہ متواضع ہوتے ہیں۔ ان آیات میں ظاہری اشیاء کے حقائق کا علم رکھنے پر اللہ کی عظمت کو علماء کہا گیا ہے جنہیں ایک اور جگہ اولواالالباب کہا گیا ہے یعنی عقل مند لوگ جو زمین و آسمان کی تخلیق اور دن رات کے ادلنے بدلنے پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت اللہ کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں۔

علم حاصل کرنے کے ذرائع

قرآن کریم نے سمع، بصر اور قلب کو حصول علم کے ذرائع قرار دیا ہے۔ دوسرے مقامات پر قَلْبٌ کی جگہ فُؤاَدٔ بھی کہا گیاہے ۔ اس میں علم بذریعہ حواس (Perceptual Knowledge) اور بذریعہ تصورات (Conceptual) دونوں آجاتے ہیں ۔
وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ھُمۡ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ۔ (الاعراف:180) اور یقیناً ہم نے جہنم کے لئے جن و اِنس میں سے ایک بڑی تعداد کو پیدا کیا۔ ان کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ایسے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ لوگ تو چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ یہ (ان سے بھی) زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی ہیں جو غافل لوگ ہیں۔اس آیت میں قوت سماعت، قوت بصارت، اور قوت فہم کو بالترتیب حصولِ علم کے ذرائع قرار دیا گیا ہے۔ یہ نہایت منطقی ترتیب ہے کیونکہ سب سے پہلے انسان کسی نئی بات کے متعلق سنتا ہے۔ پھر اسے دیکھتا ہے اور پھر سمجھتا ہے۔
سفر کو بھی ذریعہ علم قرار دیا گیا ہے
اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ۔(الحج:47) پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تا انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے۔ پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ۔(الرحمٰن:2تا5)
بے انتہا رحم کرنے والا اور بن مانگے دینے والا۔ اُس نے قرآن کی تعلیم دی۔ انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا۔
الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ۔ (العلق:5تا6)
جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
ان آیات کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس طرح سکھایا جس طرح ایک استاد بچے کو تعلیم دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کے اندر ان باتوں کی صلاحیت رکھ دی۔ اسے ان کی استعداد عطا کردی جس سے انسان اس علم کو خود حاصل کرتا ہے۔

انصررضا ۔کینیڈا

قسط: 1

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2019