• 19 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ مورخہ17 جنوری 2020ءبمقام مسجد بیت الفتوح لندن کا خلاصہ

آنحضرتؐ کے عشق ومحبت میں فنا اور اطاعت کے جذبہ سے لبریز بدری صحابی حضرت سعد بن عُبادہؓ کی سیرت مبارکہ کا آخری حصہ

اس وقت جب سعدؓ نے بیعت سے تخلّف یا انقباض کیا تھا تو حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ اُقْتُلُوْاسَعْد یعنی سعد کو قتل کردو،مگر نہ توانہوں نے سعد کو قتل کیا اورنہ کسی اور صحابی نے۔بلکہ وہ حضرت عمرؓ کی خلافت تک زندہ رہے

حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی روشنی میں خلافت کے مقام کی اہمیت،خلیفۂ وقت کی بیعت اور اس کی اطاعت کا خوبصورت اور پُر معارف بیان

میں حضرت مصلح موعودؓ کے خلافت کی اہمیت والے بیان کو بڑا ضروری سمجھتا ہوں،وقت کی بڑی ضرورت ہے، خلافت کی بیعت کیوں ضروری ہے، خلافت کا مقام کیا ہےاورسعدؓ نے جو کچھ کیا اس کی کیا حیثیت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں:تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتےجو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا موجب انسان کو نہیں بنا سکتی

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ مورخہ17 جنوری 2020ءبمقام مسجد بیت الفتوح لندن کا خلاصہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 17 جنوری 2020ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ حضور انور نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا: حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر چل رہا ہے ۔آج میں اس کا آخری حصہ بیان کروں گا۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعدانصاراپنے میں سے جن کو خلیفہ منتخب کرنا چاہتے تھے،ان میں ان کا نام بھی خاص طور پر لیا جاتا ہے۔حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ انصار کا ان کو خلیفہ منتخب کرنے پر زور تھااور یہ قوم کے سردار بھی تھےاور جب حضرت ابو بکرؓ خلیفہ منتخب کئے گئے تو یہ اس وقت کچھ متزلزل بھی ہو گئے تھے، انصار کے کہنے پر۔ اس حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی ہےاور خلافت کے مقام کی اہمیت بھی اس حوالے سے بیان کی ہے۔ اس لئے مَیں اس بیان کو بڑا ضروری سمجھتا ہوں۔وقت کی بڑی ضرورت ہے۔خلافت کی بیعت کیوں ضروری ہے،خلافت کا مقام کیا ہے اور سعدؓ نے جو کچھ کیا اس کی کیا حیثیت ہے۔

آپؓ اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: قتل کے معانی قطع تعلق کے بھی ہوتے ہیں۔رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد بعض صحابہؓ میں خلافت کے بارہ میں اختلاف پیدا ہوا۔ انصار کا خیال تھا کہ خلافت ہمارا حق ہے۔کم سے کم اگر ایک مہاجرین میں سے خلیفہ ہو تو ایک انصار میں سے ہویعنی دو دو ہوں۔ بنو ہاشم نے خیال کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے۔رسول کریم ﷺ ہمارے خاندان میں سے تھے۔مہاجرین گو یہ چاہتے تھےکہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہئے۔کیونکہ عرب لوگ سوائے قریش کےکسی کی بات ماننے والے نہیں تھےمگر وہ کسی خاص شخص کو پیش نہ کرتے تھےبلکہ تعیّن کو انتخاب پر چھوڑنا چاہتے تھے۔مسلمان جسے منتخب کر لیں وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ سمجھا جائے گا ۔ جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیاتو انصار اور بنو ہاشم سب ان سے متفق ہو گئے۔ مگر ایک صحابی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔ یہ وہ انصاری صحابی تھےجنہیں انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ اس لئے شائد انہوں نے اس ات کو اپنی ہتک سمجھا یا یہ بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آئی ۔ جو بھی وجہ تھی انہوں نے کہہ دیا کہ میں ابو بکرؓ کی بیعت کے لئے تیار نہیں ہوں۔

حضرت عمر ؓ کا اس موقع کے متعلق ایک قول بعض تاریخوں میں آتا ہےکہ آپؓ نے فرمایا: اُقْتُلُوْا سَعْد کہ سعد کو قتل کر دولیکن نہ انہوں نے خود ان کو قتل کیا، نہ کسی اور نے۔ بعض ماہرین زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی مرادصرف یہ تھی کہ سعد سے قطع تعلق کر لو۔ بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہےکہ حضرت سعدؓ باقاعدہ مسجد میں آتےاور الگ نما ز پڑھ کر چلےجاتے تھےاور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا تھا۔ پس قتل کی تعبیر قطع تعلق اور قوم سے جُدا ہونا بھی ہوتی ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: جب مہاجرین اور خصوصاً ابوبکرؓ نے صحابہؓ کو بتایاکہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملّت اسلامیہ کے لئے مفید نہیں ہوسکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہوں گےتو پھر انصار اور مہاجر اس بات پر متفق ہوئےکہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور آخر حضرت ابو بکر ؓ کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اس وقت جب سعدؓ نے بیعت سے تخلّف یا انقباض کیا تھا تو حضرت عمر ؓ نے کہا تھا کہ اُقْتُلُوْا سَعْد یعنی سعد کو قتل کردومگر نہ تو انہوں نے سعد کو قتل کیا اور نہ کسی اور صحابی نےبلکہ وہ حضرت عمر ؓ کی خلافت تک زندہ رہے اور حضرت عمرؓ کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے۔ جس سے آئمہ سلف نے استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل کے نہیں ہیں بلکہ قطع تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتےہیں۔ اردو میں قتل کے معانی بے شک جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائےتو وہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ایک معانی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلا ل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھاوhرنہ اگر قتل سے مراد ظاہری قتل کر دینا تھا تو حضرت عمرؓ نے جو بہت جوشیلے تھے، انہیں خود کیو ں نہ قتل کردیا۔ یا صحابہ ؓ میں سےکسی نے کیوں نہ انہیں قتل کیا۔مگر جب حضرت عمر ؓ نے نہ صرف یہ کہ انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی انہیں قتل نہ کیا اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہےاور کسی صحابی نے ان پر ہاتھ تک نہ اٹھایا تو بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قتل سے مراد قطع تعلق ہی تھا۔ ظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھااور گو وہ صحابی عام صحابہ ؓسے الگ رہےلیکن کسی نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: میں نے مثال دی تھی کہ رؤیا میں بھی اگر کسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے ۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دوست نے کہا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں: اس شخص کی بات کے دو معانی ہو سکتے ہیں کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔ حضور انور نے بعض کتابوں کے حوالے پیش کر کے اس شخص کی بات کی تردید پیش فرمائی۔

پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جدائی کسی عزت کا موجب انسان کو نہیں بنا سکتی۔آپؓ فرماتے ہیں: میں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے سنا ، آپؓ فرماتے تھےکہ تم کو معلوم ہے کہ پہلے خلیفہ کا دشمن کون تھا ، پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن پڑھو ، تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا ۔ اس کے بعد خلیفہ اول ؓنے فرمایا:میں بھی خلیفہ ہوں اور جو میرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ مامور نہیں ہوتا گو یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ مامور نہ ہو۔ حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھےاور اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ مامور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھےاور پھر تمام انبیاء مامور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے مقرر کردہ خلیفہ بھی ۔ جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مامور نہیں ہوتے۔ گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہوتی ہے ویسے ہی خلفاء کی بھی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں ان دونوں اطاعتوں میں ایک امتیاز اور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحیٔ الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحیٔ الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی ٔالٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے یعنی جو وحی نبی پر اتری ہے اس کی تنفیذ کرنے والا ہے اور جو نظام نبی نے قائم کیا ہے اس کو چلانے کا مرکز ہے خلیفہ۔ اس لئے واقف اور اہل علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمت صغریٰ۔

آپؓ فرماتے ہیں: خلیفہ اولؓ سے میں نے سنا، آپؓ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے۔ فرمایا: انبیاء کے متعلق جہاں الٰہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لئے بھی کہ وہ امت کی تربیت کے لئے ضروری ہوتی ہے وہاں خلفاء کے متعلق انبیاء کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں لیکن خلفاء کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ان کے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے جو نظام سلسلہ کی ترقی کے لئے ان سے سرزد ہوں گے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اور اسلام کی فتح کو اس کی شکست میں بدل دینے والی ہو۔ یعنی خلیفۂ وقت جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لئے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہو گی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا ان کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا ۔گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفاء خود قائم کیا کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خلفاء غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو انہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اس غلطی کے بدنتائج کو بدل ڈالے گا یعنی اس کے نتائج بد نہیں نکلیں گے۔ پھر فرمایا :کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کے لئے مضر ہوں اور جس کی وجہ سے بظاہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزّل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوں سے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت بجائے تنزّل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی۔پس جہاں ایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اعمال کا مرکز ہوں اور نظام سلسلہ کا مرکز بھی وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن انتظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں مگر ہرحال میں ہر شخص کے لئے ان کی اطاعت فرض ہو گی۔

حضور انور نے فرمایا: مشورے کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ایکسپرٹ اور ماہر فن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک مقدمے میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپ نے امور نبوت میں اس سے مشورہ لیا۔ ایک ایکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ پس فرض کرو کہ سعد بن عبادةؓ سے کسی دنیاوی امر میں جس میں وہ ماہر فن ہوں مشورہ لینا ثابت ہو تو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے۔ مگر ان سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتا ہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پر روایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہؓ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں۔ اس لئے ان کی وفات پر صحابہؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا ۔کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتا ہے ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنوں نے مار دیا بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اٹھا لیا کہ وہ شقاق کا موجب نہ ہوں یعنی بہرحال بدری صحابہؓ میں سے تھے تو کسی قسم کے نفاق یا کوئی اور مخالفت یا اور کوئی ایسی بات کا موجب نہ ہوں جس سے پھر ان کا وہ مقام گرتا ہو ۔لیکن بہرحال وہ علیحدہ ہو گئے۔یہ بیان کرنے کے بعد آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہؓ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہئے تھی جو کبھی انہوں نے حاصل کیا تھا اور یہ کہ صحابہؓ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں چاہتا۔ پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے، میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھی سمجھتا ہو۔

حضرت سعد بن عبادةؓ کی وفات حوران ملک شام میں حضرت عمر ؓکے دور خلافت میں حضرت عمر ؓکے خلیفہ منتخب ہونے کے اڑھائی سال کے بعد ہوئی تھی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی کے مطابق ان کی وفات شام کے شہر بصریٰ میں ہوئی تھی ۔ان کی وفات کے سال میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق 14ہجری میں اور بعض کے مطابق 15ہجری میں اور بعض کے مطابق 16ہجری میں ہوئی۔ حضرت سعد ؓ کی قبر دمشق کے قریب نشیبی جانب واقع ایک گاؤں میں ہوئی۔

حضور انور نے خطبہ کے آخر پر مکرم سید محمد سرور شاہ جو صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر تھے ، اسی طرح مکرمہ شوکت گوہر جو مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی ربوہ کی اہلیہ تھیں اور مولانا عبدالمالک خان کی بیٹی تھیں، کی وفات پر ان کا ذکر خیر کیا اوران دونوں کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا۔نیز نماز جمعہ کے بعد ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ گوئٹے مالا کا اٹھائیسواں جلسہ سالانہ

اگلا پڑھیں

سوتے وقت دعائیں پڑھیں