شکستگی کے عذاب میں بھی، وہ ایک کوہِ گراں تھا شاید
مصیبتوں کی عجیب رت تھی، مگر وہ عہدِ رواں تھا شاید
رکاوٹیں تھیں ہر ایک جانب، کٹھن بھی تھا راستہ وہ لیکن
وہ شخص ان سب مصیبتوں میں بھی ایک سیل رواں تھا شاید
بتاؤں کیا کیا، دکھاؤں کیا کیا، سناؤں اک داستانِ ماضی
جو ہے تو ماضی مگر ہمارے لیے وہ روشن نشاں تھا شاید
بقول اس کے وہ دست و بازو جو اک اشارے پہ جان دیتا
یہ باتیں اب تو ہوئیں پرانی، مگر یہ اس کا گماں تھا شاید
(عارفین احمد اکبر)