• 19 اپریل, 2024

سورۃ الدُّخان، الجاثیہ، الاَحقاف، محمدؐ اور الفتح کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ الدُّخان، الجاثیہ، الاَحقاف، محمدؐ اور الفتح کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الدُّخان

یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ساٹھ آیات ہیں۔

سورہ الدُّ خان کا ابتدائی مضمون قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورت ’’القدر‘‘ کے مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ان ابتدائی آیاتِ کریمہ سے ظاہر ہے کہ ہم نے اس کتاب کو ایسی اندھیری رات میں اتارا ہے جو بہت مبارک تھی کیونکہ اس اندھیرے کے بعد ہمیشہ کے اُجالے پھوٹنے والے تھے۔ اس رات ہر حکمت والی بات کا فیصلہ کیا جائے گا۔

گزشتہ سورت کے آخرپر یہ مضمون بیان فرمایا گیا تھا کہ مخالفوں کو لہوولعب میں بھٹکنے دے اور ان سے اعراض کر۔ وہ وقت قریب ہے جب واضح طور پر حق و باطل میں تفریق کر دی جائے گی۔ چنانچہ اس سورت کے آغاز کی آیتوں میں اس بات کا ذکر فرما دیا گیا ہے۔

اس سورت کا نام ’’دُخان‘‘ رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جن اندھیروں کا وہ شکار ہیں ان کے بعد تو کوئی رحمت کی صبح نہیں پھوٹے گی بلکہ وہ اندھیرے ان کے لئے دخان کی طرح ان کا عذاب بڑھانے کا موجب بنیں گے۔ اس جگہ دخان سے ایٹمی دھوئیں کی طرف بھی اشارہ مراد ہو سکتا ہے جس کے سائے کے نیچے کوئی چیز بھی محفوظ نہیں رہ سکتی بلکہ طرح طرح کی ہلاکتوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جدید سائنسدانوں کی طرف سے یہ تنبیہ ہے کہ ایٹمی دھوئیں کے سائے کے نیچے زندگی کی ہر قسم مٹ جائے گی یہاں تک کہ زمین کے اندر دفن جراثیم بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ایسا ہوگا تب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں گے کہ اے اللہ! اس نہایت دردناک عذاب کو ہم سے ٹال دے۔ یہاں یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ اس قسم کا عذاب وقفہ وقفہ سے آئے گا۔ یعنی ایک عالمی جنگ کی ہلاکت خیزیوں کے بعد کچھ عرصہ مہلت دی جائے گی، اس کے بعد پھر اگلی عالمی جنگ نئی ہلاکتیں لے کر آئے گی۔ سورۃ الدّخان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا تھا کہ اس کی پیشگویوں کے ظہور کا زمانہ دَجَّال کے ظہور سے تعلق رکھتا ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ886)

سورۃ الجاثیہ

یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی اڑتیس آیات ہیں۔

اس سورت میں آیت نمبر114ایک ایسی آیت ہے جو زمین و آسمان میں مخفی اسرار سے اس رنگ میں پردہ اٹھا رہی ہے کہ پہلی کسی کتاب میں اس سے ملتی جلتی آیت نازل نہیں ہوئی۔ فرمایا کہ تمام تر جو زمین وآسمان میں ہے وہ انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے۔ پس وہ لوگ جو تفکّر کرتے ہیں یہ معلوم کر لیں گے کہ تما م اجرام سماوی کے اثرات انسان پر مترتب ہو رہے ہیں۔ گویا کہ انسان ایک مائیکرو یونیورس (Micro Universe) ہے اور اس وسیع کائنات کا کا خلاصہ ہے۔

پھر اس ذکر کے بعد کہ قیامت ضرور قائم ہونے والی ہے، فرمایا کہ قیامت کے ہیبت ناک نشان کو دیکھ کر اور اپنے بد انجام کو اپنی آنکھوں کے سامنے پاتے ہوئے وہ گھٹنوں کے بل زمین پر جا پڑیں گے یعنی اللہ تعالیٰ کے جلال کے سامنے سجدہ ریز ہو کر یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اس عذابِ عظیم سے بچائے جا سکتے۔ پھر فرمایا کہ ہر اُمّت کا فیصلہ اس کی اپنی کتاب یعنی شریعت کے مطابق کیا جائے گا۔

اس سورت کی آخری آیت انسان کی نظر کو پھر اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ ساری کائنات زبانِ حال سے اللہ کی حمد کر رہی ہے اور یہ کہ اسی کی تمام بڑائی ہے اور وہی کامل غلبہ والا اور صاحبِ حکمت ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ893)

سورۃ الاَحقاف

یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی چھتیس آیات ہیں۔

اس سورت کے آغاز ہی میں اُس حقیقت کا دوبارہ اظہار کیا گیا ہے جو گزشتہ سورت کی آخری آیات میں بیان فرمائی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب اللہ ہی کی حمد کر رہا ہے۔ اس سورت کے آغاز میں فرمایا گیا کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے وہ اسی حق پر قائم ہے جس کا اس سے پہلے ذکر فرما یا گیا ہے۔ گویا ساری کائنات حق تعالیٰ کے سوا کسی اور کی گواہی نہیں دے رہی۔ اس کے معاً بعد مشرکین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تمام زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے اللہ ہی کی تخلیق ہے۔ کوئی اپنے فرضی خداؤں کی تخلیق بھی تو دکھاؤ۔ دراصل اس میں مضمر دلیل یہ ہے کہ ہر مخلوق پر ایک ہی خالق کی چھاپ ہے۔

اگرچہ اس سورت میں سابقہ قوم عاد کی ہلاکت کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہیں احقاف کے ذریعہ ڈرایا گیا مگر قرآن کریم کا یہ اسلوب نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ گزشتہ قوموں کے ذکر کے ساتھ اس سے ملتے جلتے آئندہ آنے والے حالات کی طرف بھی اشارہ کر دیا جاتا ہے۔

اس سورت میں ایک دفعہ پھر دُخان والے مضمون کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جب بھی ان پر بادل سایہ کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ آسمان سے ان پر نعمتیں برسیں گی۔ لیکن جب وہ بادل ان تک پہنچے گا تو اس وقت ان کو معلوم ہو گا کہ اس کے ساتھ ایسی ریڈیائی ہوائیں آرہی ہیں جو ہر چیز کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ پس وہ اپنے مساکن سے باہر نکلنے کی بھی توفیق نہیں پائیں گے اور ان کے ویران مساکن کے سوا ان کے وجود پر کوئی گواہی نہیں ملے گی۔ ناگاساکی اور ہیروشیما دونوں اسی کا مصداق ہیں۔

آیتِ کریمہ نمبر34میں یہ مضمون بیان فرمایا جا رہا ہے کہ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے اللہ تھکتا نہیں۔ اُس زمانہ کا انسان کیسے یہ دیکھ سکتا تھا لیکن اس زمانہ کا انسان جو زمین و آسمان کے راز معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ جانتا ہے کہ زمین و آسمان مسلسل عدم میں ڈوبتے اور پھر ایک نئی تخلیق میں ابھر آتے ہیں۔ اور یہ بار بار زمین و آسمان کو کا لعدم کر کے وجود کی سطح پر ابھارنا اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فعل ہے جو بتا رہا ہے کہ وہ کبھی بھی تخلیق سے تھکا نہیں۔ پس انسان کو کیسے یہ گمان ہوا کہ جب وہ فنا ہو جائے گا تو اس کو ازسرِ نو زندہ کرنے کی اللہ تعالیٰ کو استطاعت نہیں ہو گی

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ901)

سورۃ محمدؐ

یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی انتالیس آیات ہیں۔

اس سورت میں جو اگرچہ آیات کی گنتی کے لحاظ سے بہت چھوٹی ہے عملاً قرآن کی گزشتہ تمام سورتوں کا خلاصہ بیان فرما دیا گیا ہے جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے مظہر تھے۔

اس کی آیت ِکریمہ نمبر 19 میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جس عظیم روحانی قیامت کے لئے مبعوث فرمائے گئے اس کے قرب کی تمام علا مات ظاہر ہو چکی ہیں۔ پس اُس وقت ان کا نصیحت پکڑنا کس کام آئے گا جب وہ برپا ہو جائے گی۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ911)

سورۃ الفتح

یہ سورت صلح حدیبیہ سے واپسی پر نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی تیس آیات ہیں۔

سورۃ محمدؐ کے بعد سورۃ الفتح آتی ہے جس میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی بلند مقام بیان فرمایا گیا ہے جو آیت نمبر11میں مذکور ہے کہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اتنا بلند تھا کہ کامل طور پر آپؐ اللہ تعالیٰ کے ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے آپؐ کا آنا گویا اللہ تعالیٰ کا آنا تھا۔ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرنا تھا جیسا کہ فرمایا اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ۔ یعنی یقیناً وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے۔

آیت نمبر19میں اللہ تعالیٰ کی بیعت والے مضمون کا پھر اعادہ فرمایا گیا ہے جبکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے مومن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر عہدِ بیعت کا اعادہ کر رہے تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ وعدہ فرما دیا گیا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے دل میں حج نہ کرنے کی وجہ سے جو بھی خلش تھی وہ اس بیعت کے بعد کلیتًہ دور فرما دی گئی اور کامل سکینت عطا ہوئی اور جس بات کو بظاہر شکست سمجھا جاتا تھا یعنی مکّہ میں داخل نہ ہو سکنا، اس نے آئندہ تمام فتوحات کی بنیاد ڈال دی جن میں قریب کی فتح بھی شامل تھی اور بعد میں آنے والی فتوحات بھی۔

آخر پر مومنوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رؤیا دکھائی گئی تھی وہ یقیناً حق کے ساتھ پوری ہوگی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اس پر گواہ ٹھہریں گے کہ وہ مناسک حج ادا کرتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوں گے اور مکّہ پر یہ غلبہ تمام بنی نوع انسان پر غلبہ کا پیش خیمہ بنے گا۔

سورۃ محمدؐ کے بعد اس سورت میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بیان فرمایا گیا اور قطیعیّت کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کا ذکر فرمایا دیا گیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آپؐ کے نام محمدؐ کے ساتھ ظاہر کی گئی تھی اور ان تمام صفات کا ذکر فرما یا جو اس عظیم الشان جلالی نبی اور اس کے صحابہ کے مقدر میں تھیں۔ پھر انجیل کی بھی ایک پیشگوئی کا ذکر فرمایا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیشگوئی صرف عہد نامہ قدیم میں ہی نہیں بلکہ عہد نامہ جدید میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے کی گئی تھی جو آپؐ کی جمالی شان کی مظہر ہے اور ایک ایسی کھیتی سے اس کی مثال دی گئی ہے جسے کوئی متکبر اپنے بد ارادوں کے باوجود روندنے میں کامیاب نہیں ہو گا اور ایک نہیں بلکہ کئی زُرّاع ایسے ہوں گے جو وہ کھیتی لگائیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ920)

(عائشہ چودھری۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اطاعت امام میں معروف کی شرط کا مطلب اور حکمت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ