• 26 اپریل, 2024

اردو کے چند اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل بن گیا

اردو شاعری میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جن کا کوئی ایک مصرع بہت مشہور ہوگیا لیکن اکثر لوگ ان اشعار کے دوسرے مصرعےسے ناواقف ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی چند مشہور اشعار درج کئے جارہے ہیں جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوگیا۔

خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

(مرزا داغ دہلوی)

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کےخوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

(مرزا غالب)

مریض عشق پہ رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے

(میر تقی میر)

آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

(مرزا جواں بخت جہاں دار)

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

(چراغ حسن حسرت)

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کُشتوں کا خون کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

(امیر مینائی)

پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

(شیخ ابراہیم ذوق)

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

(الطاف حسین حالی)

جذبۂ عشق سلامت ہے تو ان شااللہ
کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے

(ان شااللہ خاں ان شا)

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

(مصطفٰی خاں شیفتہ)

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

(شوق بہرائچی)

یہ راز کوئی اب راز نہیں، سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا

(نوح ناروی)

دیوار چمن پر زاغ وزغن، مصروف ہیں نوحہ خوانی میں
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا

(کمال سالار پوری)

ہر نا اہلی معیار بنی، ہر جوہر قابل روتا ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہو گا

(نامعلوم)

داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

(محمد دین تاثیر)

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

(مصطفٰی زیدی)

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو

(میاں داد خاں سیاہ)

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم وغصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

(حیدر علی آتش)

یہ باطن اندھیرے بظاہر اجالے
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

(اشرف رفیع)

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

(پروین شاکر)

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

(جرأت قلندر بخش)

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

(مظفر رزمی)

سرخ رو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

(سید غلام محمد مست کلکتوی)

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

(میر حسن)

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

(مہتاب رائے تاباں)

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں

(شعیب بن عزیز)

وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

(شاد لکھنوی)

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

(قمر بدیوالی)

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتاہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

(مرزا رضا برق لکھنوی)

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

(نواب علی اصغر)

(ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اطاعت امام میں معروف کی شرط کا مطلب اور حکمت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ