• 19 اپریل, 2024

نشہ آور اشیاء کا کبھی کبھار استعمال بالآخر نشے کا عادی بنا دیتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج کل یہاں یورپین ملکوں میں بھی علاوہ ایسے نشوں کے جو زیادہ خطر ناک ہیں، شیشے کے نام سے بھی ریسٹورانوں میں، خاص طور پر مسلمان ریسٹورانوں میں نشہ ملتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں حقّے کے نام سے نشہ کیا جاتاہے۔ وہ خاص قسم کا حقّہ ہے۔ اور مجھے پتا لگا ہے کہ یہاں ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی حرج نہیں ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ کبھی کبھی کا جو استعمال ہے ایک وقت آئے گا جب آپ بڑے نشوں میں ملوث ہو جائیں گے اور پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

پس ابھی سے اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا ہو گا اور اس برائی سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ اور اس کے لئے اپنے ایمان کو دیکھیں۔ ایمان کی گرمی ہی قوتِ ارادی پیدا کر سکتی ہے جو فوری طور پر بڑے فیصلے کرواتی ہے جیسا کہ صحابہ کے نمونے میں ہم نے دیکھا، ورنہ قانون تو ان میں روکیں نہیں ڈال سکتے۔ جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قانون بھی ہے، ملتی بھی نہیں لیکن پھر بھی لوگ پیتے ہیں اور انتظام بھی کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کئی طرح کے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ایک زمانے میں کھلے عام شراب کی ممانعت کی کوشش ہوئی تو اس کے لئے لوگوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور سپرٹ (spirit) پینا شروع کر دیا اور سپرٹ (spririt) پینے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں تو اس کی وجہ سے لوگ مرنے بھی لگے۔ حضرت مصلح موعودنے لکھا ہے کیونکہ ایمان نہیں تھا اس لئے دنیاوی قانون کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ نشے کے ہاتھوں ایسے مجبور ہوئے کہ سپرٹ پی کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے تھے۔ حکومت نے پھر قانون بنایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں، بعض اسباب ایسے ہوں جو اس کو (justify) کرتے ہوں تو پھر شراب ملے گی اور ڈاکٹروں کا اجازت نامہ بھی بعض وجوہات کی وجہ سے تھا۔ تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کے لئے غلط سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دئیے۔ تو ایسے ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چلتی تھی اُن کی اس طرح آمدنی شروع ہو گئی کہ شراب پینے کے سرٹیفکیٹ دے دئیے۔ آخر ایک وقت ایسا آیا کہ قانون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور آہستہ آہستہ اب ہر جگہ عمر کی پابندی کے ساتھ شراب ملتی ہے۔ کہیں یہ عمر اکیس سال ہے، کہیں اٹھارہ سال ہے اور کہیں کہتے ہیں کہ اگر بڑا ساتھ ہو تو پندرہ سولہ سال، سترہ سال کے بچے بھی بعض خاص قسم کی شرابیں پی سکتے ہیں۔ پس اپنے قانون کی بے بسی پر پردہ ڈالنے کے یہ بہانے ہیں۔ جوں جوں ترقی یافتہ ہو رہے ہیں برائیوں کی اجازت کے قانون پاس ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ برائیوں کو روک نہیں سکتے تو قانون میں نرمی کر دیتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے احکامات میں جو برائی ہے وہ ہمیشہ کے لئے برائی ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری مرضی کا پابندنہیں بلکہ ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہونا ہو گا اور یہ پابندی اُس وقت پیدا ہو گی جب ہماری ایمانی حالت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔ آجکل کی جو ترقی یافتہ دنیا ہے وہ جس قوم کو اجڈ اور جاہل کہتی ہے، جسے اَن پڑھ سمجھتی ہے وہ لوگ جو تھے انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے نشے پر غالب کر لیا۔ اپنے اعمال کی اصلاح کی اور پھر ایک دنیا میں اپنے اعمال کی برتری کا جھنڈا گاڑ کر دنیا کو اپنے پیچھے چلایا۔ پس یہ واضح ہونا چاہئے کہ دین کے معاملے میں قوتِ ارادی اپنے ایمان کی مضبوطی ہے جو نیک اعمال بجا لانے پر قائم رہ سکتی ہے اور برائیوں سے چھڑواتی ہے۔

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تقریبِ پُر مسرت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2023