• 25 اپریل, 2024

حضرت ابو الخیر محمد عبدالحق احمدیؓ آف ترچنا پلی

حضرت ابو الخیر محمد عبدالحق احمدیؓ اصل میں انڈیا کے صوبہ تامل ناڈو کے شہر ترچنا پلی (موجودہ نام Tiruchirappalli) کے رہنے والے تھے۔ جو انڈیا کے مشہور شہر بنگلور سے 342 کلو میٹر دور واقع ہے۔ آپؓ حکیم و طبیب تھے اور بنگلور میں اپنا مطب کیا کرتے تھے۔ آپؓ ایک علمی شخصیت تھےاور شعر و سخن کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ آپؓ کے حالات محفوظ نہیں ہیں، مختصر سا ذکر آپؓ کے ایک شاگرد حضرت عبدالقادر شرق ولد مکرم محمد مشتاق آف بنگلور (بیعت 1907ء ۔ وفات یکم دسمبر 1969ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے کہ احمدیت سے تعارف اور بیعت کا محرک حضرت ابو الخیر محمدعبدالحقؓ ہی تھے، وہ بیان کرتے ہیں۔

مجھے شعر و شاعری کا شوق ہوا جبکہ میری شادی کو دو تین سال ہوئے تھے، میرا عنفوانِ شباب کا زمانہ تھا، ….. ہوتے ہوتے یہ خیال آیا کہ بجائے اس بے قاعدہ و بے تُکی شاعری کے اُصول و قواعد سے آگاہی حاصل کی جائے، سبھی نے اتفاق کیا اور ایک اچھے ماہر کی تلاش شروع ہوئی، خوبی قسمت کہ ہماری تلاش میں کوئی اور ماہر فن ہاتھ نہ لگا سوائے ایک شخص کے جو قادیانی کہلاتا تھا، ہمیں مطلق خبر نہ تھی کہ قادیانی کیا ہوتے ہیں لیکن بہر حال ہم اپنی شاعری کا علم حاصل کرنے کے لئے اُن کے پاس آنے جانے لگے۔ یہ قادیانی صاحب کا اسم گرامی ابو الخیر محمد عبد الحق تھا جو نہ صرف بلند پایہ کے شاعر تھے بلکہ ایک جید عالم، خوشنویس اور تجربہ کار حکیم حاذق بھی تھے، علم تصوف میں بھی ان کو کافی دخل تھا جب ہم اُن کی خدمت میں پہنچے اور عرض حال کیا تو فرمانے لگے کہ مجھے جو کچھ آتا ہے تمہیں سکھا دو ں گا اور سچ مچ اُنھوں نے اپنا وعدہ پورا کیا نہ صرف اُنہوں نے شاعری کے اسباق دیئے بلکہ احمدیت کی حقیقت اور اسلام کا مغز بھی ہمیں سمجھایا ۔ہم علمِ عروض کی کتابیں لے کر باقاعدہ اُن کی شاگردی میں داخل ہوگئے اور چند روز بہت ہی پابندی کے ساتھ درس تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔میں ذرہ مستقل مزاجی سے لگا رہا اور چند روز فاعلات فاعلات فاعلات کی رٹ لگا کر اُکتا گیا، اب میری طبیعت بھی شاعری سے ہٹ کر خوشنویسی کی طرف آ گئی، میرے استاد مشفق کا ایک مطب تھا اس مطب میں ایک طرف بیٹھ کر میں خوشنویسی کی مشق کرنے لگا۔

حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس اُن دنوں اخبار الحکم آیا کرتا تھا، میرا یہ حال تھا کہ اُس اخبار کو پڑھنا تو کجا اُسے ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتا تھا، مطب کا حال یہ تھا کہ وہاں جسمانی بیمار تو کم آیا کرتے تھے لیکن آنے والوں میں اکثریت ان کی ہوتی تھی کہ کوئی تو دہریہ ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت مانگتا ہے، کوئی مولوی آتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات پر گفتگو کرتا ہے، کوئی آریہ آتا ہے تو وہ اپنے اصول کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے اور کوئی عیسائی آتا تو وہ الوہیت مسیح کا مسئلہ چھیڑتا، غرض قسما قسم کے لوگ آتے اور اپنے اپنے مذاق کی باتیں کرتے۔ ہمارے استاد محترم ہیں کہ ہر حیثیت سے اسلام کی برتری اور اُس کے اصول کی فوقیت ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ بھائی جان یہ مطب ہے کوئی عارضہ ہے، کوئی مرض ہے تو کہو، تا میں علاج کروں، ہاں جو لوگ آتے وہ بے شک روحانی مریض ہوتے اور ہمارے مولوی صاحب ضرور اُن کا علاج کرتے اور ایسے ایسے عمدہ نسخہ جات تجویز کرتے کہ سننے والے حیران رہ جاتے، طرز استدلال اس قدر دلچسپ و دلکش ہوتا کہ اُن کی باتیں سن کر مخالف قائل ضرور ہو جاتا۔

اس طرح کے بحث و مباحثے تقریبًا روز ہی ہوا کرتے تھے اور مَیں ایک طرف بیٹھ کر خاموشی سے سنا کرتا تھا، بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بہت سے لوگ ایک زبان ہوکر ایک ایسا اعتراض کرتے تھے جو اُن کے علم میں بہت ہی مضبوط اور ناقابلِ جواب ہوتا تھا، مولوی صاحب نہایت سنجیدگی سے سنتے اور جواب دینا شروع کرتے تو درمیان میں بہت سے لوگ ایک دم جرح قدح کی بوچھاڑ بھی کر دیتے تھے لیکن ہمارے مولوی صاحب کو ذرا بھر گھبراہٹ نہ ہوتی، وہ اپنے دلائل پہلے تو عقلی اورپھر اس کی تائید میں نقلی دلائل بھی پیش کرتے، کبھی قرآنی آیات تلاوت فرماتے اور کبھی احادیث سے استدلال کرتے اور کبھی انجیل اور کتاب مقدس کی آیات سے استنباط فرماتے۔ بہر حال ایسا معلوم ہوتا کہ اُنہیں غیر مذاہب کے معتقدات و مسلمات پر بھی ید طولیٰ حاصل ہے اور وہ اپنے مخاطب کو ایسے طور پر گھیر لیتے تھے کہ وہ آخر لا جواب ہو جاتا۔ گوش زدہ اثرے دارد۔ باوجود میرے اس ارادہ کے کہ میں اُن کا اثر مذہبی رنگ میں قبول نہ کروں گا، مجھ پر جادو ہونے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ اُن دلائل کے ہتھیار سے میں گھائل ہوتا جا رہا ہوں اور میرے لئے کوئی جائے فرار نہیں بجز اس کے کہ میں اُن باتوں کو قبول کروں اور مان لوں۔

اخبار الحکم کو جسے میں ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کرتا تھا، اٹھا کر پڑھنے لگا، اُس میں بجائے فحش باتوں اور لغو اشتہارات کے جو اکثر دوسرے اخبارات میں درج رہتے ہیں، صرف قرآن و احادیث اور دینی باتیں ہی شائع ہوتی تھیں، یہ دیکھ کر مجھے اسلام سے محبت اور اُس کی پاک تعلیم سے دلچسپی ہونے لگی اور ساتھ ہی احمدیت کی صداقت بھی مجھ پر آشکار ہونے لگی۔ اُس کی پہلی وجہ تو حضرت مولوی صاحب کا کردار تھا جو میرا چشم دید تھا اور دوسری وجہ وہ تعلیم تھی جو احمدیت کے اخبارات اور لٹریچر سے مجھے حاصل ہوتی رہتی تھی، پھر میں اخبار الحکم کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کتب اور سلسلہ کا لٹریچر بھی دیکھنے لگا۔ رفتہ رفتہ میری حالت بدلنے لگی، مجھ میں جو بد اخلاقیاں و بد کرداریاں تھیں اُن سے مجھے نفرت ہونے لگی اور میں اُنہیں چھوڑتا گیا، اسی حالت میں چند روز اور گزرے، مطالعہ کرتے اور غور کرتے کرتے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی وغیرہ کے متعلق بھی انشراح صدر حاصل ہوگیا۔

اُس زمانہ میں ایک شب میں نے ایک خواب دیکھا صبح ہوتے ہی میں سب سے پہلے حضرت استاذی المکرم مولانا محمد عبدالحق ؓ کے پاس گیا اور اپنا خواب بیان کیا۔ وہ سن کر فرمانے لگے کہ یہ بہت ہی مبارک خواب ہے، اب تم فوراً بیعت کرلو۔ میں نے اسی وقت بیعت کا خط لکھ کر حضور کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ حضور کی جانب سے 29 جولائی 1907ء کو جواب موصول ہوا کہ تمہاری بیعت منظور کر لی گئی۔ اس کے بعد میں بھی قادیانی کہلانے لگا۔

(آپ بیتی از غلام قادر شرق بنگلوری صفحہ 4۔9)

اس کے بعد شرق صاحب لکھتے ہیں کہ خلافت اولیٰ کے زمانے میں حضرت مولوی عبدالمحیعرب ؓ بنگلور تشریف لائے اور بنگلور میں انجمن کا قیام عمل میں آیا اور اس کے صدر حضرت ابو الخیر محمد عبدالحق ؓ منتخب ہوئے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد وہ اپنے وطن مالوف ترچنا پلی واپس اپنے بڑے بیٹے کے پاس چلے گئے، وہاں گئے تین چار سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ اُن کا انتقال ہوگیا۔ ہماری جماعت بنگلور کے روح رواں اور صدر ہونے کی وجہ سے نیز اُن کے احسانات کے مد نظر احباب جماعت اور خاص کر مجھے سخت رنج ہوا۔ استاد مرحوم کے شاعری کے تعلق سے جانشین داغ مولوی سراج الدین احمد سائل دہلوی سے بہت گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔

حضرت شرق کے بیان کردہ ان مختصر حالات کے علاوہ اخبارالبدر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں آپ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے، یہ نظم آپ نے عبدالعزیز خان عزیز شاگرد داغ دہلوی کی نظم کے جواب میں کہی جو اُس نے پیسہ اخبار (26 مئی 1906ء) میں طبع کرائی۔ اس نظم میں آپ کا نام ‘‘ابو الخیر محمد عبدالحق احمدی ترچنا پلوی مقیم معسکر بنگلور کمبار اسٹریٹ Aنمبر’’ مرقوم ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ذیل میں درج کئےجاتے ہیں

مہدی موعود کا ہے یہ زمانہ دوستو!
گر نہ پاؤ اس کو پچھتاؤ گے پچھتانے کے دن
باز ہٹ دھرمی سے آؤ جستجوئے حق کرو
ورنہ تم پر آ ہی جائیں گے بلا آنے کے دن
حملے غیر اقوام کے اسلام پر ہوتے ہیں آج
کیا نہیں آئے ہیں مہدی کے اب آنے کے دن
خواب غفلت سے اُٹھو آؤ چلو تم قادیاں
ہیں مسیح و مہدی موعود کے پانے کے دن
دیکھنے کا وقت ہے تحقیق سے دیکھو ابھی
ورنہ اِن آنکھوں سے تم دیکھو گے پچھتانے کے دن
عیسیٰ مریم کے آنے کا عبث ہے انتظار
آنے والا آگیا ہے، ہیں یہی آنے کے دن
لکھے تھے تکفیر کے فتوے جنھوں نے زور سے
ہم نے خود دیکھے ہیں اُن کے توبہ کروانے کے دن
مٹ گئے اور مٹتے جاتے ہیں بہت ناحق پرست
آئے جب گلزار مہدیّت کے لہرانے کے دن
حکم حق سے اہلِ حق پر عبد ؔحق یہ حق رہا
اُن کو سلجھائے کہ جن کے دیکھے الجھانے کے دن

(الحکم 10 جولائی 1906ء صفحہ 7 کالم3۔4)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ‘‘کتاب البریہ’’ میں درج 316 احباب کی فہرست میں 224 نمبر پر ایک نام یوں درج فرمایا ہے

’’224۔ مولوی عبدالحق صاحب ایڈیٹر نسیم صبا بنگلور‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 355)

(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ