• 16 اپریل, 2024

جو ہجرت کی تو دل اپنا پُرانے گھر میں چھوڑ آئے

عبدالکریم قدسی کی شگفتہ شاعری

شاعری بھی قدرت کا عطیہ ہے ،اردو پنجابی شاعری میں جنہوں نے اپنی قادرالکلامی سے ماہ و سال میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا، ان میں امریکہ میں مقیم شاعر عبدالکریم قدسی کا نام بھی سرفہرست ہے وہ پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی غزلیں، نظمیں لکھتے چلے آرہے ہیں۔ ایک دور تھا جب لاہور میں ہونے والے طرحی اور غیر طرحی مشاعروں میں وہ باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب طالب حسین طالب، غلام محی الدین نظر، یونس حسرت امرتسری، امان اللہ نیّرشوکت، زاہد الحسن زاہد،افضال عاجز،اُفق دہلوی بھی شعر و ادب کی دنیا میں داد سمیٹ رہے تھے۔ ان میں یونس حسرت امرتسری نے بھی اساتذہ فن سے سیکھا، چند ہفتے قبل عبدالکریم قدسی کا فون آیا کہ مجھے جرمنی میں مقیم شاعر ادیب اور محقق حیدر قریشی کے ذریعے آپ کا نمبر ملا۔ سچی بات ہے کہ قدسی صاحب سے چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے شناسائی ہے۔ان کے ساتھ کئی ادبی محفلوں میں جانے کا بھی موقع ملا۔ ان دنوں قدسی اور دیگر احباب ہر شام ملت اور ہر ہفتے کسی نہ کسی شعری نشست میں بھی شرکت کرتے تھے۔ بعد ازاں وقت جیسے جیسے تیز رفتار ترقی کرتا چلا گیا، مگر ادبی محفلیں کم کم ہونے لگیں۔ورنہ ان دنوں لاہور میں کبھی واصف علی واصف نابعہ روڈ پر ڈاکٹر تبسم رضوانی الشجر بلڈنگ نیلا گنبد اور عبدالرشید تبسم اداراہ ادب کے تحت ماڈل ٹاؤن میں باقاعدگی سے مشاعروں کا انعقاد کرتے رہے۔ اسی طرح پاک ٹی ہاؤس، چائینزلنچ ہوم، نگینہ بیکری میں بھی سرشام اہل قلم اکٹھے ہوتے، اسی طرح رائٹر گلڈ پنجاب کے منٹگمری روڈ آفس میں بھی حبیب کیفوی اور ان کے بعدڈاکٹر رشید انور،لاہور سے ہی نہیں گردو نواح سے بھی شاعر ادیب آیا کرتے تھے۔ آج جب واٹس ایپ پر عبدالکریم قدسی کی آواز سنی تو پرانے دن یاد آگئے۔دوران گفتگو پرانے دوستوں کا ذکر ہوا تو میں نے قدسی صاحب کو بتایا کہ یونس حسرت امرتسری بھی گزشتہ سال طویل علالت کے بعد ان جہان فانی سے رخصت ہوگئے تو اگلے روز انہوں نے تین قطعات لکھ کر مجھے بھجوائے، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خبر سنائی آج خالد یزدانی نے
دوست یونس حسرت چلا گیا ہے
ایک پیارا دوست ، پیارا شاعر تھا وہ
چھوڑ کے ہم کو سوئے جنت چلا گیا ہے
وابستہ تھیں نصف صدی کی یادیں اس سے
کسی بھی صورت اسے بھلا نہ پائیں گے ہم
اپنوں بیگانوں سے محفل سجی رہے گی
اس جیسا جیدار کہاں سے لائیں گے ہم
بانی رکن تھا وہ ’’بزم تقدس ادب‘‘ کا
ساغر صدیقی کا بہت چہیتا تھا وہ
دیکھا جاتا تھا وہ عزت کی نظروں سے
خود بھی دل سے سب کی عزت کرتا تھا وہ


عبدالکریم قدسی کا نواسہ ایفان احمد جو صرف تین گھنٹے کے لئے دنیا میں آیا اور پھر مالک حقیقی کے پاس چلا گیا اس پر انہوں نے اپنے دل کے تاثرات کو اس طرح رقم کیا۔

ٹکڑا جگر کا خود سے جدا کر کے آگئے
ایفان کو سپرد خدا کر کے آگئے
اک چاند دفن کر دیا اندر زمین کے
واجب تھا ایک فرض ادا کر کے آگئے
ارماں کے پھول دھوپ میں مرجھا کے رہ گئے
خوشبو کو آنسوؤں سے وداع کر کے آگئے
آنسو بہاتے، ننھے فرشتے کے ساتھ ساتھ
جنت کے راستوں کا پتا کر کے آگئے
تھی آرزو کہ عید منائیں گے شوق سے
لیکن نماز اشک قضا کر کے آگئے
ننھے دئیے کو مٹھی کے اندر جلا دیا
یوں ظلمتوں میں ایک ضیاء کر کے آگئے
قدسیؔ ہوئی نہ ننھے مسافر سے کوئی بات
اور کپکپاتے ہونٹ دعا کر کے آگئے
خوش آمدید پر عبدالکریم قدسی کی نظم ملاحظہ ہو۔
طبیعت کو خوش آمدید کہنا اچھا نہیں لگتا
منافع بخش سودا ہے مگر اچھا نہیں لگتا
جو ہجرت کی تو دل اپنا پرانے گھر میں چھوڑ آئے
سو اب اچھے سے اچھا بھی ہو گھر اچھا نہیں لگتا
مجھے اپنی نگاہوں ، زور بازو پر بھروسہ ہے
مگر پھر بھی اندھیروں کا سفر اچھا نہیں لگتا
پھلوں پھولوں کی خوشبو سے اگرچہ ہو لدا لیکن
پرندوں سے جو ہو خالی شجر اچھا نہیں لگتا
ہمیں تو صبرکی تعلیم ہے تلقین ہے ورنہ
یقین جانو ہمیں خوف و خطر اچھا نہیں لگتا
فسادوں کے لئے مُلّا کو سر درکار ہیں لیکن
اسے وقت شہادت اپنا سر اچھا نہیں لگتا
یہ بہتر ہے کہ اپنے آشیانے میں رہوں بیٹھا
اڑوں میں مانگ کر اوروں کے پَر اچھا نہیں لگتا
مجھے ایسے خیالوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

دیارِ غیر میں بھی عبدالکریم قدسی نے قلم سے ناطہ قائم رکھا اور اس کی شاعری میں وہی تازگی، شگفتگی ہے جو اس کا خاصا رہی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

(ندائے ملت 8 فروری 2020ء)

(خالد یزدانی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ