• 25 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍فروری 2023ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍فروری 2023ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

ایک جید عالِم اور مفکر تھے، تقریر کرنے میں شاید ہی کوئی آپ کا ثانی تھا ۔۔۔ ظاہری و باطنی علوم کا سرچشمہ بھی ہیں، آپ تخیل اور میدانوں کے ایک یکساں شہ سوار ہیں، آپ کی زندگی کا بہت سا حصہ ذکر و فکر میں گزرتا ہے لیکن میدان عمل میں آپ ایک اولو العزم اور جری قائد بھی ہیں

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ نیز سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ بیس فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالہ سے یاد رکھا جاتاہے اور اِس مناسبت سے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں، بیس فروری اِس دفعہ تو تین دن کے بعد آنا ہے لیکن مَیں نے مناسب سمجھا کہ آج کے خطبہ میں اِس حوالہ سے کچھ باتیں کروں۔

پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق

یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت کی تھی جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہو گا، الله تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اُسے حاصل ہو گی ۔ الفاظ پیشگوئی بیان فرمودہ حضرت مسیح موعودؑ پیش کرنے کے بعد ارشاد فرمایا! چنانچہ اِس پیشگوئی کے مطابق اُس مدت کے اندر جو آپؑ نے بیان فرمائی تھی بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے جنہیں الله تعالیٰ نے خلیفۃ المسیح الثانی کے مقام پر بھی بٹھایا، پھر ایک لمبے عرصہ کے بعد آپؓ نے الله تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرمایا کہ جس بیٹے کی مصلح موعود ہونے کی آپؑ نے خبر دی تھی وہ مَیں ہی ہوں۔

علمی اور متفرق کارناموں میں سے بعض کا تذکرہ

اِس بیٹے کے الله تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے، ذہین و فہیم اور دوسری خصوصیات کے حامل ہونے کے اپنے اور غیر بھی معترف اور خوب جانتے ہیں اور اِس کا اعتراف غیروں نے بھی کھل کر کیا ہے۔ اِس وقت مَیں حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ کے علمی اور متفرق کارناموں میں سے بعض کا تذکرہ کروں گا۔

اِن باتوں کے سننے سے پہلےیہ بات سامنے رکھنی چاہئے

آپؓ کا بچپن صحت کے لحاظ سے نہایت کمزوری اور بیماری میں گزرا، آنکھوں کی تکلیف وغیرہ بھی رہی، نظر بھی ایک وقت میں جاتی رہی ایک آنکھ سے، پھر دنیاوی لحاظ سے بھی آپؓ کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، مشکل سے آپؓ نے خود فرمایا! میری پرائمری تک تعلیم ہے ۔ لیکن الله تعالیٰ کا وعدہ تھا آپؓ کو دینی و دنیاوی علوم سے پُر کرنے کا، اِس لئے ایسے ایسے زبردست اور عقل کو دنگ کر دینے والے خطابات اور خطبات آپؓ سے کروائے اور ایسے ایسے مضامین آپؓ نے لکھے کہ جو اپنی مثال آپ اور غیر بھی اُن کے معترف ہیں۔

ایک بڑا وسیع علمی ذخیرہ

حضور انور ایدہ الله نے آپؓ کی تصنیفات، تقاریر، مضامین، خطبات اور مجالس عرفان وغیرہ کی تعداد اور حجم کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! انوار العلوم کی شکل میں جو کتب، خطابات، لیکچرز، مضامین پیغامات وغیرہ کی شکل میں شائع ہوئے یا اب تقریبًا مکمل ہیں اور شائع ہونے کے لئے تیار ہیں، اِس کی کُل 38 جلدیں بن جائیں گی اور اِن کی تعداد 1424 ہے اور اندازًا کُل صفحات 20340 ہیں۔ تفسیر کبیر، تفسیر صغیر سمیت دیگر تفسیری مواد کے صفحات 28735 ہیں۔ 1808 خطبات جمعہ ہیں جن کے صفحات 18705 ہیں۔ 51 خطبات عید الفطر ہیں جن کے صفحات 503 ہیں، 42 خطبات عیدا الاضحی ہیں جن کے صفحات 405 ہیں، 150 خطبات نکاح ہیں جن کے صفحات 684 ہیں۔ خطابت شورٰی جلد اوّل اور سوم بھی شائع ہوئی ہے اِس کے صفحات 2131 ہیں۔ بشمول دیگر اگر اِن کُل صفحات کو اکٹھا اور جمع کیا جائے تو تقریبًا 75000 صفحات بنتے ہیں۔ ریسرچ سیل نے الحکم اور الفضل کے 1913ء سے 1970ء تک کے شماروں کو دیکھا ہے تو اُن کے مطابق کچھ مزید مواد سامنے آیا ہے جو ابھی تک انوار العلوم یا کسی کتاب میں شائع نہیں ہو سکا، اِس کی تفصیل کے مطابق 55 مضامین، 27 تقاریر، 143 مجالس عرفان، 222 عناوین ملفوظات اور 131 مکتوبات ابھی تک مل چکے ہیں۔

ترجمہ و تفسیر قرآن کریم کے کچھ کوائف اور غیروں کی آراء

بعدازاں حضور انور ایدہ الله نے آپؓ کے علمی کارناموں میں سے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے کچھ کوائف اور غیروں کے اِس بارہ میں آراء پیش فرمائے۔ تفسیر کبیر میں آپؓ نے 59 سورتوں کی تفصیل بیان فرمائی ہےجو کہ دس جلدوں اور 5907 صفحات پر مشتمل ہے، اِس کے علاوہ بہت سے تفسیری نوٹ بھی آپؓ کے ملے ہیں جن کے صفحات کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور امید ہے کسی وقت یہ بھی شائع ہو جائے گی۔

اپنی عمر کے آخری دَور میں سب سے بڑی خواہش

با محاورہ ترجمہ قرآن کا ایک بہت بڑا کام آپؓ کا تفسیر صغیر کی صورت میں ہے۔ آپؓ کی اپنی عمر کے آخری دَور میں سب سے بڑی یہ خواہش تھی کہ زندگی میں آپؓ کے ذریعہ پورے قرآن مجید کا ایک معیاری اور بامحاورہ اُردو ترجمہ معہ مختصر مگر جامع نوٹوں کے شائع ہو جائے۔ سفر یورپ 1955ء سے واپسی کے بعد اگرچہ حضورؓ کی طبیعت اکثر ناساز رہتی تھی مگر الله تعالیٰ نے اپنے خلیفۂ موعود کی روح القدس سے ایسی زبردست تائید فرمائی کہ آپؓ جون؍ 1956ء گرمیوں میں مری کے پہاڑوں پر گئے وہاں ترجمہ قرآن اِملاء کروانا شروع کیا جو خدا کے فضل سے 25؍اگست 1956ء کی عصر تک مکمل ہو گیا ۔ اِس کے بعد پھر اِس کی نظر ثانی، نظر ثالث، کتابت اور پروف ریڈنگ وغیرہ ہوئی نیز تفسیر صغیر 15؍نومبر 1957ء میں طبع ہو کر مکمل تیار ہو گئی۔

محض اللہ تعالیٰ کا فضل

آپؓ نے تفسیر صغیر کے بارہ میں ایک جگہ فرمایا! میری رائے یہ ہے کہ اِ س وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں اِن میں سے کسی ترجمہ میں بھی اُردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھاگیا جتنا اِس میں رکھا گیاہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے اتنے تھوڑے عرصہ میں ایساعظیم الشان کام سرانجام دینے کی توفیق عطاء فرمادی۔ الله تعالی نے اِس بڈھے اور کمزور انسان سے وہ عظیم الشان کام کروا لیا جو بڑے بڑے طاقتور بھی نہ کر سکے۔ گزشتہ تیرہ سو سال میں بڑے قوی جوان گزرے ہیں مگر جو کام الله تعالیٰ نے مجھے سرانجام دینے کی توفیق عطاء فرمائی، اِس کی اِن میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ملی، درحقیقت یہ کام خدا کا ہےاور وہ جس سے چاہتا ہے کروا لیتا ہے۔

تفسیر القرآن انگریزی ؍ فائیو والیم کمنٹری کا اہم کام

اِس تفسیر کے شروع میں آپؓ کے قلم سے لکھا ہوا ایک نہایت پُر معارف دیباچہ بھی شامل ہے جس میں دوسرے صحف سماوی کی موجودگی میں ضرورت قرآن مجید، آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کی حیات طیبہ، جمع القرآن اور قرآنی تعلیمات پر بالکل اچھوتے اور دل آویز پیرائے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

الله تعالیٰ کے فرشتے اِس کے مضامین کو برکت دیں گے

آپؓ نے اِس دیباچہ کے آخر میں زیر عنوان شکریہ اور اعتراف تحریر فرمایا! مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا شاگرد ہونے کی وجہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازمًا ایسے آئے ہیں جو مَیں نے اُن سے سیکھے، اِس لئے اِس تفسیر میں حضرت مسیح موعودؑ کی تفسیر بھی، حضرت خلیفہ اوّلؓ کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آ جائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنی روح سے ممسوح کر کے اُن علوم سے سرفراز فرمایا تھا جو اِس زمانہ کے لئے ضروری ہیں، اِس لئے مَیں امید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفاء دینے کا موجب ہو گی، بہت سے اندھے اِس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے، بہرے سننے لگ جائیں گے، گونگے بولنے لگ جائیں گے، لنگڑے اور اپاہج چلنے لگ جائیں گے اور الله تعالیٰ کے فرشتے اِس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اِس غرض کو پورا کرے گی جس غرض کے لئے یہ شائع کی جارہی ہے۔اللّٰھم آمین! حضور انور ایدہ الله نے فرمایا! اور اب تک اِس کو جو لوگ بھی پڑھتے ہیں، بعض غیر بھی ، عیسائی بھی، بڑی تعریف کرتے ہیں۔

اپنی نوعیت کے لحاظ سے با لکل پہلی تفسیر

مشہور غیر احمدی اہل قلم، محقق، ادیب اور ماہنا مہ نگار کے مدیر علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے تفسیر کبیر کا مطالعہ کیا تو حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ کو لکھا: تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور مَیں اِسے نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں، اِس میں شک نہیں کہ مطالعۂ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے با لکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کوبڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔آپ کے تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسن استدلال اِس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اِس وقت تک بے خبر رہا ۔

اسلام کے ذوق علم تحقیق کی عظیم یادگار

پھر انگریزی تفسیر قرآن کے دینی اور ادبی محاسن نے یورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہل علم کو متأثر کیا اور اُنہوں نے اِس پر شاندار ریویو کئے مثلًا مشہور اسکالر اے جے آربیری کہتے ہیں: قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بڑا کارنامہ ہے، موجودہ جلد اِس کارنامہ کی گویا پہلی منزل ہے، کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جو جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ افزاء قیادت میں ہوتا رہا، کام بہت بلند قسم کا تھا یعنی یہ کہ قرآن شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے جس کے ساتھ ساتھ اِس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہو۔۔۔ اگر ہم اِس کام کو اسلام کے ذوق علم تحقیق کی عظیم یادگار کہہ کر پیش کریں تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا، اِس کی تیاری کے ہر مرحلہ پر مستند کتب ، تفسیر و لغت اور تاریخ وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

الله تعالیٰ ہمیں اِس علم و عرفان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطاء فرمائے!

حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر و خطابات نیز بارعب شخصیت کےغیروں پر مرتب ہونے والے غیر معمولی اثرات کا تذکرہ کرنے کے بعدآخر پر حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! مواد تو بہت زیادہ تھا جو مَیں نے جمع کروایا تھا لیکن وقت کی وجہ سے مَیں نے کچھ خلاصتًا پیش کیا۔ جو باتیں پیشگوئی میں حضرت مسیح موعودؑ نے پیش فرمائی تھیں یا کہنا چاہئے کہ الله تعالیٰ نے آپؑ کو بتائی تھیں وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدمصلح موعودؓ میں پوری ہوئیں، آپؓ کو الله تعالیٰ نے جو علم و عرفان عطاء فرمایا تھا اِس کا کوئی بڑے بڑے سے بڑا عالِم بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔آپؓ کا دیا ہوا لٹریچر ایک جماعتی خزانہ ہے، آپؓ کے خطابات، خطبات، مضامین اکثر شائع ہو چکے ہیں، کچھ ہو رہے ہیں، اُنہیں ہمیں پڑھنا چاہئے ۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی مساجد (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی