• 26 اپریل, 2024

وعیدی پیشگوئیاں توبہ اور استغفار سے ٹل سکتی ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وعید کی پیش گوئیاں توبہ اور استغفار سے ٹل سکتی ہیں ۔ یہاں تک کہ دوزخ کا وعید بھی ٹل سکتا ہے۔لوگ اس طرف رجوع کریں اور توجہ کریں،تو اللہ تعالیٰ اس ملک اور خطہ کو چاہے گا ،تو محفوظ رکھ لے گا۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ مگر فرماتا ہے۔ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان:78) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم میری بندگی نہ کرو، تو پرواہ کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ گلی گلی میں حکیم ہیں۔ ہر جگہ ڈاکٹر موجود ہیں۔ شفاخانے کھلے ہوئے ہیں۔ان کا علاج کرکے تندرست ہو جائیں گے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ خود بمئبی اور کراچی میں کئی بڑے بڑے ڈاکٹر کتنے مبتلا ہو کر چل بسے ہیں؟ جو اس خدمت پر مامور ہو کر گئے تھے وہ خود ہی اس مرض کا شکار ہو گئے۔ یہ خداتعالیٰ اپنے تصرفات کا مشاہدہ کراتا ہے کہ محض ڈاکٹروں یا ان کے علاج پر بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ دوسرے عالم پر بھی ایمان پیدا ہو۔ اب لوگ زور لگا کر دکھاویں جس طرح انسان ایک بالشت بھر زمین کے لئے مرتا ہے،سازشیں کرتا اور مقدمات کی زیر باریاں اٹھاتا ہے کیا وہ خدا تعالیٰ کے کسی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر بھی ویسا ہی قلق اور کرب اپنے اندر پاتا ہے؟ہرگز نہیں۔ نادان انسان جب شدید امراض میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا کو پکارتا ہے۔ لیکن یونہی آزمائشی طور پر اسے مہلت ملتی ہےتو پھر ایک ایسا اصول قائم کرتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ گویا مرنا ہی نہیں۔ معمولی امراض سے مر جانے پر بھی بہت تھوڑا اثر اب دلوں پر ہوتا ہے۔ دو تین روز تک برائے نام قائم رہتا ہے۔ بعد اس کے پھر وہی ہنسی مخول اور مزخرفات ،قبر ستان میں جاتے ہیں اور مردے گاڑتے ہیں، مگر کبھی نہیں سوچتے کہ آخر ایک دن مر کر ہم نے بھی خدا کے حضور جانا ہے۔ اب خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ معمولی اموات بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ امرتسر، لاہور میں ساٹھ ہزار روزانہ اموات کی تعداد ہوتی ہے۔ کلکتہ اور بمبئی میں اس سے زیادہ مرتے ہیں۔ گو نفس الامر میں یہ نظارہ خوفناک ہے، مگر کون دیکھتا ہے۔ کوتاہ اندیشہ انسان کہہ اٹھتا ہے کہ یہ اموات آبادی کے لحاظ سے ہیں اور پرواہ نہیں کرتا۔ دوسروں کی موت سے خود کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس لئے خداتعالیٰ نے دوسرا نسخہ اختیار کیا ہے اور طاعون کے ذریعہ لوگوں کو متنبّٰی کرنا چاہا ہے۔ اس لئے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب جو ہونا ہے سو ہونا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سمجھ کر تم خدا تعالیٰ کو بھی ناراض کرو اور گورنمنٹ کو بھی خطا کار ٹھہراؤ۔

گورنمنٹ کو بدنام کرنے سے کیا حاصل؟ طاعون تمہاری اپنی شامت اعمال سے آئی،اور گورنمنٹ پر تمہاری بدولت آفت آئی‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ233)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ