• 20 اپریل, 2024

نظامِ شوریٰ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے بہت ہی پیارے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ ہر اہم معاملہ میں صحابہؓ سے مشورہ کر لیا کرو۔

(آل عمران:160)

اسی طرح دوسری جگہ صحابہؓ کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان (صحابہ) کا ہر امر باہمی مشورہ سے طے ہوتا ہے۔

(الشوریٰ:39)

ان 2 آیات کو جب ہم تاریخ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو آنحضور ﷺ کو اسلامی حکومت کے نظم و نسق کے جملہ امور کے بارے میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ آپؐ کبھی چند مخصوص صحابہؓ سے۔ کبھی ایک صحابی یا صحابیہ سے مشورہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابن ہشام نے آپؐ کا یہ قول درج کیا ہے کہ اَشِیْرُوْا عَلَیَّ اَیُّھَاالنَّاسُ کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دیا کرو۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور ﷺ سے زیادہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔

(جامع ترمذی)

ایک دفعہ حضرت علیؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ آپؐ کے بعد اگر ایسا امر پیش آجائے جس کے بارہ میں قرآن خاموش ہو اور سنت سے بھی روشنی نہ ملے تو کیا کیا جائے؟ آپؐ نے فرمایا۔ اپنے لوگوں میں سے عبادت گزار علماء کو اکٹھا کرکے ان کے باہمی مشورہ سے فیصلہ کرنا اور کسی فردواحد کی رائے پر صاد نہ کرنا۔

(کنزالعمال)

تاریخ نے قرون اولیٰ میں مجلس شوریٰ کا سب سے پہلا اوربڑا اجتماع جنگ بدر کے موقع پر ریکارڈ کیا ہے جب آنحضور ﷺ نے صحابہؓ سے مدینہ میں رہ کر یا مدینہ سے باہر جا کر جنگ لڑنے کا مشورہ کیا۔ پھر جنگ میں فتح پانے کے بعد قیدیوں سے سلوک کے بارے میں دوبارہ صحابہؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا جسے آنحضور ﷺ نے قبول فرمایا۔

اسی طرح ایک دفعہ جنگ اُحد میں بھی مدینہ کے اندر رہ کر یا باہر جا کر لڑنے کا مشورہ طلب فرمایا۔ صحابہؓ کی رائے کے مطابق مدینہ سے باہر جنگ لڑنے کے لئے آپؐ زرہ پہن کر گھر سے باہر نکلے تو صائب الرائے صحابہؓ نے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی تو آپ نے اس درخواست کو عزیمت رسول کے خلاف قرار دیا اور فرمایا: نبی کی شان سے بعید ہے کہ ایک مرتبہ زرہ پہن کر بغیر جنگ کئے اُسے اُتار دے اور آپؐ جنگ پر روانہ ہوگئے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ام سلمہؓ کے مشورہ پر اس وقت اپنی قربانی پر چھُری پھیر دی جب صحابہؓ پر صلح حدیبیہ کی شرائط کو ماننا مشکل نظر آرہا تھا۔ جنگ خندق میں جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔اس کےبعدہم نماز پر بلانے کے لئے اذان کے بارے میں مشورہ تاریخ میں پاتے ہیں۔

یہ شورائی نظام، خلافت راشدہ میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی وفات کے معاً بعد منکرین زکوٰۃ نے جب زکوٰۃ نہ دینے کا فتنہ کھڑا کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا بعض صحابہ نے مصلحت وقت کے مطابق زکوٰۃ معاف کر دینے کا مشورہ دیا تو حضرت ابوبکرؓ کی بے مثال عظمت نے اس کے برعکس فیصلہ کیا۔ اسی طرح حضرتاسامہ بن زیدؓ کے لشکر کو محاذ پر بھجوانے کے لئے بعض صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ ان پُرخطر اور مخدوش حالات میں بھیجنا مناسب نہیں تو آپ نے بڑے جلالی انداز میں فرمایا کہ ابوقحافہ (حضرت ابوبکر کی کنیت تھی) کی کیا مجال کہ وہ اس لشکر کو بھجوانے سے روکے جس کو میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھجوانے کا حکم فرمایا ہے۔

حضرت عمرؓ نے نظام شوریٰ کو وسیع اور مربوط بنیادوں پر قائم فرمایا۔ تمام ملکی اور قومی مسائل و معاملات اجلاس شوریٰ میں پیش ہوکر بحث و تمحیص کے بعد طے پاتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ لاخِلَافَۃَ اِلَّاعنْ مَشْوَرَۃٍ کہ خلافت مشورہ کے بغیر نہیں۔ تاریخ نے آپ کا یہ طریق بھی محفوظ کیا ہے کہ منادی کے اعلان پر صحابہؓ اکٹھے ہوتے۔ حضرت عمرؓ دو نفل ادا فرما کر متعلقہ مسئلہ پر خطبہ ارشاد فرماتے۔ اس کی اہمیت اُجاگر کرتے اور پھر صحابہؓ سے رائے لیتے۔

بات طول پکڑ رہی ہے حضرت عثمانؓ کی مثال دے کر قرون اولیٰ میں تاریخی مشورہ کی بات ختم کرتا ہوں۔ اہل عراق اور اہل شام میں جب قرآن کریم کی قرات پر جھگڑا کھڑا ہوا کہ ہماری قرات والا قرآن زیادہ صحیح ہے تو حضرت عثمانؓ نے صحابہؓ سے مشورہ کرکے حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کا مصحف جو حضرت حفصہؓ کے پاس امانتاً موجود تھا رائج کروایا۔

قرون ثانیہ کے دور میں سیدنا حضرت مسیح موعود نے اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت نبویؐ کو جاری رکھا۔ آپ کے دور میں اجتماعی مشورہ کی سب سے پہلی اہم مثال 1891ء کے جلسہ سالانہ پر دیکھنے کو ملی۔ جب آپؑ نے جلسہ سے مشاورت کا کام بھی لیا اور یہ تجویز زیرغور آئی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانات کا ریکارڈ محفوظ کرنے کی خاطر ایک ایسی انجمن بنائی جائے جو احمدی اور غیرازجماعت حضرات پر مشتمل ہو۔

1892ء کے جلسہ سالانہ پر یورپ اور امریکہ میں دعوت الی اللہ کے لئے حاضرین سے مشورہ لیا اور 1907ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت احمدیہ کا پہلا مالیاتی بجٹ زیربحث آیا۔ جماعت احمدیہ کا نام ‘‘مسلمان فرقہ احمدی’’ اور مدرسہ احمدیہ میں دینیات کی شاخ بھی بعد مشورہ قائم ہوئی۔

خلافت اولیٰ میں 1908ء کے جلسہ سالانہ پر 26 دسمبر کو مدرسہ احمدیہ جاری رکھنے کے بارے مشورہ ہوا۔ جب بعض احباب اسے بندکرنے کی تجویز دے رہے تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی ؓ) کی 10 منٹ کی تقریر نے رخ ہی بدل دیا اور تمام حاضرین نے بیک زبان ہو کر یہ کہا کہ

’’ہم ہرگز یہ رائے نہیں دیتے کہ مدرسہ احمدیہ بند ہونا چاہئے۔ ہم اسے جاری رکھیں گے اور مرتے دم تک بند نہیں ہونے دیں گے‘‘

1912ء کے جلسہ سالانہ پر مدرسہ احمدیہ کی آمدنی کے بارے میں ایک بار پھر مشورہ ہوا اور یہ تحریک ہوئی کہ ایسے لڑکے مدرسہ میں بھجوائے جائیں جو اپنے خرچ پر پڑھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں شوریٰ کا نظام، منظم ہوا اور مجلس شوریٰ کا باقاعدہ قیام ایک ادارہ اور ایک انسٹیٹیوشن کے طور پر 16,15 اپریل 1922ء کو قادیان میں ہوا۔ اس اجلاس کے افتتاحی خطاب میں حضور نے شوریٰ کا لائحہ عمل تفصیل سے بیان فرمایا۔

شوریٰ کا نظام تدریجاً مضبوطی اختیار کرتا گیا۔ قادیان کے بعد ربوہ میں اور پھر دنیا بھر کی بڑی جماعتوں میں یہ نظام قائم ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اب یہ مشاورتی ادارہ بین الاقوامی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اب دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں مجالس شوریٰ منعقد ہوتی ہیں۔ جن کی تمام روایات اور اقدار سانجھی ہیں اور خلیفۃ المسیح سے براہراست رہنمائی لیتی ہیں۔ 1985ء میں لندن اور 1992ء میں بیلجئم و دیگر ممالک میں اس نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ ادارہ اب جماعت کی تعلیم وتربیت کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا ہے جس کا درجہ خلافت کے بعد ہے اور دونوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے 1970ء کی شوریٰ پر آل عمران کی آیت 160 کی تلاوت فرما کر مشاورت کی اہمیت یوں بیان فرمائی۔
’’مشاورت کا مخرج شَارَالْعَسَلُ یعنی شہد نکالنا ہے۔ جس طرح شہد کی مکھی پھول کا رس چوستی ہے اور پھر اس میں کچھ اپنے اجزاء ملا کر شہد بناتی ہے۔ شوریٰ کے اراکین جو آراء پیش کرتے ہیں۔ اِذَا عَزَمْتَ کی رو سے خلیفۃ المسیح اپنے عزم اور خداداد فہم و فراست کو اس میں شامل کرکے فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی دعائیں شامل ہوتی ہیں تو پھر شہد کی طرح بنی نوع انسان کے لئے شفا اور دینی استحکام کا ذریعہ بن جاتی ہیں‘‘

(رپورٹ شوریٰ ص109 ,108)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ