• 26 اپریل, 2024

تربیتِ اولاد اور ہماری ذمہ داریاں

تربیتِ اولاد کی ضرورت واہمیت قرآن وحدیث سے ایسے ہی واضح ہے جیسے یہ کوئی فرض بات ہے اور فرض کی بجا آوری ہر حال میںضروری ہوا کرتی ہے۔

تربیتِ اولاد ایک بہت ہی اہم فریضہ ہے جس سے خاندانوں اور قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے کیونکہ آج کے بچوں نے ہی کل ملک و ملت اور مذہب کی ذمہ داریاںسنبھالنی ہوتی ہیں۔

عربی زبان کا محاورہ ہے کہ تَھْذِیْبُ الْاَطْفَالِ خَیْرُ الْاَشْغَالِ یعنی بچوں کی تربیت وتہذیب سب کاموں سے اہم اور بہتر فریضہ ہے۔

حکمتوں کے بادشاہ اور معلمِ کتاب وحکمت حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ‘‘ بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا تے ہیں ۔ یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے ۔جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں سے کوئی کان کٹا نظر آتا ہے؟ یعنی بعد میں لوگ اس کا کان کاٹتے ہیں اور اسے عیب دار بنادیتے ہیں ’’

(مسلم)

دنیا میںبہترین مصور ماں باپ ہوسکتے ہیں جن کے زیرِ سایہ ان کے بچے پلتے ہیں۔ ماں باپ چھوٹی عمر میں ان کے قلوب پر جو تصویر اتارنا چاہیں اتار سکتے ہیں ۔

ماں باپ کا اپنا نمونہ بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ نقال ہوتا ہے وہ جو کچھ والدین کو کرتے ہوئے دیکھے گا اس کی نقل کرنے کی کوشش کرے گا۔

آج کے ترقی یافتہ دَور میں جہاں ہمارے لئے ان گنت آسائشیں اور سہولتیں ہیں وہاں بے شمار مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ قریباً تمام مذاہب میں دجال اور یاجوج ماجوج کے فتنہ سے ڈرایا گیا ہے ؟

دراصل زمانہ قدیم میںرابطہ کے ذرائع محدود تھے اس لئے بدیوں اور گناہوں کی حدود علاقائی تھیں دوسرے اکثر و پیشتر خیر شر پر غالب ہوتا یعنی برائی کو برائی سمجھا جاتا اور باعث افتخار خیال نہیں کیا جاتا تھامگر اِس دجالی فتنہ کے زمانہ میں الیکٹرانک میڈیا اور نشرو اشاعت کے ذرائع ایسی صورت اختیار کرچکے ہیں کہ ہر قسم کی بدی اور برائی کی تشہیر چند منٹوں میں تمام دنیا میں ہو جاتی ہے ۔

معاشرہ میں بے چینی ، انسانی رشتوں اور تعلقات کی پامالی،مذہب سے دوری،مثبت اور تعمیری اقدار سے فرار ،اس ماحول میں اولاد کی نیک تربیت کرنا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

ہر انسان اولاد کی نیک تربیت کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔کامیابیوں کے حصول اور مقاصد میںبارآوری کے لئے اللہ تعالیٰ نے تقوٰی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِتَّقُوْااللّٰہَ یَا اُوْلِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن ۔

(المائدہ :101)

ترجمہ۔پس اے عقلمندو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو تاکہ تم بامراد ہو جاؤ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو یہ دعا سکھائی ہے ۔ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْ وَا جِنَا وَ ذُرِّ یّٰتِنَا قُرَّ ۃَ اَعْیُنٍ وَّ ا جْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَا مًا

(الفرقان:75)

ترجمہ۔ اے ہمارے رب!ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔

“اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہمیشہ اپنی آئندہ نسل کی دینی ودنیاوی ترقیات کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ نور ِ ایمان جو ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ قیامت تک چلتا چلا جائے۔۔۔ ہر مومن کا کام ہے اور اس کا فرض ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کی نیک تربیت سے کبھی غافل نہ ہو وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتا رہے۔”

(تفسیر کبیر جلد ششم ص 595۔ 596)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا تقوٰی اختیار کرو۔ کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہ بنیاد ہے۔

(حدیقۃ الصالحین مترجم حضرت ملک سیف الرحمان ص552)

والدین کو چاہئے کہ نیک اولاد کے حصول کے لئے خود نیک اور صالح بن جائیں، کیونکہ اسی میں خدا کی رضا ہے۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ “جب تقوٰی نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیدا ہوتی ہے۔ اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ سب توبہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔’’

( ملفوظات جلدسوم ص164)

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرماتے ہیں۔ صالح آدمی کا اثر اس کی ذریت پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔۔۔حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا ہے کہ میں بچہ تھا بوڑھا ہوا میں نے کسی خدا پرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں ۔گویا متقی کی اولاد کا بھی خدا تعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے ‘ لیکن حدیث میں آیا ہے ظالم اپنے اہل و عیال پر بھی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان پراس کا بد اثر پڑتا ہے ۔

(ملفوظات جلد اول ص 117۔118 جدید ایڈیشن مطبوعہ قادیان 2003ء)

پھر فرمایا۔‘‘اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤگے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیھما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی ۔وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحاً۔ ان کا والد صالح تھا ۔۔۔اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے ۔پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہوجاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کی سعی اور دعا کرو جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو’’

(ملفوظات جلد 4 ص444۔445)

یقیناًجس قدر انسان ذاتی طور پر اصلاح یافتہ ،نیک فطرت، متقی اور دعا گو ہو گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کی اولاد اور نسل میں نیکی و تقوٰی کو جاری رکھے گا، الِّا ما شاء اللّٰہ۔ اس سلسلہ میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مثال بڑی واضح ہے۔کہ آپ کے دو بیٹوںایک پوتے اورایک پڑپوتے کو مقامِ نبوت سے نوازا گیا جبکہ آپ کی نسل سے روحانی اماموں اور سرداروں کی تعداد تو بارہ تک پہنچتی ہے۔ جو حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذاتی نیکی اور دعاؤں کا ثمرہ ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل سے بھی بارہ آئمہ مطہِّرین پیدا فرمائے۔ یہ کیسا اعلیٰ ایمان تھا ، کیسی اعلیٰ تربیت اور دعائیں تھیں کہ جن کا اثر بارہ پشتوں تک ظاہر ہوتا رہا۔ اس دورِ آخرین میں یہ نظارہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تربیت اور دعاؤں میں دیکھنے کو ملاہے کہ آپ کا ایک بیٹا ،دو پوتے اور ایک پڑپوتا مقامِ خلافت سے نوازے جا چکے ہیں۔ الحمدُ لِلّٰہِ علیٰ ذٰلک۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں ۔ ‘‘اللہ تعالیٰ اپنے ولیوں اور نیکی پر قائم رہنے والوں کی اولاد در اولاد اور نسلوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے اور انہیں نوازتا ہے بشرطیکہ وہ اولاد اور نسل بھی نیکی پر قائم رہنے والی ہو ۔۔۔حضرت مصلح موعودؓ ،حضرت مسیح موعود ؑکے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑسے میں نے ایک واقعہ سنا ہوا ہے۔۔۔کہ ہارون رشید نے امام موسیٰ رضا کو کسی وجہ سے قید کردیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں میں رسیاں باند ھ دیں ۔۔۔ہارون رشید اپنے محل میں ۔۔۔سویا ہوا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ تشریف لائے ہیں اور آپ ﷺ کے چہرے پر غضب کے آثار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہارون رشید ! تم ہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم آرام دِہ گدیلوں پر گہری نیند سو رہے ہو اور ہمارا بچہ شدت گرما میں ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے قید خانے کے اندر پڑا ہے۔یہ نظارہ دیکھ کر ہارون رشید بیتاب ہوکر اٹھ بیٹھا اور اپنے کمانڈروں کو ساتھ لے کر اسی جیل خانے میں گیا اور اپنے ہاتھ سے امام موسیٰ رضا کے ہاتھوں اور پاؤں کی رسّیاں کھولیں ۔انہوں نے ہارون رشید سے کہا کہ آپ تو میرے اتنے مخالف تھے ۔اب کیا بات ہوئی ہے کہ خود چل کر یہاں آگئے۔ ہارون رشید نے اپنا خواب سنایا اور کہا مَیں آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔میں اصل حقیقت کو نہ جانتا تھا۔۔۔حضرت مسیح موعود ؑنے ایک جگہ ایک ولی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جہاز میں سوار تھا سمندر میں طوفان آگیا ۔قریب تھا کہ جہاز غرق ہوجاتا۔اس کی دعا سے بچا لیا گیا ۔اور دعا کے وقت اس بزرگ کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا۔آپ نے فرمایا دیکھو یہ باتیں نری زبانی جمع خرچ سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے ۔اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنا پڑتا ہے۔ نیکیوں کو جاری رکھنا پڑتا ہے جو اپنے آباء کی نیکیاں ہیں ۔پس نیکوں کی نسل ہونا ، ولیوں کی نسل ہونا،بزرگوں کی نسل ہونا بھی اُسی وقت فائدہ دیتا ہے جب خود بھی نیکیوں پر انسان قائم ہواور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو۔

(خطبہ جمعہ 15 جنوری 2016ء)

علامہ ابن جوزی نے لکھاہے کہ ایک روز رات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کا گشت لگا رہے تھے کہ ایک دیوار کے نیچے تھک کر بیٹھ گئے۔گھر کے اندر ایک عورت اپنی لڑکی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھ کر دودھ میں پانی ملادے ۔لیکن لڑکی نے کہا کہ “امیرالمومنین نے منادی کرا دی ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے” ماں نے کہا کہ “اس وقت عمر اور عمر کے منادی دیکھ نہیں سکتے تم دودھ میں پانی ملادو۔”اس نے جواب دیا کہ “خدا کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں مجمع میں امیرالمومنین کی اطاعت کروں اور خلوت میں ان کی نافرمانی کا داغ اپنے دامن پر لگاؤں” حضرت عمر ؓ نے یہ تمام گفتگو سن لی ۔۔۔صبح ہوئی۔۔۔تو معلوم ہوا کہ لڑکی کنواری اور ماں بیوہ ہے۔اب حضرت عمر ؓ نے اپنے لڑکوں کو جمع کیا اور کہا کہ “مجھے نکاح کی ضرورت ہوتی تو میں خود اس لڑکی سے نکاح کرلیتا ۔لیکن تم میں جو پسند کرے میں اس سے اس کا نکاح کرسکتا ہوں۔”عبداللہ اور عبدالرحمان کی بیویاں موجود تھیں۔البتہ عاصم کو نکاح کی ضرورت تھی اس لئے انہوں نے اس سے عقد کرلیا اسی لڑکی سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ماں ام عاصم پیدا ہوئیں۔

(سیرت عمربن عبدالعزیز صفحہ 11 از عبدالسلام ندوی ۔مطبع معارف اعظم گڑھ طبع دوم۔1923ء)

حضرت عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ کے آٹھویں حکمران تھے۔اپنی عمدہ و پاکیزہ سیرت اور راست روی و پاک دامنی کے باعث مورخین کے ہاں خلفائے راشدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔

حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانی رفیق حضرت بانی جماعت احمدیہ نے حضرت میر ناصر نوابؓ سے جو حضور کے خسر تھے دریافت کیا کہ یہ مقام جو آپ کو حاصل ہوا اس میں کیا راز ہے ۔حضرت میر صاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا ۔‘‘ میرے ہاں جب یہ بلند اقبال لڑکی پیدا ہوئی اس وقت میرا دل مرغ مذبوح کی طرح تڑپا اور میں پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الہٰی پر گر گیا ۔میں نے اس وقت بہت درد اور سوز سے دعائیں کیں کہ اے خدا تو ہی اس کے سب کام بنائیو۔معلوم نہیں اس وقت کیسا قبولیت کا وقت تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے صدقے میں مجھے یہاں لے آیا ‘‘دیکھئے ایک صالح متقی اور درد مند باپ کی بیٹی کے پیدائش کے وقت کی دعا کس شان سے مقبول ہوئی اور بیٹی کیا درجہ دین و دنیا میں پاگئی۔

(الفضل 26 اگست 1989ء)

ایک دفعہ حضرت میر ناصر نوابؓ نے حضرت حکیم مولوی نورالدین ؓ سے فرمایا ‘‘ اصل بات تو اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کی ہے۔لیکن جب سے میری یہ لڑکی پیدا ہوئی ہے میں نے کوئی نماز ایسی ادا نہیں کی جس میں اس کے لئے دعا نہ کی ہو کہ اے اللہ تیرے نزدیک جو شخص سب سے زیادہ موزوں و مناسب ہو اس کے ساتھ اس کا عقد ہوجائے ۔حضرت مولوی صاحب نے یہ سن کر فرمایا بس میں سمجھ گیا یہ کسی وقت کی دعا ہی ہے جس کا تیر نشانے پر لگا ہے۔’’

(حیات نور ص 198)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں ۔میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا انہوں نے تیرہ سال کی عمر سے قرآن کریم پڑھانا شروع کیا چنانچہ ان کا یہ اثر ہے کہ ہم بھائیوں کو قرآن شریف سے بڑا ہی شوق رہا ہے ۔

(مرقاۃالیقین ص 174)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں۔ میری ماں اللہ اسے جنت میں بڑے بڑے درجات عطا کرے بہت سارے بچوں کی ماں تھیں مگر وہ کبھی نماز قضاء نہ کرتیں۔ ایک چادر پاک صاف صرف اس لئے رکھی ہوئی تھی کہ نماز کے وقت اسے اوڑھ لیتیں نماز پڑھ کر معًاکھونٹی پر لٹکا دیتیں ۔فرقان حمید کا پڑھنا کبھی قضاء نہ کیا بلکہ میں نے اپنی ماں کی گود میں قرآن سنا اور پھر ان سے ہی پڑھا ۔

(حیات نور ص 9)

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانؓ کی والدہ کا نمونہ کہ آپ کو کس طرح شرک سے نفرت تھی۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بچے اکثر وفات پاجاتے تھے۔ ایک دفعہ آ پ کا ایک بچہ بیمار ہوا۔ بچے کا علاج کیاگیا۔ ایک آدمی تعویذ دے گیا۔اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا۔ لیکن بچے کی والدہ نے تعویذ چھین کر چولہے کی آگ میں پھینک دیا اورکہا کہ میرابھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے۔مَیں ان تعویذوں کو کوئی وقعت نہیں دوں گی۔ بچہ دو ماہ کا ہوا تو وہی جے دیوی ملنے کے لئے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آ پ سے کچھ پارچات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے مترشح ہوتاتھاکہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو۔ اگر تم صدقہ یا خیرات کے طورپر کچھ طلب کروتو مَیں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیارہوں۔ لیکن مَیں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں۔ مَیں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اورحیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی۔ ایسی باتوں کو مَیں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بنا پر مَیں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو اگربچے کی زندگی چاہتی ہوتو میرا سوال تمہیں پورا ہی کرنا پڑے گا۔چند دن بعد آپ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی اور بچے کی طرف اشارہ کرکے دریافت کیا :اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا: “ہاں یہی ہے”جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں۔ آپ نے پھروہی جواب دیا جو پہلے موقع پر دیا تھا۔ اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہوکر کہا :‘‘اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ مَیں جھوٹ کہتی تھی‘‘۔ آپ نے جواب دیا:‘‘ جیسے خدا کی مرضی ہوگی وہی ہوگا’’۔ ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خون کی قے ہوئی اور خون ہی کی اجابت ہوگئی۔ چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی۔ اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی یا اللہ ! تُو نے ہی دیا تھا اور تُونے ہی لے لیا۔ مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں۔اب توُ ہی مجھے صبر عطاکر۔ اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں۔

(اصحاب احمد جلد 11 صفحہ 15۔16)

دکھ اور تکلیفوں کو اللہ کے غضب اور قہر کا ظہور ہی نہیں سمجھنا چاہئے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے اس میں خیر اور رحمت کا سامان ہوتا ہے۔اس کے ذریعے گناہوں کی صفائی اور تطہیر ہوتی ہے۔تکالیف اور بیماریاں اجرو ثواب کا باعث بنتی ہیں۔شرط یہ ہے کہ انسان شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے صبر کا مظاہرہ کرے اور اجر کی امید رکھے۔شکر و صبر استقامت کے ستون ہیںجن کی بدولت رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خانؓ کی والدہ محترمہ نے تقویٰ کا رستہ نہ چھوڑا ۔ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں انعامات سے نوازااور چوہدری ظفر اللہ خانؓ جیسا بیٹا دیا جنہوں نے لمبی عمر پائی اوردنیا میں نام پیداکیا۔

چوہدری محمد حسین والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام ایک دعا گو بزرگ تھے ۔چوہدری محمد حسین کے والد میاں گل محمدؒ قرآن کریم کے بڑے اچھے عالم تھے ۔۔۔والدہ محترمہ تہجد گزار عورت تھیں۔

‘‘چوہدری محمد حسین 3 جون 1925ء کو بیت احمدیہ جھنگ میں مغرب کی سنتیں ادا کرتے ہوئے قیام کی حالت میں قرآن کریم کی یہ دعا کررہے تھے۔

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْ وَا جِنَا وَ ذُرِّ یّٰتِنَا قُرَّ ۃَ اَعْیُنٍ وَّ ا جْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَا مًا

(الفرقان: 75)

اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ اس دوران اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا ۔فرشتے نے وہ بچہ چوہدری مُحمّد حسین صاحب کو پکڑایا اور کہا کہ اللہ کریم نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے۔انہوں نے اس بچے کا نام پوچھا تو آواز آئی “عبدالسلام” یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے زبردست بشارت تھی۔ چوہدری صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا اور ایک خط لکھ کر اپنی بیوی کو اس کشف سے آگاہ کیا۔خدائی بشارتوں کے مطابق یہ بچہ 29 جنوری 1926ء جمعہ کے روز پیدا ہوا۔

(پہلا احمدی ۔۔۔ سائنسدان عبدالسلام ۔ تصنیف محمود مجیب اصغر ص 3۔4 )

ربِّ کریم نے تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ایک والد کی دعاؤں کو قبول فرما کر جو بچہ عنائت فرمایا اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں بہت کامیابیاں ملیںاور یہ بچہ دنیا کا ایک نامور سائنسدان بنا۔

خدا کرے کہ ہم ان نیک نمونوں سے فائدہ اٹھا کر تربیتِ اولاد کا فرض ایسے رنگ میں ادا کریں کہ مخلوق تو کیا خالق کی بارگاہ میں بھی سرخ رو ہوں۔

نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست
ہاتھوں سے جن کی دین کو نصرت نصیب ہو

(حافظ عبدا لحمید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2020

اگلا پڑھیں

چھوڑ ساری سُستیاں