• 24 اپریل, 2024

قرآن اور سائنس

یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ’’کوئی نئی تحقیقات یا علمی ترقی نہیں جو قرآن شریف کو مغلوب کر سکے اور کوئی صداقت نہیں کہ اب پیدا ہو گئی ہو اور وہ قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو‘‘ (ملفوظات جلد5 صفحہ652) نیز فرمایا ’’ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کرینگے قرآن کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہو گی‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ362)

چنانچہ موریس بکالے Maurice Bucaille نے اپنی شہرہ آفاق کتاب دی بائیبل، دی قرآن اینڈ سائنس میں لکھا ہے

The Qur’an did not contain a single statement that was assailable from a modern scientic point of view

یعنی قران کریم میں ایک بھی ایسا بیان نہیں ہے جس پر جدید سائنسی نقطہ نظر سے حملہ ہو سکے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ قرآنی صداقتیں جو پہلے سے ہی کتاب مکنون میں پوشیدہ تھیں سامنے آرہی ہیں۔

چند مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ترجمہ قرآن اور سورتوں کے تعارفی نوٹس سے پیش ہیں

سورۃ الذاریات

وَالذّٰرِیٰتِ ذَرۡوًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۙ﴿۳﴾ فَالۡجٰرِیٰتِ یُسۡرًا ۙ﴿۴﴾ فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ﴿۵﴾

(الذاریات: 2-5)

پانی کا نظام

حضرت مسیح موعود نے ان آیات کی سائنسی تشریح کی ہے اور اسے دنیا میں پانی کے نظام پر منطبق کیا ہے فرمایا. ’’ان ہواؤں کی قسم ہے جو سمندروں اور دوسرے پانیوں سے بخارات کو ایسے جدا کرتی ہیں جو حق جدا کرنے کا ہے پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو ان گرانبار بخارات کو حملدار عورتوں کی طرح اپنے اندر لے لیتی ہے پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو بادلوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے چلتی ہیں پھر ان فرشتوں کی قسم ہے جو در پردہ ان تمام امور کے منصرم اور انجام دہ ہیں یعنی ہوائیں کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت رکھتی ہیں جو خود بخود بخارات کو سمندروں میں سے اٹھاویں اور بادلوں کی صورت بنا دیں اور عین محل ضرورت پرجا کر برسا دیں اور اور مقسم امور بنیں یہ تو در پردہ ملائک کا کام ہے سو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں اول حکمائے ظاہر کے طور پر بادلوں کے برسنے کا سبب بتلایا اور بیان فرمایا کہ کیونکر پانی بخار ہو کر بادل اور ابر ہو جاتا ہے اور پھر آخری فقرہ میں یعنی فالمقسمات امرا میں حقیقت کو کھول دیا اور ظاہر کر دیا کہ کوئی ظاہر بین یہ خیال نہ کرے کہ صرف جسمانی علل اور معلولات کا سلسلہ نظام ربانی کے لئے کافی ہے بلکہ ایک اور سلسلہ علل روحانیہ کا اس جسمانی سلسلہ کے نیچے ہے جس کے سہارے سے یہ ظاہری سلسلہ جاری ہے‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ135-136)

آئندہ پیش آمدہ جنگی

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اس سورۃ میں آئندہ زمانہ میں پیش آمدہ جنگوں کو پھر بطور گواہ ٹھہرایا گیا تاکہ جب بنی نوع انسان ان پیشگوئیوں کو یقینی طور پر پورا ہوتا دیکھ لیں تو اس بات میں شک نہ رہے کہ جس رسول پر غیب کھولا گیا، مرنے کے بعد کی زندگی کے امور بھی یقینی طور پر اسے عالم الغیب اللہ نے بتائے

فرمایا ’’قسم ہے بیج بکھیرنے والیوں کی……‘‘ اب ظاہری طور پر لفظاً لفظاً بھی یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے کیونکہ واقعی آجکل ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ بیج بکھیرے جاتے ہیں اور بڑے بڑے بوجھ اٹھا کر جہاز اڑتے ہیں اور باوجود ان بوجھوں کے سبک رو ہوتے ہیں اور اہم اطلاعات ان جہازوں کے ذریعہ مختلف غالب قوموں کی پہنچائی جاتی ہیں……

(تعارفی نوٹ سورۃ الذارہات)

سورۃ النازعات

وَالنّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ﴿۲﴾ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ﴿۳﴾ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ﴿۴﴾ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا ﴿۵﴾

(النازعات: 2-5)

جنگوں میں آبدوز کشتیوں کا ااستعمال

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع تحریر فرماتے ہیں کہ ’’قرآنی اسلوب کے مطابق.. اس سورۃ میں… ایسی جنگوں کا ذکر ہے جس میں آبدوز کشتیاں استعمال ہوں گی والنازعات غرقاکا ایک معنی یہ ہے کہ وہ لڑائی کرنے والیاں اس غرض سے ڈوب کر حملہ کرتی ہیں کہ دشمن کو غرق کر دیں اور پھر اپنی کامیابی پر خوشی محسوس کرتی ہیں اور اسی طرح جنگ و جدال کی یہ دوڑ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں صرف ہو جاتی ہے اور دونوں طرف سے دشمن بہت بڑی بڑی تدبیریں کرتا ہے

والسابحات سبحا سے تیرنے والیاں مراد ہیں خواہ وہ سمندر کے اندر غرق ہو کر تیریں یا سطح سمندر پر اور بسا اوقات آبدوز کشتیاں اپنی فتح کے بعد سطح سمندر پر ابھر آتی ہیں‘‘ (تعارفی نوٹ سورۃ النازعات)

یہ حیرت انگیز بات ہے کہ قران کریم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ساتویں صدی (610 _ 632) عیسوی میں نازل ہوا اور آب دوز کشتی submarine کی ایجاد 17 ویں صدی میں ہوئی 1578ء میں ایک برٹش ریاضی دان ولیم براون William Brourne نے تجرباتی کام کیا اور پہلی آبدوز ہالینڈ کے ایک Dutch Polymath کارنیلئس ڈریبل Crnelius Drebbel نے 1620 _ 1624 میں تعمیر کی جو کہ آبدوز کا موجد اور انجینئر شمار ہوتا ہے

سورۃ المرسلات

وَالۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ﴿۳﴾ وَّالنّٰشِرٰتِ نَشۡرًا ۙ﴿۴﴾ فَالۡفٰرِقٰتِ فَرۡقًا ۙ﴿۵﴾ فَالۡمُلۡقِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ﴿۶﴾ عُذۡرًا اَوۡ نُذۡرًا ۙ﴿۷﴾ اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ ﴿۸﴾

(المرسلات: 2-8)

فرمایا ’’… کچھ ایسے اڑنے والوں کا ذکر ہے جو آغاز میں آہستہ اڑتے ہیں اور پھر تیز آندھیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں فی زمانہ تیز ترین جہازوں کا بھی یہی حال ہے کہ آہستہ آہستہ اڑتے ہیں اور پھر آندھیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں فی زمانہ تیز ترین جہازوں کا یہی حال ہے کہ آہستہ آہستہ روانہ ہوتے ہیں اور پھر ان کی رفتار میں بے حد سرعت پیدا ہو جاتی ہے اور ان جہازوں کے ذریعے دشمن سے لڑائی کے دوران کثرت سے اشتہار پھینکے جاتے ہیں اور یہ فرق ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ ہو تو ہم تمہارے مدد گار ہوں گے ورنہ ہماری پکڑ ے تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا

(تعارفی نوٹ سورۃ المرسلات)

بری، بحری اور فضائی جنگیں

اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ ﴿ۙ۳۱﴾ لَّا ظَلِیۡلٍ وَّلَا یُغۡنِیۡ مِنَ اللَّہَبِ ﴿ؕ۳۲﴾ اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ ﴿ۚ۳۳﴾ کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌ ﴿ؕ۳۴﴾

(المرسلات: 31-34)

فرمایا ’’جن آئندہ جنگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ تین شعبوں والی ہو گی یعنی بری بھی، بحری بھی اور فضائی بھی اور آسمان سے ایسے شعلے برسیں گے جو قلعوں سے مشانہ ہوں گے گویا وہ جوگیا رنگ کے اونٹ ہیں ان.. آیات سے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ یہ باتیں تمثیلی رنگ میں ہو رہی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی ایسی لڑائی کا تصور موجود نہیں تھا جس میں آسمان سے زمین شعلے برسیں۔ اس لئے لازماً یہ اس علیم و خبیر ہستی کی طرف سے ایک پیشگوئی ہے جو مستقبل کے حالات بھی جانتا ہے… یہاں ایک ایٹمی جنگ کی پیشگوئی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر سورۃ دخان میں بھی ملتا ہے کہ اس دن آسمان ان پر ایسی ریڈیائی لہریں برسائے گا کہ اس کے سائے تلے وہ ہر امن سے محروم ہو جائیں گے‘‘ …

(تعارف سورۃ المرسلات)

اس زمانے کی علوم و فنون کی ترقی
کے بارے میں ایک نکتہ معرفت

چونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ہمت اور توجہ دنیوی برکات کی طرف زیادہ مصروف تھی اس لئے ان کی امت میں یہ اثر ہوا کہ رفتہ رفتہ دینی علوم سے تو وہ بکلی بے بہرہ ہوگئے مگر دنیا کی برکتیں جیسا کہ علم طبعی، علم ڈاکٹری، علم تجارت، علم فلاحت، علم جہاز رانی، اور ریل رانی وغیرہ اس میں وہ بے نظیر ہو گئے بر خلاف اس کے دینی عمیق اسرار مسلمانوں کے حصے میں آئے اور دنیا میں پیچھے رہے‘‘

(ایام الصلح، صفحہ157 حاشیہ بحوالہ تفسیر جلد8 صفحہ437 – 438)

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

چوہدری رشیدالدین مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2022