• 24 اپریل, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط نمبر 23)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
فصاحت بلاغت کا ایک الٰہی نشان
قسط نمبر 23

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے۔ خدا نے نبوت آنحضرتﷺ کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں

  1. خدا نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا۔ سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں۔ یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہوا غور سے سوچو!!!
  2. ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا۔
  3. ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کا اعجاز کے طور پر دکھلایا غرض فصاحت بلاغت کا ایک الٰہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعویٰ کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے‘‘

(حجۃ اللہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ162-163)

اس اقتباس میں موجود صداقت کا تیسرا نشان جو آنحضور ﷺ اور ان کے ظل کو عنایت ہوا فصاحت بلاغت کا الٰہی نشان ہے۔

فصاحت و بلاغت کیا ہے؟ بات کو ایسے طریق پر بیان کرنا کہ کلام خوب صورت بھی ہو پُر اثر بھی اور آسانی سے سمجھ میں بھی آسکے ہر شخص بولنے کی صلاحیت سے کسی نہ کسی حد تک اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے اور جوں جوں فراست اور تجربہ بڑھتا جاتا ہے اپنے کلام کو مختلف طریق سے زیادہ مؤثر اور خوب صورت بناتا جاتا ہے مناسب الفاظ چن کر انہیں صحیح ترتیب دے کر۔ مثالیں لا کر (تشبیہ و استعارہ وغیرہ) تزئین کلام کے دوسرے فنون (صنائع بدائع) استعمال کر کے ’اور ترقی کرتے کرتے بعض اشخاص ایسا کمال حاصل کرلیتے ہیں کہ پھر بغیر کوشش اور تردد کے ان کی زبان اور قلم سے فصیح و بلیغ کلام نکلتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا کلام حدیثِ قدسی ان من البیان لسحرا۔ کے مطابق سحرحلال بن جاتا ہے۔ اس سحر حلال کو نظم کی شکل میں ڈھال لیا جائے تو اسی کا نام شاعری ہے جو بعض ادباء کے نزدیک فصاحت و بلاغت کا انتہائی مقام ہے۔

(درثمین فارسی کے محاسن صفحہ17)

بلاغت تو یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو انسان میں گونا گوں خیالات اور جذبات پائے جاتے ہیں کبھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی۔ ایک وقت بیتابی و بے قراری ہے تو دوسرے وقت راحت و سکون۔ کبھی مستی و بے ہوشی ہے۔ اور کبھی باخودی و ہشیاری۔ پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو کلام اگر اس میں ڈوبا ہوا ہو کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھینچا جاتا ہے تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار تو وہ کلام بلیغ کہلائے گا

(مقدمہ ہشت بہشت صفحہ8)

فصاحت و بلاغت کا سب سے بڑا شہکار قرآن کریم ہے جو رحمان خدا نےہمارے سیدو مولا حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا فرمایا۔

وَلَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡلَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕء َؔاَعۡجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّؕ قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّشِفَآءٌ ؕ وَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ

(حٰمٓ سجدہ: 45)

اور اگر ہم نے اسے اعجمی (یعنی غیر فصیح) قرآن بنایا ہوتا تو وہ ضرور کہتے کہ کیوں نہ اس کی آیات کھلی کھلی (یعنی قابل فہم) بنائی گئیں؟ کیا اعجمی اور عربی (برابر ہوسکتے ہیں)؟ تُو کہہ دے کہ وہ تو ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے اُن کے کانوں میں بہراپن ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان پر مخفی ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دُور کے مکان سے بلایا جاتا ہے۔

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَلَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا

(بنی اسرائیل: 89)

تُو کہہ دے کہ اگر جِنّ و انس سب اکٹھے ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے خواہ ان میں سے بعض بعض کے مددگار ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن پاک کو خاتم الکتب فرماتے ہیں جو خاتم النبیین ؐپر نازل فرمایا گیا۔ فرماتے ہیں:
’’خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اس قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقاماتِ کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالاتِ تعلیم، کیا باعتبار ثمرا تِ تعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلوسے چاہو۔مقابلہ کرو خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ26-27 ایڈیشن 2003ء)

حضرت مفتی محمد صادق ؓ نے حضرت اقدس ؑ کا ایک فرمان لکھا ہے:
’’فرمایا لوگوں کی فصاحت و بلاغت الفاظ کے ماتحت ہو تی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔جیسے ایک عرب نے لکھا کہ سافرت الی روم وانا علیٰ جمل مأتوم۔ میں روم کو روانہ ہوا اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا ۔ جس کا پیشاب بند تھا۔ یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے۔ کہ اس میں سارے ایسے موتی پرودئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت و بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں‘‘

(ذکر حبیب صفحہ242)

حضرت نبی کریم ﷺ اُمّی تھے تاہم اللہ پاک نے آپؐ کو عرب میں سب سے زیادہ فصیح بنایا تھا۔ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کی اس قدر فصاحت کا سبب کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا
اَنَا اَعْرَبُكُمْ، اَنَا قُرَشِيٌّ، وَاسْتُرْضِعْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ یعنی میں عربی میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریشی ہوں اور میری رضاعت بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ681)

آپؐ کا فرمان ہے اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِم یعنی مجھے جَوَامِعُ الْکَلِم عطا کئے گئے۔

(مسلم حدیث: 1167)

یہ جوامع الکلم آپ ﷺکی عظمتِ نبوت کا ثبوت ہیں اور یہ آپ ؐ کے خصائصِ عظیمہ میں سے ہیں جو آپ کے علاوہ دیگر انبیاء کو عطا نہ ہوئے

آپ ؐ کے بیان کی شیرینی معجزانہ رنگ رکھتی تھی۔

مختصر سے جملوں میں حکمت کے سمندر بند ہیں۔ معانی کے لامتناہی خزائن ہیں۔ کلام اتنا واضح ہوتا کہ کسی قسم کے ابہام کا شائبہ بھی نہ ہوتا۔ تکلف اور بناوٹ سے پاک تقویٰ شعار دل کی آواز جو جادو کی طرح اثر رکھتی۔ سادگی اور سچائی دلوں پر اثر کرتی۔ خوش بیانی اور شگفتگی بے مثال تھی ہر شخص اپنے فہم کے مطابق آپؐ کے الفاظ سے علم و حکمت کشید کرسکتا ہے کلام اللہ کے بعد فصاحت میں آپ کا مقام ہے۔ فُصحاء و بُلغاء آپ کا کلام سُن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ یہ سراسر عنایت الہٰی تھی۔ پندرہ سو سال سے ان گنت کتابیں آپؐ کے کلمات کی تشریح میں لکھی جارہی ہیں۔ رسولِ کریمﷺکا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور شیر خواری اور بچپنے کی عمر بنو سعد میں گزاری۔ مذکور ہ قبائل عربی زبان دانی میں نام رکھتے تھے۔ اس طرح مولا کریم نے بچپن سے ہی بہترین چیزوں کا آپ ؐ کے لئے انتظام فرمایا۔ آپؐ کی گفتگو میں قلیل الفاظ میں گہری اور بڑی بات کہہ جانے کا انداز ملتا ہے گفتگو میں کوئی لفظ کم یا زیادہ نہ ہوتا کوئی ابہام یا مبالغہ نہ ہوتا۔ سننے والے کو نہ کمی محسوس ہوتی نہ بے جا طوالت پریشان کرتی بات کا ہر پہلو مکمل ہو تا آپؐ نے کسی سے بلاغت نہیں سیکھی تھی اور نہ اہل بلاغت کی محفلوں میں بیٹھے تھے بلاغت آپؐ کی جبلت اور فطرت میں شامل تھی جو فیضان الٰہی سے عطا ہوئی تھی دست قدرت نے آپ ؐ کو ادب سکھایا تھا عام گفتگو میں بھی مخاطب کے ذوق و ذہنی سطح کا خیال رکھ کر بات کرتے نصیحت کے الفاظ میں بھی تنوع اور جاذبیت ہے

قرآن پاک نے شہادت دی

وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕاِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی

(النجم: 4-5)

اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتا۔ یہ تو محض ایک وحی ہے جو اُتاری جارہی ہے۔

حضرت حسن بن علیؓ نے آپؐ کے اندازِ تکلم کے بارے میں بیان کیا کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے انداز کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ ہمیں یوں لگتے جیسے کسی مسلسل اور گہری سوچ میں ہیں اور کسی خیال کی وجہ سے کچھ بے آرامی سی ہے آپؐ اکثر چپ رہتے۔ بلا ضرورت بات نہ کرتے۔آپ بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے۔ آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ پر حکمت اور جامع مضامین پر مشتمل اور زائد باتوں سے خالی ہوتی۔ لیکن اس میں کوئی کمی یا ابہام نہیں ہوتا تھا۔ نہ کسی کی مذمت و تحقیر کرتے نہ تو ہین و تنقیص، چھوٹی سے چھوٹی نعمت کو بھی بڑا ظاہر فرماتے۔ شکرگزاری کا رنگ نمایاں تھا۔ کسی چیز کی مذمت نہ کرتے۔ نہ اتنی تعریف جیسے وہ آپؐ کو بے حد پسند ہو۔

(شمائل الترمذی باب کلام رسول اللہؐ)

حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے نطق گویائی کے بارے میں فرمایا
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یونہی باتوں میں نہیں لگے رہتے تھے ’’جس طرح تم لوگ باتیں کرتے چلے جاتے ہو بلکہ وہ ایسے انداز میں کلام کرتے تھے جو واضح نکھرا نکھرا ہوتا جسے آپؐ کے پاس بیٹھنے والا حفظ کرلیتا تھا۔‘‘

آنحضور ؐ اکثر چپ رہتے تھے۔ بلا ضرورت بات نہ کرتے تھے۔ جب بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے۔ آپؐ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ، پُر حکمت اور جامع ہوتی۔ کسی کی مذمت و تحقیر نہ کرتے اور نہ توہین و تنقیض۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ48)

آپؐ کی فصاحت و بلاغت کا ایک رخ آپؐ کی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نظر آتا ہے۔ ایسے دلگداز الفاظ ہیں کہ روح پگھل جاتی ہے۔ وہ خاکساری ’عاجزی‘ بے خودی اور خود سپردگی ہے جو معبود کو لبھالیتی ہے طلب میں وہ جامعیت ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔

’’اربعین از کلام حضور سید المرسلین ﷺ‘‘ انتخاب کردہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ میں شامل ساری احادیث دو یاتین الفاظ پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا انتخاب چالیس جواہر پارے میں شامل احادیث بھی طویل نہیں ہیں مگر پُر حکمت معانی کا ایک جہان ہیں۔ ایک ایک کلمہ فصاحت بلاغت کی نادر مثال ہے۔

آپ ؐ کے عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آسمان سے فصاحت و بلاغت کا نشان عطا فرمایا گیا تھا الہام ہوا:

در کلامے تو چیزے است کہ شعراء را در آں دخلے نیست

(تذکرہ صفحہ 805)

تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

آپ ؑ کے کلام میں وہ کیا چیز تھی جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔ محاسن کلام کی تعیین لفظی اور معنوی حسن و جمال فن صنائع و بدائع کے خوب صورت برتاؤ سے ہوتی ہے۔یہ خوبیاں کم و بیش بہت سے شعرا میں مل جائیں گی۔ کس وصف نے آپؑ کو ایسا امتیاز بخشا۔ کہ کوئی بھی دنیاوی کلام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ ممتاز وصف یہ تھا کہ آپؑ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ؐ تھے۔ آپؑ کی زبان سے خدا بولتا تھا آپ ؑ کا قلم خدا کے ہاتھ میں تھا۔ غیب سے مضامین اور الفاظ سوجھتے تھے۔ اور ان میں جذب و اثر رکھا جاتا تھا۔ پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہونے والے نے کسی یونیورسٹی سے زبان و ادب نہیں سیکھا تھا۔ شعرو سخن کے اساتذہ کرا م کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا تھا۔ بلکہ طفلِ شیر خوار کی طرح اللہ پاک کی گود میں رہے تھے وہیں سے زبان سیکھی تھی قرآن مجید کا درس لیا تھا اور ڈوب کے پڑھا تھا۔ آپؑ کو وہ صلاحیت عطا ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے کلام کو سمجھ کے اتنی ہی خوب صورتی کے ساتھ آگے سمجھا سکیں۔ آپؑ اس زمانے کے مامور تھے مخاطب ساری دنیا تھی۔ مقصد شعرو شاعری سے نہیں تھا آپ کو تو کسی ڈھب سے پیغام دینا تھا۔ عربی فارسی اردو میں نظم نثر لکھتے رہے قلم کے جہاد کا حق ادا کیا۔

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار

یہ سب رحمان خدا کی عطا تھی۔ آپ ؑ کو الہام ہوا

کَلَامٌ أُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ

(تذکرہ صفحہ805)

یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی بارش دیکھئے۔ حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:
’’11؍اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ أُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے…تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کرسکے۔ جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہو گی۔ سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ مَیں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا۔ چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کرسکے۔ یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ375-376)

نیز حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:
’’قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود عربی زبان میں میرا کمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے واضح نشان ہے تاکہ وہ لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ کرسکے اور اس معمولی کوشش کے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے‘‘

(ترجمہ از مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد11 صفحہ234)

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ437)

’’براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔‘‘

(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ235)

تاریخ میں مقام

یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے۔ حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعدنہیں ملتی۔

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ85-86)

خطبہ الہامیہ پڑھنے والے کو بھی اعجازی طاقت عطا ہوئی حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:
اس روز ہماری جماعت کے بہادر سپاہی اور اسلام کے معزز رکن حبی فی اللہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے مضمون کے پڑھنے میں وہ بلاغت فصاحت دکھائی گویا ہر لفظ میں ان کو روح القدس مدد دے رہا تھا‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ316)

اس سلطان القلم نے براہین احمدیہ سے پیغام صلح تک تقریبا 90ًکتب جو دس ہزارصفحات پر مشتمل ہیں (ان میں قریباً 22 عربی زبان میں ہیں)اپنے معجز نما قلم سے تحریر فرمائیں۔20 ہزار سے زائد اشتہارات مشتہر فرمائے نوے ہزار سے زائد مکتوبات تحریر فرمائے عربی،اردو اور فارسی میں گراں قدرمنظوم کلام کے الوہی چشمے اچھال دئے اور اس شاہانہ انداز میں گویا کہ مالک الملک آپ کے ہاتھ سے خود لکھوا رہا ہے۔آپ فرماتے ہیں۔
’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر مشتمل ہوتی ہے (۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقّت اُٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ (۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں اور اس وقت مَیں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں۔۔۔ مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ434-435)

جس مقدس وجود نے اللہ تعالیٰ سے تعلیم پائی ہو اُس کے کلام کی وجاہت ’بلاغت کے سحر اور اسلوب و بیان کی خوبیاں بیان کرنا آسان کام نہیں۔یہ آسمانی سلسلے ہیں۔ کلمات قدسیہ ہیں۔جن کی سمجھ بھی خدا کے فضل و احسان سے عطا ہوتی ہے۔ اس انوکھی جادوگری کا اقرار اگر اغیار کی طرف سے ہو تو زیادہ جاذبِ توجہ ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار وکیل امرتسر میں پیش کیا ہواخراجِ تحسین ملاحظہ ہو۔

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر اور زبان جادو….وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہو کر خفتگانِ خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا…. مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابل پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرتی پڑتی ہے۔‘‘

(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ بدر 18جون 1908)

کرزن گزٹ دہلی میں شائع ہونے والی اس کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی کی 1908ء کی درج ذیل تحریر آج بھی زندہ ہے
’’مرحوم کی وہ اعلی خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں اس نے مناظرہ کا رنگ بالکل ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابل زبان کھول سکے۔اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں ایسی قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندیٴ ہند میں بھی اس قوت کا لکھنے والا نہیں اس کا پُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ 565-566)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بالکل جداگانہ ہے اس کے اندر اتنی روانی اور سلاست پائی جاتی ہے کہ وہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جا رہی ہیں اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد سہاگہ پھیرتا ہے تو سہاگہ کے ارد کرد گھاس لپٹتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر انسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جارہی ہے اور یہ انتہا درجے کی ناشکری اور بے قدری ہوگی اگر ہم اس عظیم الشان طرزِ تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد13صفحہ217)

مثال اور ثبوت کے لئے عربی ’’فارسی‘‘ اردو کی نثر ونظم کی ہر کتاب ’’صفحہ‘‘ پیرا ’’سطر‘‘ لفظ پڑھئے

مِلتی ہے بادشاہی اِس دِیں سے آسمانی
اَے طالبانِ دولت! ظِلِّ ہُما یہی ہے

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

چوہدری رشیدالدین مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2022