• 24 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 19؍نومبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 19؍نومبر 2021ء بمقام بیت المبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

یہی صحابہؓ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے۔۔۔ جب اُنہوں نے آنحضرتؐ کو قبول کیا اور دین کے لیئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صِرف خود ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے، وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اِسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر اُنہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے، آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں۔

اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی ضائع ہو کر مَر گئی تو مجھے ڈر ہے کہ الله تعالیٰ مجھے قیامت کے دن اُس کے بارہ میں سوال کرے گا۔

لڑکی نے کہا، خدا کی قسم! یہ بات تو ہمارے لیئے مناسب نہیں ہے کہ سامنے تو ہم اُن کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کرنے لگیں، حضرت عمرؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے ۔۔۔ اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا ۔۔۔ اُس سے عاصم کی ایک لڑکی پیدا ہوئی ،حضرت عمربن عبدالعزیز اِسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔

صحابہؓ سے ایسے خوارق کثرت سے ثابت ہیں۔۔۔ پس دریائے نیل کے جاری کرنے والے واقعہ کو بھی ہم دیکھیں تو بعید نہیں کہ وہ بھی صحیح واقعہ ہی ہو جس کو بعض تاریخ دان صحیح نہیں مانتے۔

امیر المؤمنین! فلاں دن ،فلاں وقت اپنی وادی میں تھے کہ بادلوں نے ہم پر سایہ کیا اور ہم نے اُس میں سے ایک آواز سُنی کہ ابوحفص کی بارش تمہارے پاس آئی، ابو حفص کی بارش تمہارے پاس آئی۔

حضرت عمرؓ کی خشیّتِ الٰہی کا یہ حال تھا کہ جب فوت ہونے لگے تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے تھے کہ مَیں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں، مَیں تو صِرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا!صحابہؓ کی پہلی حالت اور اسلام قبول کرنے کے بعد انقلاب جو اِن کی حالتوں میں آیا ، اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ نے ایک مثال حضرت عمرؓ کی بھی دی ہے۔

آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پھراِس حوالہ سے حضرت المصلح الموعودؓ کے بیان کردہ حضرت عمرؓ کے قبولیتِ اسلام کے لمبے واقعہ کا خلاصہ بیان کیا نیز فرمایا! حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں ۔۔۔یہی صحابہؓ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے، آپس میں لڑا کرتے تھے(اور صحابہؓ کا بھی ذکر ہے) اور کئی قسم کی کمزوریاں اُن میں پائی جاتی تھیں لیکن جب اُنہوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کیا اور دین کے لیئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صِرف خود ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے، وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اِسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر اُنہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے، آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں۔

حضرت عمرؓ کی خشیّتِ الٰہی کی حالت

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ! اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی ضائع ہو کر مَر گئی تو مجھے ڈر ہے کہ الله تعالیٰ مجھے قیامت کے دن اُس کے بارہ میں سوال کرے گا، ایک دوسری روایت کا بھی تذکرہ ہؤا جس میں اونٹ کا ذکر ہے۔

الله کی قسم! تو ضرور الله سے ڈر

حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ مَیں نے آپؓ کو یہ کہتے سُنا، واہ واہ اَے خطاب کے بیٹے عمرؓ ! تو امیر المؤمنین ہے، الله کی قسم! تو ضرور الله سے ڈر وَرنہ وہ ضرور تجھے عذاب دے گا۔

واعظ ہونے کے لحاظ سے موت کافی ہے

حضرت عمرؓ کی انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ تھا کہ کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظًا یَا عُمَرُ کہ اَے عمر! واعظ ہونے کے لحاظ سے موت کافی ہے یعنی اگرانسان موت کو یاد رکھے تو وہی نصیحت کرنے والی ایک چیز ہے اور اپنی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیئے یہی چیز کافی ہے۔

مَیں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سُنیں

عبداللهؒ بن شداد کہتے تھے کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سُنیں اور مَیں آخری صف میں تھا آپؓ یہ تلاوت کر رہے تھے ۔

اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللهِ (یوسف: 87)

یعنی مَیں تو اپنے رنج و اَلم کی صِرف الله کے حضور فریاد کرتا ہوں۔

اِس روایت کو ایک خطبہ میں حضرت خلیفتہ المسیحِ الرّابعؓ نے بھی بیان فرمایا تھا اور اُس کی تفصیل کچھ اپنے الفاظ میں بھی اِس طرح بیان کی تھی کہ حضرت عبداللهؒ بن شداد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نماز پڑھا رہے تھے اور مَیں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمرؓ کی گریہ و زاری کی آواز سُن رہا تھا وہ یہ تلاوت کر رہے تھے اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللهِ کہ مَیں تو اپنے الله ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا کسی اور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے، پس جو ذکرِ اِلٰہی میں گم رہتے ہیں اُن کو خدا کے سواء کسی اور کا دربار ملتا ہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں۔

پرانے خدمت اور قربانی کرنے والوں کا خیال

ثعلبہ بن ابو مالکؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اہلِ مدینہ کی عورتوں میں سے بعض کو اوڑھنیاں تقسیم کیں۔۔۔اِن میں سے ایک اچھی اوڑھنی بچ گئی جو لوگ اُن کے پاس تھے اُن میں سے کسی نے اُن سے کہا کہ اَے امیر المؤمنین!آپؓ یہ رسول اللهؐ کی اُس بیٹی کو دیں جو آپؓ کے پاس ہے (اُس کی مراد حضرت علیؓ کی بیٹی حضرت امّ کلثومؓ تھیں)، حضرت عمرؓ نے کہا! نہیں، امّ سَلِیطؓ اِس کی زیادہ حقدار ہیں، حضرت امّ سَلِیطؓ اُن انصاری عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللهؐ کی بیعت کی تھی۔۔۔ وہ جنگِ اُحد کے دن ہمارے لیئے مشقیں اُٹھا کر لاتی تھیں۔

قربانی کرنے والوں کے قریبیوں کو بھی نوازنے کا ذکر

زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کی، کہتے تھے مَیں حضرت عمرؓ بن خطاب کے ساتھ بازار گیا، حضرت عمرؓ سے ایک جوان عورت پیچھے سے آ ملی اور کہنے لگی، اَے امیر المؤمنین! میرا خاوند فوت ہو گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے، الله کی قسم! بکری کے پائے بھی اُنہیں نصیب نہیں، نہ اُن کی کوئی کھیتی ہے اور نہ دودھیل جانوراور مجھے ڈرہے کہ کہیں اُن کو قحط سالی نہ کھا جائے اور مَیں خفافؓ بن ایماء ؓ غفّاری کی بیٹی ہوں اور میرے والد حدیبیہ میں نبیٔ کریمﷺ کے ساتھ موجود تھے، حضرت عمرؓ یہ سُن کر ٹھہر گئے اور آگے نہیں چلے، حضرت عمرؓ نے کہا،واہ واہ! بہت نزدیک کا تعلق ہے، اِس کے بعد حضرت عمرؓ نے واپس جا کر ایک مضبوط اونٹ لیا جو گھر میں بندھا تھا اور دو بوریاں اناج سے بھریں اور اُن پر لادیں اور اُن کے درمیان سال بھر کے خرچ کے لیئے مال اور کپڑے بھی رکھے اور پھر اُس اونٹ کی نکیل اُس عورت کے ہاتھ میں دے دی اور کہا! اِسے لے جاؤ، یہ ختم نہیں ہو گا کہ الله تمہیں اور دے گا۔ ایک شخص کہنے لگا کہ امیر المؤمنین! آپؓ نے اِس کو بہت دے دیا ہے، حضرت عمرؓ نے کہا! تیری ماں تجھے کھوئے( یعنی ناراضگی کا اظہار کیا) کہ الله کی قسم!

مَیں تو اِس کے باپ اور اِس کے بھائی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ اُنہوں نے عرصہ تک ایک قلعے کا محاصرہ کیئے رکھا جسے اُنہوں نے آخر فتح کر لیا پھر اِس کے بعد صبح کے وقت ہم اِن دونوں کے حصے اپنے درمیان تقسیم کرنے لگے ۔۔۔گویا ہم نے اُن کے حصہ میں سے بانٹا، پس یہ وجہ ہے کہ اِس کی حقدار بنتی ہے کہ اِسے کچھ دیا جائے۔

بوڑھی اور معذورضرورت مند عورتوں اور لوگوں کا خیال

حضرت طلحٰہؓ کہتےہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کی تاریکی میں گھر سے نکلے تو حضرت طلحٰہؓ نے دیکھ لیا، حضرت عمرؓ ایک گھر میں داخل ہوئے، پھر دوسرے گھر میں داخل ہوئے، جب صبح ہوئی تو حضرت طلحٰہؓ اُس گھر میں گئے، وہاں ایک نابینا بُڑھیا بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔حضرت طلحٰہؓ نے اُس سے پوچھا! جو شخص تیرے پاس آتا ہے رات کو وہ کیا کرتا ہے؟ بُڑھیا نے جواب دیا! وہ کافی عرصہ سے میری خدمت کر رہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دُور کرتا ہے، یہ سُن کر حضرت طلحٰہؓ نے ندامت سے اپنے آپ کو کہا! اَے طلحٰہ تیری ماں تجھے کھوئے۔۔۔ کہ عمرؓ کی لغزششوں کی کھوج میں ہے یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔

رعایاء کی خدمت کے عظیم معیار

رعایاء کی خدمت کے یہ عظیم معیار تھے جو حضرت عمرؓ نے قائم فرمائے۔حضرت عمرؓ کی لوگوں، ضرورتمندوں، عورتوں، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی بہت سی روایات ہیں کہ کس طرح الله تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے آپؓ پوری کیا کرتے تھے اور کس طرح بے چین ہو جایا کرتے تھے، آپؓ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوئی اور آپؓ کی رعایاء میں ہے وہ تو بہت بے چین ہوتے تھے، بعض مثالیں مَیں گزشتہ ہفتوں کے جُمعوں میں مختلف حوالوں سے پیش کر چکا ہوں ۔ اِس ضِمن میں دودھ پیتے بچے کا راشن مقرر کرنے نیزایک مسافر خاتون جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور اُس کے بچے بھوک سے رو رَہے تھے پر مبنی روایات بیان فرمائیں نیز مؤخر الذکر روایت کے بارہ میں ارشاد فرمایا۔

عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تِلملا اُٹھا

حضرت المصلح الموعودؓ نے اِس کو بیان کیا کہ حضرت عمرؓ کو دیکھ لو! اُن کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے تھے، قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تِلملا اُٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں لَوٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمنان سے سو نہ گئے۔

حقِ مظلومیت کو پچیس دینار میں خرید لیا

حضرت ابنِ عمرؓ سے مروی ہے، حضرت عمرؓ جب شام سے مدینہ لوٹ کر آئے تو لوگوں سے الگ ہو گئے تاکہ اُن کے احوال معلوم کریں تو آپؓ کا گُزر ایک بڑھیا کے پاس سے ہؤا جو اپنے خیمہ میں تھی، آپؓ اِس سے پوچھ گچھ کرنے لگے تو اُس نے کہا، اَے شخص! عمرؓ نے کیا کیا! آپؓ نے کہا، وہ ادھر ہی تو ہے اور شام سے آ گیا ہے تو اُس عورت نے کہا! خدا اُس کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے، آپؓ نے فرمایا! تجھ پر افسوس ہے کیوں؟اُس نے کہا! جب سے وہ خلیفہ ہؤا ہے، آج تک مجھے اُس کا کوئی عطیّہ نہیں مِلا، نہ کوئی دینار اور نہ کوئی دِرہم! حضرت عمرؓ نے فرمایا! تجھ پر افسوس اور عمرؓ کو تیرے حال کی خبر کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ جبکہ تو ایسی جگہ بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔ تو اُس نے کہا، سبحان الله! مَیں گمان نہیں کرتی کہ کوئی لوگوں پر وَالی بن جائے اور اُس کو یہ خبر نہ ہو کہ اُس کے آگے مشرق و مغرب میں کیا ہے، تو عمرؓ روتے ہوئے اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہائے عمرؓ، ہائے !کتنے دعویدار ہوں گے، ہر ایک تجھ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا ہے ، اَے عمرؓ! پھر اُس سے فرمایا ،حضرت عمرؓ نے کہ تو اپنی مظلومیت کے حق کو اِس کے ہاتھ کتنے میں بیچتی ہے کہ مَیں اُس کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں۔۔۔ اُس نے کہا! ہم سے مذاق نہ کر، خدا تجھ پر رحمت کرے! تو اِس سے حضرت عمرؓ نے فرمایا! یہ مذاق نہیں ہے، حضرت عمرؓ اُس سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اُس کے حقِ مظلومیت کو پچیس دینار میں خرید لیا۔

اولاد کا رشتہ دیکھنے کے لیئے حضرت عمرؓ کا معیار

 اولاد کا رشتہ دیکھنے کے لیئے لوگ کیا معیار رکھتے ہیں، آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں بڑے بڑے اونچے معیار ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا کیا معیار تھا۔۔۔حضرت اسلم سے مروی ہے جو حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات میں مَیں امیر المؤمنین کے ساتھ مدینہ کی اطراف میں پِھر رہا تھا، آپؓ نے ایک گھڑی کے لیئے(یعنی کچھ وقت کے لیئے) اِستراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا، آپؓ نے سُنا ۔۔۔ گھر کے اند ر بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اُٹھ اور دودھ میں پانی مِلا دے، لڑکی نے کہا! آپ نہیں جانتیں کہ امیر المؤمنین کے منادی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ مِلایا جائے، ماں نے کہا! نہ اِس وقت امیر المؤمنین موجود ہے اور نہ اُس کا منادی۔ لڑکی نے کہا، خدا کی قسم! یہ بات تو ہمارے لیئے مناسب نہیں ہے کہ سامنے تو ہم اُن کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کرنے لگیں، حضرت عمرؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا! اَے اسلم،اِس مکان پر نشان لگا دو، دوسرے دن آپؓ نے کسی کو بھیجا اور اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا ( اُس کی اِسی سچائی پر نیکی کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے کا رشتہ اُس لڑکی سے کر دیا)، اُس سے عاصم کی ایک لڑکی پیدا ہوئی، حضرت عمربن عبدالعزیز اِسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔

پھر حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت عمرؓ کے حضرت سلمہؓ کو کوڑا مارنے نیز اُس کے بدلہ چھ سو دِرہم دینے کا واقعہ بیان کیا، اِسی طرح فرمایا!حضرت عمرؓ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ بازار کی قیمتیں ایسی ہوں جن سے کسی بھی فریق کے شہری حقوق متاثر نہ ہوں ، اِسی بات کے بیان میں آپ نےحضرت المصلح الموعودؓ کا ارشاد بھی پیش فرمایا نیز عامر کی روایت ایک شخص کی بابت بیان کی جس میں اُس نے اپنی بیٹی کے رشتے آنے اور اُس کی پہلی زندگی کے معاملے بتانے کی بابت رائے دریافت کی، جس پرحضرت عمرؓ نے اُس شخص سے کہا کہ الله تعالیٰ نے اُس کے عیب پر پَردہ ڈالا ہے اور تو اُس کو ظاہر کرے گا، الله کی قسم! اگر تو نے اُس کے معاملہ کے بارہ میں کسی کو بھی بتایا تو مَیں تجھے پورے شہر والوں کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گا ۔

طاعون؍ عَمْوَاس، لوگوں کی جانوں کے بارہ میں حضرت عمرؓ کی فکر

رملہ سے بیت المقدس کے راستہ پر چھ میل کے فاصلہ پر ایک وادی ہے جس کا نام عمواس ہے، کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ یہاں سے مرض طاعون کا آغاز ہؤا اَور ارضِ شام میں پھیل گیا، اِس لیئے اُسے طاعون عمواس کہا جاتا ہے۔ اِس مرض سے شام میں لا تعداد اموات ہوئیں، بعض کے نزدیک اِس سے پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ سترہ ہجری کو حضرت عمرؓ مدینہ سے شام کے لیئے روانہ ہوئے اور سَرْغ مقام پر پہنچ کر سپۂ سالارانِ لشکر سے ملاقات کی۔۔۔آپؓ کو اِس بات کی اطلاع دی گئی کہ اِس زمین عمواس میں بیماری پھیلی ہوئی ہے تو آپؓ مشورہ کے بعد واپس لَوٹ آئے، اِس کی تفصیل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صحیح بخاری میں مذکور حضرت عبداللهؓ بن عبّاسؓ سے مروی روایت نیزواپسی کے ذکر کی بابت حضرت المصلح الموعودؓ کا ارشاد بھی پیش فرمایا۔۔۔ جب آپؓ نے واپسی کا ارادہ کیا توحضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ اَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللهِ، کیا الله تعالیٰ کی تقدیر سے آپؓ بھاگتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فورًا جواب دیا! نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدَرِ اللّٰہِ، ہاں! ہم خدا تعالیٰ کی ایک تقدیر سے اُس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔

ابوحفص کی بارش تمہارے پاس آئی

فرمایا!حضرت عمرؓ کی قبولیتِ دعا کے چند واقعات ہیں، حضرت خوّات ؓبن جُبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دَور میں لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو حضرت عمرؓ لوگوں کے ساتھ نکلے اور اُن کو دو رکعت نماز استسقاء پڑھائی، پھر اپنی چادر اپنے دونوں کندھوں پر ڈالی اور چادر کے دائیں طرف کو بائیں کندھے پر ڈالا اور بائیں طرف والی چادر کو دائیں کندھے پر ڈالا (یعنی لپیٹ لی) پھر اپنے ہاتھ کو دعا کے لیئے اُٹھایا اور عرض کیا! اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَغْفِرُ لَکَوَ نَسْتَسْقِیْکَ کہ اَے الله عزّوجل! بے شک ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور بارش کے خواستگار ہیں۔ ابھی آپؓ دعا مانگ کر اپنی جگہ سےپیچھے نہیں ہوئے تھے کہ بارش شروع ہو گئی، راوی کہتے کہ جو ہمارے دیہاتی لوگ تھے وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور عرض کیا، اے امیر المؤمنین! فلاں دن،  فلاں وقت اپنی وادی میں تھے ہم کہ بادلوں نے ہم پر سایہ کیا اور ہم نے اُس میں سے ایک آواز سُنی کہ ابوحفص کی بارش تمہارے پاس آئی، ابو حفص کی بارش تمہارے پاس آئی۔

صحابہؓ سے ایسے خوارق کثرت سے ثابت ہیں

 اِسی طرح حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپؓ کی ایک دعا کا واقعہ دریائے نیل کے جاری ہونے کے بارہ میں بیان کیا ،پھر حضرت ساریہؓ کا جنگ میں حضرت عمرؓ کی آواز سُننے کا واقعہ ، قبولیت دعا کے حوالہ سے بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا! تاریخ طبری میں ہے ۔۔۔حضرت عمرؓ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ آپ ؓنے فرمایا! یَا سَارِیَۃ بِنْ زُنَیْم! اَلْجَبَل اَلْجَبَل یعنی اَے ساریہ بن زُنیم! پہاڑ پہاڑ۔ مسلمان لشکر جس جگہ مقیم تھا، اُس کے قریب ہی ایک پہاڑ تھا،اگر وہ اُس کی پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے حملہ آور ہو سکتا تھا۔ پس انہوں نے پہاڑ کی جانب پناہ لے لی، اِس کے بعد انہوں نے جنگ کی اور دشمن کو شکست دی اور بہت سا مالِ غنیمت حاصل کیا۔حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے بھی اِس واقعہ کو بیان فرما کر فرمایا ہے کہ صحابہؓ سے ایسے خوارق کثرت سے ثابت ہیں۔۔۔ پس دریائے نیل کے جاری کرنے والے واقعہ کو بھی ہم دیکھیں تو بعید نہیں کہ وہ بھی صحیح واقعہ ہی ہو جس کو بعض تاریخ دان صحیح نہیں مانتے۔

حضرت عمرؓ کی ٹوپی کی برکت

حضرت عمرؓ کی ٹوپی کی برکت اور قیصرِ روم کے بارہ میں ملنے والے ذکر کو باالفاظ حضرت المصلح الموعودؓ  نیز تفسیر رازی سے پیش فرمایا۔

حضرت عمر ؓ کی بعض دعاؤں کا تذکرہ

 بعد ازاں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عمر ؓ کی بعض دعاؤں کا تذکرہ فرمایا، حضرت عَمروؓ بن میمون بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ تَوَفَّنِیْ مَعَ الْاَبْرَارِ وَ لَا تُخَلِّفْنِیْ فِی الْاَشْرَارِ وَ قِنِیْ عَذَابَ النَّارِ وَ اَلْحِقْنِیْ بِالْاَخْیَارِ؛ اَے الله! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے اور مجھے بُرے لوگوں میں پیچھے نہ چھوڑ اور مجھے آگ کے عذاب سے بچا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ مِلا دے۔

تو مجھے بغیر ضائع اورکم کیئے وفات دے دے

یحیٰ بن سعید بن مُسیّب ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب جب منٰی سے لَوٹے تو اپنے اونٹ کو ابطحاء میں بٹھایا اور وادیٔ بطحاءکے پتھروں سے ایک ڈھیر بنایا اور اُس پر اپنی چادر کا ایک کنارہ بچھا کر لیٹ گئے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر دعا کرنے لگے۔ اَللّٰھُمَّ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَ ضَعُفَتْ قُوَّتِیْ وَانْتَشَرَتْ رَعِیَّتِیْ وَاخْفِضْنِیْ اِلَیْكَ غَیْرِ مُضَیِّعٍ وَ لَا مُفَرِّطٍ؛ اَے الله! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اورمیری قوّت کم ہو گئی ہے اور میری رعیّت پھیل گئی ہے تو مجھے بغیر ضائع کیئے اور کم کیئے وفات دے دے۔ پس ابھی ذوالحجہ کا مہینہ ختم نہیں ہؤا تھا کہ آپؓ پر حملہ ہؤا اَور آپؓ کی شہادت ہو گئی۔

میرے ہاتھوں محمدﷺ کی امّت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا

حضرت ابنِ عمرؓ سے مروی ہے، قحط کے دنوں میں حضرت عمرؓ نے ایک نیا کام کیا جسے وہ نہ کیا کرتے تھے وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے پھر آپؓ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے، ایک رات سحری کے وقت مَیں نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے سُنا! اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلٰى يَدَيَّ؛ اے الله! میرے ہاتھوں محمدؐ کی امّت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔

اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر بُرا بنانا آنحضرت ؐکی دعا سے ناجائز ثابت ہے

حضرت خلیفتہ المسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہیئے کہ اپنے خدا تعالیٰ کے واسطے خالصتًا عبادت کرے پھر خواہ خلقت اُسے برا سمجھے یا بھلا اِس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہیئے اور اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر بُرا بنانا آنحضرت رسولِ کریمؐ کی اِس سکھلائی ہوئی دعا سے ناجائز ثابت ہوتا ہے اور وہ دعا آنحضرتؐ نے حضرت عمرؓ کو سکھلائی تھی اور اِس طرح ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ سَرِيْرَتِيْ خَيْرًا مِّنْ عَلَانِيَتِيْ وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِيْ صَالِحَةً؛ اَے الله! میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر۔

حضرت عمرؓ کا آدابِ مسجدِ نبویﷺ اور نماز کا خیال رکھنا اور مالی قربانی

پھرحضرت عمرؓ کے مسجد نبویؐ اور نماز کے آداب کے خیال رکھنے کے بارہ میں حضرت سائب بن یزیدؓ ، حضرت عبداللهؓ بن عمرؓ اور ابو عثمان نحدیؒ سے مروی روایات پیش فرمائیں، اِسی طرح آپؓ کی مالی قربانی اور الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارہ میں بہت ساری روایتوں میں سے ایک روایت حضرت ابنِ عمرؓ سے مروی بیان کی۔

مَیں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا! پھر خشیّت اِلٰہی کا یہ حال تھا کہ جب فوت ہونے لگے تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے! مَیں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں، مَیں تو صِرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں، یہ تھا خشیّت خوفِ خدا کا حال آپؓ کا، بہرحال ابھی تھوڑی سی باتیں ہیں جو آئندہ بھی ان شاء الله! بیان ہو جائیں گی۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

حیات کی تین اقسام