• 19 اپریل, 2024

دربار خلافت میں ایک غلام کی سرگزشت

مکرم چوہدری محمد علی مضطر

مجلس انصار اللہ کی محفل رنگ بہار میں مکرم چوہدری محمد علی مضطر کے روح پرور واقعات کی تفصیل

ویسے ایک اور واقعہ یاد آگیا حضرت صاحب کا۔علامہ علاؤالدین ہوتے تھے جو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے تھے لیکن اس وقت تو اسلامیات کے پروفیسر تھے ۔ ہمارے کالج میں بھی تشریف لائے تھے ۔میں یونیورسٹی کی سینٹ کا ممبر تھا۔میٹنگز ہوتی تھیں۔وہاں ملاقات ہوجاتی تھی۔میں علامہ صاحب سے ملنے گیا۔سلام دعا ہوئی جب میں جانے لگا تو کہا کہاں چلے ہو میں تمہیں جانے نہیں دوں گا۔میں نے کہا کیا بات ہے ؟آج تو بات ہونی ہے آپ جائیں نہیں ۔چنانچہ اولد کیمپس کی بات ہے شامیانہ لگا ہو اتھا ۔جس میں ہائی جنٹری لاہور کی ،پڑھے لکھے پروفیسرز،ٹیچرز اور وکیل سب موجود تھے۔تو ایک صاحب نے مقالہ پڑھا۔مقالہ کا عنوان تھا۔ملک یمین اور فلاں کا یہ مذہب ہے۔ فلاں کا یہ مذہب ہے اور حضرات !ایک مذہب مرزا محمود احمد صاحب کا بھی ہے۔انہوں نے بھی ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ بنائی ہے ۔اور وہ یہ کہتے ہیں جب اسے 2منٹ ہوگئے تو علامہ صاحب کھڑے ہوگئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ …بند کریں حضرات!میں احمدی نہیں ہوں آج جب میں گھر سے آرہا تھا تو میں سمجھتا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے اس مسئلہ پر جو جھک ماری ہے ۔آج اس کا کچھ مداوا ہوجائے گا۔حضرات میں احمدی نہیں ہوں۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلہ پر جو مذہب مرزا محمود احمد صاحب کا ہے۔وہی صحیح ہے ۔تو حضور کی جو علمی شان تھی حضور کی جو لیڈرشپ تھی ۔اس کاکیا کیا ذکر کریں ہم ۔
اب خیال کریں کہ جب قافلہ آیا ہے قادیان سے ۔ہم لوگ ابھی قادیان تھے تو وہاں سے جو آتا تھا ظاہر ہے قدرتی بات ہے جیسے میگنیٹ لوہے کو کھینچتا ہے تو وہ لاہور پہنچتے ہی پہلے قصر خلافت پہنچ جاتے تھے ۔قصر خلافت تو نہیں تھا وہ رتن باغ پہنچ جاتے تھے ۔رتن باغ کی پچھلی طرف ایک باغیچہ سا تھا تو شاید رتن باغ اسی لئے کہتے تھے ۔تو وہاں احمدیوں کا پورا کیمپ لگا ہوا تھا ہزاروں کی تعداد میں۔اور حضرت صاحب کے ہاں جو اس وقت سالن پکتا تھا اسکے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا خط گیا وہاں قادیان۔ہم لوگ قادیان مین تھے۔ان کی طبیعت میں بڑا مزاح تھا۔فرمایا جس شوربے سے ہم آجکل کھانا کھارہے ہیں اس کے متعلق ہمارے بعض فقہا کی رائے ہے کہ اس سے وضو جائز ہے۔یہی کھانا حضرت صاحب کھاتے تھے۔یہی کھانا خاندان کے سب افراد جو ایک ہی کوٹھی میں مقیم تھے ،تہہ خانہ میں جگہ ملی ہوئی تھی ،چھوٹے چھوٹے کمروں میں ۔وہیں سب رہ رہے تھے ۔اس سلسلہ میں میں بھول نہ جاؤں ۔ایک تو میاں حامی کا نواب زادہ میاں حامد احمد خان صاحب کا واقعہ ہے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امی کو جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی صاحبزادی تھیں سخت بخار ہوگیا اور بخار اتر بھی گیا ۔چھوٹی سی جگہ ہی ہوتی تھی تو جی چاہتا تھا کہ پسند کی چیز کھائیں ۔اب جو ملتی تھی روٹی اور شوربہ سا ملتا تھا،آلو کا ہوگا یا کسی چیز کا تھا۔جی نہیں چاہتا تھا ۔تو ہم نے دیکھا کہ رات کے وقت کوئی آیا ہے ۔تو امی کے تکیہ کے نیچے ہاتھ مارا ہے اور چلا گیا ہے ۔ہم نے اٹھ کر دیکھا تو وہاں 100روپے کا نوٹ رکھا ہوا تھا۔یہ حضرت صاحب تشریف لائے تھے ۔حضور سوروپے کا نوٹ رکھ گئے کہ ان کو ضرورت ہے اور صبح کے وقت وہ کہتے ہیں کہ میں گیا اور سو روپے کے کباب لے آیا ۔اب کبابوں کی خوشبو سارے رتن باغ میں پھیل گئی اور سب چلے آئے۔پھر ہمیں تھوڑا سا حصہ ہی ملا ۔تو یہ حالت تھی اس زمانہ میں۔

ایک اور واقعہ حضور کا

ہر روز اجلاس ہوا کرتا تھا انجمن کا۔ کرسیاں تو ہوتی نہیں تھیں دریاں ہوتی تھیں ۔ میرے ایک دوست صدیق جو ہائی کورٹ کے جج ہوگئے تھے۔اس نے مجھے کہا کہ ہائی کورٹ کے دوتین جج ہیں وہ مرزا صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو مناسب ہے اتوار کو ہوجائے۔ان کو پتہ نہیں تھا مجھے تو پتہ ہونا چاہئے تھا۔میری بے وقوفی یا شامت اعمال کہ میں نے کہا میں حضر ت صاحب سے پوچھوں گا تو جب انجمن کی میٹنگ ختم ہوئی تو میں نے حضرت صاحب کے ساتھ اس طرح اندر چلنا شروع کردیا ۔ سیڑھیاں اندر ہی تھیں میں نے کہا حضور اس طرح صدیق میرا دوست ہے ۔اس نے مجھ سے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کےتین جج ہیں(یا شاید چار تھے)جو حضور سے ملنا چاہتے ہیں تو اتوار کو مناسب رہے گا۔میری گستاخی دیکھیں اب بھی پسینہ آجاتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ میں نے کیا کہا ۔میرا کام تھا کہ میں پرائیویٹ سیکرٹری سے کہتا ۔وہ آگے بات کر کے مجھے بتاتے۔حضرت صاحب چل رہے ہیں اور خاموش ہیں،میں ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔حضور سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔
دیکھو یہ کپڑے جو میں نے پہنے ہوئے ہیں ان کو پہنے ہوئے اتنا عرصہ ہوگیا ہے اور میں پسند نہیں کرتا کہ معزز غیر احمدی حضرات سے اس حالت میں ملوں ۔
تو اس حالت میں جب ہم پاکستان پہنچے ہیں (قادیان سے)تو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا تھا کہ حضرت کی خدمت میں یہ پیغام پہنچانا کہ پرنسپل کی طرف سے گزارش ہے کہ فی الحال کالج شروع نہ کیا جائے۔جماعت جب سیٹل ہوجائے گی تو شروع کریں گے چنانچہ میں نے کہا کہ حضور ایک پیغام بھی لایا ہوں۔حضور نے پیغام سنا ۔اس پر جو کالج کمیٹی کے ممبر تھے ۔ان میں ملک غلام فرید، حضرت درد ،حضرت میاں بشیر احمد کمیٹی کے صدر تھے۔اور اور بھی شاید ایک آدھ ہو۔تو پہلے ملک صاحب نے کہا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے ۔پھر درد صاحب کہنے لگے میرا بھی یہی خیال ہے اس پر میاں بشیر احمد صاحب نے بھی کہا کہ حضور خیال تو میرا بھی یہی ہے۔اس پر فرمایا ۔
آپ کوکیا پیسوں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔(بڑی اونچی آواز سے بڑی دور تک سنائی دی ۔)آپ کو کیا پیسوں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔یہ کالج چلے گا اور آج سے شروع ہونا چاہئے ۔ پاکستان کی زمین پر آسمان کے نیچے جہاں جگہ ملتی ہے آج سے شروع ہونا چاہئے۔
(بات لمبی ہوجائے گی)تو حضرت صاحب کا ایک طرف یہ خیال تھا اور ایک طرف شہروں کے شہر خالی پڑے تھے ۔لوگ آرہے ہیں کہ کہاں سیٹل کیا جائے۔ایک کمیٹی میں میں بھی شامل تھا ۔حضور کا حکم تھا کہ ہم اس طرح سیٹل نہیں ہوں گے ،بہت چاہتے تھے کہ سانگلہ ہل خالی پڑا ہے وہاں رہ جاتے ہیں۔وفد بھی گئے تھے۔لیکن ان حالات میں جو مالی حالات تھے کہ جماعت بالکل ان سیٹل جماعت تھی۔پیسے نہ ہونے کے برابر تھے ۔حضور نے فرمایا نہیں ہم اس طرح الاٹ نہیں کروائیں گے ۔ہم اس طرح آباد نہیں ہوں گے ۔ہمارا مرکز ہوگا۔ہم اپنی زمین خرید کر رہیں گے۔یہ زمین خرید کرآباد ہوئی ہے۔ اور اس زمین کا نصف خرچ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خود ادا کیا اگرچہ اس کے آباد ہونے کے باوجود بھی اس کے کچھ حصہ پر دوسرے قابض ہوگئے۔

انصار اللہ کالم

قسط:1

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2019