وہ خدا کا ہی نوشتہ تو لکھا کرتا ہے
ہو کے رہتا ہے وہی جو وہ کہا کرتا ہے
بیٹھ جائیں جو ترے در پہ بھکاری بن کر
کاسۂ خیر انہی کا ہی بھرا کرتا ہے
نیک فطرت جو رہیں صحبت یار میں آ کر
ہم نشینی سے عجب رنگ چڑھا کرتا ہے
اس سے بڑھ کر بھی غنی اور کوئی کیا ہو گا
اپنی اوقات میں جو شخص رہا کرتا ہے
سانس پھر لیتے ہیں محفوظ فضا میں سب لوگ
شہر میں وقت کا حاکم جو پھرا کرتا ہے
ساحلوں پر تو فقط ریت یا پتھر ہوں گے
گوہرِ خاص تو ساگر میں پلا کرتا ہے
گونجتی ہے یہ صدا وقت کے ایوانوں میں
اس کا ہوتا ہے بھلا جو بھی بھلا کرتا ہے
چاہے جتنی بھی بلندی پہ چلا جائے عروج
اک نہ اک تو زوالوں میں ڈھلا کرتا ہے
مار دیتا ہے ہر اک جوہرِ روحانی کو
اژدھا جب بھی تکبر کا ڈسا کرتا ہے
عشق اور دشت نوردی تو ہیں لازم ملزوم
اس میں رکھے نہ قدم وہ جو ڈرا کرتا ہے
وقت کی قدر نہیں کرتا جو غافل بندہ
حسرت و یاس کی تصویر بنا کرتا ہے
قول دے کر جو مکر جائے اُسے کیا کہیے
یہ تو مومن کا ہے اسلوب وفا کرتا ہے
بادشاہ ہو کے بھی سنتا ہے گنہگاروں کی
اس کے دربار میں مضطر جو صدا کرتا ہے
ہجر میں آنکھ جو بھیگی تو یہ احساس ہوا
دل کے آنگن میں ہی ہر اشک گرا کرتا ہے
پاک مٹی میں تعصب کے لگیں جب پودے
پھل ہی نفرت کا درختوں کو لگا کرتا ہے
خونِ ناحق سے تعصب کا چمن سینچیں تو
باغ جل جاتا ہے سب راکھ ہوا کرتا ہے
ظلم کے تخت کو تختے میں بدل دیتا ہے
ایک طوفان جو مژگاں سے اٹھا کرتا ہے
اس کو بن مانگے ملیں تاج و سریر و مسند
سر جو تعظیم و محبت میں جھکا کرتا ہے
مہر نصرت کی کرے ثبت وہ اپنی جس پر
وہ مظفر وہی منصور ہوا کرتا ہے
یا الٰہی ہو مرا نام وفا داروں میں
سر بسجدہ یہ ظفرؔ تجھ سے دعا کرتا ہے
(مبارک احمد ظفر)