• 20 اپریل, 2024

نُورِ خدا

انبیاء اور رُسل آسمانِ روحانی کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نور سے منوّر، صفات الٰہیہ کے سمندر میں غوطہ زن اور اِن کے مظہر ہوتے ہیں۔ اَخلاقی و روحانی اَقدار کے اعلیٰ ترین معیاروں کے حامل یہ مامورین من اللہ مخلوقِ خدا سے ماں سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور موہبتِ الٰہی سے عطا کردہ قوّت قدسیہ اور قوّتِ افاضہ سے اپنی قوم کا تزکیہ کرتے اور اُنہیں فیض یاب کرتے ہیں۔ اِن کے اِخلاص و وفا میں کسی قسم کی کوئی ملونی نہیں ہوتی اور اِن کے قلوب صاف و شفّاف آئینے کی طرح ہوتے ہیں۔ فنا فی اللہ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کمال درجہ کے انہماک سے اِس حد تک مخمور رہتے ہیں کہ بسا اوقات ظاہری دنیاوی امور کی پابندی سے بھی مستغنی نظر آتے ہیں۔ اُن سے اللہ تعالیٰ کثرت سے ہمکلام ہوتا ہے اور اُس کا نورانی کلام وحی و الہام کی صورت میں موسلا دھار بارش کی طرح اُن پر نازل ہوتا اور اُنہیں سَر تا پا منوّر کر جاتا ہے۔ وحی الٰہی کا یہ نور اُنکے چہروں پر برستا ہے جو اُنہیں پوری دنیا میں ممتاز کر دیتاہےاور دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہوتا جس کا اُن جیسا نورانی چہرہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نےاِس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کوہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰؐ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق مسیح اور مہدی، امام الزمان اور امتی نبی کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کرکے اور آپ کے حالات جان کر بغیر کسی شک و شبہ کے ایک غیر جانبدار، خدا کا خوف رکھنے والا اور شریف النفس انسان اِسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ آپ اپنے دعوے میں صادق تھے اور ایک سچے نبی اللہ کی تمام علامات آپ میں پائی جاتی تھیں۔ آپ کے چہرے پر برسنے والا خدائی نور آپ کے صدق پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا تھا۔ ایسے بیشمار واقعات تاریخ احمدیت کا حصہ ہیں کہ لوگ آپ کے پاس آتے اور آپ کا چہرہ دیکھتے ہی آپ کے قدموں میں سر رکھ دیتے اور آپ کی بیعت سے مشرف ہو جاتے یہاں تک کہ بعض شدید مخالفین جو بد ارادے سے قادیان آئے لیکن آپ کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہی آپ کے گرویدہ ہو گئے۔

حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی آپ علیہ السلام سے پہلی ملاقات کا ذکر حیاتِ نور مصنفہ عبدالقادر (سوداگرمل) میں درج ہے کہ کس طرح آپ ملاقات کی غرض سے قادیان پہنچے اوریکہ بان نے گلی میں بیٹھے مرزا امام دین صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر آپ کے دل میں سخت انقباض پیدا ہوا اور آپ اُسی وقت واپس جانے کیلئے تیار ہو گئے لیکن جلد ہی یہ غلط فہمی دور ہو گئی کہ وہ مرزا صاحب جن کو آپ ملنے آئے تھے وہ اور ہیں اورپھر آپ کو حضور علیہ السلام کا پیغام ملا کہ نمازِ عصر کے وقت آپ ملاقات کریں۔ اِس پر آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور بیٹھے انتظار کرنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسجد میں تشریف لانے پر اپنی دلی کیفیت کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’چنانچہ آپ اُس وقت سیڑھیوں سے اُترےتو مَیں نے دیکھتے ہی دل میں کہا کہ یہی مرزا ہے اور اِس پر مَیں سارا ہی قربان ہو جاؤں۔‘‘

(حیاتِ نور مصنفہ عبدالقادر (سوداگر مل) مطبوعہ 2003 صفحہ116)

تاریخ گواہ ہے کہ آپ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سارے ہی قربان ہو گئے۔

اِس مختصر مضمون میں امام الزمان حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ و مطہر اور نورانی زندگی کا ایک منفرد پہلو خود آپ کی ہی تحریرات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلو آپ علیہ السلام کے دعویٰ کے حوالے سے آپ کے مقام و مرتبہ سے ہٹ کر صرف آپ کے نورانی وجود کا ہے۔ یہ پہلو آپ کے اپنے پیدا کرنے والے کی گود میں پرورش پانے، آپ کے خدا کی روح سے لوگوں سے کلام کرنے، آپ کے چہرہ مبارک پر عشقِ الٰہی کےبرسنے اور آپ کے خدا کا نور ہونے کے حوالے سے ہے۔ اِس سے لطف اندوز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اسےا ٓپ کے ساتھ محبت اور عقیدت اورآپ کی روحانی اور نورانی کیفیات میں ڈوب کرپڑھا جائے۔

یہ کوئی ذوقی بات نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ ایک صاحبِ فراست اور متقی شخص کا دل آپ علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر بیتاب ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور دل حسرت کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی آپ کے وقت میں ہوتے اور خدا کے اِس نور کو دیکھتے، آپ کو چھوتے، ہاتھ ملاتے اور آپ سے فیضیاب ہوتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اِس دنیا میں اِس طرح کا عشقِ الٰہی اور نورِ الٰہی سے مزیّن کسی اور انسان کاچہرہ نہیں۔ چہرہ شناس تو دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ کسی نبی کی تصویر ہے۔

اِس زاویۂ نگاہ سے آپ علیہ السلام کی چند تحریرات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔ آپ اپنی اِس روحانی اور نورانی کیفیت کو جس انداز اور جن الفاظ میں بیان فرماتے ہیں دنیا کاکوئی انسان اِس طرح بیان نہیں کر سکتا اور نہ اپنے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی جرأت کر سکتا ہے سوائے اُس کے جو حقیقت میں تعلق باللہ کے اِس مقام پر فائز ہو۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مَیں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور مَیں اُس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19، مطبوعہ2009 صفحہ61)

’’اِس تاریکی کے زمانے کا نور مَیں ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ اُن گڑھوں اور خندقوں سےبچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کیلئے تیار کئے ہیں۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 مطبوعہ2009 صفحہ13)

’’مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے۔‘‘

(سراجِ منیر، روحانی خزائن جلد12 مطبوعہ 2009 صفحہ41)

’’مَیں حضرتِ قُدس کا باغ ہوں۔ جو مجھے کاٹنے کا ارادہ کرے گا وہ خود کاٹا جائے گا۔ مخالف روسیاہ ہو گا اور منکر شرمسار۔‘‘

(نشانِ آسمانی، روحانی خزائن جلد4 مطبوعہ 2009 صفحہ397)

’’اِس لئے مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خدا وند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی روح سے بولتا ہوں۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18مطبوعہ صفحہ402)

’’دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ مَیں دنیامیں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہےجس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے۔ جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصہ لے گا مگر وہ شخص جو وہم اور بد گمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اِس زمانہ کا حصنِ حصین مَیں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 مطبوعہ2009 صفحہ34)

خاکسار کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست ہیں جو پاکستان میں سکول ٹیچر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وقفے کے دوران سکول کے ٹیچرزایک جگہ بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں ایک صاحب اُنہیں کہنے لگے کہ سنا ہےآپ کے مرزا صاحب بھی شاعری کا شوق فرمایا کرتے تھے۔ یہ احمدی دوست کہتے ہیں کہ مَیں نے اُنہیں کہا کہ مَیں ایک شعر پڑھتا ہوں آپ ذرا اِسے دیکھیں اور اِنہوں نے حضور علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا:

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

کہتے ہیں کہ جب وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے تو عین اُس وقت ایک اور ٹیچر بھی وہاں آ گئے اور شعر سنتے ہی اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور کہنے لگے کہ پھر پڑھیں۔ جب اِنہوں نے دوبارہ پڑھاتو وہ سرور کی کیفیت سے سرشار پوچھنے لگے کہ یہ کن کا کلام ہے۔ جب اِنہوں نے بتایا تو کہنے لگے کہ یہ مرزا صاحب کا ہی مقام ہے کہ ایسی بات کریں ورنہ کوئی عام شاعر یہ الفاظ کہہ ہی نہیں سکتا کہ نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں۔

اب خاکسار آپ علیہ السلام کے منظوم کلام میں سے اِسی مضمون کے چند اشعار بھی پیش کرتا ہے:

ابتداسے تیرے ہی سائے میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا مَیں مثلِ طفلِ شیرخوار
مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ رب العالمیں
قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار
ہم تو بستے ہیں فلک پر اِس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار
سَر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جاں نثار
مَیں کبھی آدم کبھی مویٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار

آخر پر آپ علیہ السلام کاایک فارسی شعر پیش کیا جاتا ہےجس میں حضور علیہ السلام کےاپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفےٰ ؐ سے عشق کی کیفیت کا اظہار ہے کہ جب عشق و محبت کے اِس سمندر میں جوش آتا ہے اور تلاطم کی صورت پیدا ہوتی ہے تو پھر کوئی چیز اُس کے آگے ٹھہر نہیں سکتی۔ عشق کے اِس تلاطم کی کیفیت میں ڈوب کر اِس شعر کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

آتشِ عشق از دمِ من ہمچو برقے مے جہد
یک طرف اے ہمدمانِ خام از گرد و جوار

یعنی رسولِ پاک ؐ کے عشق کی آگ میرے سانس سے بجلی کی طرح نکلتی ہے۔ اے خام طبع رفیقو! میرے آس پاس سے ہٹ جاؤ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اِس زمانے کےنورِ خدا سے وابستہ رکھے اور اِس سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مقصود احمد علوی۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

حالات حاضرہ میں حلم، تحمل اور وسعت حوصلہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ