• 25 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 3)

ارشاداتِ نور
قسط 3

تاثیر قرآنی اور محبت الہٰی کے حصول کی دو صفات

فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو قرآن شریف کی تعریف میں فرمایا ہے کہ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (الحشر: 22) ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اترتا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا۔

جب جمادات پر اس کی یہ تاثیر ہے تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہٰی اور رضائے الہٰی کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں۔

اوّل تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ہو جاوے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کر کے عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے۔

اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر مُّتَصَدِّعًا ہو جاتا ہے اینٹ اینٹ جدا ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو گندگی اور الہٰی ناراض مندی کا موجب تھے سب ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اللہ تعالیٰ کے لیے رہ جائیں۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ200-201)

مومن کو خوف و حزن نہیں ہوتا

ایک دوست کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تیرہ چودہ برس سے تم یہاں رہتے ہو کبھی کسی وقت تم نے مجھے غمگین اور پریشان گھبراہٹ میں دیکھا ہے۔ اس نے عرض کیا۔ ہرگز نہیں۔ فرمایا۔ مومن لاَ خَوْف وَلاَ یَحْزَن ہوتا ہے۔ ہم ایک دفعہ گوالیار کی طرف گئے وہاں ایک گروہ کے پاس بیٹھے وہ کچھ دعا کرنے لگے کسی نے ان میں سے پڑھا۔

نہ کر عوض میرے عصیان و جرم بیحد کا
کہ تیری ذات غفور رحیم کہتے ہیں
کہیں نہ کہہ دے عدو دیکھ کر مجھے غمگین
یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتےہیں

اس آخری شعر نے ہمیں بہت ہی فائدہ پہنچایا۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ209-210)

علم الرؤیا

فرمایا۔ علم الرؤیا بھی ایک بڑا عجیب علم ہے اللہ تعالیٰ ہی جسے اس کی سمجھ دے۔ قرآن مجید میں نبی کی خواب کا بھی ذکر ہے، کافر کی خواب کا بھی، فاسق و فاجر کی خواب کا بھی۔ غرض ہر قسم کے آدمیوں کی خواب کا ذکر ہے تا معلوم ہوتا رہے کہ یہ علم بہت ہی باریک اور عجیب در عجیب ہے۔ آج کل کے پڑھے ہوئے اسے محض خیال قرار دیتے ہیں۔ مگر وہ غلطی پر ہیں۔

افسوس کہ مسلمانوں نے اب اس کی طرف توجہ کم کر دی ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو اپنے خوابوں کے متعلق یاداشت رکھیں اور جو رؤیا ان کے سچے نکلیں وہ جمع کرتے جائیں تا کہ عجائبات قدرت کا علم ہو۔

رؤیا کبھی تو بعینہ ویسے ہی پوری ہوتی ہے۔ جیسے اِنِّیۡۤ اَرٰٮنِیۡۤ اَعۡصِرُ خَمۡرًا (یوسف: 37) چنانچہ وہ اسی خدمت پر مامور ہوا۔

یا آدھی ویسے ہی اور آدھی دوسرے رنگ میں جیسےاس نے دیکھا کہ میرے سر سے روٹیاں پرندے کھاتے ہیں۔ اس کا سر ہی روٹیاں بن گیا۔

کبھی صرف نمونہ کے طور پر ایک چیز دکھائی جاتی ہے جیسے کئی سال کے قحط کا نظارہ خشک بالیوں میں دکھایا گیا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ244-245)

احسن القصص سے کیا مراد ہے

فرمایا۔ لوگوں نے غلطی سے احسن القصص کے معنی بہتر سے بہتر قصہ کئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہرگز قصے نہیں۔ اساطیر الاولین تو کفار کا قول ہے۔

یہ بھی غلط ہے کہ یوسف کا قصہ ہی سب سے اچھا قصہ ہے۔ خلاصہ سورہ تو یہی ہے۔ (1) بھائیوں نے آپ سے دشمنی کی۔ (2) اس کی وجہ والد کی محبت تھی۔ (3) آخر اپنے بھائیوں پر غالب آئے معاف کر دیا۔ (4) ایک عورت کی ناجائز درخواست کی پرواہ نہ کی۔

حضرت ابراہیم و حضرت موسیٰ و نبی کر یم ؐکے حالات اس سے بھی زیادہ عجیب ہیں۔ (1) بجائے چند گنتی کے بھائیوں کے سارا جہان دشمن۔ (2) اس کی وجہ کسی کی محبت نہ سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کا جوش۔ نبی کریمؐ کے آگے قوم نے خود کئی حسین عورتیں پیش کیں۔ مگر آپ نے خدا کے مقابلہ میں ان کی پرواہ نہ کی۔ پھر صرف بھائیوں پر نہیں بلکہ سارے عرب پر غالب آئے اور ان کو معاف کر دیا۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ245-246)

امر بالمعروف

فرمایا۔ مسلمانوں پر ادبار اسی وقت سے آیا ہے جب سے انہوں نے امر بالمعروف نہی عن المنکر چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگ سجھتے ہیں کہ یہ ملانوں کا کام ہے اور ہم کسی کو امر بالمعروف کریں تو ہماری پوزیشن میں فرق آتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک عظیم الشان کام ہے کہ سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے اسے کیا۔ قرآن مجید پڑھ کے دیکھ لو امر بالمعروف نہی عن المنکر ہی ہے۔ اور امت محمدیہ کا تو فرض منصبی ہی یہی ہے چنانچہ فرماتا ہے کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (اٰل عمران: 111)۔ (2) پھر جو امر بالمعروف ہو وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب دوسروں کو نصیحت کرے گا اسے شرم آئے گی کہ میں دوسروں کو کہتا ہوں خود نہیں کرتا۔ (3) اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَا عِلِہٖ

(ترمذی کتاب العلم۔ باب الدال علی الخیر کفاعله)

اس کے کہنے سے جو کوئی نیک کام کرے گا اس کام کا ثواب اسے بھی ملے گا۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ246)

مومن کی تین خوشیاں

فرمایا۔ فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ مومن کو تین خوشیاں ہیں، جب اسے کوئی مصیبت پہنچے۔ (1) ایک تو یہ کہ عذاب دنیا ہی میں ملے گا اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی شدید ہے۔ (2) عذاب تبدیلی بھی ہوتا ہے یعنی مرتد ہو جاوے۔ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ (3) پھر عذاب کے کئی مراتب ہیں۔ شکر ہے کہ ادنیٰ پر کفایت ہوئی۔

(ارشاداتِ نور جلد دوم صفحہ276)

(مرسلہ : فائقہ بُشریٰ)

پچھلا پڑھیں

حالات حاضرہ میں حلم، تحمل اور وسعت حوصلہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ