• 16 اپریل, 2024

پردہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور اس انسان نے دنیا کو تخلیق کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ (البلد: 11) کہ ہم نےانسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کو نیکی اور بدی کے دو راستے بتا دیئے ہیں اور فرمایا کہ جو چاہو اختیار کرو۔ اگر تو بدی کی راہ اختیار کرو گے تو شیطان تم پر غالب آجائے گا۔ جس کا ٹھکانہ اللہ نے دوزخ تیار کر رکھا ہے اور پھر فرمایا کہ اگر تم نیکی کی راہ اختیار کرو گے یعنی قرب خدا حاصل کرنے کے لیے اگر اطاعت کا درست استعمال کرو گے تو تم خدا کے قرب کو حاصل کر لو گے۔ اور یہی تمہاری زندگی کا و ا حد مقصد ہے اور جو کوئی بھی نیکی کے راستہ کو اختیار کر کے اپنے آپ کو خدا کےسپرد کر دے گا تو اسے خدا جنت الفردوس عطا کرے گا اس بدلے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

بَلٰی مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

(البقرہ: 113)

نہیں نہیں سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ اور ان (لوگوں) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنا وجود خدا کو سونپ دے اور نیک کام کرنے کے لیے خدا کی طرف تیار ہو جائے۔ مطلب یہ کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا کا ہی ہو کر رہ جائے۔

جیسا کہ ہر ایک انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ دنیا کے کاموں میں کھو جاتا ہے تو وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں خدا کی صفت رحمانیت جوش میں آ جاتی ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ وہ کوئی مصلح اس دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجے چنانچہ اس غرض کے لیے بہت انبیاء آئے اور انہوں نے انسانی قویٰ کو درست جگہوں پر استعمال کرنے کے لیے کچھ قانون بنائے جنہیں ہم شریعت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کے قوانین کو جب آخری شارع محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب کیاتو ان میں ایک قانون پردہ کے متعلق بھی مرتب کیا۔ پردہ سے مراد یہ ہے کہ تمام مرد اور عورتیں اپنے آپ کو شہوت کے مقام جہاں اس کا نفس کسی غلط راستے پر مائل ہو وہاں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ

(النور: 31)

یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں۔ یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ جب ان کے سامنے کوئی عورت آجائے فرمایا محل شہوت پر اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں کیونکہ نفس ہر وقت بدی پر اکساتا رہتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ

(یوسف: 54)

نفس امارہ ہمیشہ انسان کو بدی پر اکساتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

؎نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں

اللہ تعالیٰ عورتوں کے متعلق فرماتا ہے

وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ

(النور: 32)

اس سورة میں آیات 31 اور 32 میں پردے کے احکام بیان کئے گئے ہیں کہ اے رسول! تو مومنوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ہی پاکیزگی کا موجب ہو گا جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا اس سے بہت باخبر ہے اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو آپ ہی ظاہر ہو جاتی ہو۔ اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں سے گزارا کرو اس کو ڈھانک کر پہنا کرو اور وہ صرف اپنے خاوندوں، اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں اور اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی ہم کفو عورتوں یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے ہوں یا ایسے مردوں سے جوابھی تک جوان نہیں ہوئے یا ایسے بچوں سے جن کو ابھی عورتوں کے تعلقات کا علم نہیں ہوا۔ اپنی زینت ظاہر کریں ان کے سوا کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اور اپنے پاؤں زمین پر اس لیے زور سے نہ ماریں کہ ان کی وہ چیز ظاہر ہو جائے جو وہ زینت سے چھپا رہی ہیں اور اے مومنو سب اللہ کی طرف رجوع کرو کامیاب ہو جاؤ گے۔ ان آیات میں اسلامی پردہ کی تصویر سامنے آ گئی ہے اور بتایا ہے کہ پردہ کس طرح کرنا ممکن ہے اور کس کس سے کرنا چاہئے۔ اسلام سے پہلے یہ تعلیم نا مکمل تھی لیکن اسلام نے کام یہ کیا ہے کہ پچھلی تمام کتابوں کی سچائی اکٹھی کر دی ہے اور ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ

(المائدہ: 4)

یعنی اسلام مکمل ہو گیا ہے۔ پہلے مذاہب نا مکمل تھے اور ان کی تعلیم ناقص تھی جیسا کہ انجیل میں پردہ کے بارے میں آتا ہے کہ صرف بد نظری اور شہوت کے خیال سے نامحرم عورت کو نہ دیکھو اور بجز اس کے دیکھنا حلال ہے اور قرآن کہتا ہے کہ نہ بد نظری سے دیکھو اور نہ نیک نظری سے دیکھو کیونکہ یہ ٹھوکروں کی جگہ ہے کہ نا محرم کے بارے میں تیری آنکھ خوابیدہ ہو تجھے اس کی صورت کی کچھ بھی خبر نہ ہو۔ اسلام نے ان کافروں سے سختی سے منع کیا ہے اور پھر کل سے منع کیا ہے جس سے گناہ کی ابتداء ہو سکتی ہے چنانچہ آ نحضورؐنے اپنے گھر میں پردہ پر سختی سے عمل کروایا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن ایک اندھا فقیر آنحضورؐ کے گھر مانگنے کے لیے آیا تو آنحضورؐ کی ایک زوجہ بھی کھڑی تھیں اور انہوں نے پردہ نہ کیا تھا آنحضورؐ نے سختی سے فرمایا پردہ کیوں نہیں کرتیں تو آپ کی زوجہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو اندھا ہے۔ آنحضورؐنے فرمایا آپ تو دیکھ رہی ہیں۔ ان باتوں سے پردہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھائیں۔ ان بد نتائج سے روکنے کے لیے شارع نے وہ باتیں کرنے کی اجازت نہیں دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے مواقع پر فرمایا اس طرح نامحرم عورتیں اور مرد جمع ہوں تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے اس لیے نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنے سے بھی منع فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’جو شخص آزادی سے نامحرم عورتوں کو دیکھتا ہے آخر ایک دن بدنیتی سے بھی دیکھے گا کیونکہ نفس کے جذبات ہر ایک طبیعت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں‘‘

(نورالقرآن)

اگر یہ احکام نافذ نہ کئے جاتے تو وہی انجام ہوتا جو آجکل یورپ کا ہو رہا ہے۔ کسی ماں اور بہن میں تمیز نہیں ہوتی اور وہ کتوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کی بیہودہ تعلیمات کا نتیجہ ہے جو بائیبل ان کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اسلامی زندگی ہی پاکیزہ زندگی ہے اور یہی پاکیزہ تعلیم ہے کہ مرد اور عورت کو الگ الگ کر کے ٹھوکر سے بچایا ہے اور یہ زندگی تلخ اور حرام نہیں ہے (جیسے کہ بعض یورپین سمجھتے ہیں) جس کے باعث آئے دن کی خانہ جنگیں خود کشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی گزارنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورتوں کو دی گئی ہے۔

اسلام کا عورت کو پردہ میں رکھنا۔ قید کرنا مراد نہیں بلکہ یہ اس کے لیے ایک طرح کا امن ہے اور روحانی زندگی اور آزادی ہے۔ عورت اس پردہ میں رہ کر عبودیت کے اصل مقصد کو حاصل کر سکتی ہے۔ ورنہ نہیں مثلاً اگر مکئی کابھٹہ بغیر پردہ کے ہوتا تو اس پر کئی حملے ہوتے اور وہ اپنی اصل حالت میں اپنے مالک کے پاس نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کیونکہ اس پر دھوپ اور سردی کے اثرات اثرانداز ہوتے اور پھر اس کووّں کو بھی جوش آتا اور اس بھٹہ کی اصل حالت بدل جاتی۔

ایسی مثال کو پردہ کی اہمیت پر چسپاں کریں تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ آج دنیا میں جس قدر اقوام ہیں ان میں سے امت مسلمہ ہی ایسی قوم ہے جو پردہ کی وجہ سے بدکاری اور بے حیائی سے دوسری اقوام کی نسبت بھی بچی ہوئی ہے۔

پردہ ویسے بھی عورت کی زینت ہوتا ہے اور زینت اگر پردہ کے اندر ہو تو وہ پاکیزہ ہوتی ہے بہ نسبت پردہ کے باہر ہونے کے۔ آج کی دنیا میں بڑھتی ہوئی بدکاری اور بے حیائی کو اگر یہ دنیا روکنا چاہتی ہے تو اسلامی احکام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

(شمیم احمد نیّر)

پچھلا پڑھیں

حالات حاضرہ میں حلم، تحمل اور وسعت حوصلہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ