• 24 اپریل, 2024

اگر قوتِ علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ دور ہو جاتی ہے

اگر قوتِ علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے،
وہ دور ہو جاتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ قوتِ علمی ہے، اگر قوتِ علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ دور ہو جاتی ہے۔ جس کے لئے عام دنیاوی مثال یہ ہے کہ بچپن کی بعض عادتیں بچوں میں ہوتی ہیں۔ کسی کو مٹی کھانے کی عادت ہے تو جب اس کے نقصان کا علم ہوتا ہے تو پھر وہ کوشش کر کے اس سے اپنے آپ کو روکتا ہے۔ اَور بہت سی عادتیں ہیں۔ مثلاً ایک بچی کا مجھے پتا ہے کہ اُسے یہ عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے اپنے بال نوچتی تھی اور زخمی کر لیتی تھی۔ لیکن اب بڑی ہو رہی ہے تو آہستہ آہستہ اُس کو احساس بھی ہو رہا ہے اور کوشش کر کے اس عادت سے چھٹکارا پا رہی ہے۔ تو یہ عادت بہر حال علم ہونے سے ختم ہو جاتی ہے۔

پس اسی طرح جس کو کچھ خدا کا خوف ہے، اگر اُسے عمل کے گناہ کا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا صحیح احساس دلا دیا جائے اور اسے اس بات پر مضبوط کر دیا جائے کہ گناہ سے اللہ تعالیٰ کس طرح ناراض ہو تا ہے تو پھر وہ گناہ سے بچ جاتا ہے۔

پھر تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ عملی قوت کا فقدان ہے۔ بعض لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ باتیں دوہرائی جا رہی ہیں۔ بیشک بعض باتیں ایک لحاظ سے دوہرائی جا رہی ہیں لیکن مختلف زاویوں سے اس کا ذکر ہو رہا ہے تا کہ سمجھ آ سکے۔

بہر حال واضح ہو کہ قوتِ عملیہ کی کمی یا قوتِ عملیہ نہ ہونے کے بھی بعض اسباب ہیں۔ مثلاً ایک سبب عادت ہے۔ ایک شخص میں قوتِ ارادی بھی ہوتی ہے، علم بھی ہوتا ہے لیکن عادت کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ عمل میں کمزوری دکھا رہا ہوتا ہے۔ یا ایک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے لیکن مادّی اشیاء کے لئے جذباتِ محبت یا مادی نقصان کے خوف سے جذباتِ خوف غالب آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے اندرونی کے بجائے بیرونی علاج کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو بیرونی علاج کیا جائے اسی سے قوتِ عمل میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے صحیح سہارے کی ضرورت ہے۔ اگر صحیح سہارا مل جائے تو بہتری آ سکتی ہے۔ پس اصلاح کے لئے اس صحیح سہارے کی تلاش کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کو اگر پہلے سے کسی بات کا علم ہو تو یہ اصلاح کے لئے تو نہیں ہو سکتا۔ اس کو یہ علم ہے کہ انسان جب گناہ جب کرے تو خدا تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کے غضب سے خوف دلانا یا خدا تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کی اُسے تلقین کی جائے جبکہ اُسے پہلے ہی اس کا علم ہے تو یہ اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ان باتوں کا تو اُسے علم ہے۔ قوتِ ارادی بھی اُس میں ہے لیکن کامل نہیں۔ علم جیسا کہ ذکر ہوا اُسے ہم نے بھی دیا اور اُسے پہلے بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے غضب کا خوف دل کے زنگ کی وجہ سے دل پر اثر نہیں کر سکتے۔ اب اُس کے لئے کسی اَور چیز کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ اُس کی نظروں سے اوجھل ہے۔ وہ یہی کہتا ہے ناں کہ خدا تعالیٰ تو مجھے نظر نہیں آ رہا۔ سامنے کی چیزیں تو نظر آ رہی ہیں۔ جس کا ایمان اتنا کامل نہیں تو خدا تعالیٰ بھی اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ ایسے لوگوں کے لئے بعض دوسرے بندے ہوتے ہیں جن سے وہ ڈر جاتا ہے۔ پس ایسے شخص کے دل میں اگر بندے کا رعب ڈال دیں یا مادی طاقت سے کام لے کر اُس کی اصلاح کریں تو اس کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ طاقت دنیاوی قانون کی طرح سیاسی مصلحت کی وجہ سے ڈر کر اصلاح سے پیچھے ہٹنے والی نہ ہو۔ جیسے آجکل کے دنیاوی قانون ہیں۔ بہر حال یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ بیماریاں بھی موجود ہیں۔ بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ اُن کا علم کامل نہیں ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے اُن پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج اُن کے لئے کافی نہیں ہوتے اور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو بعض دفعہ ہڈی جوڑنے کے لئے پلستر لگا کر باہر سہارا دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ آپریشن کر کے پلیٹیں ڈالی جاتی ہیں تا کہ ہڈی مضبوط ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ ہڈی جڑ جاتی ہے اور وہ سہارے دُور کر دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض انسانوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ سہارا اُس میں اتنی طاقت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود فعال ہو جاتا ہے اور عملی کمزوریاں دُور ہو جاتی ہیں۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ447 تا 450 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

پس جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ہمارا نظامِ جماعت، ہمارے عہدیدار، ہماری ذیلی تنظیمیں ان عملی کمزوریوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بنیں۔ لیکن اگر خود ہی یہ لوگ جن کی قوتِ ارادی میں کمی ہے، ان عہدیداروں کے بھی اور باقی لوگوں کے بھی علم میں کمی ہے، عملی کمزوری ہے تو وہ کسی کا سہارا کس طرح بن سکیں گے۔ پس جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے جو کمزوریوں میں مبتلا ہیں تا کہ جماعت کا ہر فرد عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 17؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جمائیکا میں جلسہ سالانہ کا بابرکت انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2023