• 25 اپریل, 2024

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

آئینہ کے لفظ کو ادیبوں ، نثر نگاروں اور شعراء نے خوب استعمال کیا ہے۔ درج بالا عنوان کے الفاظ کرشن بہاری نور کے ہیں۔ آنحضور ﷺ کے آبِ زر سے لکھے جانے والے بے مثل فقرات اور محاوروں میں ایک آئینہ کے متعلق بھی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں اَلْمُسْلِمُ مِرْأَۃُ الْمُسْلِمِ کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئےآئینہ کے طور پر ہے۔ اسلامی دنیا میں آئینہ کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے کیا فوائد ہیں۔ اس سے کیا سبق ملتے ہیں۔

ان پر خاکسار کا ایک آرٹیکل بعنوان ’’مذہبی دنیا میں آئینہ کی اہمیت‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس کو من و عن یہاں ایک بار پھر افادۂ عام کے لئےدیا جا رہا ہے۔

آنحضور ﷺ نے جو بے مثل فقرات استعمال فرمائے وہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں اور تاقیامت مشعلِ راہ ہیں ان میں ایک فقرہ ’’لْمُسْلِمُ مِرْأَۃُ الْمُسْلِم‘‘ ہے جس کے معنی یہ ہیں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے بطور آئینہ کے ہے۔

(کنزالعمال الجز والاول حدیث نمبر 739صفحہ 89)

حدیث کی کتاب ابو داؤد میں آنحضور ﷺ کے الفاظ یوں مروی ہیں اَلْمُؤْمِنُ مِرْآۃُ الْمُؤْمِنِ کہ مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے۔

(ابو داؤد کتاب الادب باب النصیحۃ)

اور اس مضمون کو آنحضور ﷺ نے ایسے موقع پر بیان فرمایا جب آپ ’’اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘‘ کی تعلیم دے رہے تھے اور ان دونوں فقروں کا آپس میں بہت گہرا ربط ہے، رشتہ ہے۔ آئینہ کے لفظ اور اس کی خوبیوں پر غور کرنے سے ایک مومن کا دوسرے مومن سے رشتہ مودّت کا جہاں اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ محبت کا رشتہ بڑھتا بھی چلا جاتا ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے اس فقرہ سے کیا کیا سبق ملتے ہیں۔

1۔ آئینہ انسان کو سنوارنے کے کام آتا ہے۔ آئینہ کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو خوبصورت بناتا ہے۔ اپنے چہرے کے نقائص دُور کرتا ہے۔

2۔ آئینہ کا صاف ہونا ضروری ہے۔ آئینہ جتناصاف اور شفاف ہو گا۔ اس کے اندر بننے والی شبیہ بھی اتنی ہی صاف اور ستھری نظر آئے گی اور اتنے ہی نقائص صاف اور نمایاں بتا سکے گا اور اگر آئینہ دھندلا ہو،گندا ہو، گرد آلودہو یا ٹیڑھا ہو اس کے اندر شبیہ بھی صاف نہ ہو گی۔

آئینہ چونکہ اصلاح کے کام آتا ہے اس لئے صاف آئینہ انسان کی اصلاح کر کے دُرستگی بھی کر سکے گا۔ اسی طرح ایک صاحبِ ایمان جتنا زیادہ متقی، پرہیز گار، نیک اور صالح ہو گا اتنا ہی زیادہ و ہ دوسرے کے لئے آئینہ کا کام دے سکے گا۔ لہٰذا ہر صاحبِ ایمان پر لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی کجیاں دُور کرے۔ اپنے دل کو پاک صاف بنائے تاکہ دوسرے شخص کی اصلاح کا موجب بن سکے۔نہ کہ جس طرح زنگ آلود شیشہ بیکار شیشہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے و ہ بیکار نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے دل کی صفائی اس حد تک ہو کہ اس میں خدا نظر آنے لگے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’روحانی طور پر انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں کہ وہ اس قدر صفائی حاصل کرے کہ خداتعالیٰ کی تصویر اس میں کھینچی جائے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 27)

3۔ آئینہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آئینہ انسانی چہرہ کا کوئی عیب چھپاتا نہیں بلکہ 2 اور 2 = 4 کی طرح واضح کر دیتا ہے۔ انسان کے بالوں کی پراگندگی، چہرے کا گرد و غبارتک بتا دیتا ہے۔

اسی طرح ایک صاحبِ ایمان شخص اگر اپنے بھائی کے اندر کمزوری دیکھے تو اُسے بتلاتے ہوئے حیا اورشرم حائل نہیں ہونی چاہئے۔کیونکہ ہرصاحب ایمان کی زندگی ذاتی اور انفرادی ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور قومی زندگی بھی ہے اور معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے لئے اپنے بھائی کو اس کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی طرف توجہ دلا دینی چاہئے۔ ایک صاحب ایمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے اندر عیب دیکھتے ہوئے بھی اس سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اس کی خوشامد کرے اور کہے کہ تمہارے اندر تو یہ عیب نہیں ہے تم تو بہت نیک اور پارسا ہو۔

4۔ ہاں اس سلسلہ میں آئینہ کی اس خوبی کو بھی مدّنظر رکھا جائے کہ کسی بھائی کے اندر جس حد تک کمزوری ہے اس کو اسی حدتک آگاہ کیا جائے نہ کہ بات کو بڑھا چڑھا کر کیونکہ آئینہ چہرے کے داغ دھبّے کو اصل سے بڑھا کر یا کم کر کے نہیں دکھلاتا۔

5۔ کسی کو نصیحت کرتے وقت اُن تمام اُصولوں کو مدّنظر رکھنا چاہئے جو قرآن اور احادیث میں بیان ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ انداز ِنصیحت نہایت دھیما اور پیارا ہونا چاہئے۔ اتنا سخت نہ ہو کہ بھائی کا دل ہی ٹوٹ جائے۔ کیونکہ آئینہ بہت نازک ہوتا ہے، ذرا سی ٹھوکر سے وہ کرچی کرچی ہو جاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی نصیحت کرتے وقت اگلے بھائی کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چاہئے۔

6۔ آئینہ منافقت نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو اس کے عیب بتلانے سے گھبراتا ہے اور نہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے اس کو اس کے عیوب سے آگاہ کر دیا تو وہ غصّہ میں آ کر مجھے ہی نہ توڑ ڈالے۔ اس لئے ایک صاحبِ ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کی کمزوری کے اظہار سے نہ ڈرے۔ نہ حجاب محسوس کرے اور نہ شرمائے بلکہ ایسے انداز میں نہایت حکمت اور پیار و محبت سے نشاندہی کر دے کہ وہ غصّہ میں آنے کی بجائے فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کے قرآنی اُصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے عیب کو دُور کرنے کی طرف توجہ دے نہ کہ اس پر عمل ہو۔

؏ آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے

7۔ آئینہ کا ایک وصف یہ ہے کہ جو اس کے سامنے آئے گا اس کو اس کا عیب بتا دے گا اور جب وہ شیشہ سے اوجھل ہوا تو اس کے عیوب بھی اوجھل ہو جاتے ہیں اور بعد میں آنے والے شخص کو پہلے شخص کے عیوب نہیں بتاتا۔ گویا آئینہ غیبت اور چغل خوری نہیں کرتا۔

آئینہ کا وصف ہر مومن کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بدنامی کاموجب نہ ہو۔ اس کے عیوب اور سقم کی تشہیر نہ کرتا پھرے اور اگر اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو ایک میں … کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسرے میں ’’اَلْمُؤْمِنُ‘‘ کا اور یہ دونوں الفاظ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے بھائی کے لئے سلامتی اور امن کا پیغام بنے اور یہ یونہی بنا جا سکتا ہے کہ ہم غیبت اور چغل خوری سے بچیں اور شیشے کی طرح ستاری اور پردہ پوشی کی صفت کو اپنائیں اور ہمدرد اور شفیق بن کر علیحدگی میں، تخلیہ میں اس کی کوتاہی کی نشاندہی کی جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اس مضمون کو اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اصلاحی کوششیں جو صرف نصیحت کا رنگ رکھتی ہیں وہ ضرور ہونی چاہئیں اور نصیحت کرنا تصادم نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ہر شخص کو نصیحت کے اوپرمامور فرما دیا ہے۔ اس لئے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ کسی کونصیحت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اس سے متصادم ہو رہے ہیں۔ اس لئے اگر آپ کو کوئی نصیحت کرتا ہے تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ تم اس کو کہوکہ تم میرے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہو۔ جاؤ اپنے معاملہ میں اپنا معاملہ رکھو۔ یہ حماقت ہے۔ یہ جواب زندگی کی حقیقت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔جو نصیحت کرتا ہے وہ ٹکراتا نہیں ہے۔ وہ ایک مشورہ دیتا ہے۔ ایک بیرونی آئینہ دکھاتا ہے۔ اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دیا ہے۔ آئینہ اگر متصادم ہوگا تو ٹوٹ جائے گا۔ لیکن آئینہ تو خاموشی سے صحیح صورت اور رنگ دکھا دیتا ہے اور اس کا پراپیگنڈا نہیں کرتا، کسی اور کو کسی کے چہرے کا نقص نہیں بتاتا۔‘‘

(مشعل راہ جلد سوم ص328)

گویا کہ آئینہ اصلاح و ارشاد کا کام بھی کرتا ہے۔ ایک بھائی دوسرے کے لئے اصلاح کا ذریعہ ہےاوروہ دوسرے کو ہمیشہ اصلاح کی طرف راغب کرتا ہے۔ جیسے نمازوں میں کسی کو باقاعدہ دیکھ کر نمازوں کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔ کسی کے گھر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنتے ہی یہ جذبہ دل میں پیدا ہوتاہے کہ میرے گھر سے بھی قرآن کریم کی آوازیں بلند ہوں تا میرے گھر میں بھی فرشتوں کا نزول ہو۔

8۔ قریباً ہر گھر میں آئینہ کی موجودگی ہمیں یہ ایک عظیم سبق دیتی ہے کہ ایک مومن بھائی کو اکیلا نہیں رہنا چاہئے۔ دعوت الیٰ اللہ کرکے اپنا بھائی ضرور بنانا چاہئے کیونکہ آئینہ کی عدم موجودگی سے انسان اپنے چہرہ کے وصف اور کمزوریوں سے کما حقہ‘ آگاہ نہیں ہو سکتا۔ انسان روزانہ ہی غیر ارادی اور غیر شعوری طورپر ایسی کئی حرکات اور عادات بجا لاتا ہے جو ناپسندیدہ ہوتی ہیں اوردینی تعلیم بھی ان کو پسند نہیں کر رہی ہوتی اوربسا اوقات نا پسندیدہ حرکات بجا لانے والے کو بھی اس امر کا احساس بھی نہیں ہو رہا ہوتا کہ یہ حرکات معیوب نہیں اور وہ ان کو بُرا سمجھ بھی نہیں رہا ہوتا ہے۔ تاہم دوسرے بھائی کی طرف سے توجہ دلانے پر اس کو بُرائی کا احساس ہوتا ہے۔

9۔ آئینہ صرف نقائص ہی نہیں بتاتا بلکہ انسانی چہرے کی خوبصورتی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ اس کے حسن کی تعریف کرتا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوبصورت اور صحت مند چہرہ ملنے پر شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔

آنحضور ﷺ آئینہ دیکھتے وقت یہ دُعا کیا کرتے تھے۔

کہ اے اللہ! خوبصورت شکل و شباہت بھی تو نے ہی عطا کی ہے۔ اب میرے اخلاق بھی حسین اور خوبصورت بنا دے۔

(مسند احمد مطبوعہ بیروت جلد6ص 150)

لہٰذا ایک صاحبِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ آئینہ کی طرح اپنے بھائی کے اندر پائی جانے والی خوبی کی تعریف بھی کرے۔ اس کے کام کی تعریف کرے۔ اس کی حوصلہ افزائی ہو تا وہ نیکیوں میں مزید آگے بڑھے۔

10۔ آئینہ مسابقت فی الخیرات کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک صاحب ِایمان بھائی جب اپنے بھائی میں نیکیاں دیکھتا ہے تو فوراً وہ اپنا جائزہ لیتا ہے، اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اپنے اندر موجود سقم سے آگاہ ہوتا ہے تو اپنے اندر بھی وہ نیکیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو وہ اپنے بھائی کے اندردیکھ چکا ہے۔ جیسے حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہر وقت مصروف رہتے تھے اور حضرت ابو بکرؓ ہمیشہ سبقت لے جاتے۔ مالی قربانی میں ایک دفعہ حضرت عمر ؓ گھر کا نصف مال لے آئے تو حضرت ابوبکر ؓ پورے اثاثے کے ساتھ حاضر ہو گئے۔

11۔ جہاں ایک نیک پارسا انسان دوسرے کمزور لوگوں کے لئے آئینہ کا کام کرتا ہے وہاں ایک کمزور انسان بھی ایک اچھے پارسا انسان کے لئے آئینہ کا کام کرتا ہے۔ کیونکہ ایک کمزور اور عیوب سے لت پت انسان کو دیکھ کر خدا سے خوف رکھنے والا انسان جہاں جذبات شکر گزاری بجا لاتا ہے وہاں ان کمزوریوں سے ناپسندیدہ حرکات سے دُور رہنے کے عہد و پیمان بھی باندھتا ہے۔

کہتے ہیں حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ تم نے ادب کہاں سے سیکھے ہیں۔ جواب دیا۔ ‘‘از بے ادباں’’ کہ بے ادبوں سے۔ مزید استفسار پر بتلایا کہ ہر ناپسندیدہ چیز جو میں نے غیر میں دیکھی اس سے میں نے پرہیز کیا۔

مادی اور روحانی ہر دو دُنیا میں آئینہ کو جو خاص اہمیت حاصل ہے اس کو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتب میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے لئے حضرت محمد مصطفی ﷺ بطور آئینہ کے ہیں۔

قرآن کریم بطور آئینہ کے ہے ۔ آنحضور ﷺ کی سیرت اور اخلاق اپنا کر اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کر کے ہی خدا تعالیٰ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا۔ خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں۔ ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد22صفحہ 151)

قرآن کریم بھی ایک شیشہ ہے قرآن کریم میں بیان تمام اخلاق پر عمل کر کے ہی خدا تعالیٰ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گویا ہر صاحبِ ایمان آنحضور ﷺ کی اقتداء میں کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن کی عملی تصویر بن جائے۔

آپؑ فرماتے ہیں ۔ ؎

سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیں
مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا

انسان کا دل بھی مثل آئینہ تمام آلائشوں اور گندگیوں سے پاک ہونا چاہئے تا جہاں اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک رسائی حاصل کر سکے وہاں مخلوق خدا کی ہدایت واصلاح کا بھی باعث ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

“ایک شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے رنگ میں گویا وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اُس میں باقی نہیں رہی تجلّیاتالٰہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں اصل کیلئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 66)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ۔
’’جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے۔ آفتاب کا عکس ایسے پُورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وُہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ 65)

حضرت مسیح موعودؑ نے خدا کو پانے کے جو ذرائع بیان فرماتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعدادِ فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دِکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہوجاتا ہے اور کہیں بڑا۔ جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وُہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دِکھائی دیتا ہے۔ مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا۔ چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دکھا دیتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دکھلا نہیں سکتا۔ سو جس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اگرچہ قدیم اور غیر متبدّل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اِس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس قدر فرق نمودار ہو جاتے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 28)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ