• 25 اپریل, 2024

آخری عشرہ اور آنحضورﷺ کی عبادات

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۳﴾لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۴﴾

ترجمہ:یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔اور تُجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

آنحضرتؐ کے متعلق حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں۔

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتھد فی العشر الاواخر،مالا یجتھد فی غیرہ

(مسلم،کتاب الاعتکاف)

کہ رسول اللہﷺ آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا۔
‘‘ آپؐ کی روایات جو رمضان کے علاوہ ہیں وہ ایسی روایات ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے کہ ایک انسان اتنی عبادت بھی کرسکتا ہے۔ساری ساری رات بسا اوقات خدا کے حضور بلکتے ہوئے ایک سجدہ میں گزار دیتے تھے۔جس طرح کپڑا انسان اتار کر پھینک دیتا ہے اسی طرح آپؐ کا وجود گرے ہوئے کپڑے کی طرح پڑا ہوتا تھا اور عائشہ صدیقہؓ تلاش میں گھبرا کر باہر نکلتی ہیں اور رسول اللہؐ کو ایک ویرانے میں پڑا ہوا دیکھتی ہیں اور جوش گریاں سے جیسے ہانڈی ابل رہی ہو ایسی آواز آرہی ہوتی تھی۔…یہ عام دنوں کی بات ہے یہ رمضان کی بات نہیں ہے،عام دنوں میں یہ پایا ہے حضرت عائشہؓ نے۔آپؓ گواہی دیتی ہیں کہ محمدؐ رسول اللہ پر آخری عشرے میں ایسے وقت آتے تھے کہ ہم نے پہلے کبھی دوسرے دنوں میں نہیں دیکھے۔’’

(خطبہ جمعہ23جنوری1998ء)

حضرت عائشہؓ پھر آپؐ کا طریق مبارک بیان فرماتی ہیں۔

اذا دخل العش،احیا اللیل،وایقظ اھلہ،وجدّ وشدّ المئزر

(مسلم کتاب الاعتکاف)

جب(آخری)عشرہ آتا تو رسول اللہ ؐ اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور اپنے گھر والوں کوبیدار کرتے اور خوب مجاہدہ فرماتے اور کمر کس لیتے تھے۔
آنحضورﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں خلوت نشینی فرمالیتے تھے اور اسی طرح دن رات کا بڑا حصہ عبادات،ذکر الٰہی،تلاوت قرآن کریم اور دعاؤں میں مصروف رہتے تھے اور آپؐ کا یہ طریق عمل آخر عمر تک جاری رہا۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ؐ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں۔

(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف)

حضرت ابی بن کعبؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضورؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے،ایک سال آپؐ سفر میں تھے(اور اعتکاف رہ گیا)تواگلے سال آپؐ نے بیس دن اعتکاف کیا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام)

یہ وہ مبارک عشرہ ہے جس میں لیلۃ القدر بھی ہے اور آنحضورؐ اس کو پانے کے لئے خاص جدوجہد فرمایا کرتے تھے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے ایک روایت ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف بیٹھے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے۔پھر جبرائیل آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے۔پھر نبی کریمؐ بیسویں رمضان کی صبح کو کھڑے ہوئے اور ہمیں مخاطب ہوکر فرمایا:جو شخص نبیؐب کے ساتھ اعتکاف بیٹھا تھا وہ پھر اعتکاف بیٹھے۔کیونکہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی ہے۔(آپؐ نے فرمایا)میں اسے بھول گیا ہوں۔وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ مٹی اور پانی میں سجدہ کررہاہوں۔پھر آپؐ نے اکیسویں رات کو صبح تک عبادت کی۔(اس رات) بارش ہوئی اور مسجد ٹپک پڑی۔جب آپؐ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے اور باہر نکلے تو آپؐ کی پیشانی اور ناک پر مٹی اور پانی لگا ہواتھا۔اور یہ آخری عشرہ کی اکیسویں رات تھی۔

(بخاری کتاب الاذان)

لیلۃ القدر کے متعلق سورۃ القدر کی آیات اپنے مفاہیم ومطالب میں بہت وسعت رکھتی ہیں۔جو نعمت جس قدر عظیم الشان ہو اسی قدر جدوجہد اس کے حصول کے لئے درکار ہوتی ہے۔آیات کریمہ میں لیلۃ القدر کو بعثت نبویؐ اور نزول قرآن کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔
اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا:‘‘یہ زمانہ لیلۃ القدر ہے۔یہ سارا زمانہ جس کی آنحضرتؐ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسلام پر ایسی صبح طلوع ہونے والی ہے جوپھر کبھی لمبے عرصے تک اندھیروں میں تبدیل نہیں ہوگی،…یہ زمانہ جو ہمارا زمانہ ہے یہ لیلۃ القدر کا زمانہ ہے۔پس آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش کریں لیکن ان معنوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کریں کہ وہ آپ کی زندگی سنواردے اور آپ اسلام کی اس لیلۃ القدر میں شامل ہوجائیں جو لیلۃ القدر ایک صبح کی خوشخبری لائی ہے اور یہ صبح اب کبھی ختم…نہیں ہونی چاہئے۔’’

(خطبہ جمعہ 23مارچ1998ء)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو لیلۃ القدر کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے بعض کو وہ (آخری عشرہ)کی پہلی سات راتوں میں دکھائی گئی ہے اور تم میں سے بعض کو وہ آخری سات راتوں میں دکھائی گئی ہے پس تم آخری عشرے میں اسے تلاش کرو۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘آخری عشرہ میں تو پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے،قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے بلکہ ان دنوں میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کہا ہے اور یہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔اس ایک رات کی عبادت انسان کو باخدا انسان بنانے کے لئے کافی ہے۔تو اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خالص ہوکر ان…دنوں میں ہی خداتعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو کیا بعید ہے کہ یہ …راتیں بلکہ ان میں سے ایک رات ہی ہمارے اندر انقلابی تبدیلی لانے والی ہو،خدا کا صحیح عبد بنانے والی ہو اور ہماری دنیا وآخرت سنور جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے بن جائیں۔’’

(خطبات مسرور جلد3صفحہ640)

حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا:جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اس میں قیام کیا اس کی گزشتہ گناہوں سے مغفرت کی گئی۔

(مختصر قیام اللیل و قیام رمضان للمروزی صفحہ252)

پس ہمیں چاہئے کہ ہم آنحضورؐ کے اسوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دس دنوں میں عبادات کی طرف خاص توجہ کریں اور آپ ؐ کی نصحیت کے مطابق لیلۃ القدر کی تلاش کریں۔عین ممکن ہے کہ ہمیں استجابت دعا کی ہو گھڑی نصیب ہوجائے جو ہماری زندگی کی تمام تاریکیوں کو نور میں بدل دے۔

(عطاء اللہ مجیب)

پچھلا پڑھیں

شوال کےروزے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2020