• 24 اپریل, 2024

کورونا وائرس اور والدہ کی خدمت کے ایمان افروز نظارے

اللہ تعالیٰ نے والدین اور بالخصوص والدہ کی خدمت کا بہت بڑا درجہ اورثواب رکھا ہےاورجواپنے آپ کوتکلیف میں ڈال کرایسے وقت میں والدین کی خدمت پر کمر بستہ ہوتے ہیں جب اپنی کمزوری یا مجبوری کی وجہ سے وہ خود اپنی ضروریات پوری نہ کرسکیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے پیارکی نظریں پڑتی ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی حفاظت کرتا اوران کےلئےمشکل کشاءبن جاتا ہےاور بسا اوقات ان کے لئے حیرت انگیز نشانات دکھاتا ہے۔ حدیث میں ایک واقعہ کاذکراس طرح ملتا ہے کہ ایک موقع پر جب تین اشخاص ایک غار میں پتھر کے آجانے کے سبب پھنس گئے تو ان کی رہائی کی ایک بڑی وجہ ایک شخص کی اپنے والدین کی خدمت کے صدقے خداتعالیٰ کے حضور التجا تھی۔

آج خاکسار تحدیث نعمت کے طور پر اسی قسم کے واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہے خاکسار کے بڑے بھائی مکرم لطیف احمد طاہر آسٹن ۔ امریکہ میں رہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مارچ میں جب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ان کے شہر میں بھی سب کاروبار بند ہو گیا اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان دنوںسے فائدہ اٹھا تے ہوئے والدہ (مکرمہ صادقہ بیگم اہلیہ مکرم مولوی محمد شریف صاحب سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ ربوہ)کے پاس نیویارک چلے جائیں باوجود اس کےکہ نیویارک میں سب سے زیادہ کیسزہو رہے تھے اور بہت سے لوگ منع بھی کر رہے تھے وہ نیویارک آ گئے اور 15 دن کے قریب والدہ کے پاس رہے اور29 مارچ کوبخیروعافیت واپس اپنے گھر آسٹن پہنچ گئے خاکسار کے دوسرے بھائی مکرم نعیم احمد سیکریٹری ضیافت نیو یارک جماعت جن کی عمر 65سال ہے جو والدہ کے پاس رہتے ہیں اور لطیف بھائی بھی ان کے پاس مقیم رہے چنانچہ نعیم بھائی حسب معمول مہمان نوازی کے علاوہ بزرگ والدہ کی دیکھ بھال کرتے رہے جبکہ والدہ ماجدہ کی عمر ماشاء اللہ 96 سال کے لگ بھگ ہے ان کے پاس ہی ساتھ والے پلنگ پر سوتے اور ضرورت پڑنے پر پکڑ کر اٹھاتے اورکھانا وغیرہ کھلاتے رہے حالانکہ بھائی کوکورونا وائرس کا اٹیک ہو چکا ہوا تھا لیکن ابھی علامات پوری طرح سامنے نہیں آئی تھیںجس کی وجہ سے وہ حسب معمول والدہ کی خدمت کا فریضہ بجا لاتے رہے جس دن بڑے بھائی کی واپسی تھی اس دن طبیعت زیادہ خراب ہونے پر اندازہ ہوا کہ وائرس کا حملہ ہو چکا ہواہے اس وقت انہوں نے امی جان کے پاس جانے سے احتیاط شروع کی لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی بڑے بھائی تو اس مہلک وائرس سے محفوظ رہے جن کی عمر بھی 67 سال کی ہے البتہ والدہ اس وائرس کی زد میں آ گئیں جس کی وجہ سے ان کی حالت بگڑنے لگی اور ساتھ ہی نعیم بھائی میں وائرس کی علامات زور پکڑنے لگیں اور وہ مکان کی دوسری منزل کے کمرہ میںمنتقل ہو گئے جہاں دن بدن ان کی طبیعت خراب ہوتی گئی بخار کے ساتھ کھانسی کا بھی زور ہوتاگیاکھانا پینا بھی نہ ہونے کے برابر تھا جس کی وجہ سے بے حد کمزوری سے نڈھال ہو جاتے کرونا کا ٹیسٹ کرایا جو مثبت آیا ادھر والدہ ماجدہ کی صحت بھی زیادہ بگڑنے لگی گو کہ ان کا باقاعدہ ٹیسٹ تو نہیں کروایا گیا لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ وائرس کا اٹیک ہو چکا ہے گھر میں نعیم بھائی کی اہلیہ اور دو بچے بے حد پریشان کہ صورتحال کو کیسے سنبھالیں خاص طور پر نیویارک میں کرونا وائرس کے زور کی وجہ سے ہسپتال ایڈمٹ کرنے کے لئے بھی سب کو انقباض تھا اس کسمپرسی کی حالت میں چھوٹے بھائی ڈاکٹر کریم احمد شریف صدر جماعت باسٹن کو جب صورت حال کا پتہ چلا تو بغیر کسی توقف کے اپنے گھر سے نیویارک آگئے کئی لوگوں نے منع کیااور بےشمار لوگوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا کہ جس گھر میں اس وائرس کے دو مریض موجود ہیں اور نیویارک ویسے ہی اس مہلک وائرس کا گڑھ بنا ہوا ہے وہاں جانا خطرہ سے خالی نہیں لیکن اپنی بزرگ والدہ کی خدمت اور دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ بڑے بھائی کی خبر گیری کا جذبہ سب سوچوں ۔ اندیشوں اور خطروں پر غالب آگیااور آ کر خدمت کا خوب حق ادا کیا وہ بتاتے ہیں کہ

‘‘جب میں آیا تھا تو امی جان اور نعیم بھائی میں کرونا وائرس کی علامات شروع ہو چکی تھیں اور دونوں کی حالت کافی تشویشناک تھی جس کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری تھی جمعہ کے دن طبیعت زیادہ خراب ہونے پر فکر ہوئی کہ اگر ویکنڈ پر انہیں سانس کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو کیا ہو گا اسی دوران بھائی جان مبارک جمیل (کزن)کا فون آیا تو میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سے آکسیجن کی فراہمی کا کہہ کے دیکھ لیں اس پر ڈاکٹر سے مشورہ کر کے آکسیجن گھر پر منگوا لی لیکن اللہ تعالیٰ نے بے حد فضل کیا اور امی جان کو معجزانہ طورپر شدید بیماری کے باوجود محفوظ رکھااور زندگی عطا کی ’’

کچھ دنوں کے علاج ، احتیاط اور سب سے بڑھ کر دعاؤں سے امی جان کے ساتھ ساتھ نعیم بھائی جان کی طبیعت بھی بحال ہونا شروع ہو گئی لیکن اس دوران چھوٹے بھائی کریم کو وائرس کا ان سے بھی زیادہ شدید اٹیک ہو گیا اور دن بدن اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ بخار اور شدید کمزوری کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں بہت دشواری ہونے لگی اور وہی آکسیجن جو والدہ کے لئے منگوائی تھی ان کےکام آئی۔اللہ کی شان ہے کہ کس طرح پہلے سے اس نے انتظام کروا دیااور کافی دن آکسیجن لینے کی ضرورت پڑتی رہی بہرحال ایسی بے بسی کی کیفیت رہی جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے چند دن توبے حدپریشانی میں گزرے باسٹن میں ان کی بیگم اور بچے الگ فکرمندتھے حالات کی وجہ سے نہ وہ آسکتے نہ یہ وہاں جا سکتے۔ ہسپتال جانے کے توخیال سے ہی ڈر لگتا تھاچنانچہ ایک دن ان کی بیٹی نے دعا کے لئے کہا اور بتایا کہ اگلے 24گھنٹے بہت اہم ہیں تو خاکسار نے فوراً حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کودعا کے لئے خط لکھا اور بطور خاص اس بات کا ذکر کیا کہ بھائی کو ہسپتال میں ایڈمٹ نہ ہونا پڑے چنانچہ گھر میں ہی علاج کیا جاتا رہا اور اب وہی بھائی جن کا خیال رکھنے کہ لئے یہ آئے تھے شفاءیابی کے بعد ان کا خیال رکھ رہے تھے ان دنوں فون کی گھنٹی بجتی یا وٹس ایپ پر امریکہ سے کسی فیملی ممبر کا میسیج آتا تویکدم دل دھڑک ساجاتا کہ یا اللہ خیر ہو بس ایک ہی اور ایک ہی سہارا دعا کا تھا بار بار پیارے آقا کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھتے رہے صدقہ و خیرات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ساتھ ممکنہ علاج بھی ہوتا رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت اور سب کی دعاؤں کو سنتے اور قبول کرتے ہوئے انہیں بھی اس وائرس سے معجزانہ رنگ میں شفا دی ۔الحمدللہ ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نہ صرف والدہ کو پیرانہ سالی میں اس خطرناک وائرس کے شدید حملہ کے باوجود زندگی عطاء کی بلکہ ان کی خدمت کے بدلہ میں تین بیٹوں کے علاوہ بقیہ گھر کے افراد پر بھی اپنا خاص فضل اور رحم فرمایا ۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ ۔ حقیقت میں ہم احمدی کتنے خوش قسمت ہیں کہ خدا کا پیارا خلیفہ دن رات درد اور تڑپ کے ساتھ ہمارے لئے دعائیں کرتا ہے اور ہم اس کی برکات کا فیض پاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گزار بندہ بنائے ۔ خلافت سے وابستہ رکھے اور والدین کی کما حقہ خدمت کی توفیق ملتی رہے ۔ اس سارے عرصہ میں دنیا بھر سے لوگ حال پوچھتے اور دعائیں کرتے رہے ان سب کا شکریہ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے ۔ آمین

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
‘‘یہ مت سمجھو کہ جس کو ہم و غم پہنچتا ہے وہ بد قسمت ہے۔ نہیں خدا اس کو پیار کرتا ہے جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقعہ شدہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں ۔ ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے ’’

(ملفوظات )

(وسیم احمد ظفر۔ برازیل)

پچھلا پڑھیں

آپ آن لائن اسٹور کامیابی سے چلا سکتے ہیں-اپنی دکان کو آن لائن کریں

اگلا پڑھیں

شوال کےروزے