• 19 اپریل, 2024

فضل و رحم اور اس کا حصول (حصہ دوم)

فضل و رحم اور اس کا حصول
حصہ دوم

قارئین الفضل کے لئے ایک خصوصی تحریر۔ حصہ اوّل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن 26 اپریل 2022ء

رمضان المبارک میں ’’فضل اور رحمت کے دائرے‘‘ کے موضوع پر ایک مضمون الفضل آن لائن مورخہ 26اپریل 2022 میں آچکا ہے۔ جو محض ایک تعارفی یا تمہیدی رنگ رکھتا تھا اور اس میں بھی رحمت کی نسبت فضل کا پہلو زیادہ غالب تھا۔ دراصل موضوع کی وسعت کے پیش نظر کسی ایک یا دو نشستوں میں سمیٹنا اسےممکن بھی نہیں۔

فضل ورحم اور صفات الٰہیہ

دراصل فضل ورحمت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفا ت رحمانیّت اور رحیمیّت سےہے جس کی وسعت سمجھنے کےلئے بطور مثال عرض ہے کہ قرآن شریف کا خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے یعنی اس میں موجود صفات الٰہیہ ربّ العالمین، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین۔ پھرفاتحہ کاملخص بسم اللہ میں ہے یعنی چار صفات کا ماحصل دوصفات رحمان اور رحیم میں آگیا۔گویا یہ دونوں صفات سارے قرآن کے مضمون پر حاوی ہیں اس لئے ان کی تفصیل کسی ایک نوٹ میں بیان کرنی ممکن نہیں۔

زیر نظر مضمون میں فی الوقت رحمت کےوہ تشنہ پہلو بیان کرنے مقصودہیں جوگزشتہ نشست میں بیان نہ ہوسکےاور جن میں طبعاً فضل کا ذکر بھی آئیگا کیونکہ ان دونوں صفات رحمان اوررحیم کا مادہ ’’رحم‘‘ ہی ہےاس لئے فضل ورحم ایک دوسرے سے جدانہیں بلکہ کسی قدرباہم پیوست ہوکرسائنس کی زبان میں یونین سیٹ بناتی ہیں یعنی جہاں ان میں اشتراک ہے وہاں رحمت وفضل مترادف معنی میں نظر آتے ہیں اور جہاں بظاہر اشتراک نظر نہ آئے وہاں صفت رحمانیّت کا رنگ بصورت فضل وکرم نمایاں ہوتاہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دنیوی و دینی تمام انعامات کا تعلق بنیادی طور پر اس کی صفات رحمانیت وررحیمیّت سے یا فضل اور رحمت سے ہی ہے اوریہی انسان کی پیدائش کی اصل غرض ہے۔یہاں پہنچ کر یہ سوال بہت اہم ہوجاتا ہے کہ پھر یہ فضل ورحم کیسے حاصل ہو؟

فضل ورحم کا حصول

قرآن شریف اللہ تعالیٰ فضل ورحمت کے حصول کامضمون بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا (النساء: 84) یعنی اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کى رحمت نہ ہوتے تو تم چند اىک کے سوا ضرور شىطان کى پىروى کرنے لگتے۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:

وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَرَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ

(النور:22)

ترجمہ: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کى رحمت تم پر نہ ہوتے تو تم مىں سے کوئى اىک بھى کبھى پاک نہ ہو سکتا لىکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دىتا ہے اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔

اس آیت کے آخر میں دو صفات سمیع و علیم بڑی معنی خیز ہیں جس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے دل کے حالات اور نیت کو جانتا اور اس کے مطابق سلوک فرماتا ہے ۔ سمیع میں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے حصول کیلئے عبادت اور متضرّعانہ دعاؤں کے بغیر گزارا نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز کی لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت کے ساتھ پڑھے۔ تقویٰ کے ابتداء درجے میں قبض شروع ہو جاتی ہے اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ خدا کے پاس إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا تکرار کیا جائے۔‘‘

(الحکم 17فروری 1901ء)

پھر دعا میں رقت آمیز کیفیت اور الفاظ بھی اختیار کرنے چاہئیں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ دعا سکھائی۔
’’اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تا کہ اس کے ذریعے سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میسر آوے۔‘‘

پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کانزول ہے جس کے نتیجہ میں رقت اور قبولیت دعا کی کیفیت عطا ہوتی ہے اس بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’وہ دعا جو خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے وہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی۔انسان کا ذاتی اختیار نہیں کہ وہ دعا کے تمام لوازمات اور شرائط محویت، توکل، تبتل، سوز و گداز وغیرہ کو خود مہیا کر لے۔ جب اس قسم کی دعا کی توفیق کسی کو ملتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہو کر ان تمام شرائط اور لوازم کو حاصل کرتی ہے جو اعمال صالحہ کی روح ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ389)

اسی طرح حضورؑ نے فرمایا:
’’جس گناہ کے چھوڑنے میں جو اپنے آپ کو کمزور پاوے اس کو نشانہ بنا کر دعا کرے تو اسے فضل خدا سے قوت عطا ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ622)

عرض اپنی کوشش اور محنت کے باوجود مراتب روحانی کے حصول کیلئے اللہ تعالی کے فضل کا ہر دم انسان محتاج ہے۔ جیسا کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں۔
’’بیعت کے بعد جب لدھیانہ ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند وسوالات کے بعد حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی کرا سکتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسب شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ جس پر خدا کا فضل ہو جائے۔ اسی رات میں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ374۔375)

دائرہ رحمت الٰہی

قرآن شریف میں مختلف پیرایوں میں رحم کے مضمون پر نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہےجس کا مطالعہ بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ اس بارہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم نے ہی دراصل انسانی زندگی کا مکمل احاطہ کیا ہوا ہے خواہ وہ عالم صغیر ہو یعنی وجود انسان کی مختصر سی کائنات جس میں انسانی جسم اس کے اعضاء اور جملہ نظام دوران خون و تنّفس وانہضام اور نظام اعصاب وغیرہ شامل ہیں اور خواہ وہ عالم کبیر ہو یعنی وسیع تر نظام کائنات ِعالم جو آسمان اور زمین اور تمام سیاروں پر مشتمل ہے اورجس میں ہماری زمین کی حیثیت ایک معمولی نکتہ سے زیادہ نہیں، یہ تمام نظام خاص اللہ تعالی کے فضل و رحم کے نتیجہ میں رواں دواں اور جاری و ساری ہیں۔ رحمت کی اس وسعت کا ذکر قرآن شریف میں مختلف پیرایوں میں کیا گیا ہے۔

(1) قرآن شریف اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ بیان فرماتا ہےکہ اللہ تعالی غنی اور بے نیاز ہے۔ اسے ہماری اس نظام کائنات کی کوئی حاجت نہیں مگر وہ صاحبِ رحمت ہستی ہے۔ اس رحمت کے اظہار کے لئے اس نے یہ سلسلہ جاری کیا۔ ورنہ وہ جب چاہے ہماری جگہ نیا نظام اور سلسلہ شروع فرما دے۔ بس انسان کواس کی رحمت کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے اسے سعی و دعاکرنی ہوگی فرمایا:

وَرَبُّکَ الۡغَنِیُّ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَیَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِکُمۡ مَّا یَشَآءُ کَمَاۤ اَنۡشَاَکُمۡ مِّنۡ ذُرِّیَّۃِ قَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾

(الانعام: 134)

’’اور تىرا ربّ غنى اور صاحبِ رحمت ہے اگر وہ چاہے تو تمہىں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے جانشىن بنا دے جس طرح اس نے تمہىں بھى اىک دوسرى قوم کى ذرّىت سے اٹھاىا تھا۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چونکہ غفور یعنی بخشنے والا بھی ہے اور صاحب رحمت بھی۔ اس لئے وہ لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی جلد سزا نہیں دیتا۔چنانچہ فرماتا ہے۔

وَرَبُّکَ الۡغَفُوۡرُ ذُو الرَّحۡمَۃِ ؕ لَوۡ یُؤَاخِذُہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا لَعَجَّلَ لَہُمُ الۡعَذَابَ ؕ بَلۡ لَّہُمۡ مَّوۡعِدٌ لَّنۡ یَّجِدُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖ مَوۡئِلًا ﴿۵۹﴾

(الكہف: 59)

’’اور تیرا ربّ بہت بخشنے والا اور بڑى رحمت والا ہے اگر وہ ان کا مؤاخذہ کرے اس پر جو وہ کسب کرتے ہىں تو ان پر جلد تر عذاب لے آئے لىکن ان کے لئے اىک وقت مقرر ہے جس سے بچ نکلنے کى وہ کوئى راہ نہىں پائىں گے۔‘‘

(2) دوسری بات مالک ارض وسماء نے اپنی وسعت رحمت کےبارہ میں یہ بیان فرمائی کہ وہ خالق کائنات اس نظام عالم کواپنے ماننے والے یا انکار کرنے والے بلا تفریق اس اصول پر چلا رہاہے کہ اس نے اپنی ذات پر رحمت کو فرض کر لیا ہے۔ فرمایا۔

قُلۡ لِّمَنۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ ؕ کَتَبَ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ اَلَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾

(الانعام: 13)

ترجمہ: ’’پوچھ کہ کس کا ہے جو آسمانوں اور زمىن مىں ہے کہہ دے کہ اللہ ہى کا ہے اس نے اپنے اوپر رحمت فرض کر رکھى ہے وہ ضرور تمہىں قىامت کے دن تک اکٹھا کرتا چلا جائے گا جس مىں کوئى شک نہىں وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے مىں ڈالا پس وہ تو اىمان نہىں لائىں گے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَرَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَیُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ

(الاعراف: 157)

’’اس نے کہا مىرا عذاب وہ ہے کہ جس پر مىں چاہوں اس کو وارد کر دىتا ہوں اور مىرى رحمت وہ ہے کہ ہر چىز پرحاوى ہے پس مىں اُس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے واجب کر دوں گا جو تقوى اختىار کرتے ہىں اور زکو دىتے ہىں اور وہ جو ہمارى آىات پر اىمان لاتے ہىں۔‘‘

یعنی مومن اورمتقی تو اس رحمت سے لازماً فیضیاب ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کافر اس سے محروم رہیں گے بلکہ وہ بھی اس کی وسیع رحمت سے حصہ پاتے ہیں۔

اس رحمت الٰہی کی وسعت کا اندازہ رسول کریم ﷺ کے اس بیان سے خوب ہوتا ہے جو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصّے کئے اور ننانوے اپنے پاس رکھ لئے زمین میں ایک حصّہ اتارا۔ اسی ایک حصّہ کی وجہ سے مخلوق خدا آپس میں محبت کے رشتے استوار رکھتی ہے جہاں تک کہ ایک جانور بھی اپنا پاؤں اپنے بچے سےاس لئے اٹھا لیتا ہے کہ اسے تکلیف نہ ہو۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الادب باب جعل اللّٰه الرحمة في مائة جزء)

چنانچہ فرمایا :

قُلۡ لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِکُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَۃِ رَبِّیۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَکۡتُمۡ خَشۡیَۃَ الۡاِنۡفَاقِؕ وَکَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ﴿۱۰۱﴾

(الاسراء: 101)

ترجمہ:۔ تُو کہہ دے کہ اگر تم مىرے ربّ کى رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تب بھى تم ان کے خرچ ہو جانے کے ڈر سے انہىں روک رکھتے اور انسان ىقىناً بہت کنجوس واقع ہوا ہے۔‘‘

رحمت الٰہی کی تقسیم

اسی طرح اس مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ رحمان ورحم خدا نے اپنی رحمت کی تقسیم کا خودیہ انتظام کیا اسے انسانوں کے سپرد نہیں کیا۔ فرمایا۔

اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ وَرَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۳۳﴾

(الزخرف: 33)

ترجمہ: کىا وہ ہىں جو تىرے ربّ کى رحمت تقسىم کرىں گے ہم ہى ہىں جنہوں نے ان کى معىشت کے سامان ان کے درمىان اس ورلى زندگى مىں تقسىم کئے ہىں اور ان مىں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں پر ہم نے مراتب کے لحاظ سے فوقىت بخشى ہے تاکہ ان مىں سے بعض، بعض کو زىرنگىں کرلىں اور تىرے ربّ کى رحمت اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہىں۔

صرف کافر رحمت الٰہی سے مایوس ہوتے ہیں

اپنی اس رحمت کا اعلان عام کرنے کے بعد پھر تمام بنی نوع انسان کو توجّہ دلائی کہ وہ کیوں اس کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں فرمایا:

قَالَ وَمَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ ﴿۵۷﴾

(الحجر: 57)

’’اس نے کہا بھلا گمراہوں کے سوا کون ہے جو اَپنے ربّ کى رحمت سے ماىوس ہو جائے۔‘‘

ایک جگہ حضرت یعقوبؑ کی اپنے بیٹوں کو نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا جس سے صرف اللہ کےمنکر ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔ فرمایا:

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَاَخِیۡہِ وَلَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸۸﴾

(يوسف: 88)

ترجمہ: اے مىرے بىٹو! جاؤ اور ىوسف اور اس کے بھائى کے متعلق کھوج لگاؤ اور اللہ کى رحمت سے ماىوس نہ ہو ىقىناً اللہ کى رحمت سے کوئى ماىوس نہىں ہوتا مگر کافر لوگ۔

پھر تمام گناہ گار بندوں کےلئے رحمت عام اور مغفرت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۴﴾

(الزمر: 54)

ترجمہ: تُو کہہ دے کہ اے مىرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زىادتى کى ہے اللہ کى رحمت سے ماىوس نہ ہو ىقىناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے ىقىناً وہى بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت کے بارہ میں حضرت ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ آیت قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ (الزمر: 54) مجھے دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ہے ان سے بھی زیادہ پیاری ہے۔

(مسند احمد جلد5 صفحہ275)

مومن اور کافر کےلئے رحمت عام کے اعلان میں یہ اشارہ فرمادیا تھا کہ اس رحمت سے زیادہ حصہ وہی پائیں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اللہ کے حکم کی تعمیل میں ایمان لائیں گے مگر دوسرے بھی اس رحمت ِ عام سے محروم نہ رہیں گے۔

مومن رحمت الٰہی کے مورد

یہ مضمون زیادہ تفصیل سے دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا کہ ایمان لانے کے بعد مومن اللہ کی رحمت کے ایسے سائے میں آجاتے ہیں کہ نادانی میں کسی غلطی کا ارتکاب کریں تو اللہ تعالیٰ رحمت و مغفرت کا سلوک کرے گا۔ فرمایا:

وَاِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَاَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۵﴾

(الانعام: 55)

ترجمہ:اور جب تىرے پاس وہ لوگ آئىں جو ہمارى آىات پر اىمان لاتے ہىں تو (ان سے) کہا کر تم پر سلام ہو (تمہارے لئے) تمہارے ربّ نے اپنے اوپر رحمت فرض کردى ہے (ىعنى) ىہ کہ تم مىں سے جو کوئى جہالت سے بدى کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو (ىاد رکھے کہ) وہ (ىعنى اللہ) ىقىناً بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

رحمت کی برکات

وہ مومن جو ایمان کے بعد مضبوطی سے اس پر قائم ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ اور زیادہ رحمت کا سلوک ہوتاہے اور وہ انعامات دنیا و دین کے وارث ہوتے ہیں۔ فرمایا:

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَاعۡتَصَمُوۡا بِہٖ فَسَیُدۡخِلُہُمۡ فِیۡ رَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَفَضۡلٍ ۙ وَّیَہۡدِیۡہِمۡ اِلَیۡہِ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿۱۷۶﴾

(النساء: 176)

’’پس وہ لوگ جو اللہ پر اىمان لے آئے اور اس کو مضبوطى سے پکڑ لىا تو وہ ضرور انہىں اپنى رحمت اور اپنے فضل مىں داخل کرے گا اور انہىں اپنى جانب سیدھى راہ کى ہداىت دے گا‘‘

یہاں رحمت و فضل کے بعد انجام کار صراط مستقیم عطا کرنے کے جس انعام کا ذکر کیا ہے وہ معمولی انعام نہیں بلکہ ان اعلیٰ انعامات کی راہ کھل جانے کی نوید ہے جس کےنتیجہ میں روحانیت کے چار اعلیٰ مراتب عطا ہوتے ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ایما ن لانے کے بعد قربانیوں کی بھی توفیق پاتے ہیں، خدا کی خاطر اپنے وطن اور عزیز واقارب کو خیرباد کہتے ہیں اورپھر اس کی راہ میں اپنے مال بھی قربان کرتے ہیں وہ بطور خاص اس رحمت الہیٰ کے وارث ہوتے ہیں۔ فرمایا:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۲۰﴾ یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَرِضۡوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۲۱﴾ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۲۲﴾

(التوبہ: 20-22)

’’جو لوگ اىمان لائے اور انہوں نے ہجرت کى اور اللہ کى راہ مىں اپنے اموال اور اپنى جانوں کے ساتھ جہاد کىا وہ اللہ کے نزدىک درجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہىں اور ىہى وہ لوگ ہىں جو کامىاب ہونے والے ہىں۔ ان کا ربّ انہىں اپنى طرف سے رحمت کى اور خوشنودى کى اور اىسى جنتوں کى خوشخبرى دىتا ہے جن مىں ان کےلئے ہمىشہ ٹھہرى رہنے والى نعمتىں ہوں گى۔ وہ ہمىشہ ہمىش ان مىں رہنے والے ہىں ىقىناً اللہ وہ ہے کہ اس کے پاس اىک اجرِ عظىم ہے۔‘‘

چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قدیمی ایمان لاکر ہجرت کرنے والے صحابہ کی قربانی کو انصار مدینہ پر مقدم رکھا ہے اور ان مہاجرین نے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کےفضل اور رحم سے انصار سے بھی زیادہ حصہ پایا۔ چنانچہ اسلام کے چاروں خلفاء راشدین مہاجرین میں سے ہوئےاور روحانی فضلوں کےعلاوہ دنیوی برکات سے بھی مستفیض ہوئے۔

چنانچہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف مکہ سے ہجرت کرکے خالی ہاتھ مدینہ پہنچے اور ابتداً محنت مزدوری اورپھر تجارت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خوب مال ودولت عطاکی اور آپ نے بھی دل کھول کر خد اکی راہ میں اپنا مال لٹایا مگر مال میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ خدا نے ایسی برکت ڈالی کہ خود فرماتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو سونا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس قدر فیاضی کے باوجود اپنے ورثاء کے لئے بہت مال چھوڑا۔ چار بیویوں کو ترکہ کے آٹھویں حصے کے طور پراسی، اسی ہزار دینار ملے۔ مال وراثت میں سونے کی اتنی بڑی بڑی اینٹیں تھیں کہ کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ جائیداد غیر منقولہ اور نقدی اس کے علاوہ تھی جس میں ایک ہزار اونٹ، سو گھوڑے اورتین سو بکریاں بھی ترکے میں چھوڑیں۔

(اسد الغابہ جلد3 صفحہ317-318)

یہ تو ایک مثال ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے سب مہاجرین سے اپنے فضل ورحمت کے وعدے پورے فرمائے۔ آمین

پھر یہی ایمان لانے والے مہاجرین وانصار جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہوئے اور جانی قربانیوں کی توفیق پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی اور زیادہ رحمتوں کے مورد ہو ئے۔

غزوہ احد میں جاتے ہوئے حضرت جابر ؓ کے والد حضرت عبداللہ ؓ نے یہ وصیت کی کہ میں احد میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو میرے بعد اپنی بہنوں کا خاص خیال رکھنا۔ ان کی نگہداشت کرنا۔ نیز وصیت کی کہ یہود سے جو قرض میں لے چکا ہوں وہ میرے کھجور کے باغات سے ادا کر دینا۔ حضرت عبداللہؓ اسی جذبہ شوق شہادت کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جابرؓ کو تسلی اور دلاسہ دیا۔ جابرؓ کے چہرے پر آپؐ نے یاس اور فکر کے آثار دیکھے تو کتنی محبت سے فرمانے لگے جابرؓ کیا وجہ ہے مغموم نظر آتے ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے والد احد میں شہید ہو گئے۔ پیچھے عیالداری اور قرض ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ خوشخبری سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو عطا کی۔ انہوں نے کہا ضرور اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں فرمایا مگر تمہارے باپ کو زندہ کر کے آمنے سامنے کلام کیا اور فرمایا ’’اے میرے بندے مجھ سے جو چاہو خواہش کرو میں پوری کروں گا۔‘‘ تمہارے باپ نے کہا کہ ’’اے میرے رب مجھے زندہ کر کے واپس بھیج کہ تیری راہ میں پھر دوسری دفعہ شہید ہو جاؤں‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ ہماری سنت کے خلاف ہے جو لوگ مر جائیں ان کے بارے میں فیصلہ گزر چکا ہے اَنَّھُم لاَ یَرْجِعُونَ وہ دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹائے جاتے۔

(ترمذی کتاب التفسیر سورۃ آل عمران)

الغرض خدا پر ایمان لانے والے جہاں رحمت خداوندی سے اس کی نعمتوں کے وارث ہوتے ہیں وہاں دنیا کی مصیبتوں اور تکالیف سے بھی دوسروں کی نسبت زیادہ بچائے جاتے ہیں۔

رحمت کے نتیجہ میں عذاب سے حفاظت

چنانچہ قرآن شریف میں سورۃ ہود میں جہاں مختلف قوموں کو اپنے رسولوں کے انکار اور تکذیب کے بعد عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے وہاں مختلف انبیاء کی قوم عذاب کے بیان میں تکرار کےساتھ یہ بیان فرمایا ہے کہ جب عذاب آیا تو حضرت ہودؑ اوران کے ساتھی اور حضرت صالحؑ اوران پر ایمان لانے والے اور حضرت شعیبؑ ان کے قبول کرنے والے مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے الہیٰ رحمت خاص سے اس عذاب سے بچالیا۔ (ہود: 95-67-59) جبکہ ظالم قوم پر سخت عذاب سے گرفت فرمائی۔

پھر ایمان اور اس کے لئے قربانیوں کے علاوہ بعض ایسے اعلیٰ اخلاق ہیں جن کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں انسان اللہ کی رحمت کا زیادہ مورد ہوتا ہے۔ یہ مضمون اپنی ذات میں بہت وسیع ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں اسی طرح فضل ورحم کےحصول کے ایک اہم ذریعہ دعا کا ذکر کئے بغیر یہ مضمون مکمل نہیں ہو گا۔

فضل ورحم کی دعائیں

چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل اور رحم مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ فرمایا:

وَلَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَسۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۳۳﴾

(النساء: 33)

ترجمہ: اور اللہ نے جو تم مىں سے بعض کو بعض پر فضىلت بخشى ہے اس کى حرص نہ کىا کرو مردوں کے لئے اس مىں سے حصہ ہے جو وہ کمائىں اور عورتوں کے لئے اس مىں سے حصہ ہے جو وہ کمائىں اور اللہ سے اس کا فضل مانگو ىقىناً اللہ ہر چىز کا خوب علم رکھتا ہے۔

رسول کریم ﷺ نے بھی اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے اسکا فضل مانگا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہے کہ اس سے مانگا جائے۔

(ترمذی کتاب الدعوت باب فِي انْتِظَارِ الْفَرَجِ وَغَيْرِ ذَلِكَ)

دعائے موسٰیؑ

چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے ہجرت کے وقت انتہائی فاقہ اور محتاجی کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ’’خیر‘‘ مانگی اس دعا کی نتیجہ میں انہیں ایسے فضل سے نوازا گیا جس سے غریب الوطنی میں ان کے قیام وطعام کے علاوہ گھر بار اور شادی کا انتظام بھی ہوگیا وہ دعا یہ تھے

رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ

(القصص: 25)

یعنی اے مىرے ربّ! ىقىناً مىں ہر اچھى چىز کے لئے، جو تُو مىرى طرف نازل کرے، اىک فقىر ہوں۔

یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رحمت کی دعا ئیں مانگنے کا سلیقہ خود سکھایا ہے۔

حضرت امّ سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو میں نے یہ دعا کرتے سنا کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر قائم کر دے میں نے پوچھا کہ کیا دل بھی بدل جاتے ہیں آپؐ نےمجھے ایک قرآنی دعا سنائی اور فرمایا کہ انسان کا دل خدا کی دوا نگلیوں میں ہوتا ہے جب چاہے پھیر دے۔

(درمنثورللسیوطی جلد2 صفحہ8)

رحمت بھری دعا

وہ رحمت بھری دعا یہ تھی۔

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۹﴾

(آل عمران: 9)

یعنی اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹىڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمىں ہداىت دے چکا ہو اور ہمىں اپنى طرف سے رحمت عطا کر ىقىناً تو ہى ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔

ارحم الراحمین کا واسطہ دے کر دعائیں

اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کررحم کرنیوالا ہے وہ اپنے بندوں کوجو اس سے رحم کے طالب ہوتے ہوئے پسند کرتا ہے۔ فرمایا

اِنَّہٗ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡ عِبَادِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾

(المؤمنون: 110)

ترجمہ: ىقىناً مىرے بندوں مىں سے اىک اىسا فرىق بھى تھا جو کہا کرتا تھا اے ہمارے ربّ! ہم اىمان لے آئے پس ہمىں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو رحم کرنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اس صبر کی وجہ سے میں نے آج انہیں یہ جزادی ہے کہ وہ کامیابی پانیوالے ہیں۔

سورت المومنون کے آخر میں اللہ تعالیٰ رسول کریمؐ کےذریعہ مومنوں کو یہ دعابھی سکھائی۔

وَقُلۡ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَارۡحَمۡ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ

(المؤمنون: 119)

ترجمہ: اور تُو کہہ اے مىرے ربّ! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔

سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی دعاؤں کی قبولیت دعا کے واقعات اوران کے دیگر احوال میں حاصل ہونے والی برکات کو اللہ کی صفت رحمت کےساتھ جوڑا ہے۔ چنانچہ حضرت ایوبؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی تکلیف کے وقت اللہ کی صفت ارحم الراحمین کا واسطہ دیکرجو دعا کی وہ پایۂ قبولیت کو پہنچی۔

وَاَیُّوۡبَ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۴﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّاٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَمِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَذِکۡرٰی لِلۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۵﴾

(الانبیاء: 84-85)

ترجمہ: اور اىوب (کا بھى ذکر کر) جب اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھے سخت اذىت پہنچى ہے اور تُو رحم کرنے والوں مىں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ پس ہم نے اس کى دعا قبول کرلى اور اس کو جو بھى تکلىف تھى اسے دور کردىا اور ہم نے اُسے اُس کے گھر والے عطا کر دئىے اور ان کے ساتھ اور بھى اُن جىسے دئىے جو ہمارى طرف سے اىک رحمت کے طور پر تھا اور نصىحت تھى عابدوں کے لئے۔

انبیاء رحمت خاص کے مورد

اسی طرح حضرت اسماعیلؑ حضرت ادریسؑ اور حضرت ذوالکفل کی صفت صبر وصالحیّت کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کر لیا۔

وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِدۡرِیۡسَ وَذَا الۡکِفۡلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۶﴾ وَاَدۡخَلۡنٰہُمۡ فِیۡ رَحۡمَتِنَا ؕ اِنَّہُمۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۸۷﴾

(الأنبياء: 86-87)

یعنی اور اسماعىل اور ادرىس اور ذوالکفل (کا بھى ذکر کر وہ) سب صبر کرنے والوں مىں سے تھے۔ اور ہم نے ان کو اپنى رحمت مىں داخل کىا ىقىناً وہ نىک لوگوں مىں سے تھے۔

حضر ت زکریاؑ کا سورۃ مریم کے آغاز ہی میں یوں ذکر فرمایا ہے ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ﴿۳﴾ (مريم: 3) یعنی ىہ ذکر ہے تىرے ربّ کى رحمت کا اُس کے بندے زکرىا پر۔

حضرت زکریاؑ نے بظاہر اپنے بانجھ بیوی سے اللہ تعالیٰ سے اولاد پانے کی دعا کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اس کے سامان پیدا کر دئیے۔

وَزَکَرِیَّاۤ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ ﴿ۚۖ۹۰﴾ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۫ وَوَہَبۡنَا لَہٗ یَحۡیٰی وَاَصۡلَحۡنَا لَہٗ زَوۡجَہٗ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَیَدۡعُوۡنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا ؕ وَکَانُوۡا لَنَا خٰشِعِیۡنَ ﴿۹۱﴾

(الأنبياء: 90-91)

یعنی اور زکرىا (کا بھى ذکر کر) جب اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ اے مىرے ربّ! مجھے اکىلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ پس ہم نے اس کى دعا کو قبول کىا اور اسے ىحىى عطا کىا اور ہم نے اس کى بىوى کو اس کى خاطر تندرست کر دىا ىقىناً وہ نىکىوں مىں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لىنے والے تھے اور ہمىں چاہت اور خوف سے پکارا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزى سے جھکنے والے تھے۔

حضرت سلیمانؑ کی یہ دعا قرآن شریف میں مذکور ہے جو انہوں نے اللہ کو اس کی رحمت کا واسطہ دیکر اس کے نیک بندوں میں شامل ہونے کے لئے کی۔

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنۡ قَوۡلِہَا وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَاَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۲۰﴾

(النمل: 20)

یعنی وہ (ىعنى سلىمان) اس کى اس بات پر مسکراىا اور کہا اے مىرے ربّ! مجھے توفىق بخش کہ مىں تىرى نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کى اور مىرے ماں باپ پر کى اور اىسے نىک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تُو مجھے اپنى رحمت سے اپنے نىکو کار بندوں مىں داخل کر۔

رحمت کے کرشمے

اصحاب کہف میں سے چند موحدعیسائی نوجوانوں کا بھی سورۃ کہف میں ذکر ہےجو اپنے دین کی حفاظت کی خاطر غاروں میں روپوش ہوگئے تھے وہاں وہ رحمت خدا وندی کی یہ دعا کرتے رہےجو بالآخر مقبول ٹھہری۔

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً وَّہَیِّیٴۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا

(الكہف: 11)

یعنی اے ہمارے ربّ! ہمىں اپنى جناب سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملے مىں ہمىں ہداىت عطا کر۔

رسول کریم ﷺ صحابہ کو تعلیم فرماتے تھے کہ مسجد میںداخل ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مسجد سے باہر نکلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل کی دعا کر یں جس میں دینی ودنیوی دونوں برکات کا اشارہ تھا۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے ایک شخص کو دیکھا جو سوکھ کرکانٹا ہوچکا تھا آپؐ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت کی دعا نہیں کرتے تھے۔ اس نے کہا میں تویہ دعا کرتا رہا تھا کہ اے اللہ! تو نے جو سزا مجھے آخرت میں دینی ہے وہ بھی ابھی دنیا میں دے دے نبی کریم ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ ! تمہیں اس کی سزا کی طاقت کیسے ہوسکتی ہے؟ تم نے یہ دعا کیوں نہ مانگی؟

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

(البقرہ: 202)

یعنی ے ہمارے ربّ! ہمىں دنىا مىں بھى حَسَنہ عطا کر اور آخرت مىں بھى حَسَنہ عطا کر اور ہمىں آگ کے عذاب سے بچا۔

(ترمذی ابواب الدعوات)

یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ کے دنیوی ودینی افضال اور برکات کے حصول کے لئے بہت عمدہ ہے۔

رسول کریم ﷺ نے ایک اور شخص کوساری نعمتوں کے حاصل ہوجانے کی دعا کرتے سنا توآپؐ نے فرمایا ساری نعمتوں سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے توخیر وبھلائی کی خاطر یہ دعا کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کامل نعمت یہی ہے کہ خدا کی رضا کی جنت نصیب ہوجائے اور آگ کے عذاب سے انسان بچ جائے۔

(ترمذی ابواب الدعوات)

فضل ورحم کے لئے رسول کریمؐ کی دعائیں

ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا جس میں اللہ تعالیٰ کو اس کی رحمت کا واسطہ دیا گیا ہے۔

اَللّٰهم بِاسمك الطَّاهر الطَّيب المُبارَك الاَحَبِّ إليك الَّذع اذادُعِیتَ بِه اَجَبتَ واذا سُئِلتَ به اَعطَيتَ واذا استُرحِمتِ به رَحِمتَ واذا استُفرِجتَ به فَرَّجتَ

(ابن ماجہ کتاب الدعاء)

ترجمہ: اے اللہ! تجھے اس پاک اور طیب برکت والے اور سب سے پیارے نام کا واسطہ کہ جس کا نام لے کر تجھے پکارا جائے تو تو دعا قبول کرتا ہے اور جب اس نام کے ساتھ تجھ سے مانگا جاتا ہے تو تو عطا کرتا ہے۔ اور جب اس نام کے ساتھ تجھ سے رحمت طلب کی جاتی ہے تو تو رحم فرماتا ہے اور اس نام کے واسطہ سے تجھ سے مشکل کشائی کا تقاضا کیا جاتا ہے تو تو مشکل دور فرماتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض سے بچنے کے لیے جودعا سکھائی۔وہ فضل الٰہی کے مضمون پر مشتمل ہے۔

اَللّٰهُمَ اكفِنا بِحلالِك عَن حَرامِك وَاَغنِنا بِفَضلِك عَمَّن سِوَاك

(ترمذی کتاب الدعوات)

ترجمہ: اے اللہ تو میرے لئے کافی ہوجا اپنے حلال کے ساتھ اپنے حرام سے (بچا کر) اور مجھے اپنے فضل سے اپنے سوا ہر کسی سے بےنیاز کردے۔

ایک دفعہ صحابہ نے رسول کریم ﷺ سے دعا کی درخواست کی توآپؐ یہ دعا کرتے فرمایا اس میں ساری دعائیں جمع ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَتَقَبَّلْ مِنَّا وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّه

(ابن ماجہ کتاب الدعا)

یعنی اے اللہ! ہمیں بخش دے اور ہمیں جنت میں داخل کر اور آگ سے بچا اور ہمارے سب کام تو خود بنا دے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں

حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کےلئے جود عائیں کیں ان میں فضل اوررحمت کے ساتھ خدا سے مدد مانگی ہے۔ چند دعائیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔

اے خدا شیطان پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکھٹی کر رہا ہے اپنی فوجیں بےشمار

یا الہٰی فضل کر اسلام پر اورخود بچا
اس شکستہ ناؤ کےبندوں کی اب سن کے پکار

(درثمین صفحہ 127-128)

اپنی اولادوں کےحق میں دعائیں کرتے ہوئے بھی حضورؑنے اللہ تعالیٰ سے اسکا فضل اور رحم طلب کیا۔

لخت جگر ہے مرا محمود بندہ تیرا
دے اس کو عمر ودولت کر دور ہر اندھیرا
اس کے ہیں دوبردار ان کو بھی رکھیو خوشتر
تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر
کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطرّ

(درثمین صفحہ35تا38)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا

ہمارے موجودہ امام بھی اپنی مختصر خاص دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم مانگتے ہیں۔ جلسہ سالانہ برطانیہ 2019ء میں جلسہ کے آخری دن جب حضور نے مغرب و عشاء کی نماز پڑھائی تو شاید مائیک بہت حساس تھا۔ یا بہت قریب تھا۔ حضور کی سجدہ کی حالت کی دعائیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

اس بارہ میں مکرم آصف باسط صاحب نے ایک انٹرویو میں حضورانور سے استفسار کیا تو حضور نے فرمایا کہ

’’اچھا کیا آواز آئی تھی؟‘‘

انہوں نے کہا کہ صرف یہی باربار سنائی دے رہا تھا کہ اے اللہ رحم کر دے۔ اے اللہ فضل کر دے۔ اور بڑے درد کے ساتھ متواتر یہی دعا تھی۔

اس پر حضور نے فرمایا ’’تو یہی سب سے اچھی دعا ہے۔ اس دعا میں ساری دعائیں آ جاتی ہیں۔ آدمی دوسری دعائیں بھی مانگے مگر اس دعا میں تو سب دعائیں آ جاتی ہیں‘‘

اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی درد بھری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہم سب کے حق میں قبول فرمائے۔ حضور پر اپنا خاص فضل فرمائے اور خاص رحم بھی۔ حضور پر تو اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور رحم ہیں۔ مگر اس فضل اور رحم کی کوئی انتہا بھی تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور کی یہ درد مندانہ التجائیں حضور کے حق میں بھی اور ہمارے حق میں بھی قبول فرمائے۔

(حضور انٹرویو الحکم ویب سائٹ 23 اگست 2019ء)

(علامہ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

اعلانِ ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2022