• 20 اپریل, 2024

آپﷺ پر دنیا والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ …

آپﷺ پر دنیا والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذباللہ آپؐ نے دنیاوی جاہ و حشمت کے لئے حملے کئے اور ایک علاقے کو زیر کرکے اپنی حکومت میں لے آئے۔ پھر آپؐ کی ازواج مطہرات کے حوالے سے قسم قسم کی باتیں آج کل کی جاتی ہیں۔ ایسی کتابیں لکھی جاتی ہیں باتیں کہ جن کو کوئی شریف النفس پڑھ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ امریکہ میں ہی جو نئی کتاب لکھی گئی ہے، اس پہ کسی عیسائی نے ہی یہ تبصرہ کیا تھاکہ ایسی بیہودہ کتاب ہے کہ اس کو تو پڑھا ہی نہیں جا سکتا۔ تو یہ سب الزامات جو آپﷺ کی ذات پر لگائے جاتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ سے آپؐ کی ذات بابرکات پر یہ الزام لگائے گئے۔ جب آپؐ نے دعویٰ کیا اس وقت بھی کفار کا یہ خیال تھا کہ شاید کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے آپؐ نے یہ دعویٰ کیا ہے اور آپؐ کے چچا کے ذریعہ سے آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ آپؐ ہمارے مذہب کے بارہ میں، ہمارے بتوں کے بارے میں کچھ کہنا چھوڑ دیں اور اپنے دین کی تبلیغ بھی نہ کریں اور ہم اس کے بدلے میں آپؐ کی سرداری بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ اپنی دنیا کی جاہ و حشمت جو ہمارے پاس ہے وہ بھی آپؐ کو دینے کو تیار ہیں۔ اپنی دولت بھی دینے کو تیار ہیں۔ عرب کی خوبصورت ترین عورت بھی دینے کو تیار ہیں تو آپؐ کا جواب یہ تھا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تو تب بھی مَیں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا۔ مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ ان کی خرابیاں ان کو بتاؤں اور ان کو سیدھے راستے پر چلاؤں۔ اگراس کے لئے مجھے مرنا ہی ہے تو پھر مَیں بخوشی اس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور موت کا ڈر مجھے اس کام سے روک نہیں سکتا اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ مجھے اس سے روک سکتا ہے۔

پس دنیاداروں نے تو ہمیشہ سے آپؐ کے اس کام کو جوآپؐ خداتعالیٰ کی خاطر کر رہے تھے اور خداتعالیٰ کے حکم سے کر رہے تھے دنیاوی اور ظاہری چیز سمجھا اور کفّار نے آپؐ کو اس کے لئے پیشکش بھی کی اور آپؐ نے اس وجہ سے کفار کی ہر قسم کی پیشکش کو رد ّکرکے یہ واضح کر دیا کہ مَیں اس دنیا کی جاہ و حشمت اور دولت کا امید وار نہیں ہوں بلکہ مَیں تو زمین و آسمان کے خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ وہ آخری نبی ہوں جس نے تمام دنیا پر خدائے قادر و توانا اور واحد ویگانہ کا جھنڈا لہرانا ہے۔ اور آپؐ کی اس بات کا اعلان اللہ تعالیٰ نے بھی آپؐ پر یہ آیت نازل کرکے کر دیا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام: 163) ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

پس یہ تھا آپؐ کا مقام جو سرتاپا خدا کی محبت میں ڈوب کر آپ کو ملا تھا۔ آپ کو دنیاوی جاہ و حشمت نہیں چاہئے تھی۔ آپؐ کو تو خدائے واحدکی حکومت تمام دنیا پر چاہئے تھی اور اس کے لئے آپؐ نے ہر دکھ اٹھایا۔ آپؐ نے دنیا کو بتایا کہ اگر تم ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اور نمازوں کے وہ حق ادا کرنے کی اور وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو جس کے نمونے مَیں نے قائم کئے ہیں۔ عبادتوں میں ڈوبنا ہی زندگی کی ضمانت ہے۔ اور قربانیوں کے ذریعہ حقیقی موت سے پہلے وہ موت اپنے اوپر وارد کرو جس کے اعلیٰ ترین معیارمَیں نے قائم کئے ہیں اور اس وجہ سے جو موت آئے گی تو پھر ایک ابدی زندگی شروع ہو گی۔ جو انسان کو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گی۔ پس نمازوں اور قربانیوں کی وہ معراج آپؐ نے حاصل کی جس نے زندگی اور موت کے نئے زاویے آپؐ کی ذات میں قائم فرما دئیے اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یہ اعلان کروا دیا کہ مجھے کسی لالچ کی کیا ترغیب دیتے ہو اور مجھے کسی ظلم کا نشانہ بنانے سے کیا ڈراتے ہو، میرا تو ہر فعل میرے خدا کے لئے ہے اور جس کا سب کچھ خدا کا ہو جائے اس کے لئے نہ دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت ہے، نہ موت کی کوئی حیثیت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا، آنحضرتﷺ نے یہ اعلان کرکے ہمیں یہ بھی تعلیم دی کہ میرے نمونے تو یہ ہیں۔ تم بھی فَاتَّبِعُوْنِیْ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان راستوں پر قدم مارنے کی کوشش کرو۔

(خطبہ جمعہ 13؍ مارچ 2009ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2020