• 25 اپریل, 2024

نرم زبان کا استعمال دلوں پر فتح پاتا ہے

زبان بظاہر انسانی منہ میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے مگر حقیقت میں یہ انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہے زبان لوگوں پر یہ بات بالکل واضح کر دیتی ہے کہ اس انسان کا اندر کتنا پاک ہے یا کتنا گندہ ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا یہ فرمان کتناصحیح ہے آپؑ نے فرمایا۔’’ نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ280)

زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے منہ یا زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر یا بندوق سے نکلی ہوئی گولی کبھی واپس نہیں آتی چنانچہ کسی پنجابی شاعر نے ایک مصرعے میں کیا خوب کہا ہے۔
’’ جو بول منہ اوں نکل گیا او تیر کمانوں نکل گیا ‘‘
اور کسی اردو کے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

’’ بات اپنی کرے یا پرائی کرے
آدمی سوچ کے لب کشائی کرے ‘‘

عربی زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے

’’ اَ لْلِسَانُ مَرْکُوبٌ ذَلُول ‘‘

زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی اختیار میں ہے
انگریزی میں مثل مشہور ہے۔

Think before you leap
یا Think before you speak

اور اردو میں مثل مشہور ہے ۔’’ پہلے تولو پھر بولو ‘‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’ زبان آپ کو مٹھائی بھی کھلا سکتی ہے اور پٹائی بھی ‘‘ قرآن کریم کی سورۃالمومنون میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
ترجمہ: یقیناًمومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں۔

(المومنون: 1تا 3)

اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم جو کہ ہدایت کا منبع ہے اس کی سورۃ المدثر میں دوزخیوں اور جنتیوں کے درمیان ایک نہایت نصیحت آموز مکالمہ بیان ہوا ہے۔ جنت والے دوزخ والوں سے پوچھیں گے تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کیا ؟ وہ کہیں گے ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔
ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھےاور ہم لغو باتوں میں مشغول رہنے والوں میں مشغول ہو جایا کرتے تھے اور ہم جزاسزا کے دن کا انکار کیا کرتے تھے۔

(المدثر:41تا47)

قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے۔
’’اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے ‘‘
نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ آپؐ کا وجود ایسا ہی تھا۔خدا نے اپنی رحمت سے آپؐ کو خاص کر لیا تھا اور آپ نے اپنی پوری حیات مبارکہ میں اپنی زبان مبارک کا اس قدر اعلیٰ استعمال فرمایا کہ جو بلا شبہ ہم سب کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے ۔بول چال میں احتیاط کا یہی درس آ نحضرت محمد ﷺ نے ہمیں دیا ہے۔ چنانچہ حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے۔
’’کیا میں تمہیں ایسی آسان عبادت نہ بتاؤں جو بجا لانے کے لحاظ سے بڑی ہلکی ہے۔خاموشی اختیار کرو،بے ضرورت بات نہ کرو اور اچھے اخلاق اپناؤ‘‘
حضرت عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
’’دوزخ سے بچ جاؤ اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ اور جو شخص اس کو نہ پائے تو وہ اچھی بات (بیان کر کے بچ جائے)۔‘‘

(بخاری و مسلم بحوالہ ریاض الصالحین صفحہ 88)

آپؐ نے ہمیشہ اچھی بات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
’’ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے‘‘

(بخاری و مسلم بحوالہ ریاض الصالحین صفحہ 88)

اور ہمیشہ بری بات کہنے سے روکا چنا نچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔
’’بندہ بعض وقت ایسی بات کہتا ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ گہرائی میں جا پڑتا ہے۔‘‘

(بخاری و مسلم)

حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ نجات اور بچاؤ کی بہترین راہ کیا ہے؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
’’اپنی زبان کو روک کر رکھواپنا گھر مہمانوں کے لئے کھلا رکھو اور اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر خدا کے حضور رویا کرو۔‘‘

(ترمذی ابواب الزہد باب ما جاء فی حفظ اللسان)

اسی طرح حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی زبان اس کے قابو میں ہو اس کا مکان مہمانوں کے لئے کشادہ ہو اور وہ خدا کے حضور اپنی غلطیوں پر روتا ہو۔‘‘
آپﷺ نے اپنے غلام مسیح موعودؑ کے کام بیان فرماتے ہوئے فرمایا۔ یُحْیِ الدِّیْنَ یعنی وہ دین کو زندہ کرے گا وَ یُقِیْمُ الشَّرِیعَۃ اور شریعت کو اصل حالت میں قائم کرے گا۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کام کو خوب کر کے دکھا دیا آپؑ نے اپنے آقا و مطاع آنحضرت ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو زبان کے استعمال میں احتیاط کا درس دیا چنانچہ آپ ؑنے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کے لئے جو 10 شرائط بیان فرمائیں ان میں سے چوتھی شرط میں فرماتے ہیں۔
’’ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے ‘‘

(اشتہار تکمیلِ تبلیغ 12 جنوری 1889ء)

آپ ؑ فرماتے ہیں۔
’’میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات پر بودوباش رکھتے ہیں ۔ اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقوی ٰکے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آسکے۔ وہ پنج وقتہ نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں اور کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں وہ کسی قسم کی بد کاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لائیں….. اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے….. اور تمام انسانوں کی ہمدرد ی ان کا اصول ہو اور خدا تعالی سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلدسوم صفحہ 47،46)

اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں۔
’’میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہواور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یاد رکھو ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور در گزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو اور اگر کوئی بحث کرو یا مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آئے تو سلام کرو ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ اگر تم ستائے جاؤ گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے الفاظ کہے جائیں تو ہوشیار ہو کر سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقا بلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسے کہ وہ ہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنادے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راست بازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اورفتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے گا۔ کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناً وہ بد بختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا ۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 47)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں۔
’’ تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد زبان اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقوی ٰکو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی جب وہ بزرگ کھانا کھانے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو ہم دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تُو تو بہت ہی قابلِ رحم ہے ۔ان تین ہی فقروں میں تونے اپنے تینوں ہی حجوں کا ستیاناس کر دیا ۔ تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اظہار کرے کہ تونے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی بےہودہ ،بے موقع غیر ضروری باتوں سے احترازکیا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ 280)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اپنی ساری زندگی میں مخالفتوں کے طوفانوں کا دشمنوں کی گالیوں کا کمال حلم سے مقابلہ فرمایا اور کبھی اپنی زبان مبارکہ سے ایک سخت کلمہ نہ نکالا بلکہ ان گالیاں دینے والوں کو اپنے گھر سے کھانا تک کھلایا اور اپنے اصحاب کا بھی ہمیشہ ادب واحترام کیا اور اپنی زبان مبارکہ سے ایک سخت کلمہ تک نہ نکالا آپ ؑ کے جلیل القدر صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بیان کرتے ہیں۔
’’ آپ اپنے خدام کو بڑے ادب و احترام سے پکارتے ہیں اور حاضر وغائب ہر ایک کا نام ادب سے لیتے ہیں ۔ میں نے بارہا سنا ہے اندر آپ اپنی زوجہ سے گفتگو کر رہے ہیں اور اسی اثنا میں کسی خادم کا نام زبان پر آگیا ہے تو بڑے ادب سے لیا ہے جیسے سامنے لیا کرتے ہیں ۔کبھی تُو کر کے کسی سے خطاب نہیں کرتے۔ تحریروں میں جیسے آپ کا عام رویہ ہے’’اخویم مولوی صاحب‘‘اور’’اخویم حبی فی اللہ مولوی صاحب۔‘‘اسی طرح تقریر فرماتے ہیں’’مولوی صاحب یوں فرماتے ہیں‘‘ …… میں نے اتنے عرصہ دراز میں کبھی نہیں سنا کہ آپ کی مجلس میں کسی کو بھی تُو کہہ کر پکارا ہو یا خطاب کیا ہو۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 43)

ہمیشہ زبان کے درست استعمال کا سبق دامن خلافت سے بھی ملا ہے ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 24نومبر1989ء کے خطبہ جمعہ میں مذہبی قوموں کی تعمیر وترقی میں سب سے اہم بات ان کے اخلاق کی تعمیر کو قرار دیتے ہوئے پانچ بنیادی اخلاق کو اپنانے کی تلقین فرمائی۔ آپ نے دوسرابنیادی خلق ’’ نرم اور پاک زبان کا استعمال‘‘ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’تربیت کا دوسرا پہلو نرم اور پاک زبان کا استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا ہے یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا ۔ان کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے۔ان کی باتوں اور طرز عمل میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے جس سے وہ بسا اوقات با خبر نہیں ہوتے۔ جس طرح کانٹے دکھ دیتے ہیں اور ان کو پتا نہیں ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اس طور پر بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کر کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی باتیں چاروں طرف دکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں ، تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بیچاری ہمیشہ ظلموں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور اگر عورتیں ہوں تو ان کے مردوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ گھر میں بچے جب ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں اگر چھوٹی چھوٹی بات پر توتو میں میں اور جھگڑے شروع ہو جائیں تو آپ یقین جانیں کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں ۔ایک ایسی نسل چھوڑ کر جا رہے ہیں جو آئندہ زمانوںمیں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی اور آپ اس بات کے ذمہ دار ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں نے ایک دوسرے سے زیادتیاں کیں، سختیاں کیں، بد تمیزیاں کیں اور آپ نے ان کو ادب سکھانے کی طرف توجہ نہ کی۔‘‘

(مشعل راہ جلد 3صفحہ 462)

پھر آپؒ فرماتے ہیں۔
’’میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک بچپن سے ہم اپنی اولاد کو زبان کا ادب نہیں سکھاتے اس وقت تک آئندہ ان کے کردار کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔‘‘

(مشعل راہ جلد 3 صفحہ463)

ہم اپنی زبان سے محبت وپیار کر کے لوگوں کے دلوں پہ فتح حاصل کر سکتے ہیں عربی زبان میں کہتے ہیں۔
’’ لِیْنُ الْکَلَام قَیْدُالْقُلُوب ‘‘
نرم بات دلوں کی بیڑی ہے۔ پیار سے تو پتھر دِل بھی موم ہوجاتاہے۔
زبان کے استعمال کے بارہ میں تعلیمات ہم تک قرآنِ پاک،احادیث نبوی ﷺ، حضرت مسیح موعود ؑ اور خلفاء احمدیت کے ذریعہ پہنچ گئی ہیں ۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم زبان کا استعمال کس طور پر کرتے ہیں کیوں کہ عربی زبان کا محاورہ ہے۔
’’ اَللِّسَانُ مَرْکَبٌ ذَلُولٌ ‘‘
زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی ہر انسان کے اختیار میں ہے کہ اسے جس طرح چاہے استعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زبان کا بہترین طور پر استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔کیونکہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے۔’’مسلما ن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

(بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20دسمبر2019