• 23 اپریل, 2024

اخلاق سے مراد خدا تعالىٰ کى رضا جوئى کا حصول

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز فرماتے ہىں۔

’’آپ (حضرت مسىح موعود) فرماتے ہىں مثلاً عقل مارى جاوے تو مجنون کہلاتا ہے۔ صرف ظاہرى صورت سے ہى انسان کہلاتا ہے۔ (کوئى پاگل ہو تو ظاہرى صورت سے وہ انسان کہلاتا ہے۔ لىکن اس کى عقل بالکل نہىں ہے اور جو انسانوں مىں عقل ہوتى ہے وہ اس سے عارى ہو جاتا ہے) پس اخلاق سے مراد خداتعالىٰ کى رضا جوئى۔ (اور وہ رضا جوئى کىا ہے؟) (جو رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى عملى زندگى مىں مجسم نظرآتا ہے) (اخلاق وہ ہىں جو اللہ تعالىٰ چاہتا ہے اور اللہ تعالىٰ کىا چاہتا ہے وہ جو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى زندگى مىں آپ کے ہر پہلو سے ہمىں نظر آتا ہے) کا حصول ہے۔ (ىہ ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔ اخلاق سے مراد خدا تعالىٰ کى رضا جوئى کا حصول ہے) اس لئے ضرورى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى طرزِ زندگى کے موافق اپنى زندگى بنانے کى کوشش کرے۔ ىہ اخلاق بطور بنىاد کے ہىں۔ اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہىں بناسکتے۔ اخلاق اىک اىنٹ پر دوسرى اىنٹ کا رکھنا ہے۔ اگر اىک اىنٹ ٹىڑھى ہو تو سارى دىوار ٹىڑھى رہتى ہے۔کسى نے کىااچھا کہا ہے

؎خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثرىّا مے رَوَد دىوار کج

(کہ اگر معمار پہلى اىنٹ ہى ٹىڑھى لگا دے تو اس سے بننے والى دىوارىں جو ہىں وہ آسمان تک پھر ٹىڑھى ہى جائىں گى)

پھر آپؑ فرماتے ہىں: ان باتوں کو نہاىت توجہ سے سننا چاہئے۔ اکثر آدمىوں کو مىں نے دىکھا اور غور سے مطالعہ کىا ہے کہ بعض سخاوت تو کرتے ہىں (بڑے سخى ہىں۔لوگوں کو دىتے بھى ہىں) لىکن ساتھ ہى غصہ وَراور زُودرنج (بھى ہوتے) ہىں۔ (غصہ مىں فوراً آ جاتے ہىں) بعض حلىم توہىں لىکن بخىل ہىں۔ (بڑے حلىم ہىں، نرم مزاج ہىں لىکن کنجوس ہىں) بعض غضب اور طىش کى حالت مىں ڈنڈے مارمار کرگھائل کردىتے ہىں مگر تواضع اور انکسارنام کونہىں۔ بعض کو دىکھا ہے کہ تواضع اورانکسار تو اُن مىں پرلے درجہ کا ہے مگر شجاعت نہىں ہے۔ (ىا تو غصہ مىں آ گئے تو انکسارى اور عاجزى کوئى نہىں۔ اگر انکسارى اور عاجزى دکھائىں گے تو پھر جہاں بہادرى کى ضرورت ہے وہ خُلق ان مىں ختم ہوجاتا ہے)

پھر آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے اخلاق کے بارے مىں آپ فرماتے ہىں کہ: اللہ تعالىٰ نے آپ صلى اللہ علىہ وسلم کى شان مىں فرماىا کہ اِنَّکَ لَعَلىٰ خُلُقٍ عَظِىْمٍ۔ اور زندگى کے ہر مىدان مىں آپ نے اپنے خُلق کے وہ نمونے قائم کر دئىے جو اپنى مثال آپ ہىں اور جن پر اپنى طاقت اور بساط کے مطابق چلنا ہر مومن کا فرض ہے۔آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے بارے مىں فرماىا کہ اىک وقت ہے کہ آپ ﷺ فصاحت بىانى سے اىک گروہ کو تصوىر کى صورت حىران کر رہے ہىں۔ اىسى تقرىر اور اىسى فصاحت بىانى ہے کہ بڑا مجمع جو ہے وہ متاثر ہو جاتا ہے۔ اىک وقت آتا ہے کہ تىر و تلوار کے مىدان مىں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہىں۔ سخاوت پر آتے ہىں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہىں۔ حلم مىں اپنى شان دکھاتے ہىں تو واجب القتل کو چھوڑ دىتے ہىں۔ الغرض رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کا بے نظىر اور کامل نمونہ ہے جو خدا تعالىٰ نے دکھا دىا ہے۔ آپ فرماتے ہىں کہ اس کى مثال اىک بڑے عظىم الشان درخت کى ہے جس کے سائے مىں بىٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنى ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اُس کا پھل، اُس کا پھول، اُس کى چھال، اس کے پتے غرض کہ ہر چىز مفىد ہو۔

پھر آپ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے خُلق کے بارے مىں مزىد فرماتے ہىں کہ لڑائى مىں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے پاس ہوتا تھا کىونکہ آپ ﷺ بڑے خطرناک مقام مىں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ کىا شان ہے۔ فرماتے ہىں کہ اىک وقت آتا ہے کہ آپ ﷺ کے پاس اس قدر بھىڑ بکرىاں تھىں کہ قىصر و کسرىٰ کے پاس بھى نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے وہ سب اىک سائل کو بخش دىں۔ (خُلق کا ىہ اظہار ہے) اب اگر پاس نہ ہوتا تو کىا بخشتے؟ (پھر اىک اَور رنگ ہے) اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا تو ىہ کىونکر ثابت ہوتا کہ آپ واجب القتل کفار مکہ کو باوجود مقتدرتِ انتقام کے بخش سکتے ہىں۔ (قدرت رکھتے ہىں،طاقت ہے اس کے باوجود بخش دىا) جنہوں نے صحابہ کرامؓ اور حضور اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذىتىں اور تکلىفىں دى تھىں جب وہ سامنے آئے تو آپ نے فرماىا۔ لَا تَثْرِىْبَ … مىں نے آج تم کو بخش دىا۔ اگر اىسا موقع نہ ملتا تو اىسے اخلاق فاضلہ حضور (صلى اللہ علىہ وسلم) کے کىونکر ظاہر ہوتے۔ آپ فرماتے ہىں کہ کوئى اىسا خُلق بتلاؤ جو آپ ﷺ مىں نہ ہو اور پھر بدرجہ غاىت کامل طور پر نہ ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 9 جون 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2020