• 25 اپریل, 2024

پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں

پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ہمیں ان حدیثوں میں مختلف صورتوں میں اور مختلف موقعوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہ اگر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا قرب پاؤ گے، میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔ لیکن جب دعا کرنے کے طریقے اور سلیقے سکھائے تو یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے صبر مانگو بلکہ فرمایا کہ مجھ سے میرا فضل مانگو اور ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعا مانگو۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔

ترمذی میں روایت ہے حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کی انتہا کا طلب گار ہوں۔ آپؐ نے اس سے فرمایا نعمت کی انتہا سے کیا مراد ہے اس شخص نے جواب دیا میری اس سے مراد ایک دعا ہے جو میں نے کی ہوئی ہے اور جس کے ذریعے میں خیر کا امیدوار ہوں۔ آپؐ نے فرمایا نعمت کی ایک انتہاء یہ ہے کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے اور آگ سے نجات عطا ہو۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کی دعا سنی جو کہہ رہا تھا یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام تو آپؐ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو گئی اب مانگ جو مانگنا ہے۔ تو اس طرح اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کو سنا جو دعا کر رہا تھا۔ اے میرے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں آپؐ نے فرمایا تم نے اللہ تعالیٰ سے ابتلاء مانگا ہے۔ (صبر مانگنے کا مطلب یہی ہے کہ ابتلا مانگا ہے) یعنی کوئی ابتلاء آئے گا تو صبر کرو گے۔ خدا سے عافیت کی دعا کرو۔ (ترمذی کتاب الدعوات)۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اگر مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں۔ یہ تو بعض ذاتی معاملات کے بارے میں بتایا۔ اب جماعتی ابتلاء ہے، مخالفین کی طرف سے جماعت پر مختلف وقتوں میں آتے رہتے ہیں۔ ان میں بھی ہر احمدی کو ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی چاہئے، پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے۔ اور کبھی اپنے ملک سے وفا میں کمی نہیں آنے دی، یا اس وجہ سے ایک قدم بھی وفا میں پیچھے نہیں ہٹے۔ اور جب بھی ملک کو ضرورت پڑی۔ سب سے پہلے احمدیوں کی گردنیں کٹیں۔ اور گردن کٹوانے کے لئے سب سے پہلے یہی آگے ہوئے۔ اور آئندہ بھی ملک کو ضرورت پڑے گی تو احمدی ہی صف اول میں شمار ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اسی طرح آج کل بنگلہ دیش میں بھی احمدیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی فتنہ و فساد اٹھتا رہتا ہے۔ چند سال پہلے مسجد میں بم پھٹا وہاں بھی چند احمدی شہید ہوئے اور گزشتہ سال بھی مخلص احمدی شاہ عالم صاحب کو شہید کیا گیا۔ تو ایک مستقل تلوار یہاں بھی احمدیوں پر لٹکی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے حوصلے اور صبر سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل فرمائے۔ جتنا چاہیں یہ ہم پر ظلم کرلیں اور جہاں جہاں بھی اور جس جس ملک میں ظلم کرنا چاہتے ہیں کر لیں لیکن احمدی ہر جگہ اپنے ملک کے ہمیشہ وفادار ہی ہوں گے۔ اور جتنا دعویٰ کرنے والے یہ مخالفین ہیں اپنی وفاؤں کے ان سے زیادہ وفادار ہوں گے۔ اور الٰہی جماعتوں سے دشمنی اور مخالفت کا سلوک ہمیشہ رہا ہے۔ سب سے زیادہ تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سلوک ہوا اور آپؐ نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا، طائف کا واقعہ اس کی یاد دلاتا ہے کس طرح پتھر برسائے گئے لیکن آپؐ کا سلوک اس کے بعد کیا تھا۔

ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ ؓ نے بتایا کہ انہیں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپؐ پر جنگ احد سے سخت دن بھی کبھی آیا ہے۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا مجھے تیری قوم سے بڑے مصائب پہنچے ہیں اور عقبہ والے دن مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی۔ جب میں نے اپنا دعویٰ عبد یالیل بن کلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میری خواہش کے مطابق مجھے جواب نہ دیا اور لڑکوں کو میرے پیچھے لگا دیا پھر میں غمزدہ چہرے کے سا تھ قرن الثعالب نامی مقام تک آیا میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھا کہ میرے اوپر ایک بادل سایہ فگن ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تواس میں جبرئیل تھے۔ اس نے مجھے پکارا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کے تیرے بارے میں تبصرے اور جواب سن لئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ تو ان کے بارے میں اسے جو چاہے حکم دے۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا، مجھے سلام کہا پھر کہا اے محمد! آپ کو ان کے بارے میں اختیار ہے آپ چاہتے ہیں کہ میں ان پر یہ دونوں پہاڑ گرا دوں؟ تو میں ایسا کرنے پر تیار ہوں۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میں ان کو تباہ کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ میں تو یہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور اس کا کسی کوبھی شریک قرار نہ دیں۔ (بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم)۔ ہمیں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ امید ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021