• 24 اپریل, 2024

حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحبؓ

ولادت باسعادت

حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ 9نومبر 1886ء کو حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کے گھر کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم نے آپ کا اسم گرامی اپنی ڈائری میں ’’عبدالعزیز یعنی عبداللہ‘‘ تحریر فرمایا۔

قبول احمدیت ،شرف صحابیت 313 میں شمولیت

اواخر1889ء میں جب آپ کے والد محترم حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ نے بیعت کی اس وقت آپ کی عمر دو سال ساڑھے چار ماہ تھی۔ اس لیے آپ کے والد محترم کی بیعت کے ساتھ ہی آپ کی بیعت بھی ہوگئی۔

آپ کو اور آپ کے برادر اکبر حضرت قاضی عبد الرحیم صاحبؓ کو اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ہی 313صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل ہو گیا چنانچہ آپ کانام ضمیمہ انجام آتھم میں یوں درج ہیں:

’’281۔ قاضی عبد اللہ صاحب کوٹ قاضی‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم،ر۔خ جلد11 صفحہ328)

تعلیم

حضرت قاضی صاحب کے بھتیجے مکرم قاضی عبد السلام صاحب بھٹی بیان کرتے ہیں کہ
’’دادا جانؓ کی خود نوشت ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انھیں (قاضی صاحب کو) جنوری 1901ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل کروا دیا۔ 1903ء میں بٹالہ میں جا کر مڈل کا امتحان دیا۔ اس حساب سے انھوں نے 1905ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ہوگا۔ بی ۔اے علیگڑھ سے کیا تھا اور بی ٹی بعد میں غالباً لاہور کے ٹریننگ سنٹرل کالج سے کیا تھا۔‘‘

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ28)

مکرم ومحترم مولوی محمد دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ
’’آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کے بعد جے ۔اے ۔وی (J.A.V) کلاس لاہور کے ٹریننگ کالج سے پاس کیا۔ایف۔اے اور بی۔اے پرائیویٹ کیا اور بی ٹی لاہور کے ٹریننگ کالج سے کی۔‘‘

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ28)

شادیاں

حضرت قاضی صاحب نے دو شادیاں کیں۔ مکرم قاضی عبد السلام صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’حضرت قاضی صاحب کی پہلی شادی مکرم سید عزیز الرحمٰن صاحب بریلویؓ کی بیٹی سے ہوئی۔ یہ بھی مہاجر صحابی تھے۔ ہماری ان چچی جان کا نام کلثوم تھا۔ یہ بھی صحابیہ تھیں۔ نکاح اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے پڑھا تھا۔ ان سے لمبا عرصہ اولاد نہیں ہوئی۔ اس لئے دوسری شادی شاید 1925ء کے قریب کی۔ ان کا نام رشیدہ بیگم صاحبہ ہے ۔۔۔ ان کے والد محترم کا نام کیپٹن ڈاکٹر عطا محمد صاحب تھا۔یہ پہلی جنگ عظیم میں انگلستان گئے تو وہاں احمدیہ مشن کا نام سن کر حضرت چچا جان کو ملے اور انکی نیکی اور حسن خلق کو دیکھا پھر جب حضرت چچا جان سے انکی صاحب زادی کے نکاح کی تجویز زیر غور تھی تو وہ حضرت چچا جان کو دیکھنے کے لیے قادیان آئے اور دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو وہی ہیں جنکو میں لندن میں پہلے سے دیکھ چکا ہوں ۔مجھے کوئی اعتراض نہیں اور فوراً رشتہ دینے پر تیار ہو گئے۔‘‘

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ29)

بیماری اور وفات

حضرت قاضی صاحبؓ وفات سے چند روز قبل گھر کے صحن میں گرگئے۔جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی فریکچرہوگئی اور یہی حادثہ جانکاہ آپکی وفات کا سبب بنا۔ انّا للہ وانّا الیہ راجعون

آپ کی وفات کے بارہ میں آپ کے داماد عبد اللطیف خان صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
’’آخری ایّام میں میں حضور اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ ایبٹ آباد میں تھا۔ایک دن میں نے بہت منذر خواب دیکھا۔ صبح کو صدقہ بھی دیا۔ اور ادھر اتفاق سے دوسرے ہی دن ایبٹ آباد سے واپسی کا پروگرام بن گیا۔ جب ربوہ پہنچا تو قاضی صاحب کو ملنے گیا۔ طبیعت خدا کے فضل سے اچھی تھی۔ قریباََ ایک ہفتہ کے بعد 18ستمبر کو قاضی صاحب رات کے وقت کسی کام کے لیے اٹھے کہ صحن میں پیر پھسل گیا اور آپ گر پڑے اور آپکی کولہے کی ہڈی کا فریکچر ہو گیا۔‘‘

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ37)

الفضل میں بھی اس حادثہ کی اطلاع یوں شائع ہوئی:
’’حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب (جو کہ 313 اصحاب مسیح موعود علیہ السلام کے آخری بزرگ ہیں) کو 18ستمبر کو چوٹ آگئی ہے جس کی وجہ سے کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا ہے۔‘‘

(الفضل 27ستمبر 1972ء)

مکرم عبد اللطیف خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ
’’چنانچہ ڈاکٹر مرزا منور احمد اور مکرم قریشی عبد اللطیف صاحب نے مشورہ کے بعد پلاسٹر اور لوہے کا رنگ چڑھا دیا مگر ایک دو دن میں کمزوری بہت ہو گئی اور پلاسٹر اتار دیا گیا لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھتی گئی بالآخر ہڈی کی اس ضرب کے دسویں روز 27ستمبر 1972ء کو مالک حقیقی سے جا ملے۔‘‘ انّا للہ وانّا الیہ راجعون

ہم زیست کی راہوں میں دئیے غم کے جلائے
بیتے ہوئے لمحوں کے نشان دیکھ رہے ہیں

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ38)

تبلیغی واقعات

مہاراج قاضی محمد عبداللہ:
ایک مبلغ کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنا تشخص ،عزت اور وقار قائم رکھے کیونکہ ان امور سے دلوں پر ایک رعب اور اثر پیدا ہوتا ہے۔حضرت قاضی صاحب بھی اپنے وقار کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ آپ بوجہ علالت ِ طبع ہسٹنگز تشریف لے گئے تھے تا کہ تبدیلی آب و ہوا کے ذریعہ صحت اور آرام میسر ہو۔

مبلغ انگلستان حضرت مولوی عبد الرحیم نیرصاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اخویم قاضی عبد اللہ صاحب ہسٹنگز میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے اور اکثر شرفاء ان کو اپنے گھروں میں بلاتے ہیں ۔پھر وہاں ان سے اسلام کی نسبت سننے کی خواہش کرتے ہیں۔وہاں کے ایک جلسہ میں وہ مدعو تھے دروازہ پر اندر جانے والوں کے نام لکھے جارہے تھے جب قاضی صاحب کی باری آئی تو دربان صاحب نے آپ کے عمامہ کو دیکھ کر تختی پر خوب سنوار کر لکھا:
’’مہاراج قاضی عبد اللہ‘‘

یہاں ہرمردو عورت قاضی عبداللہ صاحب کے اوصاف حسنہ کا مداح ہے۔‘‘

(الفضل 14اکتوبر 1919ء صفحہ8)

دعوت الی اللہ کاعمدہ طریق

حضرت قاضی صاحب کے عمدہ طریق کار اور خوشکن نتائج پر الفضل میں تبصرہ شائع ہوا کہ
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبد اللہ صاحب مشنریان اسلام کی تقریر و تحریر میں عجیب تاثیر مرحمت فرمائی ہے ہر ہفتہ میں کوئی نہ کوئی انگریزجینٹل مین یا لیڈی ان کے مقدس کلمات سے اثر یافتہ ہو کر مذہب صلیب سے توبہ کر کے واحد خدا کے پرستار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہونے والے ہو جاتے ہیں۔‘‘

(الفضل 28ستمبر 1918ء صفحہ1)

حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کے ارشاد کے تحت انگلستان میں جن مبلغین کو بھجوایا گیا ان سب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے اخلاص اور دیانتداری سے اپنے فرائض کی بجا آوری کی۔ دعوت الی اللہ کےلیے ہر اعلیٰ ذریعہ استعمال کیا۔ زبانی وتحریری طورپرنیز خطوط لکھے اور تقاریر ولیکچرز دئیے۔ ان تمام ذرائع میں سے سب سے مؤثر ذریعہ لیکچرزکا تھاجو کسی نہ کسی مقام پر ہر ہفتہ حضرت قاضی صاحب دیا کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں قاضی صاحب کے لیکچرزدل پر اثر کرنے والے دلائل و براہین سے پْر ہوتے اور اسلام کی حقانیت کو نہایت لطیف اور مؤثر طریق سے لوگوں کے سامنے پیش کئے جاتے تھے انکی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

ایک معزز کامع اپنی لیڈی کے آپؓ کے دلائل سے متفق ہونا

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ
’’لیکچر ہال سٹاراسٹریٹ لندن میں قاضی عبد اللہ صاحب کا لیکچراس ہفتہ کا سن کر ایک معزز صاحب اور ان کی لیڈی نے جو آگے بھی قاضی صاحب سے ہائیڈ پارک میں گفتگو کر چکے تھے، سامعین کے روبرو صاف اقرار کیا کہ یہ سب مدلّل اور درست ہے۔ ہمیں اسکے ساتھ اتفاق ہے۔‘‘

(الفضل 21جون 1919ء صفحہ2)

تائید اسلام پر لیکچر

ایک اور موقع پر مفتی صاحب نے تحریر فرمایا :
’’16ستمبر کو قاضی عبد اللہ صاحب بی اے نے تائید اسلام میں ایک پر زور لیکچر دیا جس سے سامعین بہت محظوظ ہوئے۔انگریز مردوں اور عورتوں کاخاصا مجمع تھا۔ بعد لیکچر سوال و جواب کی عام اجازت دی گئی اور بہت دلچسپ مباحثہ ہوا۔دعا کے ساتھ جلسہ ختم ہوا اور حاضرین اسلام کے متعلق اچھا اثر لے گئے۔‘‘

(الفضل 20اکتوبر 1917ء صفحہ1)

ہندی اور عرب اور انگریزوں کا سلسلہ حقہ میں داخل ہونا

حضرت قاضی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’نیو کاسل والا لیکچر جو 7/14 (یعنی 14جولائی) تھا۔ خصوصیت سے نہایت کامیاب ہوا۔ ایک لیڈی نے اسلام قبول کیا۔آمنہ نام رکھا گیا اور تین جینٹل مینوں نے تصدیق فارم پر دستخط ثبت کئے۔اس کے بعد ساؤتھ شیلڈ، نارتھ شیلڈ اور ہیگس وڈ میں بھی لیکچر ہوئے۔ اول الذکر مقام میں تین ہندی اور ایک عرب سلسلہ حقہ میں داخل ہوئے اور ایک لیڈی نے اعلان اسلام کیا۔‘‘ الحمداللہ

(الفضل 9نومبر 1918ء صفحہ2)

’’الفضل‘‘ کا قاضی صاحب کی مساعی پر تبصرہ

جماعت احمدیہ کاموقر جریدہ الفضل قاضی صاحب کی مساعی جمیلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے:
’’حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبد اللہ صاحب کے پر زور لیکچروں کا سلسلہ لندن اور شمالی انگلستان میں برابر جاری رہا وہ دن قریب ہے کہ انشاء اللہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے۔‘‘

(الفضل 29اکتوبر 1918ء صفحہ4)

حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ چار سال سے زائد عرصہ انگلستان میں رہے ۔اس تمام عرصہ میں آپ نے جس جانفشانی اور ہمت و جرأ ت کے ساتھ کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔حضرت قاضی صاحبؓ نے تقاریر، خط وکتابت، مباحثات، ملاقات اور ہر ممکن طریق سے انگلستان میں اسلام اور احمدیت کا بیج بو دیا۔ آپ نے اپنے مشن کو جس عمدہ طریق سے چلایا اور اس کے جو قابل قدر نتائج نکلے اسکی کچھ تفصیل درج ذیل تحریر کی جاتی ہے۔

انگریزوں کاتصدیق نبوت رسول کریمؐ

حضرت قاضی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’محبّان اسلام یہ خبرسن کر خوش ہوں گے کہ اس ہفتہ میں ایک مکان کے پانچ اشخاص نے جس کے ساتھ سلسلہ گفتگو، ملاقات اور خط وکتابت ہے۔حضرت مکرم مفتی صاحب کے وعظ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی‘‘

ایسا ہی ایک اور معززلیڈی مسز کریز نے میرے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد تصدیق نبوت رسول پاک محمدؐ مصطفٰی کی تحریر مجھے دی۔

خاکسار قاضی عبد اللہ بی اے علیگ‘‘

(الفضل 29ستمبر 1917ء صفحہ8)

لیڈی مرّے پرابستین کا احمدی ہونا

حضرت مفتی محمد صادق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ایک معزز انگلش لیڈی مرّے پرابستین کی برادرم قاضی عبداللہ صاحب کے ساتھ عرصۂ دراز سے ملاقات تھی اور اکثر سلسلہ گفتگوو خط و کتابت جاری رہتا تھا۔ چند بار میری بھی اس کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ آخر قاضی صاحب کی پُرزور تبلیغ نے اس کے دل پر گہرا اثر کیا اور اس نے نبوت حضرت سید الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم وصداقت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لا کر بہ طیب خاطر تحریر دی۔‘‘

(الفضل 2اکتوبر 1917ء صفحہ12)

انگلستان میں 4 نئے احمدی

28نومبر 1915ء کے خط میں قاضی صاحب نے انگلستان میں 4 نئے احمدی ہونے والوں کی خوشخبری دی۔ان کے نام حسب ذیل ہیں:
1۔ مسز حمیدہ لسٹررڈ صاحبہ 2۔ جے لسٹررڈ صاحب
3۔ ایس بشیر کوریو صاحب 4۔ مسز وایولٹ میری کراکسفورڈ

(مقالہ سیرت حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ صفحہ84)

اشاعت لٹریچر

حضرت قاضی صاحب نے نہ صرف لیکچرز ،خطوط اور مباحثات کے ذریعہ تبلیغ کا کام کیابلکہ اسلام اور احمدیت کے تعارف کے لیے لٹریچر بھی شائع فرماتے تھے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ایک نیا رسالہ کہ سلسلہ احمدیہ کیا ہے اور اس کا کیا مدعا ہے میں نے لکھ کر تیار کیا ہے حضرت مفتی صاحب کے آنے پر پریس بھیج دیا جائے گا۔ ایسے رسالہ کی بڑی ضرورت ہے۔‘‘

(الفضل 24نومبر 1917ء)

یہاں حضرت قاضی کی ایک عظیم الشان خوبی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کوئی بھی کام اپنے امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ آپ نے رسالہ لکھ تولیا لیکن اپنے امیر حضرت مفتی صاحب کی اجازت کے بغیر اسے شائع کرنے کی جرأت نہ کی۔ غرض آپ کا ہر چھوٹی بڑی بات میں عملی نمونہ اتنا اعلیٰ تھا کہ حضرت مفتی صاحبؓ نے بھی آپ کے عملی نمونہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
’’لنڈن کی معزز سو سائٹی میں نشست و برخاست کے متعلق چند ہدایات برادرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب احمدی بیرسٹر نے مجھے دی تھیں وہ یہاں بہت ہی مفید اور کار آمد ثابت ہوئیں۔ایسا ہی مکرمی ڈاکٹر عباد اللہ صاحب اورمکرم چوہدری فتح محمد صاحب نے کچھ باتیں بتائی تھیں ان سے بھی میں نے فائدہ اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے۔ لیکن یہاں عملی طور پر دن رات جو کچھ برادرم قاضی عبد اللہ صاحب نے مجھے بتلایا اور خود کر کے دکھایا اسکے واسطے ان کا خصوصیت سے مشکور ہوں۔‘‘

(الفضل 20اکتوبر 1917ء)

یہ حقیقت ہے کہ جب تک ایک انسان کا قول و فعل آپس میں مطابقت نہ رکھتے ہوں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تقریر و تحریر کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا عملی نمونہ کرتا ہے۔ غرض حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب قال اللہ اور قال الرسولؐ پر پورا عمل کرتے تھے اور کسی بات کی تلقین کرنے سے قبل خود اس پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ آنحضرت ؐ نے اپنی صداقت کا معیار بھی اپنا عملی نمونہ ٹھہرایا۔ جیسا قرآن کریم میں ہے:

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُراً مِّنْ قَبْلِهٖ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

(يونس:17)

یعنی میں تم لوگوں میں ایک لمبا عرصہ رہا ہوں پھر بھی نہیں سمجھتے اور تم نے میری ساری زندگی کا مشاہدہ کیا ہے اور میری صداقت اور امانت کی تم خود گواہی دیتے ہو۔

غرض ایک مبلغ کے لیے بھی جو اشاعت دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرتا ہے یہ ضروری ہے کہ خود آنحضرت ؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیراہو ورنہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ دین اسلام کی خدمت کر سکتا ہے ۔

حضرت مفتی صاحبؓ کی داد

حضرت مفتی صاحب جب بغرض تبلیغ امریکہ تشریف لے گئے تو ایک موقع پر قاضی صاحب کی مخلصانہ کوششوں کی داد دیتے ہوئے فرمایا:
’’اب جب میں لنڈن کی سہ سالہ زندگی کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایام بہت آرام اور راحت سے گزرے اس راحت کے عطا کرنے میں بہت سارا حصہ ایک نیک ،محنتی رفیق کی قابل قدر کاوشوں کا بھی ہے۔۔۔‘‘

(الفضل 20اکتوبر 1917ء)

خلیفة المسیح کی خدمت میں خط

حضرت قاضی صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں خط ارسال کیا کرتے تھے اس میں بھی بعض تبلیغی مساعی کا ذکر کر دیا کرتے تھے۔ اور بعض واقعات بھی ان میں درج ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک خط جو آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ارسال کیا، اس خط میں حضرت قاضی صاحب نے ایک یہودی الاصل مسیحی واعظ کے ایک خواب کی بناء پراحمدی ہونے کی درج ذیل خبر دی اور یہ الفضل میں ’’نہایت ہی اچھی خبر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا:

سیدی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کئی ہفتوں سے سوائے اپنی بیماری کے حال کے حضور کی خدمت میں کچھ نہیں عرض کر سکا۔محض خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس قابل ہوا ہوں کہ حضور کو ایک نہایت اچھی خبر لکھوں۔

تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہواکہ ایک صاحب بنام میتھ سے ہائیڈ پارک میں ملاقات ہوئی۔ یہ دراصل یہودی مذہب کے تھے مگر مسیحیت قبول کر کے اس کا وعظ اکثر ہائیڈ پارک میں نہایت درد بھرے الفاظ میں کیا کرتے تھے۔ان میں صداقت کی ایک تڑپ محسوس ہوتی تھی۔ عام مسیحی واعظین کی طرح نہیں تھے۔اس واسطے میں نے اس سے رابطۂ اتحاد بڑھایا ۔۔۔ یہ ایک عالم شخص ہیں خاص کر زبانِ عبرانی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اور سچائی کی وجہ سے دبنے والے نہیں تھے۔اس واسطے مسیحیت کا برملااظہار کر کے تحقیق حق کے واسطے سرگرداں رہے۔ کئی دفعہ ہمارے لیکچروں میں بھی آیا اور حضرت نبی کریم ؐ اور احمد مرسل من اللہ کی مسیحیت پر بحثیں ہوتی رہیں۔ آخر ایک خواب کی بناء پر روح القدس کی خاص امداد سے اس قدر متاثر ہو کر اور صاف قلب ہو کے کل سہ پہر کو بطیب خاطر سلسلۂ عالیہ میں داخل ہو کر حضورؓ کی بیعت بذریعہ خط کرتے ہیں۔ الحمد اللہ ثم الحمدللہ۔۔۔

خواب میں دیکھا کہ وہ ایک چٹان پر ہیں اور ادھر سے ایک رسا لٹکا ہوا ہے۔ جس کے پکڑنے کے واسطے ایک صاحب کوئی عمامہ والے سفید لباس لمبا ہاتھ بڑھا کر اشارہ کر رہے ہیں۔میں نے ان کو تفسیر ’’واعتصموا بحبل اللّٰہ‘‘ سنائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلیہ بیان کیا۔ دکھایا جس پر اس نے بعض مختلف features کا بیان پیش کیا اور پھر میں نے حضور کا فوٹو دکھایا تو اس نے پہچان لیا اور کہا کہ صرف لباس کا فرق ہے ۔سفید لباس تھا۔ شکل وہی ہے۔ میں نے کہا کہ سفید لباس تقویٰ اور طہارت پر دال ہے۔ اس پر اس نے بہت ساری دعا کرنے کے بعد بشرح صدر اقرارِ بیعت کیااور دعا ’’ربّ انی ظلمت نفسی‘‘ تین دفعہ پڑھ کر اپنا نام ثبت کر دیا الحمد للہ۔‘‘

(الفضل 6نومبر 1919ء صفحہ1اور2)

انگلستان سے مراجعت

حضرت قاضی عبد اللہ صاحب چار سال سے زائد عرصہ تک انگلستان میں تبلیغ و اشاعت کے اہم فرائض کو بخیر و خوبی ادا کرنے کے بعد 28نومبر 1919ء بروز جمعہ قادیان واپس تشریف لے آئے اور بجائے گھر جانے کے سیدھے مسجد تشریف لے گئےجہاں اس وقت حضور خلیفۃ المسیح الثانیؓ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔

دور دراز علاقے سے واپس آنا اور بجائے عزیزوں سے ملاقات کرنے یا گھر جانے کے مسجد تشریف لے جانا قابل تحسین عمل ہے جومسیح الزمان کی پاک صحبت کا اثر تھا جس کے نتیجہ میں آپ دنیا کی لذّات کو بالکل ترک کرچکے تھے اور آپ کا مطمح نظر محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور خدمت دین تھا۔اللہ تعالیٰ حضرت قاضی صاحب کو غریق رحمت کرے۔آمین

(ابو فاضل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021