• 25 اپریل, 2024

قرآنی احکام کی روشنی میں خبر کو پرکھنے کے طریق

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف سورۃ التکویر میں آخری زمانہ سے متعلق متعدد پیشگوئیاں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک نفوس کے ملا دیئے جانے کی پیشگوئی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾

(التکویر: 8)

ترجمہ: اور جب نفوس ملا دیئے جائیں گے۔

حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم قیامت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ وہاں تشریف لائے اور فرمایا قیامت کی دس نشانیاں ہیں جن میں سے ایک دھواں ہے۔ یہ دھواں شرق و غرب میں پھیل جانے والا ہے۔(مسلم)

پس اس زمانہ میں انٹرنیٹ کےذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ انٹرنیٹ کے ذریعہ مشرق و مغرب کے روابط قائم ہو چکے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ گھر گھر میں خبریں پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن ان خبروں میں کتنی سچائی ہے اس کے متعلق 1948ء میں Harold Lasswell نامی امریکن تھیوریسٹ نے ایک کمیونیکیشن ماڈل پیش کیا جس کو Lasswell’s Model of Communication کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل میں کامل اور درست کمیونیکیشن کو جانچنے کے لئے ہمیں پانچ سوالوں (5W’s) کے جواب دینا ہوتے ہیں۔یہ پانچ سوال مندرجہ ذیل ہیں:

1)Who?
2)Say What?
3)In Which Channel
4)To Whom?
5)With What Effect?

اس ماڈل کو Lasswell نے 1948میں پیش کیا جبکہ قرآن کریم نے اس بات کو مومنین کے لئے تقریبا چودہ سو سال قبل سورۃ الحجرات میں محفوظ کر دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۷﴾

(الحجرات: 7)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تمہارے پاس اگر کوئی بدکردار کوئی خبر لائے تو (اس کی)چھان بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کیئے پر پشیمان ہونا پڑے۔

قرآن کریم نے اس ماڈل کو ایک مثال بیان فرما کر مومنین کو سمجھایا ہے۔ٹیبل کے ذریعہ ماڈل کی تفصیل پیش ہے:

سوالقرآن کریمتفصیل
To Whom? پیغام سننے والایَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اگر کوئی تمہارے پاس آئے۔مومنین کو مخاطب فرما کر اللہ تعالیٰ نے پیغام کو سننے والوں کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جو بھی کسی پیغام کو سنے وہ صاحب ایمان اور صاحب علم و فہم ہو۔
Who? پیغام دینے والافَاسِقٌ بدکردار شخصپیغام لے کر آنے والے کے متعلق قرآن نے اشارہ فرما دیا کہ اس شخص کے کردار پر غور کر لو۔ کہیں وہ افواہ سازتو نہیں؟ یا وہ الزام تراش تو نہیں؟
Say What? پیغامبِنَبَأ کوئی خبراللہ تعالیٰ نے ’’بِنَبَأ‘‘ کا لفظ رکھ کر اس پیغام کی طرف اشارہ فرما دیا کہ اس پیغام کی نوعیت معلوم کر لو۔محض افواہ یا الزام تو نہیں؟
In Which Channel ذریعہ؍Sourceفَتَبَیَّنُوا چھان بین کر لیا کرواس پیغام کی اصل یا Source معلوم کر لو کہ اس پیغام کو کس ذریعہ سے پھیلایا جارہا ہے۔ اس کا حوالہ کیا ہے؟  کیا وہ خبر معتبر چینل سے ملی ہے؟
With What Effect? پیغام کا أثرأَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھواللہ تعالیٰ نے خبر یا پیغام کے أثر کو کنٹرول کرنے کے متعلق فرما یا کہ دیکھو اگر تم بغیر تصدیق کیئے کسی بھی بات کے پیچھے چل پڑو گے تو تمہیں بعد میں اس پر پشیمانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ نے بھی اس حوالہ سے ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔ جیسا کہ ایک موقع پر فرمایا کہ
’’لیس الخبر کالمعاینۃ‘‘ نہیں ہے سنی سنائی بات خود دیکھنے کی طرح۔

(مسند احمد بن حنبل)

حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ99)

حضر ت خلیفۃا لمسیح ا لخا مس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پھر ایک بیماری ہے، زبان کے چسکے کے لئے مزے لینے کے لئے ہر سنی سنائی بات مجلسوں میں یا اپنے دوستوں میں بیان کرنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ بات کی تھی ….. حالانکہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اس سے فتنہ پیدا ہوکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دوسرے شخص کی یا اشخاص کی جن کے متعلق باتیں کی جارہی ہیں صرف بد نامی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس بیہودگی کو روکنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ کسی انسان کہ جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہےکہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے ….. پس ہمیشہ ایسی باتوں سے بچنا چاہئے۔ یہ عمر ہے بچوں کی بھی، نوجوانوں کی بھی، جو جوانی میں داخل ہو رہے ہیں ان کی بھی اور جو نوجوان ہیں ابھی ان کی بھی کہ اس عمر میں اپنے آپ کو جتنی عادت ڈال لیں گے، برائیوں سے بچنے کی، اتنی زیادہ اصلاح کی طرف قدم بڑھتا چلا جائے گا‘‘

(خطاب سالانہ اجتماع جرمنی 1جون 2006، از مشعل راہ جلد5 حصہ4 صفحہ54-55)

الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرنے کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر بات سوشل میڈیا پر بلا تحقیق شیئر کرنے اور اس پربغیر سوچے سمجھے ، بغیر علم حاصل کے تبصرہ کرنے کی سوچ پروان چڑھتی جا رہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی راہنمائی میں اپنے سارے اقوال اور افعال بجالانے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابن زاہد شیخ)

پچھلا پڑھیں

واقعہ افک اور اس کا پس منظر (قسط اول)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ