• 25 اپریل, 2024

مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانونِ شریعت اور قانونِ ملک کبھی توڑا نہ جائے۔(حضرت مسیح موعود ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر آپؑ نے ایک دفعہ فرمایا کہ قانون شکنی کی تلقین کرنے والوں سے ہم کبھی تعاون نہیں کر سکتے۔ ’’بعض جماعتیں ایسی ہیں جو بغاوت کی تعلیم دیتی ہیں۔ بعض قتل و غارت کی تلقین کرتی ہیں۔ بعض قانون کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ ان معاملات میں کسی جماعت سے ہمارا تعاون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ ہماری مذہبی تعلیم کے خلاف امور ہیں۔ اور مذہب کی پابندی اتنی ضروری ہے کہ چاہے ساری گورنمنٹ ہماری دشمن ہو جائے اور جہاں کسی احمدی کو دیکھے اُسے صلیب پر لٹکانا شروع کر دے پھر بھی ہمارا یہ فیصلہ بدل نہیں سکتا کہ قانونِ شریعت اور قانونِ ملک کبھی توڑا نہ جائے۔ اگر اس وجہ سے ہمیں شدید ترین تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی یہ جائز نہیں کہ ہم اس کے خلاف چلیں‘‘۔

(الفضل 6؍اگست1935ء جلد 23 نمبر31 صفحہ10کالم3)

پس ہڑتالوں کے بارہ میں بڑے واضح طور پر یہ سارے احکامات سامنے آ گئے ہیں۔ میں نے پہلے بھی حدیث کی وضاحت میں سورۃ بقرۃ کی آیت 206 کا ایک حصہ سنایا تھا کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَاد۔ اللہ تعالیٰ فساد کو پسندنہیں کرتا۔ جب زبردستیاں شروع ہوتی ہیں تو فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے اس فساد کی حالت میں سب سے زیادہ مسلمان ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ مکمل آیت جو ہے یوں ہے کہ وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْا َرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرۃ: 206) اور جب وہ صاحبِ اختیار ہو جائے تو زمین میں دوڑا پھرتا ہے تا کہ اس میں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

تو جب ظالم حکمران ہو جاتے ہیں تو وہ دوسروں کی جو مخالفین ہیں اُن کی جائیدادوں کو، اُن کی فصلوں کو، اُن کی نسلوں کو بے دریغ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ پوری آیت جو ہے یہ حکمرانوں کو تنبیہ کر رہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک عمومی فرمان بھی ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَاد۔ اس لئے بغاوت کرنے والوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآنِ کریم صرف عوام الناس کو یہ حکم نہیں دیتا بلکہ حکمرانوں کو بھی یہی کہتا ہے کہ اپنے اقتدار پر تکبر کر کے ملک میں فساد پیدا نہ کرو۔ عوام کے حقوق تلف نہ کرو۔ امیر اور غریب کے فرق کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ عوام میں بے چینی پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پھر بغاوت کے حالات پیدا ہوں اور اس طرح تم اپنے اس عمل کی وجہ سے بھی خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ۔

اب دیکھیں جو حالات سامنے آ رہے ہیں، بلا استثناء ہر جگہ یہی آواز اُٹھ رہی ہے کہ قومی دولت لوٹی گئی ہے اور عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔ کس قدر بدقسمتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نصیحت کی اور تنبیہ فرمائی تھی، اُنہی میں سے سب سے آگے یہ لوگ ہیں جو آج کل مسلمان ملکوں کے حکمران ہیں، جو اس قسم کی غلط حرکتیں کر رہے ہیں۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے، اُن کی اقتصادیات کی بہتری کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے۔ اُن کی صحت کی ذمہ داری حکمرانوں کی ہے اور اس طرح دوسرے بہت سارے حقوق ہیں۔ غرضیکہ یہ سب حکومتوں کے کام ہیں۔ اُن کو یہ ادا کرنے چاہئیں۔ ان کو سرانجام نہ دے کر یہ لوگ فساد پیدا کر رہے ہیں اور فساد اللہ تعالیٰ کی نظر میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انتہائی ناپسندیدہ ہے۔

پس ہمارے حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی قدر کرتے ہوئے اُن اصولوں اور اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی مثالیں ہم دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب حکومت تھی توکس طرح انصاف قائم فرمایا تھا کہ عیسائی، عیسائیوں کی حکومت دوبارہ قائم ہونے پر رو رو کر یہ دعا کرتے تھے کہ مسلمان دوبارہ ہمارے حکمران بن جائیں۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ مسلمان رعایا مسلمان حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہے کہ انصاف قائم نہیں ہو رہا۔ پس اُس تقویٰ کی تلاش کی ضرورت ہے جو آج مسلمانوں میں مفقود ہے، ختم ہو چکا ہے۔ حکمران ہیں یا عوام ہیں دونوں اگر اس اَصل کو پکڑیں گے تو کامیاب ہوں گے۔ بہر حال احمدیوں کے لئے یہ واضح ہدایت ہے کہ اپنے آپ کو اس فساد سے بچانا ہے۔ دعائیں کریں۔ اگر دل سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں گی تو ایک وقت میں جب اللہ تعالیٰ چاہے گا قبولیت کا درجہ پائیں گی اور ان ظالموں سے اگر ظالم حکمران ہیں تو نجات ملے گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔

آگے بھی جو تبدیلیوں کے بعد حالات نظر آ رہے ہیں وہ شاید عارضی امن کے توہوں لیکن مستقل امن کے نہیں ہیں۔ اس طرح جو تبدیلیاں ہوتی ہیں، جو ظلم کر کے اقتداروں پر قبضہ کیا جاتا ہے یا انقلاب لائے جاتے ہیں تو اُن میں بھی ایک مدت کے بعد پھر ظالم حکمران پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک ظالم کے جانے کے بعد دوسرے ظالم آ جاتے ہیں۔ اس لئے یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ظالم حکمران کبھی مسلّط نہ کرے۔ اللہ کرے کہ عامّۃ المسلمین بھی اور حکمران بھی اپنے اپنے فرائض اور حقوق کو پہچانیں اور پھر اُن کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں۔

(خطبہ جمعہ یکم اپریل 2011ء)

ایک خطبہ جمعہ میں مزید فرمایا:
دو جمعہ پہلے مَیں نے حکمرانوں کے غلط رویوں اور عوام کے حقوق صحیح طور پر ادا نہ کرنے اور عوام الناس کے ردّ عمل اور رویے کی قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں وضاحت کی تھی کہ ان حالات میں ایک حقیقی مسلمان کو حکمرانوں کے متعلق کیا ردّ عمل دکھانا چاہئے اور آج کل کیونکہ عرب ممالک میں تازہ تازہ اپنے سربراہان اور حکمرانوں کے خلاف یہ ہوا چلی ہے کہ اُن سے کس طرح حقوق لینے ہیں یا اُن کو حکومتوں سے کس طرح اتارنا ہے اور علیحدہ کرنا ہے اس لئے ہمارے عرب ممالک کے رہنے والے احمدی اس موضوع پر زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی دلچسپی کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہمارے عربی چینل کے ایم ٹی اے تھری (MTA-3) کے لائیو پروگرام کرنے والوں نے، اَلْحِوَارُ الْمُبَاشِر کاجو اُن کا لائیو پروگرام ہے اور ہر مہینے کی پہلی جمعرات سے اتوار تک ہوتا ہے، اُس میں انہوں نے اس موضوع کو رکھا تھا جو براہِ راست عرب ممالک کے سیاسی حالات سے متعلق تو نہیں تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس پروگرام کو کنڈکٹ (Conduct) کرنے والے شریف عودہ صاحب اِس پروگرام کے متعلق مجھے کچھ بتا بھی گئے تھے۔ پھر بعد میں انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’اَلْھُدیٰ‘ کے کچھ حصہ پر نشان لگا کے بھیجا۔ یہ اس کا پہلا حصہ ہے۔ ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہے۔ یہ تمام مضمون خاص طور پر اِن ملکوں کے سربراہوں کے حالات پر منطبق ہے جہاں آج کل یہ فساد ہو رہے ہیں۔ بلکہ یہ مضمون نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام الناس اور پھر علماء پر بھی منطبق ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کتاب میں اگلا حصہ علماء کے بارہ میں بھی لکھا ہے۔ اپنے پروگرام میں شاید اس حوالے سے انہوں نے وضاحت سے باتیں بھی کی ہوں گی۔

بہر حال مَیں بھی اس بارہ میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ یہ صرف چند ملکوں کا جن کے عوام پُرجوش ہو کر حکومتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اُن کا ہی نقشہ نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھینچا ہے بلکہ جو نقشہ مسلمان بادشاہوں کا اور حکمرانوں کا اور عوام کا اور علماء کا سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھینچا ہے آج بھی تمام مسلم ممالک آپ کے ان الفاظ کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہی حالات آج کل پیش آ رہے ہیں۔ اور جب ہم مزیدنظر دوڑائیں تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے مسلم ممالک نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد جو نئی اسلامی مملکتیں وجود میں آئی ہیں، اُن کے سربراہوں اور رعایا اور نام نہاد علماء کا بھی یہی حال ہے۔ جو اپنی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ اور پھر اس تمام خوفناک اور قابلِ شرم صورتِ حال کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہے، حل بھی بیان فرمایا ہے کہ مسیح وقت جس نے آنا تھا وہ آ چکا اور ہزاروں نشانات اور آسمانی تائیدات اُس کی آمد کی گواہی دے رہی ہیں۔ اور اُس کو ماننے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے میں اب مسلمانوں کی بقا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

(خطبہ جمعہ 15؍ اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2021