• 18 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29 مئی 2020ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29 مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

خلیفۂ وقت سے محبت صرف خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہی ہوسکتی ہے

دنیا بھر میں بسنے والے مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے حامل افرادِجماعت احمدیہ کےخلفائے احمدیت سے محض للہ عقیدت و محبت کے جذبات کا ایمان افروز بیان

27 مئی، یومِ خلافت سے ایم ٹی اے کے ایک نئے بابرکت دور میں داخل ہونے کا اعلان

دنیا کے مختلف ریجنز کے اعتبار سے آٹھ چینلز پر مبنی ایک نئی ترتیب کے ساتھ ایم ٹی اے کی نشریات کا آغاز

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعے پر فرمایا کہ ’’مَیں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفا دار جماعت عطا کی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 336)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس صدق و اخلاص اور تعلق و محبت کے نظارے تو ہم نے دیکھے۔ صحابہ ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بے شمار واقعات ہیں۔ پرانے احمدی خاندانوں میں اس تعلق کی روایات بھی چل رہی ہیں اور ہمارے لٹریچر میںخلفاء کے خطبات میں، خطابات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے لیکن یہ تعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھا اور ان خاندانوں میں چلا آ رہا ہے اور نئے شامل ہونے والوں کو بھی ہے اور ہونا چاہیے وہ تعلق وہیں تک ہی محدود نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس کی نچلی کڑی سے بھی اتنا ہی مضبوط تعلق ہے اور یہی تعلق ہے جو جماعت کی اکائی اور وحدت کی نشانی اور ضمانت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے اطلاع پانے کے بعد اپنے اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر جماعت کو دی تو ساتھ ہی جماعت کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جماعت میں سلسلۂ خلافت کے جاری ہونے کی خوشخبری بھی دی۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں یہ تحریر فرمایا کہ

’’تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306)

پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق آپؑ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا اور صرف نظام کا جاری ہونا ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک خلیفۂ وقت اور افرادِ جماعت کے درمیان اخلاص و وفا اور ارادت و مودّت کا تعلق نہ ہو اور یہ تعلق اللہ تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے۔ کوئی انسان یا انسانی کوشش اس تعلق کو نہ پیدا کر سکتی ہے نہ قائم رکھ سکتی ہے اور جماعت کی اکائی اور وحدت اور ترقی کی ضمانت یہی تعلق ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت اور سلسلہ احمدیہ کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ خلافت کے ساتھ افرادِ جماعت کا جو تعلق ہے جس میں پرانے احمدی بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی، نوجوان بھی اور بچے بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی، دور دراز رہنے والے احمدی بھی جنہوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا بھی نہیں ہے سب شامل ہیں لیکن یہ سب لوگ جو ہیں اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خلیفۂ وقت کا پیغام پہنچے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت اور تعلق کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی فعلی شہادت ہیں اور جماعت کی ترقی بھی اس تعلق سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا جو جماعت کو خلافت سے تعلق ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو جمع کیا جائے تو بے شمار ضخیم جلدیں اس کی بن جائیں گی۔

بہرحال اس وقت مَیں بعض واقعات ، جذبات اور احساسات کا ذکر کروں گا جو جماعت کو خلیفۂ وقت سے ہر زمانے میں رہے اور اب تک ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سے شروع ہوئے جو آج 112 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہیں۔ مخالفین تو سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن افرادِ جماعت کا ارادت و مودت اور اخلاص و وفا کا تعلق خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور کیوں نہ ہو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔ بہرحال اب مَیں چند واقعات پیش کرتا ہوں اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ سے مَیںشروع کرتا ہوں۔ ایک دو واقعات پہلے بیان کروں گا۔

ایڈیٹر صاحب البدر حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علالت کے ایام کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان ایام میں خدام کے خطوط عیادت کے کثرت سے آ رہے ہیں اور ان خطوں پہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے فرمایا مَیں ان سب کے واسطے دعا کرتا ہوں جو عیادت کا خط لکھتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ عشاق عجیب پیرایوں میں اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند خطوط کا اقتباس بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔

حکیم محمد حسین صاحب قریشی لکھتے ہیں مَیں نے تو ایک روز جناب باری میں عرض کی تھی کہ اے مولا! حضرت نوحؑ کی زندگی کی ضرورتیں تو مختص المقام تھیں اور اب تو ضرورتیں جو پیش ہیں ان کو بس تُو ہی جانتا ہے۔ ہماری عرض قبول کر اور ہمارے امام کو نوح کی سی عمر عطا کر۔

پھر برادر محمد حسن صاحب پنجابی مدراس سے لکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کی رو بہ صحت ہونے کی خبر پڑھ کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی جس کا اندازہ میرا مولا کریم اور رحیم خدا ہی جانتا ہے۔

(ماخوذ از البدر ، مورخہ 16 فروری 1911ء صفحہ 2جلد 10 شمارہ 16)

پھر ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’محبت عجیب چیز ہے۔ ہمارے دوست میاں محمد بخش صاحب جو ملک آسٹریلیا میں تجارت کرتے ہیں اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ آپ قادیان کی اخبار کی ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے متعلق جو سرخی قائم کرتے ہیں اس میں صرف خلیفة المسیح کے الفاظ نہ ہوں بلکہ سرخی میں ہی آپ کی صحت و عافیت کے متعلق کوئی لفظ اشارہ کرتا ہو کیونکہ بدر کو کھولنے کے وقت سب سے اول جن الفاظ کو ہماری مشتاق نگاہیں تلاش کرنے کو دوڑتی ہیں وہ اسی سرخی کے الفاظ ہیں اور ہمارا جی چاہتا ہے کہ خود اس سرخی میں ایسے الفاظ ہوں جو اندرونی عبارت پڑھنے سے قبل ہی ہمارے دلوں کو راحت پہنچانے والے ہو جائیں۔ سو ہم اپنے عزیز دوست کے اس اخلاص کو‘‘ ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں’’ اپنے عزیز دوست کے اخلاص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے منشاء کے مطابق اس دفعہ سرخی قائم کرتے ہیں۔‘‘

(البدر، مورخہ 6 اپریل 1911ء صفحہ 1جلد 10 شمارہ 23،22)

پھر حضرت ابوعبداللہ صاحب جو کھیوہ باجوہ کے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ایک دن عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت ارشاد فرمائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں۔ انہوں نے فرمایا مولوی صاحب! مَیں نہیں سمجھتا کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں۔ اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بات سن کر تقریباً پینسٹھ سال کی عمر میں انہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور باوجود اتنی عمر ہونے کے حافظ قرآن ہوگئے۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل 8 دسمبر 2010ء صفحہ 4 بحوالہ الفضل قادیان 19 اپریل 1947ء)

یہ تھا کہ کسی طرح مَیں خلیفة المسیح کا حکم بجا لاؤں۔ اس پہ عمل کروں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانے میں جب شدھی نے زور پکڑا ۔ یہ 1923ء میں ملکانے کے علاقے میں شروع ہوا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل بےقرار ہوا۔ اور آپؓ نے اسی سال، 9؍ مارچ کو خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو اپنے خرچ پر ان علاقوں میں جانے اور دعوت الی اللہ کے ذریعے ان مرتدین کو واپس لانے کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا۔ اس تحریک پہ جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری ملازمین، اساتذہ، تُجّار غرضیکہ ہر طبقے سے فدائی ان علاقوں میں دعوت الی اللہ کرتے رہے اور ان کی مساعی کے نتیجہ میں ہزاروں روحیں ایک بار پھر خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگیں۔ ایک معمر بزرگ قاری نعیم الدین صاحب بنگالی نے ایک روز جب حضور مجلس میں تشریف رکھتے تھے اجازت لے کر عرض کیا کہ گو میرے بیٹے مولوی ظل الرحمٰن اور مطیع الرحمٰن متعلم بی اے کلاس نے مجھ سے کہا نہیں مگر مَیں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے جو کل راجپوتانہ میں جا کر دعوت الی اللہ کرنے کے لئے وقفِ زندگی کی تحریک کی ہے اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی ہیں شاید ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے جو اُن کا بوڑھا باپ ہوں کوئی تکلیف ہو گی لیکن میں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکلیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یا رنج نہیں ہے۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے ہوئے مارے بھی جائیں تو اس پر میں ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا۔ پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمٰن بھی اگر خدمت دین کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے اَور ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا۔ اس پر حضور نے بھی اور احبابِ جماعت نے جزاک اللہ کہا۔

(ماخوذ از الفضل 15 مارچ 1923ء صفحہ11)

1924ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ یورپ کے سفر پر تشریف لائے تھے۔ وہ عارضی جدائی جو تھی اس نے بھی احباب جماعت کو بے چین کر دیا ہوا تھا۔ اس ایک روایت سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ بابو سراج الدین صاحب سٹیشن ماسٹر لکھتے ہیں کہ

’’میرے آقا! ہم دور ہیں، مجبور ہیں۔ اگر ممکن ہوتا تو حضور کے قدموں کی خاک بن جاتے تا کہ جدائی کے صدمے نہ سہتے۔ آقا! میں چار سال سے دارالامان نہیں گیا تھا مگر دل کو تسلی تھی کہ جب چاہوں گا حضور کی قدم بوسی کر لوں گا لیکن اب ایک ایک دن مشکل ہو رہا ہے۔ اللہ پاک حضور کو بخیر و عافیت، مظفر و منصور جلدی واپس لائے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 475)

یہ محبت کس کی پیدا کی ہوئی ہے؟ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ
’’ایک نوجوان نے گذشتہ سال میری تحریک کو سنا۔ وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ تھا۔ وہ نوجوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جا پہنچا۔‘‘ انہوں نے کہا خلیفۂ وقت کا ارشاد ہے۔ ایک تعلق ہے اور اس کو بجا لانا ضروری ہے۔ تحریک تبلیغ کی تھی۔ سنا تو افغانستان پہنچ گیا ’’اور تبلیغ شروع کر دی۔‘‘ پاسپورٹ بھی پاس نہیں تھا۔ ’’حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں سے بھی وہیں واقفیت بہم پہنچا لی اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا۔ آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قید خانہ میں بھی اثر پیدا کر رہا ہے۔ ملانوں نے قتل کا فتویٰ دیا مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رعایا ہے اسے ہم قتل نہیں کر سکتے۔ آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچا دیا۔‘‘ حضرت خلیفہ ثانی لکھتے ہیں ’’اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے۔ اس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ میں نے اسے کہا کہ تم نے غلطی کی۔ اَور بہت ممالک تھے جہاں تم جا سکتے تھے اور وہاں گرفتاری کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فوراً بول اٹھا کہ اب آپ کوئی ملک بتا دیں مَیں وہاں چلا جاؤں گا۔ اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے کسی دوسرے ملک کی طرف روانہ ہو جائے مگر میرے کہنے پر وہ والدہ کو ملنے جا رہا ہے۔‘‘ حضرت خلیفہ ثانیؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر دوسرے نوجوان بھی اس پنجابی کی طرح جو افغانستان سے آیا ہے ہمت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 44)

شام کے ایک دوست محمدالشواء صاحب تھے۔ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام تشریف لے گئے تھے تو ان کو لبنان جانے کا بھی آپ کے ساتھ شرف حاصل ہوا تھا۔ بڑے اچھے وکیل تھے اور خلافت سے ایک ایسا تعلق تھا کہ جو بہت مضبوط تھا۔ وکیل تھے اس لئے چاہتے تھے کہ ہر بات دلیل سے کی جائے لیکن جب انہیں یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے تو کہتے تھے بس ختم۔ جب یہ حکم آ گیا تو بات ختم ہو گئی۔ اب یہی فیصلہ ہے۔ تو یہ تعلق تھا ان لوگوں کا۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 23 اکتوبر 2009ء خطبات مسرور جلد 7 صفحہ 503 – 504)

خلافت ثالثہ کا زمانہ آیا تو امریکہ کی سسٹر نعیمہ لطیف ایک احمدی خاتون تھیں۔ ان کو ’’خلافت اور خلیفۂ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کو اولین ترجیح دیتیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں پردے کی اہمیت پر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردے میں نظر آتی تھیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 605 خطبہ جمعہ فرمودہ 03 اکتوبر 2014ء)

تڑپ تھی کہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے۔ ایک تعلق ہے اور اس تعلق کو نبھانا ہے اور مَیں نے بیعت کی ہے تواس حکم کو پورا بھی کرنا ہے۔

نذیر احمد صاحب سانول ضلع خانیوال نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک مخلص احمدی مکرم مہر مختار احمد صاحب آف باگڑ سرگانہ تھے۔ ان کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1974ء کے حالات میں مخالفین نے آپ کا عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ آپ کے پُرجوش داعی الی اللہ ہونے کی وجہ سے برادری نے بھی سخت مخالفت کی اور مکمل بائیکاٹ کیا۔ اس بات سے آپ پہلے سے زیادہ اپنے ایمان میں پختہ ہو گئے اور اپنے دائرہ احباب میں وسعت پیدا کر لی۔ مخالفین نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں اور معاندین کی کارروائیاں بڑھنی شروع ہو گئیں۔ آپ نے بچوں کے حصول تعلیم اور پاکیزہ ماحول میں پرورش دینے کے لیے اپنا رقبہ جو تھا اس زرعی زمین کو فروخت کر کے ربوہ کے ماحول میں ٹھیکے پر رقبہ لے کر کاشت شروع کر دی۔ جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ سے ملاقات کی اور بتایا کہ باگڑ سرگانہ سے جو گاؤں کا نام تھا، زمین فروخت کر کے ربوہ کے قریب میں نے ٹھیکے پر زمین لے لی ہے اور فصل کاشت کر لی ہے تو حضورؒ نے اسے پسند نہیں فرمایا کہ علاقے کو خالی نہیں چھوڑنا تھا۔ اس پر آپ نے فوراً تعمیل کی۔ مالک رقبہ سے ٹھیکے کی رقم واپس طلب کی۔ اس کے انکار پر آپ کھڑی فصل اور ٹھیکے کی رقم لیے بغیر واپس اپنے وطن باگڑ سرگانہ آ گئے اور کوشش کر کے اپنی فروخت شدہ زمین دوبارہ خریدی۔ مہنگے داموں خریدی اور پھر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے ارشاد کی تعمیل کر لی ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس پہ خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مہر صاحب بھی اس بات پہ بڑے خوش ہوتے تھے۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل 10 مئی 2010ء صفحہ 5)

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ایک دفعہ اپنے ایک خطبے میں بیان فرمایا کہ مَیں 1970ء میں افریقہ کے دورے پر گیا۔ وہاں ایک جگہ ہمارے مبلغ نے ایسا پروگرام بنایا تھا جو میرے لئے بڑا تکلیف دہ تھا کیونکہ سو میل کے قریب فاصلہ طے کر کے میں ایک جگہ ایسے وقت پہنچا کہ میں جماعت سے مصافحہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے تکلیف دہ نہیں تھا کہ سو میل کا سفر تھا۔ اس لئے تکلیف دہ تھا کہ پروگرام اتنا مختصر تھا کہ وہاں کی جماعت سے مصافحہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہاں ایک ایڈریس دینا تھا جس میں غیر ملکی عیسائی بھی آئے ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ایڈریس دیا، سوال و جواب ہوتے رہے اس میں بہت دیر ہو گئی اور جب خاصا وقت گزر چکا تو ہمارے مبلغ نے اعلان کیا کہ مصافحے نہیں ہوں گے۔ حضور فرماتے ہیں کہ اور وہ لوگ جن کی ساری عمر میں پہلی دفعہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے ملاقات ہوئی تھی، ان کے پاس گیا تھا اور ان کو پتا نہیں تھا پھر کب ان کو موقع ملے وہ اس اعلان کے باوجود مصافحے کے لئے ٹوٹ پڑے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ مقامی احمدی دوستوں نے میرے پرائیویٹ سیکرٹری اور دوسرے ساتھیوں کو اتنے دھکے دئیے کہ ان کو پتا ہی نہیں لگا کہ وہ کہاں گئے اور مصافحہ شروع کر دیا۔ فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے مصافحہ تو شروع ہو گیا لیکن مصافحہ عام مصافحہ نہیں تھا۔ ہر شخص میرا ہاتھ پکڑتا تھا اور پھر چھوڑتا ہی نہیں تھا۔ میرا منہ دیکھتا تھا اور میرا ہاتھ چھوڑتا ہی نہیں تھا اور ساتھ والا انتظار کرتا رہتا تھا اور آخر تنگ آ کر، یہ واقعہ بیسیوں مصافحوں میں ہوا کہ اگلا آنے والا ایک ہاتھ سے اس کا بازو پکڑتا تھا اور دوسرے ہاتھ سے میرا بازو پکڑ کے جھٹکا دے کر چھڑاتا تھا اور پھر خود مصافحہ کرنے لگ جاتا تھا اور وہ بھی ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا۔ پھر اگلے آدمی کو بھی یہی کرنا پڑتا تھا۔ بہرحال حضور فرماتے ہیں کہ بڑی مشکل سے ہم وہاں سے نکلے۔ فرماتے ہیں غیروں کو بتانے کے لیےکہ اپنوںکو تو مَیں نہیں کہہ رہا ۔ان کو تو خلافت کا اور افراد جماعت کا جو تعلق ہے اس کا پتا ہے۔ لوگوں کو بتادوں کہ میں اتنا احمق نہیں کہ میں یہ سمجھنے لگ جاؤں کہ میری کسی خوبی کے نتیجہ میں پانچ چھ ہزار میل دور میری اس قسم کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گئی کہ جنہوں نے مجھے کبھی دیکھا نہ میرے حالات ہی زیادہ تر جانتے تھے۔ وہ لوگ بھی اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر مصافحے کے لئے آگے آ رہے تھے۔ یہ محبت اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے۔

(ماخوذ از خطبات ناصر جلد ششم صفحہ 547 تا 548 خطبہ فرمودہ 22 اکتوبر 1976ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا زمانہ آتا ہے۔ آپؒ کہتے ہیں کہ
’’افریقہ میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں یہ پرانے واقفین کی قربانیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔ جو حیرت انگیز تبدیلیاں آج وہاں نظر آ رہی ہیں وہ ایسی عظیم الشان ہیں کہ ان کا تصور وہاں کی جماعتیں بھی نہیں کر سکتی تھیں کتنی حیرت انگیز ملک کے اندر تبدیلی پیدا ہو چکی ہے۔ بعض احمدی بڑے بڑے صاحب تجربہ اور اپنے ملکوں کی حکومتوں میں بااثر انہوں نے مجھے بتایا کہ خود ہمیں بھی علم نہیں تھا کہ ہماری قوم احمدیت سے محبت اور تعاون میں اتنا آگے بڑھ چکی ہے اور اتنا زیادہ وہ اس وقت تیار ہے کہ اسے پیغام پہنچایا جائے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’ایک صاحب‘‘ ان کا نام لینا مناسب نہیں۔ ان کے ملک کا نام بھی ظاہر کرنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی یہ ہو کیا رہا ہے کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری قوم کو کسی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ایسی خدمت کی توفیق ملے گی اور ایسے محبت کے اظہار کا موقع ملے گا۔ میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے یہاں حکومت کے سربراہوں کے ساتھ تو ہوتا دیکھا ہے۔‘‘ اور وہ بھی دنیاوی نظر سے ہوتا ہے۔ ’’اس کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں دیکھا اور یہ بھی انہوں نے بتایا کہ اس میں ہماری جماعت کی کوششوں کا دخل نہیں ہے جو کچھ ہو رہا ہے غیب سے ہو رہا ہے اور حیرت انگیز طریق پر ہو رہا ہے۔‘‘

(ماخوذ از خطبات طاہر جلد7صفحہ134-135)

تو یہ سارا کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ ہے۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ پاکستان کے متعلق ایک موقعے پر ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، بعض برائیوں کی نشان دہی کی تھی کہ

’’پاکستان میں بھی بعض خرابیاں مثلاً ویڈیو کیسٹ کے غلط استعمال سے متعلق شروع ہوئیں۔‘‘ آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایک خطبے میں اعلان کیا تھا کہ بعض گندی رسمیں راہ پا رہی ہیں اس سے قومی اخلاق تباہ ہو جائیں گے اور گھروں کے امن اٹھ جائیں گے اور میاں بیوی کے وفا کے سلسلے ٹوٹ جائیں گے اور ان کے تعلقات میں رخنے پڑ جائیں گے، دراڑیں پڑ جائیں گی۔ ہرگز اس رجحان کو پنپنے نہ دیں۔ چنانچہ مجھے پاکستان سے جو خطوط ملے ان سے میرادل‘‘ حضرت خلیفة المسیح الرابع فرماتے ہیں ’’پاکستان سے جو خطوط ملے ہیں ان سے میرا دل خدا کے حضور سجدہ ریز ہوا اور بار بار ہوا کہ وہ لوگ جو بعض بدیوں میں مبتلا تھے انہوں نے صاف لکھا کہ ہم ان غلط کاموں میں پڑ گئے تھے۔ اللہ کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے وابستہ ہیں اور براہ راست جب آپ کی آواز ہم تک پہنچی ہے تو یہ سارے جھوٹے بت توڑ کر ہم نے اپنے دلوں سے باہر پھینک دیے۔ تو جماعت میں‘‘ آپؒ فرماتے ہیں ’’جماعت میں نیکی کی آواز پر لبیک کہنے کا جو مادہ ہے یہ صداقت کی اصل روح ہے اور یہ صداقت کی روح کبھی کوئی جھوٹا دنیا میں نہیں بنا سکتا۔‘‘

(خطبات طاہر جلد11صفحہ920)

پھر اب میرے وقت کی باتیں ہیں۔ 2004ء میں مَیں نے نائیجیریا کا دورہ کیا۔ دو دن کا دورہ تھا۔ پہلے پروگرام نہیں تھا۔ اتفاق سے اور مجبوری سے بن گیا کیونکہ فلائٹ وہاں سے ملتی تھی لیکن وہاں جا کے یہ احساس ہوا کہ یہاں آنا بڑا ضروری تھا۔ نہ آتے تو بڑا غلط ہوتا۔ کچھ عرصہ پہلے نائیجیریا جماعت کا جلسہ ہو چکا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں اس جلسے میں وہاں شامل بھی ہو چکے تھے۔ یہ خیال نہیں تھا کہ میرے وہاں جانے پر دور دور سے لوگ آ سکیں گے لیکن صرف دو گھنٹے کے لیے وہ مجھے ملنے کے لیے آئے۔ وہاں لوگ آئے اور تقریباً تیس ہزار کے قریب مرد و زن جمع ہو گئے اور ان کے جو اخلاص و وفا کے نظارے تھے جو ہم نے دیکھے وہ بھی قابل دید تھے۔

خلافت سے اخلاص کا تعلق اور جو محبت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان لوگوں نے جنہوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا بھی نہیں براہ راست جب دیکھا تو ایسا اظہار کیا کہ حیرت ہوتی تھی۔ واپسی کے وقت دعا میں بعض خواتین اور لوگ اتنے جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ حیرت ہوتی تھی اور یہ محبت صرف خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہی ہوسکتی ہے۔ مولوی کہتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں جماعت کے مشن بند کروا دیے اور فلاں میں ہمارے سے وعدے ہو چکے ہیں کہ مشن بند ہو جائیں گے اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ بڑی بڑیں مارتے رہتے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ یہ اخلاص و وفا جو وہاں کے لوگ دکھاتے ہیں اور یہ چہرے جو ایم ٹی اے اب تو دنیا کو بھی دکھانے لگ گئی ہے اور پھر ہم خود بھی وہاں جا کر دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا یہ مشن بند کرانے کا نتیجہ ہے۔ بہرحال انہوں نے تو اپنی بڑیں مارنی ہیں مارتے رہیں لیکن یہ باتیں ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور اس میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد دوم صفحہ253 تا 254)

گھانا کا دورہ تھا جو 2008ء کا دورہ تھا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ایک زمین خریدی ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے تقریباً پانچ سو ایکڑ کے قریب وہاں جلسہ تھا اور اکثر احباب و خواتین میرے جانے سے پہلے پہنچ چکے تھے اور اس نئی جگہ پہ پہلے ایک پولٹری فارم ہوتا تھا اس کے شیڈ (shed) تھے اس کو بدل کر وہاں کی جماعت نے جلسے کے لیے کچھ رہائش بھی بنا دی تھی، کھڑکیاں دروازے لگا کر بیرک جیسی بن گئی تھیں لیکن اس کے باوجود جگہ کی تنگی تھی بہت سارے لوگ شامل ہوئے لیکن جو لوگ وہاں آئے ہوئے تھےکسی نے بھی اس جگہ کی تنگی کی شکایت نہیں کی۔ کوئی شکوہ نہیں کیا۔ جلسے میں ان میں بہت لوگ ایسے تھے جو بڑے اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے، کاروباری لوگ تھے، سکولوں کے پڑھانے والے تھے، دوسرے کام کرنے والے تھے۔ اگر ان کو رہائش نہیں ملی تو باہر صف بچھا کر آرام سے سو گئے۔ ایک تو ویسے ہی اس گھانین قوم میں صبر ہے لیکن ان دنوں میں تو خاص طور پر انہوں نے بہت صبر دکھایا۔ کسی نے ایک دو ایسے لوگوں سے پوچھا جو اس طرح باہر پڑے ہوئے تھے کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہو گی تو انہوں نے کہا ہم تو جلسہ سننے آئے ہیں اور خلیفۂ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہو رہا ہے۔ دو دن کی عارضی تکلیف سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم خوش ہیں کہ اس جلسے میں شمولیت کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق عطا فرمائی۔

برکینا فاسو سے بھی لوگ وہاں آئے ہوئے تھے۔ دوسرے ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ مجھے پتا لگا کہ برکینا فاسو سے جو قافلہ آیا ہوا ہے بہت بڑا تھا ان میں بعض لوگوں کو کھانا نہیں ملا، تین ہزار کے قریب ان کی تعداد تھی۔ سب سے بڑی تعداد انہی کی تھی جو وہاں گئی تھی۔ تین سو خدام سائیکلوں پر بھی سولہ سو کلو میٹر کا سفر کر کے وہاں آئے تھے۔ بہرحال وہاں کے ایک مبلغ کو مَیں نے کہا ان کو کھانا نہیں ملا۔ ان سے معذرت کر دیں اور آئندہ آپ لوگوں نے ان کا خیال بھی رکھنا ہے۔ جب انہوں نے ان کو معذرت کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ ہم نے حاصل کر لیا۔ کھانے کا کیا ہے وہ تو روز کھاتے ہیں ۔ اب یہ غریب لوگ بیچارے روز بھی کیا کھاتے ہوں گے۔ انہوں نے کہا جو کھانا ہم اس وقت کھا رہے ہیں، روحانی فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ روز روز کہاں ملتا ہے۔ برکینا فاسو کی جماعت اب بھی اتنی پرانی نہیں ہے۔ جب میں دورے پر گیا ہوںتو اس وقت میرا خیال ہے دس پندرہ سال پرانی تھی۔ اب تیس سال پرانی ہو گئی ہو گی لیکن یہ لوگ اخلاص و وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غربت کا یہ حال ہے کہ بعض لوگ ایک جوڑا جو کپڑے پہن کے آئے تھے وہی کپڑے ان کے پاس تھے، اسی میں تین چار دن یا پانچ دن یا ہفتہ گزارا اور پھر سفر بھی کیا۔ پیسے جوڑ جوڑ کے جلسے پر پہنچے تھے کہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اور خلیفۂ وقت کی موجودگی میں ہو رہا ہے اس لیے ہم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔ پس ایسی محبت خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کون پیدا کر سکتا ہے۔ جو خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے ان کے اخلاص کا اندازہ بھی اس بات سے ہوتا ہے کہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے۔ ان سائیکل سواروں میں بعض پچاس ساٹھ سال کی عمر کے لوگ بھی تھے اور تیرہ چودہ سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔ وہاں کے خدام الاحمدیہ کے جو صدر صاحب تھے، انہوں نے کسی کے پوچھنے پر کہ کس طرح ہوا؟ بڑی مشکل ہوئی ہو گی؟ جواب دیا کہ ابتدائی مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لیےتیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جوبلی کے سلسلے میں کوئی ایسا پروگرام کیا جائے جس سے خلافت کے ساتھ ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار ہو اور ہم خلیفۂ وقت کو بتائیں کہ ہم قربانی کے لیے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ سائیکل سوار سفر شروع کرنے لگے تھے تو ٹی وی کے نمائندے نے وہاں ان سے پوچھا کہ سائیکل تو آپ لوگوں کے بہت خستہ حالت میں ہیں۔ یہاں کے یورپ کے سائیکلوں کی طرح تو نہیں۔ ٹوٹے ہوئے سائیکل ہیں اور عام سائیکل ہیں کس طرح اتنا بڑا سفر کریں گےتو جماعتی نمائندے نے ان کو کہا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم ہمارا بہت بڑا ہے ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کر رہے ہیں اور جب نیشنل ٹی وی نے یہ خبر نشر کی تو اس ٹی وی نے اس خبر کا آغاز بھی اس طرح کیا، جو سرخی پڑھی گئی وہ اس طرح تھی کہ اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لیے واگا سے اکرا کا سفر۔ واگا برکینا فاسو کا دارالحکومت ہے اور اکرا گھانا کا دارالحکومت ہے اور لکھا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط ہے۔ اخبار نے جو خبر دی تو یہ سرخی جمائی۔ یہ احمدی کوئی پیدائشی احمدی نہیں ہیں ،کوئی صحابہ کی اولاد میں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بعض ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور بعض جگہ سڑکیں بھی نہیں ہیں۔ ایسی جگہوں پر رہنے والے لوگ جہاں پانی بجلی کی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ ان لوگوں نے چند سال پہلے احمدیت قبول کر کے پھر اخلاص و وفا کے ایسے نمونے دکھائے کہ حیرت ہوتی ہے۔ بعض جگہ ان کو غربت و افلاس نے بالکل بے حال کیا ہوا ہے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہوا یا جب بھی سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لیے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں۔ پس ہمیشہ ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بھی بڑھائے اور ہم سب کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔

برکینا فاسو کے ایک دوست عیسیٰ صاحب تھے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے 2005ء میں بیعت کی تھی اور جب ان سے پوچھا گیا تو اس وقت تین سال ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ بتایاکہ تین سال تو ہو گئے ہیں لیکن مجھے آج پتا چلا ہےکہ میں کیا ہوں اور کتنا خوش قسمت ہوں اور میں نے کیا پایا ہے۔ اپنی خوشی کا اظہار میرے بیان سے باہر ہے کیونکہ آج میں نے خلیفۂ وقت کو دیکھا اور ملاقات کی۔ بعض کی خلافت سے محبت آنسوؤں کی شکل میں ان کی آنکھوں سے بہ رہی تھی۔ تو یہ اخلاص ووفا ہے جو نئی قائم ہونے والی جماعتوں میں ہے۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد ششم صفحہ 181 تا 186)

گذشتہ سال کسی فتنہ پرداز کی وجہ سے کہ اس نے ایک غلط فہمی کو پکڑ کر فتنہ پھیلانے کی کوشش کی تو جماعت کے بعض مخلصین بھی، نوجوان مخلصین تو تھے لیکن نوجوانوں میں زیادہ تر اس کی باتوں میں آ گئے اور ان کا رویہ ذرا عجیب ہو گیا۔ اپنے آپ کو احمدی کہتے تھے لیکن نظام سے علیحدہ ہو رہے تھے۔ بہرحال مالی سے میں نے ان کے ایک مقامی مبلغ معاذ صاحب کو وہاں بھیجا ۔ انہوں نے وہاں جا کے ان کو سمجھایا۔ جب بتایا کہ تم ایک طرف کہتے ہو خلافت سے تمہاراتعلق ہے اور دوسری طرف نظام سے ہٹ رہے ہو تو یہ درست نہیں ہے تو تقریباً تمام نے معافی کے خطوط لکھنے شروع کر دیے اور انہوں نے کہا کہ ہم غلط فہمی کی وجہ سے اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ان باتوں میں آ گئے تھے۔ ہمارا خلافت کے ساتھ وفا کا مکمل تعلق ہے اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ خلافت سے کبھی علیحدہ ہوں۔ چنانچہ دوبارہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظامِ جماعت کا حصہ بن گئے۔ تربیت کی کمی تھی تو اُکھڑے۔ جہاں احساس دلایا گیا تو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور خلافت سے کامل وفا کے تعلق کا اظہار کیا اور کہا کہ جب ہم علیحدہ تھے تب بھی ہم خلافت سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔ ہم تو بعض عہدے داروں سے علیحدہ ہوئے تھے۔ تو بہرحال یہ ان کی وفا اور اخلاص کا معیار ہے ،تعلق ہے۔اسی طرح گیمبیا سے آئے ہوؤں کا بھی یہی حال تھا۔ آئیوری کوسٹ سے لوگ آئے تھے۔دوسرے ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں اخلاص اور وفا اور فدائیت میں بڑھا ہوا تھا۔

گھانا میں جلسے کے دوران پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں لمبا فاصلہ تھا۔ جلسہ گاہ سے لے کے جہاں ہماری رہائش تھی۔ وہاں اس تک پہنچنے میں سڑک ذرا بل کھاتی جاتی تھی۔ اس لئے ایک کلو میٹر زائد بن جاتا تھا۔ عورتیں مرد کھڑے ہوتے تھے۔ عورتوں نے بچوں کو اٹھایا ہوتا تھا اور سلام کرواتی تھیں۔ محبت کا ایک اظہار ہو رہا ہوتا تھا، محبت ٹپک رہی ہوتی تھی۔ خلافت جوبلی کے جلسے میں وہاں عورتوں کی تعداد بھی تقریباً پچاس ہزار تھی اور سب خلافت سے اخلاص و وفا کا اظہار کر رہے تھے اور ان کی محبت ان کی آنکھوں سے، ان کے رویے سے، ان کی شکلوں سے، ان کے چہروں سے ٹپک رہی ہوتی تھی۔ پھر یہ سب لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ نمازوں میں بھی اور تہجد میں بھی بڑی باقاعدگی سے شامل ہوتے تھے۔

نائیجیریا میں جب دوسری دفعہ گیا ہوں تو بینن سے بائی روڈ (by road) گیا تھا یا یہ پہلی دفعہ والا ہی قصہ ہے۔ غالباً 2004ء کا ہی ذکر ہے. بہرحال راستے میں ایک جگہ تھی وہاں رکنا تھا ۔ پہلے تو پروگرام نہیں تھا لیکن انہوں نے کہا کہ مسجد نئی بنی ہے دیکھ لیں تو وہاں لوگ موجود تھے۔ ان سب کی مردوں کی بچوں کی یہ خواہش تھی کہ مصافحہ ہو جائے۔ عورتیں چاہتی تھیں قریب سے دیکھ لیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے مصافحہ تو ممکن نہیں تھا لیکن جو زور لگا کے کر سکتے تھے انہوں نے کر بھی لیا۔ اس رَش میں ایک وقت بڑا دباؤ پڑ گیا تھا تو ہمارے قافلے کے ایک ساتھی نے کسی عورت کو کہہ دیا پیچھے ہٹ جاؤ۔ تو بڑے غصے میں وہ عورت آئی اور لگتا تھا غصے میں اس شخص کو اٹھا کر باہر پھینک دے گی کہ تم ہوتے کون ہو کہ میرے اور خلیفۂ وقت کے درمیان میں حائل ہو جاؤ۔ تو بہرحال یہ ان کے جذبات تھے۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد میں نے انہیں خاموش ہونے کے لیے کہا اور کہا بیٹھ جائیں۔ تب وہاں سینکڑوں کی تعداد میں جو احمدی تھے وہ خاموش ہوئے اور بیٹھ گئے۔ یہ ہے ان کا خلافت سے تعلق۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد ششم صفحہ 191 تا 192)

امریکہ کو دنیا سمجھتی ہے کہ وہاں صرف مادی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں اور دین سے ان کا تعلق کم ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بھی اپنے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح ایک دفعہ ان کو ایک خطرے کا خط ملا تھا۔ امکان تھا۔ جب بات باہر نکلی تو اس پر وہاں کے دو سیکیورٹی کے ماہرین احمدی تھے وہ خود ہی پہنچ گئے اور ساری رات باہر رہ کر پہرہ دیتے رہے۔ تو بہرحال امریکہ والوں میں بھی بڑا اخلاص ہے۔ میرے دورے کے دوران جب بھی مَیں وہاں دورے پہ گیا ہوں انہوں نے ہمیشہ اخلاص و وفا کا اظہار کیا ہے۔ یہاں بھی امریکہ سے وفود آتے ہیں وہ بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح ان کو خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق ہے اور ان کا عمل اس بات کو ردّ کرتا ہے کہ وہ صرف دنیا داری میں ملوّث ہیں۔ نوجوان ڈیوٹی دینے والوں نے مستقل میرے ساتھ رہ کر اپنا وقت گزارا ہے، وہ سفر میں ساتھ رہے اور اپنے کاروباروں کو اور نوکریوں کو بعضوں نے داؤ پر لگا دیا، کوئی پروا نہیں کی۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے بتایا کہ ہماری نوکریاں شروع ہوئی تھیں اور جلسے کے لیے آپ سے ملاقات کے لیے رخصت نہیں مل رہی تھی تو ہم نوکریاں چھوڑ کر آ گئے ہیں۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد 10صفحہ 424)

کینیڈا کے خدام ہیں ان کا بھی یہی رویہ ہے۔ نوجوان ہیں، بچے ہیں، عورتیں ہیں۔ دنیا میں چاہے امریکہ ہو یا کینیڈا ہویا یورپ کاکوئی ملک ہو، ہر جگہ اخلاص و وفا کے نمونے دکھائے جاتے ہیں اور یہ اخلاص و وفا کوئی انسانی کوشش پیدا نہیں کر سکتی۔ چند سال پہلے جرمنی میں مَیں نے ایک خطبہ دیا تھا جس میں خلافت کے ساتھ اطاعت اور وفا کا مضمون بیان کیا تھا ۔ وہ صرف جرمنی والوں کے لیے نہیں تھا بلکہ وہ تو ہر ایک کے لیے تھا اور ہونا چاہیے لیکن وہاں کے حالات کی وجہ سے چند مثالیں میں نے جرمنی کی دے دی تھیں۔ بہرحال اس پر دنیا بھر کے احمدیوں نے ردّعمل دکھایا اور فوری طور پر خلافت کی کامل اطاعت اور مکمل وفا کا اظہار کیا۔ جرمنی والوں نے بھی اسی طرح اظہار کیا اور جرمنی میں تو خاص طور پر بعض نے اس بات پر اظہار کیا کہ ہم میں سے بعض عہدے دار بعض ہدایات کی تاویلیں اور توجیہیں نکالنے لگ جاتے ہیں اور آئندہ ان شاء اللہ ایسا نہیں ہو گا۔ اللہ کرے کہ وہ اس پر قائم بھی رہیں اور دنیا کے ہر ملک میں یہ قائم رہیں۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد 12صفحہ 369)

اردن سے قاسم صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی سب سے خوبصورت اور عظیم دلیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خلافت کی محبت اور اطاعت میرے دل میں خود پیدا کر دی ہے۔ کہتے ہیں چند سال قبل جب میں نے بیعت کا فیصلہ کیا تو میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ کیا واقعی جماعت اب تک حق پر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد پر گامزن ہے یا نہیں؟ اس وقت تک مجھے خلافت کا کچھ علم نہ تھا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے خواب میں مجھے دکھایا کہ خلیفة المسیح سلامتی اور امن پھیلا رہے ہیں اور لڑائی جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ پر رکھا ‘‘یہ خط وہ مجھے لکھ رہے ہیں۔’’ اور انگوٹھی کو بوسہ دیا۔ اس وقت میں نے آپ کی شفقت اور مہربانی کو محسوس کیا اور میرے دل میں آپ کے لئے غیر معمولی محبت پیدا ہو گئی جو دن بدن بڑھ رہی ہے۔ میں تجدید بیعت کرنا چاہتا ہوں اور آپ کی اطاعت سے نکلنے والے ہر شخص سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ 2017ء سے دوسرے روز بعد دوپہرکا خطاب، الفضل انٹرنیشنل 6؍ اپریل 2018ء صفحہ 15)

پھر بلغاریہ ہے وہاں ہمارے مخالفین نے مخالفت کی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اب بڑے عرصے کے بعد جا کے جماعت رجسٹرڈ ہوئی ہے۔ ایک دفعہ رجسٹریشن کینسل ہو گئی تھی۔ بعض احمدی احباب کو بلغاریہ کے مفتی نے لالچ وغیرہ دے کر جماعت سے انکار کرنے کے لیے بھی کہا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام احمدی نہ صرف یہ کہ ایمان پر قائم ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر اخلاص کا نمونہ دکھا رہے ہیں اور خلافت احمدیہ کے ساتھ وفا کا تعلق ثابت کر رہے ہیں۔ ایک خاتون تھیں ان کے پاس تین افراد گئے اور جماعت سے انکار اور اپنے ساتھ شامل ہونے پر مدد کا بھی کہا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اس خاتون نے، اس مجاہدہ نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیت سچی ہے اور مَیں اپنے خلیفہ سے مل کے آئی ہوں اور سب سے بڑھ کر خداتعالیٰ نے مجھے تین چار خوابیں دکھائی ہیں اور بتا دیا ہے کہ یہ جماعت سچی ہے۔ اس لیے اب اسے چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

(ماخوذ از اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 30 جون 2013ء۔الفضل انٹرنیشنل جلد 20 شمارہ 44مورخہ یکم نومبر 2013ء صفحہ 14)

بینن کے آج کل جو مبلغ انچارج ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نومبائعین کے جلسے میں ایک نومبائع رزاق صاحب نے نومبائعین کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے نظام میں کسی کو مسئلہ ہو تو وہ چیف کے پاس جاتا ہے۔ نہ بات بنے تو تحصیلدار کے پاس جاتا ہے۔ پھر میئر کے پاس جاتا ہے۔ پھر وزیر کے پاس جاتا ہے پھر صدر مملکت کے پاس اور وہ بھی پتا نہیں آپ کی بات سنے یا نہ سنے ۔کام کرے یا نہ کرے لیکن جماعت احمدیہ کا نظام تو کمال ہے جماعت احمدیہ کے پاس تو خلیفہ ہے جو ہر ایک کی بولی سمجھتے ہیں اور ہر رنگ و نسل کو نوازتے ہیں۔ کہنے لگے یہ خلافتِ احمدیہ کی ہی برکت ہے کہ ہم قرآن پڑھنے لگ گئے ہیں اور وہ اسلام جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے وہ آج ہم تک پہنچ گیا ہے۔

فرانس سے لیلیٰ صاحبہ کہتی ہیں میں نے 2017ء میں بیعت کی تھی۔ ہرصبح آپ کا خط پڑھتی ہوں جس نے میری زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔ آپ کی حفاظت اور تائید اور نصرت کے لیے تمام نمازوں میں دعا کرتی ہوں۔ اب یہ دعا کی تحریک بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی ہوئی ہے۔ بیعت کے بعد ایک نئی انسان بن گئی ہوں۔

مالی کے ریجن ساں (San) کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہماری ایک جماعت وولوں (Wolon) کے ایک ممبر عبدالرحمٰن کولیبالی صاحب ہیں۔ وفات پا گئے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے بچوں کو جمع کر کے وصیت کی کہ اگر میں جوان ہوتا اور چل پھر سکتا تو میں جماعت کے مشن میں جا کر بیٹھ جاتا اور جماعت مجھے جو بھی کام دیتی وہ کرتا اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کو نصیحت کی کہ ان کا دو ماہ کا چندہ رہتا ہے ان کو ان کی زندگی کا پتا نہیں لیکن وہ ضرور ادا کر دیا جائے تا کہ میں قرض دار ہونے کی صورت میں اس دنیا سے نہ جاؤں۔ تیسری انہوں نے اپنی اولاد کو وصیت یہ کی کہ خلافت سے وفادار رہنا اور اس سے بے وفائی نہ کرنا اور ہمیشہ چندے دیتے رہنا۔

گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون رحمت جالو صاحبہ ہیں انہوں نے بیعت کی۔ جب انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کا بتایا تو انہوں نے اسی وقت سو ڈلاسی ادا کر دیے۔ ان کی چھوٹی سی دکان ہے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندہ دیتی ہیں اور کہنے لگیں کہ مَیں تو صرف اللہ اور خلیفۂ وقت کا پیار چاہتی ہوں۔ یہ تعلق اور محبت ہے جس کی وجہ سے میں دیتی ہوں اور خدا کی خاطر قربانی دے رہی ہوں۔

تاجکستان کے دوست عزت امان صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب میری والدہ کی عمر بہتّر سال تھی تو شدید بیمار ہو گئیں۔ پہلے ہی کئی سالوں سے دل کے عارضہ اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار رہتی تھیں لیکن اس بیماری کی وجہ سے ان کی صحت بہت کمزور ہو گئی اور ڈاکٹر کی باتوں سے ہم رشتے داروں میں مایوسی پھیل گئی۔ کہتے ہیں خلیفة المسیح کے ساتھ ملاقات اور اس تعلق کی وجہ سے مجھے یقین تھا کہ میں دعا کے لیے کہوں گا تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ قبول کرے گا۔ بہرحال کہتے ہیں جب مَیں نے لکھا تو دعاؤں کے ساتھ ہومیو پیتھک دوائیاں بھی مجھے ملیں۔ میری والدہ ٹھیک ہو گئیں اور اس وقت جب انہوں نے لکھا تھا میری والدہ کی عمر اناسی سال ہے اور وہ حج کا ارادہ بھی رکھتی ہیں اور یہ خلافت کے ساتھ تعلق اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زندگی دی ہے۔

اللہ تعالیٰ ایمان اور یقین پیدا کرنے کے لیے ایسے نظارے دکھا دیتا ہے تا کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور سچ تھا۔

ایک احمدی بچے کی خلافت سے محبت کا واقعہ طاہر ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ ترکی کے دورے کے دوران ایک احمدی دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ بیٹھے ہی تھے کہ ان کا تین چار سال کا بچہ آیا اور سلام کر کے میرے کان میں کچھ کہنے لگا۔ کان میں کہنے لگا کہ میں نے حضور کو خط بھجوانا ہے ۔کیا آپ لے جائیں گے؟ میں نے کہا ٹھیک ہے لے جاؤں گا کیوں نہیں۔ اس پر وہ بچہ کاغذ پر دو لائنیں، الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر لے آیا۔ میں نے اس سے پوچھا خط میں کیا لکھا ہے؟ کہنے لگا میں نے لکھا ہے کہ حضور مجھے آپ سے محبت ہے۔ کہتے ہیں میں نے یہ خط یہاں دے دیا۔ اس کا جواب بھی میری طرف سے چلا گیا۔ جب اس بچے کو جواب ملا ہے تو اس کے والد کے بقول اس کی بھی اور اس کے باقی سب گھر والوں کی بھی خوشی دیدنی تھی۔
اسی طرح ایک اَور بچے کی مثال ہے۔ میسیڈونیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ گذشتہ دنوں بوسنیا کے دورے کے دوران میری ایک دوست سے واقفیت ہوئی۔ پاکستانی دوست تھے تبلیغی گفتگو ہوئی۔ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل دبئی ایئر پورٹ پر ان کی ملاقات ایک فیملی سے ہوئی تھی جن کی ایک تین چار سالہ بچی کہہ رہی تھی ہم سب کو نماز پڑھنی چاہیے اور سچ بولنا چاہیے۔ جب مجھے پتا چلا کہ اس فیملی کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے تو میں نے اس بچی سے پوچھا کہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ تو کہنے لگی کہ لندن میں پیارے حضور سے ملنا چاہتی ہوں۔ کہتا ہے کہ اس بات نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑا کہ اتنی چھوٹی عمر ہے اور اس کی سب سے بڑی خواہش خلیفہ سے ملاقات کرنا ہے۔

اسی طرح آج کل بچوں کی ایک گیم تھی۔ اس پر جب میں نے روکا کہ نہیں کھیلنی اس سے بعض دفعہ غلط عادتیں پڑ جاتی ہیں تو والدین پہلے تو پریشان ہوئے کہ ہم کس طرح بچوں کو روکیں گے لیکن اکثر والدین نے مجھے لکھا کہ آپ کا خطبہ سننے کے بعدبچوں نے خود آ کر ہمیں کہا کہ کیونکہ اب خلیفۂ وقت کی طرف سے آگیا ہے کہ نہیں کھیلنا تو ہم نہیں کھیلیں گے اور اب بھی اکثر مجھے خط آتے ہیں۔ لوگ لکھتے ہیں کہ کیا ہم یہ کھیل اب اتنی دیر کھیل سکتے ہیں یا کر سکتے ہیں یعنی کہ ان میں ایک احساس ہے کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ جو تعلق ہے اس کی وجہ سے ہم نے دھوکا نہیں دینا اور وہ کام کرنا ہے جو خلیفۂ وقت ہماری بہتری کے لیے چاہتا ہے۔

ہونڈوروس کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک مقامی احمدی ’’پرسی موریو‘‘ مختلف مسائل کا شکار تھے۔ ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ اپنی پریشانیوں کے حوالے سے دعا کے لیے خلیفۂ وقت کو خط لکھیں۔ جب انہوں نے خط لکھا تو کہتے ہیں کہ ان کےا کثر مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ اس سے مجھے ایک غیبی طاقت ملی ہے اور خلافت پہ میرا یقین اور اعتماد بڑھا ہے۔

مراکش سے اَفَارِی صاحب ہیں ۔کہتے ہیں کہ آپ نے میرے دل اور زندگی کو رحمت اور برکت سے منور کر دیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہدایت دی ہے۔ مجھے آپ کو دیکھ کر نشہ سا ہونے لگتا ہے۔ ایک عجیب و غریب احساس ہوتا ہے۔ میں نہ کبھی آپ کے ساتھ بیٹھا نہ کبھی بات کی۔ یقیناًیہ خدا کی عطا کردہ اور سچی محبت ہے۔ اللہ آپ کی تائید و نصرت فرمائے۔

پھریمن سے ایمان صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے حضور سے اپنے آپ، اپنے بچوں اور اپنے اہل اور سب لوگوں سے زیادہ محبت ہے۔ اس سے میرے دل کی تسکین اور سرور کا سامان ہوتا ہے اور پھر مجھے امید بھی ہوتی ہے کہ ان شاء اللہ حالات درست ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آپؑ کے بعد خلافت اس لیے قائم ہوئی کہ بگاڑ کی اصلاح ہو اور ہمارے ہمومِ دنیا سے بوجھل دلوں میں امید پیدا ہو۔ میری حالت تو ایسی ہے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے خدا! اگر تُو ہم سے ناراض نہیں تو پھر ہمیں اَور کسی بات کی پروا نہیں۔ میری خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ مَیں ان خوش قسمتوں میں سے ہوں جن سے آپ محبت کرتے ہیں اور جن سے اور جن کی ازواج اور اولاد سے آپ خوش ہیں۔

پھر توفیق صاحب تیونس سے ہیں۔ یہ لکھتے ہیں ہمیں آپ سے محبت ہے۔ ہم آپ کی کشتی پر سوار ہیں اوراس میں تربیت پائی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چشمہ سے کھایا پیا۔ ہم اپنے عہد پر قائم ہیں۔ آپ کے ساتھ جڑے بغیر ہماری اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ہم دنیا نہیں چاہتے صرف یہ تمنا ہے کہ ہمارے بارے میں یہ کہا جائے کہ فلاں اس مبارک جماعت کی پیروی کی برکت سے کامیاب ہو گیا۔ عہد پر قائم رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق ملے اورمسلمانوں کے اتحاد کے لیے دعا کی درخواست ہے۔

بہرحال یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ دلوں میں اخلاص و وفا کا تعلق اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور کوئی دنیاوی طاقت اسے چھین نہیں سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے تم دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے اکثریت کو ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھنے کی توفیق ملے۔

اب ایم ٹی اے کے بارے میں بھی مَیں ایک اعلان کرناچاہتا ہوں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے بارے میں تھا۔ بہرحال 27؍مئی سے، یوم خلافت والے دن سے ایک نئی ترتیب کے ساتھ یہ چینل شروع کیے گئے ہیں۔ ان کی تفصیل میں بیان کر دیتا ہوں۔ شروع میں بعض جگہ امریکہ میں خاص طور پر کچھ تھوڑی سی مشکل بھی پیش آئی تھی لیکن اب امید ہے حل ہو گئی ہو گی ۔لیکن بہرحال اس نظام کے ساتھ جو شروع کیا گیا ہے میں یہ کچھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ مختلف ریجنز کے اعتبار سے ایم ٹی اے کو آٹھ چینلز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

ایم ٹی اے وَن جو ہے یہ چینل عموماً یوکے اور یورپ کے بعض علاقوں کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ اس چینل کی مین لینگویج (main language)، جو زبانیں ہیں وہ انگریزی اور اردو ہوں گی۔ اسی چینل پر انگریزی اور اردو زبانوں کے پروگرام نشر کیے جائیں گے نیز بعض دوسری زبانوں کے پروگرام بھی انگریزی اور اردو ترجمے کے ساتھ نشر کیے جائیں گے۔ میرے لائیو نئے ریکارڈڈ پروگرام بھی اسی چینل کے پروگرام MTA 1 ورلڈ کے طور پر باقی تمام چینل پر بھی نشر ہوں گے۔

MTA 2 یورپ۔ یہ چینل یورپ اور مڈل ایسٹ کے ممالک کے ناظرین کے لیے ہو گا۔اس پر اردو، انگریزی، ٹرکش، فرنچ، سپینش، جرمن، ڈچ، رشین اور Persian (فارسی) زبانوں کے پروگرام نشر کیے جائیں گے۔ اس پر اس وقت مختلف زبانوں کی دو دو گھنٹے کی سروسز چلتی ہیں۔ مذکورہ بالا زبانوں کے پروگراموں کا اسی طرح پر اضافہ کر دیا جائے گا۔

MTA 3 العربیة۔ یہ چینل اسی طرح چلتا رہے گا جس طرح اس وقت چل رہا ہے۔ اس چینل کی مین (main) زبان عربی ہو گی۔

MTA 4 افریقہ۔ یہ چینل مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ کے ممالک کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ اس چینل کی مین لینگوئج یا مین لینگوئجز انگریزی، فرنچ اور سواحیلی ہوں گی اور انہی زبانوں کے پروگرام اس پر نشر کیے جائیں گے۔

MTA 5 افریقہ۔ یہ چینل مغربی افریقہ کے ممالک کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ اس چینل کی جو مین زبان ہے وہ انگریزی ہو گی۔ اس کے علاوہ کریول، ہاؤسا، چوئی اور یوروبازبانوں کے پروگرام بھی نشر کیے جائیں گے۔

MTA 6 ایشیا ۔ یہ چینل ایشیا سیٹ پر ہو گا اور ایشیا ،فار ایسٹ، انڈونیشیا، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور رشیا وغیرہ ممالک کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ اس چینل کی جو مین زبانیں ہیں وہ اردو، انگریزی اور انڈونیشین ہوں گی۔ اس پر اردو، انگریزی، بنگالی، پشتو، سندھی، سرائیکی، فارسی، انڈونیشین اور رشین زبانوں کے پروگرام نشر کیے جائیں گے۔ پہلے بھی اس طرح ہو رہے ہیں لیکن وقت کے حساب سے ان کی اس طرح تھوڑی سی تقسیم کر دی گئی ہے۔ متعلقہ ملکوں کو وہ پروگرام مل چکے ہوں گے۔

MTA 7 ایشیا۔ یہ HD چینل ہے، چھوٹی ڈش پر دیکھا جائے گا۔ یہ انڈیا ،پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال وغیرہ ممالک کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ اس چینل کی جو زبانیں ہیں وہ اردو، بنگالی اور ہندی ہوں گی۔ ان کے علاوہ اس پر تامل اور ملیالم زبانوںکے پروگرام بھی نشر کیے جائیں گے۔

MTA 8 امریکہ۔ یہ چینل امریکہ، نارتھ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ پہلے بھی یہ چل رہا ہے۔ اس میں تھوڑی سی ترتیب بدلی گئی ہے۔ تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے۔ بہرحال اصل میں تو اصولی طور پر یہ وہی سارے چینل اسی طرح جاری ہیں جس طرح پہلےجاری تھے۔ بہرحال یہ جو اس میں ایم ٹی اے آٹھ امریکہ کا نام دیا گیا ہے یہ امریکہ، نارتھ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کے ناظرین کے لیے ہو گا۔ چینل کی زبانیں انگریزی اور اردو ہو ں گی۔ اس کے علاوہ فرنچ اور سپینش زبانوں کے پروگرام بھی اس پر نشر کیے جائیں گے۔

ایم ٹی اے کے جو لائیو پروگرام ہیں۔ ان میں ایم ٹی اے کے درج ذیل لائیو پروگرام مختلف چینلز پر نشر ہوں گے:

راہ ھدیٰ، الحوار المباشر اور بنگلہ پروگرام ایم ٹی اے کے تمام چینلز پر۔ ان پروگراموں کا ترجمہ ان چینلز کی مین لینگوئجز کے ساتھ نشر کیا جائے گا اور پھر ایم ٹی اے جرنل (Journal)، اسلام سوئسٹین (Sesiyetin) یہ جرمنی کی زبانیں ہیں یا الفاظ ہیں۔ یہ MTA 2 یورپ پر نشر کیے جائیں گے۔ Horizen de Islam یہ ایم ٹی اے 1، ایم ٹی اے 2 یورپ، ایم ٹی اے 4افریقہ اور ایم ٹی اے 5افریقہ پر اس چینل کی مین لینگوئج کے ساتھ فرنچ میں نشر کیا جائے گا۔اس کاترجمہ بھی ساتھ ساتھ آتا رہے گا اور اسی طرح انتخاب ِسخن وغیرہ کے جو پروگرام ہیں وہ بھی ایم ٹی اے 1پر اور ایم ٹی اے 2پر یورپ پرایم ٹی اے 6ایشیا پر اور ایم ٹی اے 7ایشیا پر نشر ہو گا۔

بہرحال چینلوں کے حساب سے بھی یہ تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے اور شاید بعض دفعہ سیٹنگ میں بھی عموماً کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ پہلے ہی چل رہے ہیں۔ اسی طرح مختلف چینلوں کو اس حساب سے یہ نا م دیے گئے ہیں۔

بہرحال یہ جو نظام بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور ایم ٹی اے کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹر نیشنل 19جون 2020ء صفحہ 05 تا 10)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 21 جون 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 22 جون 2020ء