• 25 اپریل, 2024

خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس آج ہر احمدی کو خاص طور پراضطراری حالت میں یہ دعائیں کرنی چاہئیں اور پھر پاکستان کے احمدیوں کو تو پاکستان کے حالات کے حوالے سے خاص طور پر بہت زیادہ کرنی چاہئیں۔ احمدیوں پر ظلم کی انتہا سے نجات کے لئے بہت زیادہ اور اضطراب سے دعاؤں کی ضرورت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستان کے رہنے والے بعض احمدی تو، تمام نہیں، اس اضطراب کا اظہار بعض جگہ کر بھی رہے ہیں۔ اس کا مزید اظہار ہونا چاہئے۔ مزید اس کا اظہار کریں اور ہر احمدی خالص ہو کر ظالموں اور ظلموں سے نجات کے لئے دعا کرے۔ یہی ہمارے ہتھیار ہیں اور اسی کی طرف بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ مجھے یاد ہے خلافتِ رابعہ میں جب مَیں ربوہ میں تھا توخلیفۂ رابعؒ نے مجھے ناظرِ اعلیٰ مقرر کر دیا تھا۔ پاکستان کے حالات کے متعلق اُس وقت دعا کی، حالانکہ اُس وقت حالات آجکل کے حالات کے عُشر عشیر بھی نہیں تھے، کوئی نسبت بھی نہیں تھی تو خواب میں مجھے یہ آواز آئی کہ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جُھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے۔

مَیں پہلے دن سے ہی جماعت کو اپنی حالتوں کی درستی کی طرف اور دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ بہت توجہ کریں۔ پاکستان میں جماعت کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ لاشعوری طور پر میرا ہر مضمون اسی طرف پھر جاتا ہے۔ پس یہ تو یقینی بات ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کا غلبے کا وعدہ ہے وہ تو پورا ہونا ہی ہے اور نہ صرف پورا ہونا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ اس وعدہ کے پورا ہونے کا نظارہ ہم پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجودنامساعد حالات کے وہاں جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔ دشمن کا ہر حربہ اور ہر حملہ جس شدت اور جس نیت سے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمن کو وہ نتائج حاصل نہیں کرنے دیتا۔ دشمن کے بڑے خطرناک عزائم ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی حفاظت فرماتا چلا جا رہا ہے لیکن یہ ابتلا ہمیں اس طرف شدت سے راغب کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے سے بڑھ کر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ ہمارا ہر بچہ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اپنے نفسانی جذبات و خواہشات کوپرے پھینک کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے آگے مکمل طورپر گردن جھکا کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی مکمل کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تو پھر یہ ظالم اور ظلم ہماری آنکھوں کے آگے انشاء اللہ تعالیٰ فنا ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غالب آنا ہے لیکن اس تقدیر کے غالب آنے میں جلدی یا دیر بعض دفعہ بندوں کے اعمال اور دعاؤں پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایک نسل کو بھی انتظار کرناپڑتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ اشارہ کرے کہ مَیں نے تو اس کام کو کرنا ہی ہے لیکن اگر تمہیں جلدی ہے تو پھر اپنے اندر اس فیصلہ کے، جو مَیں نے مقدر کیا ہوا ہے، جلد پورا کرنے کے لئے ایک انقلاب پیدا کرو، اپنی طبیعتوں میں ایک انقلاب پیدا کرو تو ہمیں خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے۔

پس آئیں اور آج اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے ہر ایک خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو یقینا ہمارے لئے جوش میں ہے پہلے سے بڑھ کر جوش میں آئے اور ہمیں ان ظالموں سے نجات دلوائے۔ اگر سو فیصد میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا تو ہمارے میں سے اکثریت میں اگر یہ انقلاب پیدا ہو جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم پہلے سے بڑھ کر فتوحات کے نظارے دیکھیں گے۔

اللہ کرے کہ ہم دعا کی روح کو سمجھنے والے اور اس کے آداب کو بھی مدّنظر رکھنے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جلد سے جلد جذب کرنے والے بن سکیں۔ کبھی یہ احساس ہمارے دل میں نہ آئے کہ ہم اتنی دعائیں کر رہے ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ قبول نہیں کر رہا یا وہ نظارے نہیں دکھا رہا۔ اوّل تو اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرما رہا ہے۔ بلکہ ہماری معمولی دعاؤں کو، ہماری معمولی کوششوں کو اپنی رحمتِ خاص سے اتنے پھل لگا رہاہے کہ اُنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بڑھتا ہے۔ ایک تو جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح دشمن کے منصوبے ہیں اور اُن میں روز بروز جس طرح تیزی آ رہی ہے اس کے مقابلے میں اُن کی کامیابی کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر پاکستان میں ہی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں ترقی کر رہی ہے اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل ہیں جو وہ دیکھ رہی ہے اور پھر دنیا میں جس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو متعارف کروا رہا ہے اور ترقیات دکھا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہماری معمولی کوششوں اور معمولی دعاؤں کے پھل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ ہلکا سا بھی شائبہ ہے کہ نعوذ باللہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ نہیں سنتا تو اُسے استغفار کرنی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور ہمارا کام مالک سے مانگتے چلے جانا ہے۔ اس کے بھی کچھ آداب ہیں اور یہ آداب ادا کرنا ہمارا کام ہے جنہیں ہم نے پوری طرح ادا کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کے آداب کے بارے میں ہمیں خاص طور پر توجہ دلاتے ہیں۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ دعا کرتے ہوئے کبھی تھک کر مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ سنتا نہیں۔ ایک تو دعاؤں کی قبولیت قانونِ قدرت کے تحت اپنا وقت لیتی ہے، دوسرے قبولیت کے نظارے ضروری نہیں کہ اُسی صورت میں نظر آئیں جس صورت میں دعا میں مانگا جا رہا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اور صورتوں میں اپنے پیار کا اظہار فرماتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2 صفحہ693۔ ایڈیشن 2003ء) جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دنیا کی ترقیات میں، پاکستان کے احمدیوں کی قربانیوں اور دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ تیسری یہ بات کہ بندے کو اپنے حال پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا اُس نے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے سر کو اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھکایا ہے؟ پس غور کریں گے تو قصور بندے کا ہی نکلے گا۔

پھر ایک جگہ دعا کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الفاتحہ: 2)۔ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو ربّ ہے سارے جہان کا۔ اَلرَّحۡمٰنُِ۔ یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا۔ اَلرَّحِیۡمُ۔ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ (الفاتحہ: 4)۔ جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے رکھے چاہے مارے‘‘۔ فرمایا ’’اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ ایک جزا سزا اس دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی، دونوں اُسی کے ہاتھ میں ہیں۔ فرمایا کہ ’’جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے۔ اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے‘‘۔ یعنی یہ دعا جب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان بالغیب ہوتا ہے ’’اور پھر اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے‘‘۔ یہ پہلی حالتیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان پر ایمان بالغیب ہوتا ہے اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کو وہ حاضر ناظر جانتا ہے، اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھتا ہے اور پھر پکارتاہے کہ ’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 5تا6)۔ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ: 7) یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ۔ نہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ۔ اور نہ اُن کی جو دُور جا پڑے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر2 صفحہ679تا680 ۔ ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2021