• 25 اپریل, 2024

حضرت مولوی محمد دین صاحب ایم اےؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت مولوی محمد دین صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ

حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم گھسیٹا صاحب لاہور کے رہنے والے تھے۔ آپ 1881ء میں پیدا ہوئے اور بعمر بیس سال 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت کی توفیق پائی، اپنی بیعت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’1901ء میں مَیں سخت بیمار ہوگیا، قریباً ایک سال سے زائد عرصہ تک ڈاکٹروں اور حکیموں کا علاج کرانا پڑا لیکن مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ ان دنوں مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کر رہا تھا، مجھے میرے مکرم و معظم و محسن بزرگ منشی تاج الدین صاحب مرحوم پنشنر اکاؤنٹنٹ نے قادیان آنے کا مشورہ دیا، مجھے سٹیشن پر آکر گاڑی میں خود سوار کر کے گئے، میں قادیان پہنچا اور پہلے پہل میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا، میری طبیعت نے فیصلہ کر لیا کہ یہ منہ تو جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔ بعد میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بیماری کا حال سنایا، آپؓ نے میرا ناسور دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا اس کا رخ دل کی طرف ہوگیا ہے، مجھے فرمایا کہ اس کے لیے دوا کی نسبت دعا کی ضرورت زیادہ ہے، مجھے بتلایا کہ مسجد مبارک میں ایک خاص جگہ بیٹھنا مَیں خود تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاؤں گا اور تمہارے دعا کے لیے عرض کروں گا۔ میں اس دریچہ کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، حضرت مولوی صاحبؓ بڑھے اور مجھے پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا، میرے مرض کے متعلق صرف اتنا کہا کہ بہت خطرناک ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا، مجھ سے حضورؓ نے دریافت کیا کہ ’’یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے؟‘‘ مَیں تیرہ ماہ سے اس دکھ میں مبتلا تھا۔ لوگ آرام کی نیند سویا کرتے تھے لیکن مجھے درد چین نہیں لینے دیتی تھی اس لیے میں اپنے مکان کے بالاخانہ میں ٹہلا کرتا تھا اور میرے ارد گرد سونے والے خوابِ راحت میں پڑے ہوتے تھے، مَیں نے مہینوں راتیں رو کر اور ٹہل کر کاٹی ہوئی تھیں، حضرت صاحب کے ان ہمدردانہ و محبت انگیز کلمات نے چشم پُر آب کر دیا۔ شکل تو دیکھ چکا تھا، اتنے بڑے انسان کا مجھ ناچیز کو ’’آپ‘‘ کے لفظ محبت آمیز و کمال ہمدردانہ لہجہ میں مخاطب کرنا ایک بجلی کا اثر رکھتا تھا۔ مَیں اپنی بساط کو جانتا تھا میری حالت یہ تھی محض ایک لڑکا مَیلے اور پرانے دریدہ و ضع کپڑے، چھوٹے درجہ و چھوٹی قوم کا آدمی میرے منہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت صاحب نے یہ حالت دیکھ کر سوال نہ دہرایا مجھے کہا کہ ’’مَیں تمہارے لیے دعا کروں گا فکر مت کرو، ان شاء اللہ اچھے ہو جاؤ گے۔‘‘ مجھے اس وقت اطمینان ہوگیا کہ اب اچھا ہو جاؤں گا۔ پھر میں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں آیا تو صرف آپ نے ذرّہ بھر خوراک جدوار کی میرے لیے تجویز فرمائی اور اتنی مقدار مجھے کہا کہ پتھر پر گھس کر اس ناسور پر لگا دیا کروں، تھوڑے ہی عرصہ میں مجھے افاقہ ہوگیا اور ایک مہینہ میں مَیں اچھا ہوگیا۔ یہ پہلا واقعہ ہے کہ مجھے حضرت صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میری خوش قسمتی مجھے بیمار کر کے قادیان میں لے آئی چنانچہ میں نے وطن کو خیر باد کہہ کر قادیان کی رہائش اختیار کر لی۔ اس کے بعد میری شامتِ اعمال مجھ پر پھر سوار ہوئی، حضرت صاحب نے لکھا کہ جو شخص سچے دل اور پورے اخلاص کے ساتھ تقویٰ کی راہ پر قدم مارتا ہے اور آپؑ کا سچا مرید ہے اس کو طاعون نہ چھوئے گی لیکن میں ہی نابکار نکلا جو احمدیوں میں سے طاعون میں مبتلا ہوا حالانکہ ہندؤوں اور غیر احمدیوں میں سے پچیس پچیس آدمی روز مرے۔ لیکن باوجود اس امر کے کہ میرا وجود ’’بدنام کنندہ نکو نامے چند‘‘ تھا تاہم حضرت کی خدمت میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ اس کا باپ بھی اس کو لینے آیا تھا لیکن اس نے قادیان چھوڑنا پسند نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے باوجود اس سخت کمزوری کے میرے لیے دعا کی اور دوا بھی خود ہی تجویز فرمائی چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ حضورؑ خود کمال مہربانی سے اپنے ہاتھوں روزانہ دوائی تیار کر کے بھیجتے ہیں اور دو تین وقت روزانہ میری خبر منگواتے۔ یہ کمال شفقت ایک گمنام شخص کے لیے جو نہ دنیوی اور دینی لیاقت رکھتا نہ کوئی دینی یا دنیوی وجاہت، ایک ادنیٰ اور ذلیل خادموں میں سے تھا۔ میراا یمان ہے کہ مَیں آپؑ کی دعاؤں سے ہی بچ گیا ورنہ جن دنوں مَیں بیمار ہوا، طاعونی مادہ ایسا زہریلا تھا کہ شاذ ہی لوگ بچتے تھے۔ میرے لیے یہ اخلاق کریمانہ قولی اور فعلی ایسے تھے کہ نقش کالحجر۔ مجھے یہ محبت و شفقت اپنے گھر میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی تھی اس لیے میں تو گرویدہ حسن و احسان ہوگیا۔ اب میری یہی دعا ہے کہ میرا انجام بخیر ہوجائے، میں اپنے اس محسن و محبوب سے مر کر بھی جدا نہ ہوں۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ166تا168 شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ)

1903ء میں قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام عمل میں آیا، حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ نے اس کالج میں بھی بطور پرائیویٹ سٹوڈنٹ تعلیم پائی۔ (تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ304) طاعون کے دنوں میں بیمار ہونے اور حضرت اقدسؑ کے آپ کے ساتھ مشفقانہ سلوک کا ذکر اوپر گزرا ہے، حضرت اقدسؑ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ آف مالیر کوٹلہ کے نام اپنے ایک مکتوب محررہ 6؍اپریل 1904ء میں بھی آپ کی بیماری کا ذکر فرمایا ہے۔ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ267) اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے بی اے کی تعلیم کے لیے علی گڑھ کالج میں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ میں حصول تعلیم کے ساتھ آپ احمدیت کا عمدہ نمونہ بن کر رہے ۔ علی گڑھ کالج میں ایک مرتبہ اساتذہ کے خلاف طلباء کی سٹرائیک (ہڑتال) ہوئی، احمدی طلبہ کی اکثریت اس میں شامل نہ ہوئی، آپ بھی انھی طلبہ میں سے ایک تھے، جب ان طلبہ کا ذکر حضرت اقدسؑ کے حضور ہوا تو حضور علیہ السلام نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم ان لڑکوں پر خوش ہیں جنھوں نے اس موقعہ پر ہماری تعلیم پر عمل کیا۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ172) علی گڑھ کالج میں آپ احمدیت کا ذکر بھی دوسروں تک پہنچاتے رہتے۔ آپ کے ایک استاذ Joseph Horovitz بھی تھے جو ایک جرمن یہودی مستشرق تھے اور علی گڑھ میں عربی پڑھاتے تھے، ان کے حوالے سے ایک مرتبہ آپ نے ایک مراسلہ روانہ فرمایا جسے ایڈیٹر اخبار بدر نے ’’جرمنی میں سلسلہ حقہ کی خبر‘‘ کے عنوان کے تحت یوں درج فرمایا: ’’ماسٹر محمد دین صاحب علی گڑھ کالج سے لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جرمن پروفیسر ہے جو کہ عربی پڑھاتا ہے، اس نے مجھے ایک کتاب جرمن زبان میں دکھلائی جس میں اقصائے مشرق کے مختلف مذاہب کا حال دیا ہوا تھا، اس میں حضور مرزا صاحب اور فرقہ احمدیہ کا بھی مختصر ذکر لکھا ہے ….. ۔‘‘ (بدر 9؍مئی 1907ء صفحہ2 کالم1) یہ کتاب مشہور مستشرق Ignaz Goldziher کی تھی۔

1907ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی، ان دنوں آپ علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم تھے، آپ نے فورًا لبیک کہا اور اپنا نام خدمت دین کے لیے حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور پیش کر دیا، حضور علیہ السلام نے آپ کی درخواست پر تحریر فرمایا: ’’نتیجہ کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں۔‘‘ (ذکر حبیبؑ از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ116۔ خلافت احمدیہ جوبلی ایڈیشن) علی گڑھ میں بی اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں استاد مقرر ہوگئے اور ایک لمبے عرصہ تک اس ادارے کے ساتھ منسلک رہے۔ آپ ایک محنتی اور شفیق استاد تھے، تعلیم الاسلام قادیان کی انفرادیت اور اس کی اہمیت سے خوب واقف ہوتے ہوئے آپ نے طلبہ کی تعلیمی و تربیتی صلاحیتیں اجاگر کرنے میں ہر ممکن کوشش کی اور اپنے دیگر ساتھی اساتذہ کے ساتھ مل کر پنجاب بھر میں اس سکول کا نام روشن کیا۔ 1914ء میں جب کچھ لوگوں نے خلافت کو ماننے سے انکار کر دیا تو ان غیر مبائعین میں جناب مولوی صدر الدین صاحب بھی شامل تھے جو کہ اس وقت تعلیم الاسلام سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمت بجالارہے تھے، آپ ایک لائق منتظم تھے لیکن خلافت سے علیحدگی کی وجہ سے آپ بھی قادیان چھوڑ کر چلے گئے اور اسی زعم میں تھے کہ سکول کا معیار اب تنزلی کا شکار ہوجائے گا۔ بہرحال ان کے چلے جانے پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت مولوی محمد الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر فرمایا، آپ نے خلیفۂ وقت کی توقعات کو پورا کرتے ہوئے نہایت جانفشانی سے سکول کی ذمہ داریاں سر انجام دیں چنانچہ پہلے ہی سال سکول نے عمدہ نتائج حاصل کیے، ایڈیٹر صاحب الحکم نے ’’ہمارے سکول کا شاندار نتیجہ‘‘ کے عنوان سے مبارکبادی کا ایک نوٹ دیتے ہوئے لکھا:
’’…. مولوی صدر الدین صاحب کے چلے جانے کے بعد مدرسہ کی ذمہ داری کا بوجھ مولوی محمد الدین صاحب بی اے پر رکھا گیا، مَیں آج نہیں ایک عرصہ سے بلکہ ان کی طالب علمی کے زمانہ سے مولوی محمد الدین صاحب کو جانتا ہوں، جن خوبیوں اور قابلیتوں کا یہ نوجوان مالک ہے وہ قابل رشک ہیں۔ ایثار اور اخلاص اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ….. مدرسہ تعلیم الاسلام کو جس قسم کے ہیڈ ماسٹر کی ضرورت ہے، مولوی شیر علی صاحب کے بعد اگر کوئی شخص اس کرسی پر بیٹھنے کے قابل ہے تو مولوی محمد الدین ہے، وہ مدرسہ میں آئین اور ضابطہ کی روح کے ساتھ تعلیم الاسلام اور احمدیت کی روح پھونکنا چاہتا ہے۔ …. مدرسہ کے اس شاندار نتیجہ کے لیے مولوی محمد الدین صاحب اور ان کے مددگار استاد ہر طرح سے قابل تعریف ہیں ….. یہ حضرت اولوالعزم کی کامیابیوں اور برکات کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جو اہل بصارت کو نظر آ سکتا ہے ….‘‘

(الحکم 14؍جون 1915ء صفحہ3،4)

آپ نے 1914ء سے 1923ء تک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی ہیڈ ماسٹری کے فرائض سر انجام دیے۔ 1923ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی جگہ امریکہ میں مبلغ مقرر فرمایا۔ 6؍جنوری 1923ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اساتذہ و طلبہ نے آپ کو الوداعی ایڈریس دیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی شریک ہوئے اور خطاب فرمایا۔ (الفضل 15؍جنوری 1923ء صفحہ3تا4) اگلے دن یعنی 7؍جنوری کو مدرسہ احمدیہ کی طرف سے ٹی پارٹی دی گئی، اس پارٹی میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح رونق افروز تھے اور اسی دن آپ قادیان سے امریکہ کے لیے روانہ ہوئے، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور بہت سے دیگر احباب سڑک کے موڑ تک الوداع کہنے کے لیے آئے۔ (الفضل 11؍جنوری 1923ء صفحہ1) آپ کی روانگی کی آخری رات حضرت صاحبؓ نے آپ کو تفصیلی نصائح تحریر فرما کر دیں جن میں اسلام کی حقیقت، تبلیغ کے دو پہلو (اپنوں کے لیے اور غیروں کے لیے)، اسلامی اخلاق اور ان کی پابندی، نو مسلموں کا مرکز سے تعلق پیدا کرنا، عاشقانہ ایمان، نو مسلموں کو تعلیم دینے کا طریق، قربانیاں کرنے کی تعلیم، اخلاقی اصلاح کے لیے ایک نکتہ، دعا کی تاکید، کالے گورے سب برابر ہیں، مبلغ کی سیاست سے علیحدگی، مبلغ کا استقلال، عورتوں سے مصافحہ، لغو کاموں سے پرہیز، سادہ اور بے تکلف زندگی، پہلے مبلغین کی خدمات کا اعتراف، خلیفہ کی اطاعت، سابقون کا حق، انسانی ہمدردی، انسان ہر بات سیکھ سکتا ہے، سچائی اور اس کا اظہار، اخراجات کا حساب رکھنا، اخبار کو ایڈٹ کرنا اور لیکچر کی تیاری، مرکزی کارکنوں کا احترام وغیرہ امور پر نصائح درج تھیں۔

(الفضل 25؍جنوری 1923ء صفحہ3)

آپ قریباً تین ماہ کے لمبے سفر کے بعد انگلستان سے ہوتے ہوئے امریکی شہر بوسٹن (Boston) کی بندرگاہ پر اترے اور مورخہ 29؍مارچ کو شکاگو پہنچے۔ (الفضل 14؍مئی 1923ء صفحہ 1،2) حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے رسالہ دی مسلم سن رائز (The Moslem Sunrise) کے شمارہ اپریل تا جولائی 1923ء کے شروع میں آپ کی تصویر کے ساتھ امریکہ میں دوسرے احمدی مسلم مبلغ کے الفاظ میں آپ کی آمد کی اطلاع شائع کی ۔شکاگو میں آپ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے چارج لیا اور مشن کی ذمہ داری سنبھالی، آپ اپنی رپورٹ باقاعدگی سے مرکز بھجواتے رہےجو اخبار الفضل میں شائع شدہ ہیں، آپ کی بعض ابتدائی رپورٹیں درج ذیل شماروں میں درج ہیں:
(الفضل 8؍مارچ 1923ء صفحہ2 لندن سے خط، جہاز پر تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر) (الفضل 11؍جون 1923ء صفحہ2،1) (الفضل 18؍جون 1923ء صفحہ2) (الفضل 20؍جولائی 1923ء صفحہ1) (الفضل 21؍اگست 1923ء صفحہ8) (الفضل 28؍ اگست 1923ء صفحہ1) (الفضل 4؍ستمبر 1923ء صفحہ7-5 عجائبات امریکہ)(الفضل 12؍اکتوبر 1923ء صفحہ10،9) (الفضل 6؍نومبر 1923ء صفحہ1,2)

اسی طرح رسالہ دی مسلم سن رائز بھی آپ کی ادارت میں چھپنا شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے دور میں جماعت کو مزید ترقیات نصیب ہوئیں اور عام پبلک سے لے کر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا۔ اگست 1923ء میں امریکہ کے صدر جناب وارن جی ہارڈنگ (Warren G. Harding) کی اچانک وفات ہوگئی اور ان کی جگہ ان کے نائب صدر جناب John Calvin Coolidge Jr. امریکہ کے 30ویں صدر کے طورپر مقرر ہوئے۔ حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ نے جہاں آنجہانی صدر کی بیوہ کو تعزیتی خط لکھا وہاں امریکہ کے نئے صدر کو بھی مبارکباد دی اور احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے نیک خواہشات اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کا خط لکھا۔

آپ نے کارگذاری رپورٹوں کے ساتھ ساتھ اخبار الفضل میں امریکہ کے عمومی حالات، کلچر، رہن سہن، موسمی حالات، ذرائع معاش، تعلیم اور صنعت و حرفت کے وسیع مواقع کے متعلق بھی مضامین لکھے اور ہندوستانی نوجوانوں کے لیے ہر ممکن قسم کی رہنمائی فرمائی بلکہ تحریک بھی کی کہ ’’ہندوستان کے نوجوانوں کو چاہیے کہ امریکہ میں آئیں اور صنعت و حرفت اور علم حاصل کریں …..‘‘ (الفضل 23؍اکتوبر 1923ء صفحہ2) آپ کے امریکہ میں قیام کے دوران ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے پہلے سفر یورپ پر تشریف لے گئے چنانچہ اس موقع پر آپ بھی امریکہ سے انگلستان پہنچے اور حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی زیر ہدایت مختلف کاموں میں مدد دیتے رہے۔ اس موقع پر لیے گئے حضورؓ کے ساتھ بعض گروپ فوٹوز میں آپ بھی موجود ہیں۔ حضورؓ کی مراجعت کے بعد آپ دوبارہ امریکہ آگئے اور اپنے مفوضہ کام سر انجام دیے۔ امریکہ میں تین سال تبلیغی خدمات سر انجام دینے کے بعد آپ مؤرخہ 30؍دسمبر 1925ء کو قادیان پہنچے۔ (الفضل یکم جنوری 1926ء صفحہ1 کالم1) دسمبر 1926ء میں آپ کی ادارت میں رسالہ ’’سن رائز‘‘ کا اجراء ہوا، قریبًا ڈیڑھ سال آپ اس کے ایڈیٹر رہے۔ امریکہ جانے سے قبل آپ نے بطور ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی کچھ عرصہ خدمت کی توفیق پائی تھی۔ اپریل 1927ء میں دوبارہ آپ تعلیم الاسلام سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور 1940ء تک اس عہدے پر کام کیا۔ 1942ء سے 1947ء تک گرلز ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر رہے۔ ان مفوضہ فرائض کے علاوہ تعلیمی اور تربیتی مضامین بھی وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے، آپ کے بعض مضامین پرانے لٹریچر میں موجود ہیں، مثلاً: ’’ایک تعلیم یافتہ آریہ کی ہمارے ہائی سکول کے متعلق غلط بیانی‘‘ (فاروق 6؍جون 1918ء صفحہ5) ’’مسلم مسیحی اتحاد‘‘ (الفضل 19؍اپریل 1927ء صفحہ8) ’’اچھوت اقوام کے متعلق مسلمانوں کا فرض‘‘ (الفضل 30؍اگست 1927ء صفحہ9،8) انگریزی مضامین اس کے علاوہ ہیں۔ آپ کی تحریک اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی کوششوں سے قادیان میں بچوں کو تیراکی سکھانے کے لیے دارالعلوم قادیان میں ایک تالاب بنایا گیا۔ (الفضل 12؍اکتوبر 1940ء صفحہ1) 8؍اپریل 1940ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہونے پر طلبہ نے آپ کے نام ایڈریس میں کہا:
’’…. آپ نے بحیثیت استاد اپنے شاگردوں کے قلوب پر جوگہرے نقوش چھوڑے ہیں اور ان کی تربیت اور کیرکٹر کی تعمیر میں جو قابل قدر کام کیا ہے، اس کی مثال شاید ہی کسی دوسری جگہ مل سکے۔

آپ کی ذاتی خوبیاں مثلًا سادگی، کفایت شعاری، محنت و جفاکشی، ذاتی قابلیت و شرافت، وسعتِ نظر، علمی شغف، ریاضت و امانت، صاف گوئی، سلسلہ سے اخلاص، نظام کی پابندی، تقویٰ و طہارت، ہمدردی و دل سوزی، پردہ پوشی، سلامت روی، منکسر مزاجی وغیرہ بیسیوں ایسے اخلاق حسنہ اور فضائل ہیں جو آپ کے ذریعہ آپ کے شاگردوں میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آپ کا نیک نمونہ سینکڑوں نوجوانوں کے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں رہنما کا کام دیتا رہا ہے …‘‘

(الفضل 9؍مئی 1940ء صفحہ10)

پاکستان بننے کے بعد آپ نے صدر انجمن میں بطور ناظر تعلیم اور پھر صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ خدمت کی توفیق پائی۔

حضرت مولوی محمد الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے 7؍مارچ 1983ء کو تقریباً سو سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 361) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 11؍مارچ 1983ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’….. آپ تمام عمر ایک نہایت ہی پاک نفس، درویش صفت انسان کے طور پر زندہ رہے۔ کوئی انانیت نہیں تھی، کوئی تکبر نہیں تھا، ایسا بچھا ہوا وجود تھا جو خدا کی راہ میں بچھ کر چلتا ہے۔ ذکر الٰہی سے ہمیشہ آپ کی زبان تر رہتی تھی۔ آخری سانس تک آپ داعی الی اللہ بنے رہے، بظاہر بستر پر پڑا ہوا ایک ایسا وجود تھا جو دنیا کی نگاہ میں ناکارہ ہو چکا تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا جب میں سپین سے واپس آیا اور حضرت مولوی صاحبؓ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا، پہلی بات انہوں نے مجھے یہی کہی کہ میں سپین کے مشن کی کامیابی کے لیے اور آپ کے دورہ کی کامیابی کے لیے مسلسل دعائیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کی دعائیں مجھے پہنچتی رہی ہیں اور میں ان کو خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضلوں کی صورت میں آسمان سے برستا ہوا دیکھا کرتا تھا اور کون جانتا ہے کہ کتنا بڑا حصہ حضرت مولوی صاحب کا تھا اس کامیابی میں جو اس سفر کو نصیب ہوئی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 155تا156)

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ۔

(غلام مصباح بلوچ۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2021