• 23 اپریل, 2024

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ …

پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے سپرد کیا ہے وہی کام آپ کے ماننے والوں کے سپرد بھی ہے۔ اور ہمیں ہمیشہ اور ہر وقت اس بات کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فکر تھی۔ بار بار تسلی بھرے الفاظ سے تسلی دلانے کے باوجودنہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کوشش میں کمی کی، نہ ہی آپ نے اپنی دعاؤں میں کمی کی، نہ ہی آپ کی فکر میں کمی ہوئی کہ کہیں ان تمام چیزوں میں کمی کی وجہ سے خدائی وعدے ٹل نہ جائیں۔ کہیں کوئی کمزوری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائے۔ اور یہ سب کچھ آپؑ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں اور کئی بارپڑھ چکے ہیں اور سن چکے ہیں کہ جنگِ بدر میں خدا تعالیٰ کے تمام تر وعدوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہو ہو جاتے تھے۔ دعاؤں اور رقّت کی حالت میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اس قدر جھٹکے لیتا تھا کہ آپ کے کندھے پر پڑی چادر گر گر جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار تسلی دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم مٹھی بھر ہیں اور کمزور ہیں تو کیا ہوا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی ہے، آج بھی کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون اس بات کو جان سکتا تھا کہ یقینا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور یقینا فتح ہماری ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری جاری رکھی۔ اسی میں مگن رہے اور دعاؤں میں شدت پیدا کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے آپ یہ دعا مانگ رہے تھے کہ کہیں ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ٹل نہ جائیں۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ کے پیارے اس یقین پر قائم ہوتے ہیں اور اس سے پُر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور بالضرور پورے ہوں گے وہاں ان کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے۔ ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ٹالنے کا باعث بن جائے۔ پس یہی رہنما ہے اور یہی اصل ہے جس کو حقیقی متبعین پکڑتے ہیں اور پکڑنا چاہئے۔ وہ نہ ہی اپنی کوششوں میں کمی کرتے ہیں، نہ ہی اپنی دعاؤں میں کمی کرتے ہیں، نہ ہی اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں پر انحصار کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور کبھی یہ خیال دل میں نہیں لاتے کہ جو کچھ انعامات ہمیں مل رہے ہیں یہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ یہی سبق ہمیں ان آیات میں ملتا ہے جن کی مَیں نے تلاوت کی ہے۔

(خطبہ جمعہ 17؍ ستمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020