ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے
مری نگاہ تو بس جا کے تجھ پہ پڑتی ہے
بدل کے بھیس معالج کا خودوہ آتے ہیں
زمانہ کی جو طبیعت کبھی بگڑتی ہے
زبان میری تو رہتی ہے ان کے آگے گنگ
نگاہ میری نگاہوں سے ان کی لڑتی ہے
الجھ الجھ کے میں گرتا ہوں دامن تر سے
مری امیدوں کی بستی یونہی اجڑتی ہے
منٹ منٹ پہ مرا امتحان لیتے ہیں
قدم قدم پہ مصیبت یہ آن پڑتی ہے
(کلام محمود صفحہ196۔اخبار الفضل جلد 2 ۔ 6جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان)