• 23 اپریل, 2024

حاصلِ مطالعہ

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں جس میں خاکسار بھی موجود تھا۔ بیان فرمایاکہ ایک دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نوٹ بُک دیکھوں۔ کہ اس میں کس قسم کی باتیں نوٹ کی گئی ہیں۔ چنانچہ میں نے باوجودحضرت اقدس علیہ السلام کے احترام کے حضور سے اس بات کی درخواست کر دی کہ میں حضور کی نوٹ بک دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضور نے بلا تامل اپنی نوٹ بُک بھجوا دی ۔ جب میں نے اسے ملاحظہ کیا تو اس کے پہلے صفحہ پر

اِھْدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ

کی دعا لکھ کر اس کے نیچے حضور نے یہ نوٹ دیا ہوا تھا کہ
’’اے میرے خدا تو مجھ پر راضی ہو جا اور راضی ہونے کے بعد پھر کبھی بھی مجھ پر ناراض نہ ہونا‘‘

میں نے جب یہ نوٹ پڑھا تو مجھے فائدہ ہوا اور میں دعائے فاتحہ کے پڑھتے وقت ہمیشہ ہی اس نکتہ کو ملحوظ رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور راضی ہو کر پھر کبھی بھی ناراض نہ ہو۔

(حیات قدسی جلد سوم صفحہ 99 سن اشاعت مئی 2003 قادیان)

قادیان کے ساتھ دارالامان لگانے کی وجہ

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ تذکرۃ المہدی میں تحریر فرماتے ہیں:
’’دارالامان لکھنے کی یہ ضرورت پیش آئی کہ فتح گڑھ جو بٹالہ کے قریب ایک قصبہ ہے وہاں ایک قاضی صاحب رہتے ہیں۔ انہوں نے حضرت اقدس ؑ کو سخت الفاظ میں گستاخانہ ایک کارڈ لکھا۔ چونکہ ان دنوں میں جواب لکھا کرتا تھاوہ کارڈ بھی مجھے جواب دینے کے لئے دیا اور فرمایا ’’اس کا جواب نرم الفاظ میں لکھو‘‘ جب میں نے جواب لکھ دیا تو کاتب کے نام کے ساتھ یہ پتہ لکھا تھا کہ ’’از مقام فتح گڑھ دارالاماں‘‘ مجھے اس مقام پر خیال ہوا کہ فتح گڑھ کا قافیہ بھی نہیں ملتا اور فتح گڑھ کو دارالاماں ہونے کا فخر کہاں سے ملا۔ دارالامان تو قادیان کو ہونا چاہیئے اور ہے بھی۔ میں نے لکھا ’’راقم خادم مسیح موعود حسب الحکم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام از قادیان دارالامان‘‘ پھر میرے دِل میں خیال آیا کہ اپنی طرف سے لکھنا ٹھیک نہیں۔ سو میں حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمایا کیسے آئے؟ اس وقت اکیلے تشریف رکھتے تھے اور صرف ٹہلتے تھے۔ میں نے یہ سارا حال بیان کیا کہ حضور دارالامان قادیان لکھنا چاہیئے یا نہیں فرمایا ’’ضرور لکھ دو۔ یہ خدا کی طرف سے دارالامان ہے۔ اب ضرور ہر خط پر لکھ دیا کرو۔‘‘

(تذکرۃ المہدی جلد 1۔ صفحہ 1 ۔ حاشیہ)

اکلوتا حربہ اور اصل ہتھیار

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود فرماتے ہیں:
خوب یاد رکھو!۔ دعا وہ ہتھیار ہے جو اس زمانے کو فتح کرنے کے لئے مجھے آسمان سے دیا گیا۔ اے میرے دوستوں کی جماعت! تم صرف اس حربے سے غالب آ سکتے ہو۔

(تذکرۃ الشہادتین۔ صفحہ 180)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے اور امن کی حالت کی طرف آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ پس یہی ہمارے اصل ہتھیار ہیں جن پر ہم مکمل اور مستقل انحصار کر سکتے ہیں۔ دعاؤں کے ہتھیاروں کو چھوڑ کر ہم چھوٹے اور عارضی ہتھیاروں کو دیکھیں گے تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی ۔ نہ چھوٹے ہتھیاروں سے کسی کو کامیابی ملی ہے ۔۔۔ پس ہمیں اپنی دعاؤں میں اور عبادتوں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۔ 30 مئی 2014)

احمدی روح۔ غیر مفتوح ناقابلِ تسخیر

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابعؒ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی استقامت کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ پھر اس زمین پر حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ صاحب ۔ آپ (یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب) کی پیروی میں آئے۔ وہ جانتے تھے کہ دعویٰ ایمان کے نتیجہ میں انسان کو کیا کیا مصیبتیں سہنی پڑتی ہیںاور مصائب کے کن کن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد ان کے ذہن اور دل میں تازہ تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے وہی نمونہ دکھایا جو اس سے پہلے ایک مردِ مجاہد نے دکھایا اور پروا نہیں کی ۔ قید کی حالت میں انہوں نے ایک خط لکھا جو کسی ذریعہ سے ایک احمدی دوست تک پہنچ گیا۔

وہ لکھتے ہیں:
مجھ سے خدا کا عجیب سلوک ہے کہ روزن بند ہے اور دن کے وقت بھی رات کی تاریکی ہے مگر جوں جوں اندھیرا بڑھتا ہے ۔ میرے دل کو روشن کرتا چلا جاتا ہے اور ایک عجیب نور کی حالت میں میرا وقت بسر ہوتا ہے۔‘‘

ان کو اس قید خانے سے نکال کر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی طرح گلیوں میں پھرایا گیا۔ اور طعن و تشنیع کی گئی اور مذاق اڑایا گیا۔ تو اس وقت ’’ڈیلی میل‘‘ کے نمائندہ نے اس ذکر کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ایسا بیان دیا جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ باوجود اس کے کہ اس شخص پر انتہائی ذلت پھینکی جا رہی تھی وہ کابل کی گلیوں میں پا بجولاں پھرتا اہو ایک آہنی عزم کے ساتھ مسکرا رہا تھا۔ اس کی روح غیر مفتوح اور ناقابلِ تسخیر تھی۔ کہ اس کا نظارہ کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے سامنے اس پر پتھر برسے لیکن اس نے اف تک نہ کی۔ ہاں پتھراؤ سے پہلے صرف یہ خواہش تھی کہ
’’مجھے دو نفل پڑھنے کی اجازت دے دی جائے‘‘

(تشحیذ الاذہان ستمبر 1985)

(مرسلہ عطاء المجیب راشد صاحب)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2020