• 25 اپریل, 2024

قرآن کریم کی حکیمانہ ترتیب

تبرکات حضرت میر محمد اسحاق
قرآن کریم کی حکیمانہ ترتیب
(قسط نمبر 2)

اللہ تعالیٰ سورئہ نحل کے پہلے رکوع میں انسانوں پر اپنے ہر قسم کے دینی و دنیوی انعامات گناتا ہوا مویشیوں اور پالتو چارپایوں کا ذ کر کر کے فرماتا ہے کہ لوگو! تم نے غور نہیں کیا کہ یہ مویشی اور چارپائے تمہارے لئے کس قدر نعمتِ عظمیٰ ہیں؟ اور ان کا وجود تمہارے لئے کس قدر مفید اور نافع ہے؟ دیکھو کسی جانور پر تم سوار ہو کر قطع مسافت کی مشقتوں سے بچتے ہو اور کسی کا گوشت کھا کر بھوک کی سختی سے نجات پاتے ہو اور کسی کا دودھ پی کر اپنی زندگی قائم رکھتے ہو۔ اور کسی کے چمڑے کے لباس سے سردی اور گرمی سے محفوظ رہتے ہو۔ غرض چارپایوں کے بہت سے مادی فائدے گنا کر پھر ان کے ذہنی فائدہ کا ذکر کرتا ہوا فرماتا ہے:۔

وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَO (النحل:7)

اور تمہارے لئے اُن (مویشیوں) میں زینت ہے جب تم انہیں شام کو پھرا کر واپس لاتے ہو اور جب تم انہیں صبح کو چرانے کیلئے لے جاتے ہو۔

یعنی تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے مویشی جب جنگل سے چَر کر واپس آتے ہیں یا چَرنے کے لئے جنگلوں، میدانوں اور کھیتوں میں صبح کے وقت جاتے ہیں تو تم انہیں دیکھ دیکھ کر پھولے نہیں سماتے اور اپنے ہم جنسوں میں بیٹھے فخر کرتے ہو کہ ہم اتنے مویشیوں کے مالک ہیں۔ تم کبھی اپنے ناگوری بیلوں کے قد اور سینگوں کی سنگوٹیوں کو دیکھ کر خوشی سے جھومتے ہو۔ اور کبھی اپنے تیز رفتار عربی نسل کے گھوڑوں کی مستانہ چال کو دیکھ کر مست ہوئے جاتے ہو۔ اور حضرت سلیمانؑ کی طرح نوکروں چاکروں کے ہوتے ہوئے خود کھرکھرا لے کر کھڑے ہو جاتے ہو اور کبھی اپنے بھورے رنگ کی دودھیل بھینسوں کو آتے جاتے دیکھ کر تم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور کبھی اپنی بکریوں کے ریوڑ پر نظر کر کے اپنی مالی حیثیت کا جائزہ لینے لگتے ہو۔ مگر کبھی تم نے یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارا کی ہے کہ یہ جانور تم کو کس نے دیئے؟ اور یہ مال کہاں سے آیا؟ اور یہ چلتی پھرتی منقولہ جائیدادیں کس کا عطیہ ہیں؟ سنو یہ سب کچھ اللہ کا عطیہ، اس کی موہبت اور اس کی بخشش ہے۔

پس جہاں تم ان جانوروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہو وہاں ان جانوروں کے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا کرو۔

یہ ہے اصل مضمون جو اس رکوع میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ترتیب طبعی کو کیوں چھوڑ دیا؟ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ چارپائے اور مویشی پہلے صبح کو چَرنے کے لئے جنگل میں جاتے ہیں اور پھر شام کو واپس آتے ہیں۔ اس لئے بظاہر اس آیت کے الفاظ یوں ہونے چاہئے تھے:۔وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ وَ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ یعنی تمہارے مویشی تمہارے لئے موجب زیبائش ہیں۔ جبکہ تم انہیں صبح کو چرانے کے لئے لے جاتے ہو اور جب انہیں شام کو چرا کر واپس لاتے ہو۔ مگر قرآن مجید نے ترتیب طبعی کو چھوڑ کر یوں فرمایا ہے۔

وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَO (النحل:7)

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں چوپایوں کی شام کی واپسی کا ذکرپہلے کرتا ہے اور صبح کی روانگی کا بعد میں۔ اس لئے اس جگہ بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی حکمت، مصلحت اور خوبی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ترتیب طبعی کی بجائے دوسری ترتیب اختیار فرمائی۔ اس سوال پر غور کرنے سے مجھے موجودہ ترتیب کی جو حکمتیں اور مصلحتیں معلوم ہوئیں وہ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہیں کہ یہاں پر خداتعالیٰ کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا نہیں کہ جانور صبح کو چَرنے جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں۔ کیونکہ یہ تو بدیہی بات ہے اور ایک بچہ بھی اسے جانتا ہے۔ بلکہ جانوروں کو بھی معلوم ہے۔ تبھی وہ صبح کو جاتے اور شام کو خود بھاگ کر اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور الٰہی کتاب کو اس سے غرض ہی کیا کہ وہ لوگوں کو یہ بتاتی پھرے کہ صبح کو چوپایوں کی روانگی ہوتی ہے اور شام کو واپسی۔ بلکہ یہاں پر حق سبحانہ، تعالیٰ اپنا ایک احسان جتا کر لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بجائے فخر کے میرا شکر بجا لاؤ اور بجائے اِترانے کے میری جناب میں جھک جاؤ۔ اور ہر وقت میری مہربانیوں کے گُن گاؤ کہ میں نے تمہیں گھوڑے، گدھے، خچر، گائے، بھینسیں اور بکریوں کے ریوڑ دیئے کہ علاوہ بہت سے مادی فائدوں کے تم اپنے ہم جنسوں میں ان کی وجہ سے فخر، خوشی اور سرور محسوس او رظاہر کرتے ہو۔ اور یہ جانور تمہارے لئے جمال یعنی زیبائش کا موجب ہیں۔ پس اس سوال کو حل کرنے کے لئے اس آیت میں لفظ جمال کو بطور کنجی کے سمجھو تو صاف معلوم ہو گا کہ جو ترتیب اختیار کیا گئی ہے وہ جمال یعنی یعنی زیب و زینت کے لحاظ سے واقعی سچی اور پوری طرح حقیقی اور درست ترتیب ہے۔ اور اس کی دو وجہیں ہیں:۔

وجہ اوّل

پہلی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت بے شک جب کسی زمیندار کے مویشی چرنے کے لئے باہر جاتے ہیں تو وہ انہیں دیکھ کر خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ صبح کو جانور اکٹھے ہو کر باہر نہیں جاتے بلکہ ہر گھر سے الگ الگ روانہ ہو کر کھیتوں، چراگاہوں اور جنگلوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن شام کو سارے گاؤں کے مویشی مل کر سینکڑوں کی تعداد میں گاؤں کی طرف آتے ہیں اور جو نظارہ مویشیوں کے اجتماع کا شام کو واپسی کے وقت ہوتا ہے وہ صبح کو روانگی کے وقت نہیں ہوتا۔ اور جو فخر ایک زمیندار کو اپنے مویشیوں پر اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ اس کے مویشی دوسرے سینکڑوں مویشیوں میں کھڑے ہو کر اپنے قد، اپنی مضبوطی، اپنے رنگ، اپنی چال اور اپنی مخصوص رفتار میں ممتاز نظر آتے ہیں وہ اُس فخر سے ہزاروں گُنے زیادہ ہوتا ہے جو کہ صبح کے وقت بغیر مقابلہ کے محض اپنے مویشیوں کو دیکھ کر کسی زمیندار کو ہوسکتا ہے۔ پس جمال کے لحاظ سے مویشیوں کا مالک صبح کی نسبت شام کو زیادہ خوش اور مسرور ہوتا ہے۔ اور گو مقابلہ کا یہ فخر ان زمینداروں سے مخصوص ہے جن کے مویشی دوسروں سے اچھے اور اعلیٰ ہوتے ہیں۔ مگر خود بحیثیت مجموعی بھی ہر گاؤں اپنے مویشیوں کی زینت اور زیبائش کے لحاظ سے بجائے صبح کے شام کو زیادہ نمایاں اور ممتاز ہوتا ہے۔ کیونکہ صبح کو وہ اجتماع مویشیوں کا کبھی نہیں ہوتا جو شام کو ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح گو لوگ صبح کو بھی سیر کو جاتے ہیں مگر بہت کم۔ ہاں شام کو امراء اور متوسط درجہ کے لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر اور شکرموں اور فٹنوں میں بیٹھ کر ہوا خوری کے لئے شام ہی کو نکلتے ہیں اور ان کی زیبائش کی نمائش شام ہی کو قائم ہوتی ہے۔

وجہ ثانی

دوسری وجہ یہ ہے کہ صبح کو مویشی عموماً مویشی خالی پیٹ جنگلوں، میدانوں اور کھیتوں کو جاتے ہیں۔ نیز دودھ دینے والی گائے اور بھینسیں خالی تھنوں سے روانہ ہوتی ہیں لیکن شام کو چَر چُگ کر اور خوب سیر ہو کر واپس آتی ہیں اس لئے رنگ و روپ نکھرنا اور پیٹ اور پسلیوں کا پھولا ہونا اور ان کی جسامت کا نمایاں ہونا اور تھنوں کا دودھ سے بھر جانا جو اپنی بہار شام کو دکھاتا ہے وہ صبح کو کہاں؟

پس جمال کے لحاظ سے مویشیوں کی زیبائش شام کو زیادہ محسوس و مشہود ہے بہ نسبت صبح کے اس لئے ہمارے حکیم خدا کی حکیم کتاب نے جانوروں کی شام کی واپسی کا پہلے ذکر فرمایا۔ کیونکہ وہ جمال کے لحاظ سے اوّل درجہ پر ہوتی ہے اور صبح کی روانگی کا بعد میں۔ کیونکہ وہ زیبائش کے لحاظ سے دوم درجہ پر ہے۔ پس منجملہ اور بہت سی وجوہ کے جو ہمیں معلوم نہیں یہ دو وجہیں ایسی ہیں جن کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ترتیب طبعی کو چھوڑ کر واپسی کے ذکر کو روانگی کے ذکر سے پہلے رکھا ہے۔

(روزنامہ الفضل قادیان 14اکتوبر 1936)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2020