• 25 اپریل, 2024

خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا

مکرم حمزہ ملک واقف زندگی نے چند روز قبل حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی زندگی کے حالات و واقعات پر مشتمل مجموعہ بعنوان مرقاۃ الیقین سے ایک واقعہ بغرض اشاعت الفضل بھجوایا تا قارئین کرام بھی اس واقعہ سے مستفید ہو سکیں۔ واقعہ اپنی ذات میں اصلاح احوال اور انفرادی و اجتماعی تعلیم و تربیت کے لیے اس حد تک اہم ہے جس کو آج کے مادی دور میں انفرادی طور پر ہر ایک کو اپنے اوپر اور من حیث المجموعی معاشرہ اور سوسائٹی کی ہر تنظیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت حکیم مولوی نور الدینؓ اپنے اس واقعہ کو یوں تاریخ کا حصہ بناتے ہیں کہ:
’’میں جب بھوپال سے رخصت ہونے لگا تو اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کےلئے حاضر ہوا۔ سینکڑوں آدمی بطریق مشایعت میرے ہمراہ تھے۔ جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے۔ میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں۔ فرمایا کہ:
’’خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا‘‘

میں نے عرض کیا کہ حضرت! یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم (میرے ساتھ) موجود ہیں۔ غالباً یہ بھی نہ سمجھے ہوں گے۔ سب نے کہا۔ ہاں !ہم بھی نہیں سمجھے۔

مولوی (قیوم) صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میری زبان سے نکلا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔

فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے۔ یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں! تم کوئی خدا ہو؟

رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے۔ اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے۔ تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہئے۔

حضرت مولوی صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی۔ وجزاھم اللّٰہ تعالیٰ‘‘

(مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ106-107)

قارئین کے لیے اس حکایت میں دو سبق ہیں۔

1۔ خدا نہ بننا
2۔ رسول نہ بننا

دونوں کی تشریح کا جو لب لباب ہے اس حکایت میں درج ہے۔ یعنی خدا نہ بننا کہ یہ نصیحت فرمائی کہ تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں! تم کوئی خدا ہو جو اپنی ہر بات پر قادر ہے اور رسول نہ بننا کہہ کر یہ تلقین کی کہ رسول خدا کا ہوتا ہے۔ جس کی اطاعت ہر کس و ناکس پر لازم ہوتی ہے اور اطاعت سے باہر رہنے والے مورد عذاب ٹھہرتے ہیں۔ اس لیے رسولوں کا دل اس قدر نرم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی عدم اطاعت نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ میری عدم اطاعت کی وجہ سے سزا وار ٹھہرے۔ چونکہ حضرت مولوی نور الدینؓ ایک بہت بڑے عالم تھے، مفتی تھے اس لیے یہ سبق دیا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم کوئی فتویٰ صادر کرو اور کوئی ماننے سے انکار کر دے تو ناراض ہونے کی بجائے تمہارے اندر ہمدردی کا پہلو اجاگر ہونا چاہئے۔

خلاصہ اس تمام واقعہ کا جو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے یہاں تحریر فرمایا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور تمام افراد و خواتین جماعت بلکہ پوری امت کے لیے سبق آموز ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولوی (عبد القیوم) صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھے بڑی راحت پہنچائی۔‘‘

گو اوپر بیان شدہ واقعہ میں دونوں سبق بہت واضح ہیں اور حضرت مولوی صاحب نے بہت کھول کر بیان کر دئیے ہیں جن کی کسی حد تک تشریح خاکسار نے اوپر بیان کر دی ہے۔ لیکن دونوں نصائح کو اگر ملا کر پڑھیں تو صرف یہی سبق ملتا ہے کہ تکبر سے بچیں اور انکساری، عاجزی کو اپنائیں۔ جن کی آج کے معاشرہ میں حکومتی سطح پر بھی لیڈروں، معاشرہ میں مختلف سوسائٹیوں اور تنظیموں کے سربراہوں، جماعتی سطح پر عہدیداروں اور انفرادی طور پر ہر فرد جماعت پر یکساں طور پر چسپاں ہونے اور ان پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرہ میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لڑائی جھگڑوں کی بنیاد بن گیا ہے۔ عدم برداشت،تکبّر ہی کی ایک شاخ ہے جو کسی شخص کی بات پر کان نہیں دھرتا اور اپنی من مانی کرنے پر تُلا نظر آتا ہے۔ اس کو خدا بننا کہتے ہیں۔ یہ برائی بالخصوص اسلامی معاشرہ میں کثرت سے نظر آتی ہے۔ گھر گھر لڑائی، میاں بیوی میں جھگڑا، بیٹے سے باپ کا اختلاف، بہن بھائیوں میں ناچاقی، رشتہ داروں سے تو تکرار اور اونچ نیچ اور محلہ میں بسنے والوں کی آپس میں دوریاں یہ سب تکبّر ہی کی اقسام ہیں اور اپنے آپ کو خدا بنانے یا خدا ماننے کے مترادف ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے انکساری و عاجزی دکھلانا ہی اسلامی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل اختیار کرو تا تم بخشے جاؤ۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12)

تکبّر کے اہم موضوع پر خاکسار کے بہت سے آرٹیکلز الفضل آن لائن میں شائع ہو چکے ہیں۔ جہاں تک دوسری نصیحت ’’رسول نہ بننا‘‘ کا تعلق ہے۔ اس کا بھی تکبّر سے بہت گہرا تعلق ہے۔ رسول کے معنی پیغام پہنچانے کے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ہر انسان روزانہ ہی کئی بار اپنے عزیز و اقارب کو، اپنے کولیگز کو اور عہدیدار افراد جماعت کو پیغام بھی دے رہا ہوتا ہے، بڑا چھوٹے کو حکم بھی دے رہا ہوتا ہے، چھوٹا بڑے سے درخواست بھی کر رہا ہوتا ہے اور اگر کوئی کہا نہ مانے، انکار کر دے تو بُرا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ رسول کی طرح دل نرم ہو تو اخفا، پردہ پوشی اور برداشت کر کے نیکیوں کو اپنے اندر جنم دینے کا موجب بننا چاہئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مناقب عالیہ بیان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 9ستمبر 2022ء کو حضرت ابوبکرؓ کے یہ الفاظ بیان فرمائے جو اس مضمون کی عکاسی کرتے ہیں۔ فرمایا:
’’تم اپنے نفس کو درست رکھو۔ لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے۔‘‘

خاکسار اپنے اس کالم کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کو درخواست بنا کر ختم کرتا ہے کہ ’’اس نکتہ نے اب تک مجھ کو بڑی راحت پہنچائی ہے۔‘‘

آج بھی ہم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تقلید میں ان دونوں نصائح پر عمل کریں گے تو راحت و سکون اور چین ضرور ہمارے گھروں اور صحنوں میں ڈیرے لگائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ تنزانیہ 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2022