• 20 اپریل, 2024

اگر مَیں تجھے پیدا نہ کرتا تو دنیا پیدا نہ کرتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث قدسی ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مَیں تجھے پیدا نہ کرتا تو دنیا پیدا نہ کرتا۔ یہ زمین و آسمان پیدا نہ کرتا۔

(الموضوعات الکبریٰ لِمُلّا علی القاری صفحہ194حدیث نمبر754 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

گو مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتا ہے لیکن ہمیں اس زمانہ کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےعاشقِ صادق نے اس حدیث کی صحت کا علم دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقام کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں۔ آپؐ تا قیامت تمام زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے یہ مقام بخشا ہے کہ آپ کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت پاتا ہے۔ آپؐ کو وہ مہرِ نبوت عطا ہوئی ہے جو تمام سابقہ انبیاء پر ثبت ہو کر ان انبیاء کے نبی ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ آپؐ کو وہ مقامِ خاتم النبیین ملا ہے جس کے اُمّتی کو بھی نبوت کا درجہ ملا اور آپؐ کا اُمّتی اور عاشق صادق ہونا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نبوت کا مقام دلا گیا۔ آپؐ کا قربِ خدا وندی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے کہ دَنٰی فَتَدَلّٰی (النجم: 9)۔ یہ اللہ تعالیٰ سے قرب کی انتہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’(یہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوعِ انسان کی طرف جھکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپؐ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں۔ ایک صعود (یعنی بلندی کی طرف جانا)۔ دوسرا نزول۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف تو آپ ؐ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذاتِ اقدس کے دُنُوّ کا درجہ آپؐ کو عطا ہوا۔ دُنُوّ، اَقْرَب سے زیادہ اَبْلَغ ہے۔ اس لئے یہاں یہ لفظ اختیار کیا‘‘ (یعنی دُنُوّ، قرب کی نسبت زیادہ انتہائی اور وسیع معنیٰ دیتا ہے۔ قرب میں تو صرف قربت کا تصور پیدا ہوتا ہے لیکن دُنُوّ میں اتنا قرب ہے، یعنی کہ ایک ہو جانا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ) جب اﷲ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپؐ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لئے نزول فرمایا۔ یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء: 108) میں فرمایا ہے(کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ بنا کر)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم قاسم کا بھی یہی سرّ ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ ؐ کا نزول ہوا۔ اس دَنٰی فَتَدَلّٰی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عُلوّ مرتبہ کی دلیل ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ356)

پس آپؐ کے نزول سے جو نئے زمین و آسمان پیدا ہوئے، جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ کا قرب پا کر انسانوں کی نجات اور خدا تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام بھی حاصل کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ کا مقام عطا فرمایا۔ آپؐ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص پیار کے نتیجہ میں آپؐ کے لئے پیداکئے گئے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علُوِّ شان کے لئے ہم اس حدیثِ قدسی کو صحیح تسلیم نہ کریں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کرآنحضرت ﷺ کے اس مقام کو پہچانا ہے۔ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک میں کیا مشکل ہے؟ قرآنِ مجید میں ہے خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ: 30)، زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے۔ تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں؟…‘‘ (اگر زمین میں سب کچھ عام انسانوں کے لئے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص آدمیوں کے لئے افلاک کی پیدائش بھی کر سکتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’… دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے۔ اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سورج، چاند، ستارے وغیرہ‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ213)

(خطبہ جمعہ 28 جنوری 2011ء بحوالہ خطبات مسرور جلد9 صفحہ39۔40)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 نومبر 2021