• 19 اپریل, 2024

جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا یہی اقتضا ہے‘‘۔ یہی تقاضا کرتی ہے کہ ’’جو کام ہو اللہ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔ …… مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے‘‘۔ یعنی کمزوریاں اور گراوٹ جو آئی ہے اس کی یہی وجہ ہے، ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ: ’’بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 265-266 الحکم جلد 4 نمبر 3 صفحہ تا 11 خط عبدالکریم مؤرخہ 1900ء)

بعض دفعہ لوگ جلسے کے دوران باہر آجاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ فلاں مقرر کا جو انداز ہے، جس طرح وہ بیان کر رہا ہے میں تو اس طرح نہیں سن سکتا اس لئے باہر آ گیا ہوں۔ یہ بھی ایک طرح کا تکبر ہے۔ اور چاہے کوئی مقرر دھواں دار تقریر کرتا ہے یا نہیں، چاہے وہ اپنے الفاظ اور آواز کے جادو سے آپ کے جذبات کو ابھارتا ہے یا نہیں، تقریریں سنیں اور ان میں علمی اور روحانی نکتے تلاش کریں اور پھر ان سے فائدہ اٹھائیں۔ فرمایا کہ جو صرف آواز اور الفاظ کے جادو سے متأثر ہونے والے ہوتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتے کیونکہ وقتی اثر ہوتا ہے اور مجلس سے اٹھ کر جاؤ تو اثر ختم ہو گیا۔ اور یہی بات ایک احمدی میں نہیں ہونی چاہئے۔

پھر آپؑ نے فرمایا کہ: ’’اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کاخوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔ پھر فرمایا کہ: ’’یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے۔ بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ غیر اس کے ہیچ‘‘۔ یعنی اس کی اصل نیت جو ہے وہ روحانی عزت کو بڑھانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی ہے رسول کی محبت حاصل کرنے کی ہے۔ ورنہ تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ ’’جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں‘‘۔ صرف اس لئے اکٹھا نہیں کرتا کہ نظر آئے کہ لوگوں کا کتنا مجمع اکٹھا ہو گیا ہے۔ ’’بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے‘‘۔ وہ مقصد جس کے لئے یہ وجہ پیدا کی گئی ہے وہ اللہ کی مخلوق کی اصلاح ہے۔ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سویا رہوں‘‘۔ یعنی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں امن سے سویا رہوں۔ ’’اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں۔ اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی ساد ہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے کوئی ٹھٹھا کروں یا چیں برجبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں۔ کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو، جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے‘‘ جب تک وہ اپنے آپ کو ہر ایک سے ذلیل نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جائیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ396-394)

یہاں پر آپؑ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جلسہ پر شامل ہو کر جلسہ کی تقریروں کو سن کر پھر بھی اگر اس طرف توجہ نہیں ہوتی تو جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ جلسہ پر آئیں وقتی جوش پیدا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور جلسہ ختم ہوتے ہی باہر جائیں تو جذبات پر اتنا سا بھی کنٹرول نہ رہے کہ دوسرے کی کوئی بات ہی برداشت کر سکیں۔ اگر یہ حالت ہی رکھنی ہے تو بہتر ہے کہ پھر جلسے پر نہ آئیں۔ یہاں کئی واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن کو اپنے آپ پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ صحیح طور پر نہ خود جلسہ سنتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کو سننے دیتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پھر سر پٹول بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگ پھر وہی لوگ ہیں جیسے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کان رکھتے ہیں اور سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں اور سمجھتے نہیں۔ ذرا غور کریں یہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ ان لوگوں کی نشانی بتائی ہے جو انبیاء کا انکار کرنے والے ہیں۔ جب اس طرح کے رویّے اختیار کرنے ہیں تو پھر جب نظام جماعت ایکشن لیتا ہے پھر یہ شکایت ہوتی ہے کہ کارکنان نے ہمارے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور ہمیں یہ کہا اور وہ کہا۔ یہ ٹھیک ہے میں نے کارکنان کو بھی بڑی دفعہ یہ سمجھایا ہے کہ براہ راست ان کو کچھ نہیں کہنا، ایسے لوگوں کو جو اپنے عمل سے خود کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نظام کو کچھ نہیں سمجھتے، جلسے کے تقدس کو کچھ نہیں سمجھتے تو پھر ان کا ایک ہی علاج ہے کہ اس تکبر کی وجہ سے ان کو پولیس میں دے دیاجائے۔ گزشتہ سال بھی ایسے ایک دوواقعات ہوئے تھے۔ تو اگر اس سال بھی کوئی اس نیت سے آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت و اخوت پیدا کرے، یہ نیت ہے کہ فساد پیدا کرے تو پھر جلسے پر نہ آنا ہی بہتر ہے اور اگر آئے ہوئے ہیں تو بہتر ہے کہ چلے جائیں تاکہ نظام جماعت کے ایکشن پر پھر شکوہ نہ ہو۔

(خطبہ جمعہ 30؍جولائی 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

آئیں! ترکی کی سیر پر چلیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2021