• 24 اپریل, 2024

احمدیوں کے صبر واستقامت کا عظیم نمونہ

حضرت مولوی محمد حسین ؓ (سبز پگڑی والے) کی تصنیف ’’میری یادیں‘‘
سے چند ایمان افروز واقعات

حضرت مولوی محمد حسین المعروف سبز پگڑی والے کی تصنیف میری یادیں حصہ دوم سے ماخوذ بعض دلچسپ اور ایمان افروز واقعات ذیل میں ہدیہ قارئین ہیں۔ ان واقعات سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدی مربیان اور داعیان الی اللہ کی نصرت و تائید اور ان کے اموال و نفوس میں برکت اور دشمنوں کی ذلّت ورسوائی کا بھی علم ہوتا ہے۔

نگلہ گھنو میں احمدیہ بیت کی تعمیر

حضرت مولوی محمد حسین ؓ بیان کرتے ہیں۔
یوپی ہندوستان میں تقرری کے دوران میرا ہیڈکوارٹر نگلہ گھنو تھا۔ وہاں مسجد نہیں تھی اور حضرت صاحب سے قادیان چٹھی لکھ کر تعمیرمسجد کے لئے منظوری لی تھی۔ یہ واقعہ میری کتاب میری یادیں حصہ اول میں درج ہے۔

مگر اس کا دوسرا حصّہ جس میں بیت الذکر کی تعمیر کے لئے مستری کی ضرورت تھی وہ درج نہیں ہے اس کا تذکرہ میں یہاں کر رہا ہوں۔ قریبی گاؤں میں ایک مستری رہتا تھا جو بیوت الذکر کے مینار بہت اچھے بناتا تھا۔ میں گھوڑی پر سوار ہو کر اسے لینے چلا گیا۔ وہاں گاؤں پہنچ کر گاؤں والوں سے پوچھا کہ اس مستری کا گھر کہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ گاؤں کے درمیان میں اس کا گھر ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ایک چھوٹا سا چوک تھا وہاں ایک بریلوی پیر جی بہت بڑی ان کی داڑھی اور قریباً پچاس پچپن سال ان کی عمر تھی خود چار پائی پر بیٹھے ہوئے اور دو اُن کے مرید زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جا کر السلام علیکم کہا۔ اس پیر نے کہیں میرے بارے میں باتیں سنی ہوئی تھیں اور میرے حلیہ سے بھی باخبر تھا کہنے لگا ہم تمہیں کافر سمجھتے ہیں۔ میںنے کہا جی آپ کو تو میں روک نہیں سکتا جو آپ چاہیں سمجھ سکتے ہیں۔

میں نے تو السلام علیکم کہا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا (النساء:95) اگر تمہیں کوئی سلام کہے تو یہ نہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو۔ وہ کہنے لگا گھر کو لے جاؤ یہ قرآن۔گویا کہ وہ قرآن پاک پر غصّہ دکھانے لگا۔ میں گھوڑی سے اتر کر اس کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا میں نے قابل اعتراض بات کیوں کرنی ہے ہم اس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پیرجی نے اپنی کھڑاؤں اتاری اور مجھے اس طرح ماری کہ وہ میرے ڈنڈے کو لگی اور درمیان سے اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ پھر اسے اور غصّہ چڑھا اور دوسری کھڑاؤںپاؤں سے اتار کر میرے سر پر دے ماری۔ میں چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا اور وہ کھڑاؤں لکڑی کی تھی میرے سر سے خون بہنے لگا اور مجھے میرے سر سے اس نے دبا لیا۔ اسی جوش میں اس چارپائی کی چُول ٹوٹ گئی۔ وہ میرے اوپر سے ہوتا ہوا پیچھے گندے نالے میں منہ کے بل ایسا گرا کہ سارا ناک منہ اور سر اپنی چھاتی تک گند سے بھر گیا۔ کپڑے کی اس نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی وہ پانی میںبہہ گئی۔ میں نے فوراً اپنی گھوڑی جو چارپائی کے پائے کے ساتھ باندھی ہوئی تھی کھولی اور اس پر سوار ہو گیا۔ میںنے کہا جب اسے اس کے مرید باہر نکالیں گے تو یہ نہایت گندہ غلاظت کا بھر گیا ہے اس نے مجھے پکڑ لینا ہے اور یہ مجھے بھی گندہ کرے گا۔

وہاں سے روانہ ہوا خون بہہ کر میرے کپڑوں پر کافی گرا ہوا تھا اور مسلسل گر رہا تھا۔ اللہ کی قدرت اس علاقہ میں نارائن سنگھ تھانیدار تھا۔ وہ میرا دوست بھی تھا۔ پتہ نہیں اُسے قدرت کیسے ادھر لے آئی وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا:مولوی صاحب سلام۔ یہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا ہوگیا جو کچھ ہونا تھا اور میں نے کہا وہ سامنے دیکھ لو۔ اس پیر کو اس گند سے کھینچ کر اس کے مریدوں نے نکالا تھا۔ جب اس کا نقشہ دیکھا کہ سارا گند اس کے کپڑوں پر لگا ہوا تھا اور سر کے بال بھی گند سے جڑے ہوئے تھے۔ تھانیدار بڑا حیران کہ بات کیا ہے میں نے کہا اس کے مریدوں سے پوچھ لو۔ وہ ان سے پوچھنے لگا وہ کہنے لگے کہ جی ہم تو کچھ بتا نہیں سکتے۔ میںنے کہا اچھا میں بتاتا ہوں جہاں میں غلط بیانی کروں وہیں مجھے روک دینا کہ یہ نہیں ایسا ہوا تھا۔ میں نے سارا واقعہ شروع سے اخیر تک سنا دیا کہ اس طرح میں نے السلام علیکم کہا اور بعدہٗ یہ کچھ ہوا۔ تھانیدار صاحب کو تو غصّہ چڑھ گیا کہنے لگا اس پیر کو تھانے لے جانا ہے۔ تھانیدار نے میرے خون آلود کپڑے تو دیکھ ہی لئے تھے اور ساتھ ہی اسی کے اپنے مریدوں نے گواہی بھی دے دی تھی۔ میرے بیان کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ بھی مان گیا کہ اسی طرح ہی ہوا تھا۔

وہاں سے میں اور وہ تھانیدار اپنی اپنی گھوڑی پر دوبارہ سوار ہوئے وہ پیر دوبارہ آگے نہیں آیا اس نے دیکھا کہ تھانیدار تو مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور اس کے مریدوں نے بھی صحیح بات کی تائید کر دی تھی۔ ہم وہاں سے سیدھے مستری کی طرف آئے۔ وہ تھانیدار بھی میرے ساتھ تھا اور وہ اسی کی طرف آیا تھا کیونکہ اس کی بھی کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی اس نے سمجھا کہ تھا نیدار میرے وارنٹ لے کر آیا ہے۔ وہ مستری گھر ہی تھا اور کھانا کھا رہا تھا۔ اس کی ایک لڑکی گھر سے باہر تھی اس سے ہم نے پوچھا کہ تمہارا ابّا کہاں ہے؟ وہ کہنے لگی کہ گھر میں روٹی کھا رہا ہے۔ ہم نے جب اس کے گھر جا کر اسے آواز دی تو اس کی بیوی آئی۔ اس نے اسے اندر جا کر بتایا کہ تھانیدار صاحب کسی کے ساتھ آئے ہیں اور بلا رہے ہیں۔ وہ اس سے کہنے لگا کہ باہر جاکر انہیں کہہ دو کہ گھر میں نہیں ہے۔ ہم نے باہر سے اونچی آواز میں اسے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ تم کھانا کھارہے ہو۔ روٹی بعد میں کھانا ہماری بات سن جاؤ۔ خیروہ فوراً باہر آگیا۔ تھانیدار اس سے سخت ناراض کہ پہلے تم نے یہ کیوں کہا تھا کہ گھر میں تم نہیں ہو۔میں نے تھانیدار صاحب سے کہا اسے چھوڑ دو میں نے اس سے بیت الذکر کے مینار بنوانے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں لینے آیا تھا بیت الذکرکی تعمیر اور مینار وغیرہ بنانے تھے۔ وہ کہنے لگا کل آجاؤں گا۔ میں نے کہا اپنا سامان مجھے دے دو خود کل آجانا۔ اس سے میں نے کانڈی وغیرہ اوزار جو کچھ بھی ہوتا ہے لے لیا اور اٹھنّی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی اور ہم واپس روانہ ہوئے۔ میں نے تھانیدار سے کہا کہ اب یہ وہیں آئے گا۔ راستہ میں کنواں آیا۔ وہاں میں نے تھانیدار سے کہا کہ میں یہ خون دھولوں لوگ کہیں گے کہ کہیں سے مار کھا کر آیا ہے۔ وہاں ہم دونوں گھوڑیوں سے اترے اور تھانیدار پانی ڈالتا گیا اور میں نے اپنا سر اور کپڑے دھولیے۔ اور اسی طرح گیلے کپڑوں کے ساتھ ہم گاؤں پہنچے۔ تھانے کے باہر سپاہی کھڑے تھے۔ میں نے تھانیدار سے کہا کہ اس کی رپورٹ نہیں کرنی اور نہ میں نے مقدمہ کرنا ہے۔ آریہ لوگوں نے تو اخبار میں لکھ دینا ہے کہ پیر اور قادیانی مولوی کا مقدمہ۔ اور یہ بات ہمیں سجتی نہیں۔ بڑا اس نے اصرار کیا کہ آپ مقدمہ لکھوائیں میں اسے گرفتار کرکے لے آؤں گا۔ میں نے کہا جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے مگر میں مقدمہ نہیں کروں گا۔ خیر میں گھر پہنچا۔ جب مغرب کا وقت ہوا تو وہی پیر اپنے پانچ چھ مریدوں کے ساتھ چھ میل کا پیدل سفر طے کرکے میرے پاس پہنچا۔ اور آتے ہی پیر صاحب نے اپنی پگڑی اتاری اور میرے پاؤں پر رکھ دی۔ اس وقت پگڑی باندھ کر آیا تھا جبکہ پہلے وہاں کپڑے کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی جو پانی میں بہہ گئی تھی۔ میں نے اس کی پگڑی اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی۔ مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے معاف کردو میں نے کہا پیر صاحب میں تو وہیں معاف کر آیا تھا۔ حالانکہ تھانیدار صاحب نے بہت مجھے کہا کہ میں تمہاری رپورٹ لکھواؤں مگر میں نے نہیں لکھوائی۔
بڑا شکریہ ادا کرنے اور بہت پیار کرنے لگا۔ اس کے مرید بھی کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے یہی امید تھی۔ بڑی خوشی ہوئی۔ پھر وہ واپس چلے گئے۔

بھدرواہ میں احمدیوں سے بائیکاٹ کے خاتمے کا واقعہ

پہلے یہ واقعہ میری یادیںکتاب کے صفحہ 202 پر درج ہے۔
بھدرواہ میں مجھے قتل کرنے کے منصوبہ کے متعلق تھا۔ بعدہ ان کا انجام کیا ہوا اور کیسے احمدیوں سے ان لوگوں نے بائیکاٹ ختم کیا۔ بیعت کرنے والے تینوں ملازم تھے۔ ان کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ ایک بینک میں ملازم تھا انہوں نے اسے بینک سے فارغ کر دیا۔ دوسرا عبدالرحمٰن خان جنگلات کے محکمے میں ملازم تھا اسے بھی نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اور تیسرا عبداللہ درزی کا کام کرتا تھا یہ چونکہ اپنا کام کرتا تھا اس کے بارے میں لوگوں سے کہہ دیا کہ اس سے کوئی کپڑے نہ سلوائے۔

وہاں کے حجاموں سے کہہ دیا کہ ان سب میں سے کسی کی حجامت نہیں بنانی۔ درزی کپڑے بہت اچھے سیتا تھا بعض لوگ چوری چوری اس سے کپڑے سلوا لیتے تھے۔ باقی دونوں فارغ ہو گئے۔ بعد میں ان لوگوں نے سوچا کہ انہیں فوری فارغ نہیں کرنا چاہئے تھا ان کے بغیر جنگلات اور بینک کا کام نہیں چل سکتا۔ بہر حال تینوں کو دوبارہ اللہ نے کاموں پر بحال کر وایا۔اور تینوں کئی مہینہ تک کام کرتے رہے۔میں نے جلسہ سالانہ پر قادیان جانا تھا اب وہاں تیرہ چودہ کے قریب احباب احمدی ہوچکے تھے۔ ایک تو غلام حیدر صاحب اور دوسرے غلام رسول صاحب تھے باقی نام اب یا د نہیں رہے اور سب معہ اہل و عیال احمدی تھے۔

وہاں کے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ ہر شریف آدمی احمدی ہوتا جا رہا ہے اور یہ کام بڑھتا جا رہا ہے تو انہوں نے میٹنگ کی کہ اکیلا آدمی یہاں آیا ہوا ہے اور اس کا کام تیزی سے بڑھ رہا ہے کیوں نہ ان سب کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ ان سب نے اچانک ہم سب کا سوشل بائیکاٹ کر دیا کہ کوئی ان سے بول چال اور سلام نہ کرے اور ہر قسم کا لین دین بند کر دیا۔ میں بھی چند دن بڑا حیران رہا کہ اب کیا کیا جائے لوگ تو اب سنتے ہی نہیں۔
میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایک تحریک پیدا کی میںنے ان احمدی دوستوں سے مشورہ کیا کہ میں چند دنوں کے لئے کشتواڑ چلا جاتا ہوں۔ کشتواڑ بھدرواہ سے قریباً چالیس میل کے فاصلے پر تھا۔ سارا پہاڑی سفر پیدل کرنا تھا۔ ایک نوجوان میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ وہ کہنے لگا مولوی صاحب میںآپ کے ساتھ چلوں گا۔ قریباً سولہ سترہ سال اس کی عمر تھی ہم دونوں دو دن کے بعد کشتواڑ پہنچ گئے۔ہم دونوں حیران ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اب کدھر جائیں کہاں ٹھہریں کیونکہ وہاں تو کوئی احمدی گھر تھا ہی نہیں۔

مولا کریم نے اپنا خاص فضل فرمایا وہ عجیب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہاں ایک دوست جو احمدی نہیں تھے ان کا نام تھا محمد حیات وہ وہاں گھاس کٹوانے والوں کا افسر تھااور ادھر ڈیوٹی پر تھا۔ جب میری ڈیوٹی جمّوں کشمیر میں تھی اس وقت وہ بھی وہیں تھا اور اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ میں نے جب اسے دیکھا تو السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا۔ کہنے لگا آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے بیٹھنے کی یہاں جگہ کوئی نہیں ہے۔ فوراً کہنے لگا آؤ میرے ساتھ اور اپنے گھر لے گیا۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسے دعوت الیٰ اللہ کا سلسلہ شروع کیا۔ دو راتیں اس کے پاس رہے جب تیسرا دن آیا تو اس نے بیعت کرلی اس طرح ہمیں بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ کوشش شروع کر دی کہ اب دوسروں کودعوت الیٰ اللہ شروع کی جائے اس کا تفصیلی پروگرام میں نے تیار کر لیا تھا۔

ابھی ہم تیاری میں تھے کہ ڈاک خانہ سے ایک بندہ ٹیلیگرام لے کر آیا جس پر لکھا ہوا تھا کہ سبز پگڑی والے جو مولوی محمد حسین صاحب پنجابی ہیں ان کو ملے پتہ صرف یہی لکھا تھا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ آپ ادھر آگئے ہیں اور میں ادھر لے آیا یہ اس لانے والے نے کہا۔ خیر کھول کر جب اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ اگر کھڑے ہو تو چل پڑو اور اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کر آجاؤ بڑا ضروری کام ہے۔ کام کیا تھا وہاں ہمارے احمدیوں نے ہمارے بائیکاٹ ختم کرنے کا طریقہ نکالا تھا۔ لاہور سے ایک وفد آریوں کا بھدرواہ پہنچا اس نے جو اسلام پر اعتراض کئے تھے۔ اس وجہ سے وہاں کے مسلمان مچھلیوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔حضرت نبی کریم ﷺپراعتراض۔قرآن پاک پر اعتراضات۔اسلام پر اعتراضات۔ خدا تعالیٰ کے بارہ میں دینی عقیدہ پر اعتراض۔ غرضیکہ انہوں نے خوب میدان گرم کیا ہوا تھا اب وہاں کے لوگ اپنے ملّاؤں کے پاس گئے مگر وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو ایسے اعتراضوں کے متعلق کچھ علم نہیں ہے پتہ نہیں یہ کیا کہتے ہیں۔اس پر انہوں نے ہمارے احمدی احباب سے رابطہ کیا۔ چنانچہ ان کے پیغام پر خاکسار وہاں پہنچ گیا اور جلسہ منعقد کیا۔ سب لوگ اس میں شامل ہوئے۔ آریہ لوگوں کے اعتراضات کے مکمل جواب دئیے۔ کوئی مقابل پر نہ آیا۔ مسلمان خوش ہو گئے۔ (اس جلسہ کا تفصیلی ذکر میری یادیں صفحہ 214 تا 220 پر درج ہے)

جلسہ کے بعد سب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور بائیکاٹ ختم کر دیا۔ اس کے بعد وہاں احمدیت پھیلنی شروع ہوئی۔ اب وہاں سے خط آیا تھا کہ احمدیت اللہ کے فضل سے قریباً یک صد گھروں تک پھیل چکی ہے۔ یہ عبدالرحمٰن خان صاحب کے خط 1984ء کی بات ہے۔

چار نَواحمدیوں کا باغ خریدنا اور اللہ تعالیٰ کا فضل

بھدرواہ میں مذکورہ چارآدمیوں کی نوکریاں ختم ہوگئی تھیں وہ مجھ سے کہنے لگے کہ مولوی صاحب اب ہم کیا کریں۔ میںنے کہا کوئی فکر نہ کرو اللہ رب العالمین ہے وہ کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا۔ کہنے لگے کہ پھر آپ بتائیں کہ ہم کیا کام کریں۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا میںنے ان سے کہا کہ سحری کے وقت جب تم آؤ گے تو فجر کی نماز کے بعد بتاؤں گا۔ رات بہت دعا کی کہ مولا کریم ان سے وعدہ کر بیٹھا ہوں اورمیرے دماغ میں کوئی تجویز انہیں مشورہ دینے کے لیے نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کون سا کام کر سکتے ہیں اور کون سا نہیں۔ کوئی ایسا آسان سا کام ہو جو یہ سب مل کر کر سکیں خود راہنمائی فرما۔ یہ چار آدمی تھے عبدالرحمن خان صاحب۔ محمد عبداللہ صاحب۔ میر صاحب اور چوتھے کا نام بھول رہا ہے۔

نماز تراویح ہم پہلے وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔ سحری کے وقت وہ آگئے اور فجر کی نماز کے بعد سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ کر وہ پوچھنے لگے کہ مولوی صاحب اب آپ بتائیں۔ میںنے کہا آپ کے پاس کچھ رقم ہے۔ ایک صاحب کہنے لگے دو صد روپیہ دوسرے کہنے لگے دو اڑھائی صد میرے پاس ہوں گے۔ غرضیکہ چاروں کے ملا کر قریباً چھ صد روپے بن گئے۔ میں نے کہا چاروں ہی اکٹھے جا کر سیبوں کا باغ خرید لو بغیر خریدے واپس نہ آنا۔ مہنگا ہو یا سستا اب خرید کر ہی آنا ہے۔ خیر وہ چلے گئے جو وہاں قریب کے باغ تھے سبھی ہی بکے ہوئے تھے ایک باغ ان میں جمّوں کشمیر کے لوگوں کا تھا ان سے سودا کرنے لگے یہ انہیں تین صد روپیہ کہیں وہ ان سے آٹھ صد روپیہ مانگیں۔ بہر حال ان کا پانچ صد روپیہ میں سوداطے ہو گیا۔ سودا کرکے آدھی رقم پہلے دے آئے اور بقیہ رقم بعد میں دینے کا وعدہ کر آئے۔ وہ باغ اتنی دور تھا کہ چوتھے دن پیدل سفر کرتے ہوئے وہ میرے پاس پہنچے۔ میںنے کہا سناؤ بھئی۔ کہنے لگے باغ تو ہم خرید کر آئے ہیں مگر بہت مہنگا ملا ہے۔

وہ پہلے تین صد میں بیچ رہا تھا ہمیں دیکھ کر وہ اٹک گئے اور ہمیں پانچ صد روپیہ میں ملا ہے۔ چونکہ آپ نے کہا تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آنا۔ اس کا پھل بھی کوئی اتنا اچھا معلوم نہیں ہوتا اب آپ ہمارے لئے دعا کریں۔ ان باغوں کی ان کے مالک اتنی دیر رکھوالی کرتے ہیں جتنی دیر تک ان سیبوں کا رنگ سرخی مائل نہیں ہو جاتا پھر بعد میں خریدار کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ابھی اس باغ کے سیبوں کا رنگ سرخی مائل نہیںہوا تھا اور اس کا انہوں نے قبضہ بھی نہیں لیا تھا کہ مجھے واپس قادیان جانا پڑگیا۔ اس بات کو دو ماہ گزر گئے۔ ایک دن قادیان عبدالرحمن صاحب آئے۔ میرے لئے بہت سے سیب لائے اور ایک پیٹی حضرت مصلح موعودؓ کے لئے لے کر آئے اور مجھ سے کہنے لگے مولوی صاحب ہمیں اس میں چار ہزار پانچ صد روپے کا منافع ہوا ہے جبکہ ہم نے پانچ صد کا خریدا تھا۔ اور ابھی بھی ان پر پھل ہے معلوم نہیں کدھر سے نکلتا چلا آرہا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اتنا اس کو پھل لگایا کہ وہ یہی کاروبار کرتے رہے اور اسی سے مالامال ہو گئے۔ اب ان کا ایک دفعہ خط آیا تھا کہ وہاں پر جتنے بھی احمدی ہیں سب کی خدا کے فضل سے مالی حالت بہت اچھی ہے۔

پچھلا پڑھیں

اعلانات و اطلاعت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2020