• 19 اپریل, 2024

ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے

ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا اس عرصہ میں آپؐ نے (یعنی آنحضرتﷺ نے) جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑ ی جاتی تھی۔ اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر و استقلال کی ہدایت ہوتی اور بار بار حکم ہوتا تھاکہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرتﷺ کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے۔ بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا اور اصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا صبر پہلے نبیوں جیسا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لئے ان کی تکالیف اور ایذا رسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں لیکن اس کے مقابلے میں آنحضرتؐ کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپﷺ کی مخالف ہو گئی اور ایذا رسانی کے در پہ ہوئی اور عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۵۳ الحکم ۲۴و۳۰ ستمبر ۱۹۰۴)

پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار، اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بہن بھائی مخالف ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو، ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئے اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خداتعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو، پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء اور رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیارکرو، تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو :
اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو، بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ توخود اسے شرم آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 157۔158 الحکم 30ستمبر 1904ء)

پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’فتنہ کی بات نہ کرو، شر نہ کرو، گالی پر صبر کرو کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر حکم کی اطاعت کرو کہ خداتعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلے میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ621،620۔16مارچ 1904ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2021