• 24 اپریل, 2024

گناہوں کی کثرت معرفتِ الہٰیہ کی کمی ہے

وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں
بت ترک کرکے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں

(در ثمین)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے؛۔

تَاللّٰہِ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَہُوَ وَلِیُّہُمُ الۡیَوۡمَ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

(النحل:64)

ترجمہ؛۔اللہ کی قسم! ہم نے یقیناً تجھ سے پہلی کی قوموں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوبصورت بنا کر کے دکھائے بس آج وہ انکا ولی (بنابیٹھا) ہے حالانکہ ان کے لئے ایک دردناک عذاب (مقدر) ہے۔

قارئین!
آج بھی شیطان نےاپنے اس مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے آج بھی بہت سے انسان جو شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں پریشان ہیں۔کسی کو جانی پریشانی ہے تو کسی کو مالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کو عزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان ہے تو غریب جھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن، گناہ میں مبتلا ہے۔ گو کہ ہر طرف سے یہی آواز آتی ہے کہ

جدھر دیکھو ابر گنہ چھا رہا ہے
گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے

(کلام محمود)

لیکن ایک مومن معرفت الہٰیہ کی وجہ سےان چیزوں کوالگ نظریہ سے دیکھتا ہے۔ مومن وفاجر کے اس فرق کو بیان کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں؛۔

إِنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التوبہ، حدیث:6308)

’’مومن اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور اسے خطرہ ہو کہ کسی وقت بھی یہ پہاڑ (مصیبت) اس پر آن گرے گا۔ اس کے برخلاف،فاجر اپنے گناہوں کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی مکھی کو جو ان کی ناک سے گزرکر غائب ہو جاتی ہے۔‘‘

نیز ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کیفیت کا نقشہ اس رنگ میں ایک محفل میں بیان فرماتے ہیں:۔
’’سب سے بڑھ کر حقیقی مومن انبیاء ہوتے ہیں۔ان کو پہنچنے والی تکالیف ان کے لئے قرب الہٰی کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ان کی کامیابی، ان کے پیغام کی اشاعت اور قبولیت کا ذریعہ……تو جو مومن اللہ کی راہ میں تکلیف برداشت کرتا ہے جسمانی یا جیسی بھی اللہ تعالیٰ اسکے بدلے میں اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

(الحکم اردو Exclusive۔ 2؍نومبر 2020 ص 20تا21)

گو کہ گناہ کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ایک فاجر گناہوں میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے اور جب گناہوں کےسمندر میں اچھال آتا ہے تو اس سے بچنے کے لئے ہرایک اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی ازخود تشخیص کرکےان کے علاج میں لگ جاتا ہے۔ کوئی کچھ علاج تجویز کرتا ہے تو کوئی کچھ۔لیکن اس میں خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔فائدہ کیونکر حاصل ہو اس زمانے میں روحانی بیماریوں کا علاج مسیح ومہدی کے ذریعہ ہونا تھا اور آپؑ نے آکر بتایا کہ:
’’جو علم خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس آتش خانہ سے نجات ایسی معرفت الہی پر موقوف ہے جو حقیقی اور کامل ہو کیونکہ انسانی جذبات جو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں وہ ایک کامل درجہ کا سیلاب ہے جو ایمان کو تباہ کرنے کے لئےبڑے زور سے بہ رہا ہے۔اور کامل کا تدارک بجز کامل کے غیر ممکن ہے۔پس اسی وجہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ایک کامل معرفت کی ضرورت ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ لوہے کو لوہے کے ساتھ ہی توڑ سکتے ہیں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 لیکچر لاہور صفحہ:149)

نیز آپ ؑفرماتے ہیں:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر نوحؑ کی قوم کو وہ معرفت تامہ حاصل ہوتی جو کامل خوف کو پیدا کرتی ہے تو وہ کبھی غرق نہ ہوتی۔اور اگر لوطؑ کی قوم کو وہ پہچان بخشی جاتی تو ان پر پتھر نہ برستے۔اور اگر اس ملک کو ذات الہٰی کی وہ شناخت عطاکی جاتی جو بدن پر خوف سے لرزہ ڈالتی ہے تو اس پر طاعون سے وہ تباہی نہ آتی جو آگئی۔مگر ناقص معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی…پس اے سست ہمتو! اور طلب حق میں کاہلو! تم تھوڑی معرفت سے اور تھوڑی محبت سے اور تھوڑے خوف سے کیونکر خدا کے بڑے فضل کے امید وار ہوسکتے ہو؟ گناہ سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اور اپنی محبت سے دل کو پر کردینا اسی قادروتوانا کا فعل ہے ۔۔۔ پس ہم اس نجات کیلئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے۔ جسکی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کررہی ہے۔ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 لیکچر لاہور صفحہ151۔152)

پھر آپ ؑفرماتے ہیں:۔
’’انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ اول بدی سے پرہیز کرنا۔ دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا۔ اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قوتیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ ایک طرف تو جذباتِ نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت الٰہی کی آگ جو اس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے۔ مگر اس روحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفت الٰہی پر موقوف ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ62)

قارئین کرام!

ان اقتباسات میں حضور ؑنے گناہوں کی کثرت کا اصل سبب معرفتِ الہٰیہ کی کمی بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اسکا علاج نہ عیسائیوں کے کفارہ سے ممکن ہے نہ وید کی بیان کردہ تعلیمات سے معرفت کاملہ جو حقیقتاً خدا تعالیٰ کے مکالمہ مخاطبہ سے ہی حاصل ہونی ممکن ہے وہ اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب سے نہیں مل سکتی۔ اس قول کو اپنے دل میں مضبوطی کے ساتھ بٹھانے کے لئے خلفائے کرام کے بعض ارشادات پیش ہیں۔

حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’بدی سے بچنے کا یہ گر ہے کہ انسان علم الہٰی کا مراقبہ کرے۔سوچے اور فکر کرے اور بار بار اس بات کو دل میں لائے اور اس پر اپنا یقین جمائے کے خدا علیم ہے، خبیر ہے۔وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے میرے ہر فعل کی اس کو خبر ہے۔ اس طرح ریاضت کرنے سے انسان بدی سے بچ جاتا ہے۔‘‘

(ارشادِنورجلد 2 ص 471)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:۔
’’گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا۔دنیا نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ بار بار اس نکتے کو بھول جاتی ہے حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر نہیں پیدا ہوتی فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کرسکتے۔ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد جو خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ اور کسی طرح پیدا نہیں ہوتا اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے وہ اور کوئی جماعت دنیا کی نہیں دکھا سکتی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ397تا398)

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں؛۔
’’گناہ کا چھوڑنا خدا تعالی سے حاصل کردہ قوت کے بغیر ممکن نہیں گناہ پر ندامت کے احساس کا پیدا ہونا اس کی توفیق کے بغیر ناممکن ہے۔ باقی رہا عزم! تو انسان کے اندر کیسے یہ ہمت ہو سکتی ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ تعالی کی طاقت کے بغیر، اللہ تعالیٰ سے طاقت حاصل کیے بغیر یہ عزم کر سکتا ہوں، پختہ ارادہ کر سکتا ہوں کہ آئندہ کوئی گناہ نہیں کروں گا اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی توفیق کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جون 1967ء خطبات ناصر جلد اول ص738)

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’پس یہ دو قسم کے نمایاں اثرات ہیں جو انسان کو بدیوں سے روکتے ہیں۔ایک خدا کا تصور اور اس کے نتیجے میں گناہ کا خیال جو انسان کو بدیوں سے روکنے میں بہت حد تک کامیاب ہو سکتا ہے اگر خدا کا تصور حقیقی ہے تو گناہ کا خوف یعنی گناہ سے بچنے کا خیال بھی ایک حقیقی خیال بن جاتا ہے اور انسان کو بدیوں سے روکنے میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرتا ہے۔ اگر خدا کا تصور واہمی سا ہو، اگر خدا کا تصور ایک بعید تصور ہوں اور حقیقی اور سچا اور زندہ تصور نہ ہو تو اگرچہ گناہ کا تصور اس سے بھی پیدا ہوتا ہے لیکن وہ تصور بےاثر ثابت ہوتا ہے اور انسان عقلی طور پر ایک بات کو گناہ تسلیم کرتے ہوئے بھی اس سے باز رہنے کی طاقت نہیں رکھتا……پس خدا پر ایمان جتنا قوی ہوتا چلا جاتا ہے گناہ سے نفرت بھی اسی قدر قوی ہوتی چلی جاتی ہے یا اگر نفرت نہ ہو تو گناہ کا خوف اور گناہ سے بچنے کا رجحان اسی قدر زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے …… دوسری قوت جو انسان کو بدیوں سے روکتی ہے وہ سماج کی قوت ہے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 9ص 616خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اکتوبر 1990ء)

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت کی اہمیت کو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’معر فت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سمّ الفار، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تووہ ان کے نزدیک نہیں جاتا‘‘۔ (یعنی ان چیزوں کے بارے میں علم ہے کہ یہ انسان کو مار سکتے ہیں، ہلاک کر سکتے ہیں اس لئے وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا۔) ’’ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکوگے‘‘

(خطبہ جمعہ 14؍ مارچ 2014ء خطبات مسرور جلد 12 ص159تا160)

نیز آپ فرماتے ہیں:۔
’’جو غافل دل ہے اس کو علم ہی نہیں کہ معرفت الٰہی کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ذات و صفات کی شان اور عظمت کیا ہے؟ وہ کب نماز میں یا روزے کی ادائیگی میں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق پاسکتا ہے یا دعا اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دے سکتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ سب اعمال صالحہ کا محرک جس کی وجہ سے یہ تحریک پیدا ہو، جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ اعمال صالحہ بجا لانے ہیں، وہ معرفت ہی ہے۔ جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کی معرفت ہو گی اتنا زیادہ عبادات اور اعمال صالحہ کی روح کو سمجھتے ہوئے ان کو بجا لانے کی طرف توجہ ہو گی۔ پس اگر ہم معرفت الٰہی کے حصول کی طرف توجہ کریں گے تو احکام الٰہی پر عمل کی طرف بھی توجہ رہے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 21؍ مارچ 2014ء خطبات مسرور جلد12 ص169)

پس دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم تمام کو معرفت الہٰی کا صحیح ادراک حاصل کرتے ہوئے دور حاضر میں ہر قسم کی برائی اور گناہوں سے محفوظ رکھے۔؎

دل میں میرے کوئی نہ بسے تیرے سوا اور
گر تو نہیں بستا اسے ویرانہ بنادے
ابلیس کا سر پاؤں سے تو اپنے مسل دے
ایسا نہ ہو پھر کعبہ کو بت خانہ بنادے

(حلیم خان شاہد مربی سلسلہ پونے، مہاراشڑا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جنوری 2021