• 19 اپریل, 2024

مکرم محمود احمد شاہد (بنگالی) مرحوم کا ذکرِ خیر

الفضل آن لائن موٴرخہ 17؍نومبر 2022ء میں یادِ رفتگان کے عنوان سے برادرم لئیق احمد چوہدری صاحب (آسٹریلیا) کا مضمون محمود احمد شاہد صاحب مرحوم (بنگالی) کے بارے میں پڑھا۔ بہت اچھے احسن اور بہترین الفاظ میں محمود احمد شاہد (بنگالی) مرحوم کے اوصافِ حمیدہ اور ان کا ذکرِ خیر کیا گیا ہے۔

محترم محمود بنگالی صاحب مرحوم مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر اور خاکسار کے بہت پیارے دوست تھے۔ ہمارا بہت محبت کا تعلق رہا۔ موٴرخہ 23؍اپریل 2014ء کو ہمارےپیارے بھائی محمود صاحب اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی وفات کے دو دن بعد موٴرخہ 25؍اپریل 2014ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے پورا خطبہ جمعہ ان کے خصائل اور خوبیاں بیان کرتے ہوئے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

انتخاب صدر کے وقت محمود بنگالی صاحب کا نام غا لبًا پانچویں نمبر پر تھا۔ دوستوں کو حیرانی اس وقت ہوئی جب اگلے دن اعلان کیا گیا کہ حضور نے مکرم محمود احمد شاہد صاحب (بنگالی) کو صدر مجلس خدام الاحمدیہ عالمگیر مرکزیہ مقرر فرمایا ہے۔ انتخاب کے بعد ہی نماز فجر کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلا کے فرمایا کہ کثرت سے استغفار کرو اور درود پڑھو۔

لوگوں کا خیال تھا کہ محمود بنگالی صاحب کے لئے اتنی اہم ذمہ داری نبھا نا مشکل ہو گا کیونکہ بیشتر احباب جماعت بالخصوص عہدیداران سے ان کی کوئی واقفیت نہیں تھی۔ بعد کے وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ خلیفہٴ وقت کا فیصلہ کتنا با برکت تھا۔ انتہائی پر آشوب دور میں انہوں نے بڑی جانفشانی اور حکمت سے کام کیا اور مجلس کی ہر کڑے وقت میں مناسب راہنمائی فرمائی۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ اور شہداء کے اہل و عیال کا بہت خیال رکھتے اور ان کی دلجوئی فرماتے رہتے۔

خاکسار اس وقت کراچی میں قائد ضلع خدام الاحمدیہ کی حیثیت سےخدمت کی توفیق پا رہا تھا۔جب بھی سندھ میں کوئی شہادت ہوتی تو ہم فوری طور پر کراچی سے خدام بھیجتے۔ ہمارا خیال ہوتا کہ ہم سب سے پہلے پہنچے ہیں۔ لیکن حیرانی ہوتی جب ہم دیکھتے کہ صدر صاحب یا ان کا نمائندہ پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتا۔ انہوں نے سندھ کے اسیرانِ راہِ مولیٰ اور شہیدوں کے لواحقین کو آسٹریلیا میں سیٹ کروانے کے لئے ذاتی طور پر بہت محنت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس نیکی کی بہترین جزا سے نوازے۔

منصبِ خلافت کی عظمت اور حفاظت کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے غالبًا انتخاب سے اگلے سال کی بات ہے خیموں میں اجتماع تھا۔ خاکسار کو شوریٰ نے سب کمیٹی مال میں ممبر کی حیثیت سے تجویز کر دیا۔ اس سب کمیٹی کا اجلاس عمومًا رات گئے تک جاری رہتا۔ اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی طرف سے جماعت میں ’’لااله الا اللّٰہ‘‘ کا ورد کرنے کی تحریک کی گئی تھی۔ فجر کی اذان سے قبل خدام نے ’’صلّ علی‘‘ بلند آواز کے ساتھ پڑھنا شروع کردیا تاکہ خدام نیند سے بیدار ہو کر نماز فجر کے لے پنڈال میں آ جائیں۔ کچھ خدام نے ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ قوالی کے انداز میں ’’حق ھو‘‘ کا نعرہ بھی لگایا۔ اس پر بنگالی صاحب جو میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے۔ بڑے غصّے میں اُٹھے۔ خیمے سے باہر گئے اور جو خادم ’’حق ھو‘‘ کا نعرہ لگا رہا تھا اس سے ناراضگی کا اظہار کر کے مناسب تنبیہ بھی کر دی۔

خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت خاکسار کو بحیثیت قائد ضلع کراچی ارشاد فرمایا کہ کچھ خدام لے کر فوری طور پر ربوہ پہنچو اور مسجد مبارک کے بیرونی حصّہ کی سیکورٹی سنبھال لو۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے مفوّضہ فرائض احسن رنگ میں سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ خلافتِ خامسہ کے انتخاب کے موقع پر آسٹریلیا سے بحیثیت امیر، لندن تشریف لائے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ ذیابیطس اور بلڈ پریشر کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔ لیکن منصبِ خلافت کی حفاظت کے لئے انہیں بہت ہی مستعد اور پر جوش پایا۔ خلافتِ رابعہ اور خلافتِ خامسہ کے انتخاب کے مواقع پر انہیں شیر کی طرح خلیفۂ وقت کی حفاظت کے لئے چوکس پایا۔

جب بھی کراچی تشریف لاتے تو عاجز کے غریب خانہ پر قیام فرماتے اور پھر خاکسار کے مشورہ کے مطابق پروگرام وضع کرتے اور مجالس کا دورہ فرماتے۔ دکھ اور تکلیف میں دلاسہ دیتے۔ بہت پیار اور ہمدردی کا سلوک فرماتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین

1985ء کی بات ہے۔ خاکسار پر ایک جھوٹا کیس بنا کر پولیس کی طرف سے مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ آپ کراچی تشریف لائے ہوئے تھے ان کا سندھ کی مجالس کے دورہ کا پروگرام تھا انہوں نے وہ پروگرام ملتوی کر دیا اور فرمایا کہ میں یہاں زرتشت کے گھر پر رہوں گا تاکہ اس کے بچوں کو تسلّی رہے اور میں خود اس سارے معاملے (کورٹ میں پیشی وغیرہ) کی نگرانی کروں گا۔ چنانچہ آپ نے سندھ کا دورہ منسوخ کر دیا اور کراچی میں قیام کی توسیع کر لی۔

میرے خلاف مقدمہ کے لئے کوشش کے عرصہ میں محترم محمود بنگالی صاحب کی محبت، تسلّی اور پیار کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ان سے متعلق بے شمار واقعات ہیں جنہیں طوالت کے خوف سے میں چھوڑتا ہوں۔ ان کا تمام عرصۂ صدارت جماعت پر ابتلاء اور آز مائش کا دور تھا اس دوران آپ کو نمایاں اور مثالی خدمات کی توفیق ملی۔ یہ کامیاب دورِ صدارت اس امر کا ثبوت ہے کہ خلیفۂ وقت کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے اور اسے الٰہی تائید حاصل ہوتی ہے۔ آپ خاموش اور سلیقہ مند کام کرنے والے خادم سلسلہ تھے۔ ساری عمر خلافت اور نظامِ جماعت کے ساتھ نہایت اخلاص اور وفا سے اپنے فرائض بجا لاتے رہے۔ بہرحال جب آپ کے اس عالمگیر صدارت کا دور ختم ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں انہوں نے ایک بڑا عاجزانہ خط بھیجا۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ
’’آپ نے خط میں خوامخواہ شرمندگی کا اظہار کیا ہے۔ شرمندگی کی کیا بات ہے۔ آپ نے تو ماشاء اللہ بہت اچھا دور نبھایا ہے۔ بڑے مشکل حالات میں بڑی عمدگی، حکمت اور بہادری کے ساتھ کام کیا ہے۔ اللہ مبارک کرے۔ اسی لئے تو آپ کو انصار اللہ میں جانے کے باوجود خدمت کا موقع ملا۔ (ان کو ایک سال کی توسیع دی گئی تھی۔) اگر آپ نا اہل ہوتے تو ہرگز ایسا نہ کیا جاتا۔ الله تعالیٰ آئندہ بھی آپ کو ہمیشہ سلسلے کا بے لوث خادم بنائے رکھے اور بہترین خدمات کی توفیق پاتے رہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’آپ نے اسیران کی بہبود کے لئے بہت عمدہ کام کیا ان کی رپورٹس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا یہ ارشاد بھی تھا کہ ’’آپ کی رپورٹ بابت بہبودی اسیران موصول ہوئی۔ آپ ماشاء اللہ بڑی حکمت اور محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے۔‘‘

اور واقعی انہوں نے اس زمانے میں اسیران کی بڑی خدمت کی۔ 1984ء کا جو قانون تھا یہ اس کا ابتدائی دور تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں اسیران کلمہ کی وجہ سے جیل میں جا رہے تھے۔اس زمانے میں خدام الاحمدیہ اور صدر خدام الاحمدیہ نے کافی کام کیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق احمدیوں کو آسٹریلیا کے سبھی بڑے شہروں میں بسایا گیا۔ چنانچہ اب ہر سٹیٹ کے کیپیٹل میں مضبوط جماعت قائم ہے اور وسیع و عریض خوبصورت مساجد اور مشن ہاؤسز قائم ہیں۔ سڈنی میں بھی مسجد بیت الہدیٰ کے علاوہ خلافت سنٹینری ہال اور مشن ہاؤس بھی ہے اور ایک گیسٹ ہاؤس ابھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح برسبین (Brisbane) میں مسجد بنی۔ میلبرن (Melbourne) میں مسجد بنی۔ ایڈیلیڈ (Adelaide) میں مسجد محمود ہے۔ کینبرا (Canberra) میں مسجد کے لئے قطعہ زمین کے لئے کوشش ہو رہی تھی جلد مل جائے گا۔۔۔ میں نے خدام الاحمدیہ میں بھی ان کے ماتحت کام کیا ہے۔ بڑے کھلے ہاتھ سے اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے۔ کام کرنے کا ان کو موقع دیتے تھے اور پھر قدردانی بھی کیا کرتے تھے اور خلافت کے بھی ایسے سلطان نصیر کہ جس کی مثالیں کم کم ملتی ہیں اس کا تو میں نے شروع میں ہی ذکر کر دیا ہے۔ ان کے جانے سے گو آسٹریلیا جماعت میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے لیکن الٰہی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ خود سنبھالتا ہے اور ان خلاؤں کو خود پورا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان جیسے سلطان نصیر ہمیشہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے جو خلافت کے باوفا بھی ہوں، جاں نثار بھی ہوں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہلیہ اور بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو اور انہیں بھی توفیق دے کہ اپنے باپ کی طرح ایمان و ایقان میں مضبوط ہوں اور خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔‘‘

عبد الکریم قدسی صاحب اپنے اشعار میں آپ کے اخلاص و ایمان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’پروانۂ خلافت مہدی‘‘ بصد خلوص
مہر و وفا کے گیت سناتا چلا گیا
ہر لحظہ وہ تھا گوش بر آواز مردِ حق
سرتاپا وہ فدائی و عاشق امام کا
مرشد نے اس کو مردِ مجاہد کی دی سَند
’’یہ رتبہٴ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘
وہ سلسلہ کا خادمِ ادنیٰ بھی اعلیٰ بھی
دینِ متیں پہ چاند سی، دنیا کو تک دیا
قدسی امام وطن کا بن کے رہا غلام
خادم تھا، طفل تھا یا وہ انصار میں رہا

(زرتشت منیر احمد خان۔ ناروے حال امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی