• 20 اپریل, 2024

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود برصغیر کے حاذق اور ماہر طبیب

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود برصغیر کے حاذق اور ماہر طبیب حضرت اقدس ؑ کی طب یونانی کے خواص اور میڈیکل سائنسز کے عجائبات پر مشتمل تحقیقات

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔

وَالَّذِیْ ھُوَیُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ۔وَاِذَامَرِضْتُ فَھْوَیَشْفِیْنِ

ترجمہ: اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی ہے جو مجھے شفا دیتا ہے۔

(الشعراء :80۔81)

جب سے انسان اس کرۂ ارض پر وارد ہوا ہے اسے آب و ہوا کی ناموافقت، غذا کی ناہمواری اور جذبات کے اتار چڑھاؤ کے سبب مختلف امراض سے نبرد آزما ہونا پڑتا رہا ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ مرض اور صحت کا بہت گہرا ساتھ رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے انسان ہمیشہ سے مختلف تدابیر وضع کرتا رہا ہے۔ انہی تدابیر کے مجموعہ کو علم العلاج یا علم طب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔طب کے لغوی معنی علاج معالجہ کے ہیں۔انسانی تاریخ میں آغاز سے ہی طبیب یعنی مادی بیماریوں کے علاج کے ماہر کی اہمیت بہت زیادہ رہی ہے۔

روحانی دنیا میں روحانی طبیب اور مسیحا۔انبیاء، صوفیاء اور مصلحین کی صورت میں آتے رہے ہیں ۔ سب سے بڑے روحانی طبیب سیدنا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کے ہاتھوں سے ہزاروں لاکھوں مریضوں نے شفاء پائی۔

حضرت مسیح موعودؑاپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی طبیب ہونے اورآپؐ کی قوت قدسیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگرناقابل علاج مریضوں کو اچھا کردے، تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑے گا۔ اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھا کیا۔ حالانکہ ان مریضوں میں سے ہر ایک بجائے خود ہزارہاقسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا جیسے کوئی بیمار کہے سردرد بھی ہے، نزول ہے، استسقاء ہے۔ وجع المفاصل ہے، طحال ہے وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنادیتا ہے۔ اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھا کیا ان میں ہزاروں روحانی امراض تھے جس جس قدر ان کی کمزوریوں اور گناہ کی حالتوں کا تصور کرکے پھر ان کی اسلامی حالت میں تغیر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں۔ اس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ116۔117)

حضرت مسیح موعودؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

ہر اک آزار سے مجھ کو شفا دی
مرض گھٹتا گیا جوں جوں دوا دی
دوا دی اور غذا دی اور قبا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(درثمین)

حضرت مسیح موعودؑ خدا داد صلاحیتوں اورعلم طب میں غیرمعمولی تحقیق کی وجہ سے بلا شبہ برصغیر کے حاذق طبیب شمار کئے جاتے ہیں۔ آپؑ کے علم کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے روحانی علوم کی معراج تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم شعبہ میں بھی گرانقدر معلومات بہم عطا فرمائی ہیں اس مضمون میں آپؑ کے علم کلا م اور رو حانی خزائن میں سے طب اور اس سے متعلقہ علوم کے بارے میں مواد ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اس دور کے چوٹی کے طبیب تھے اور آپ کی نظر ان علوم پر بہت گہری تھی۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ کو روحانی علوم کے ساتھ طب کا بھی علم عطا فرمایا گیا۔آپ ؑنے طب کا ابتدائی علم اپنے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے حاصل کیاجن کی طبابت کا برصغیر کے کناروںتک شُہرہ تھا۔

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کی طبی صلاحیت

حضرت مسیح موعود ؑ کے والد ماجدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نہایت قابل اور حاذق طبیب تھے ۔دُور دُور سے لوگ معالجات کی خاطر ان کے پاس آتے اور فائدہ اٹھاتے اور آپ بلا امتیاز مذہب و ملت ، امیر و غریب سب کو فیضیاب کرتے ۔ طب آپ کا ذریعہ معاش نہ تھا ۔ بلکہ محض مخلوق الٰہی کی نفع رسانی مد نظر تھی۔ قریباً ساٹھ سال آپ نے طبابت کی۔ کسی سے ایک پیسہ تک معاوضہ میں نہیں لیا۔ حتیٰ کہ بعض رؤسا نے اپنے علاج کے بدلے انعام میں گاؤں کے گاؤ ں آپ کو دینے کی کوشش کی لیکن آپ نے سب ٹھکرا دیا ۔بلکہ اکثر اوقات قیمتی ادویات اپنے پاس سے دیتے اور ہمیشہ سہل الحصول علاج تجویز فرماتے۔اگر مریض کو گھرجاکے دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو تشریف لے جاتے ۔ آپ نے طب کا علم لاہور سے پڑھا اور پھر دہلی جاکر اس علم کی تکمیل کی۔

حضرت مسیح موعودکا علم طب پڑھنا

حضرت مسیح موعودؑ کی جب ولادت ہوئی۔ اس وقت سلسلہ مدارس جاری نہ ہوا تھا۔صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد رکھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود کو بھی اس طریق کے ماتحت آپ کے والد بزرگوار نے تعلیم دلائی اور اس وقت جو علوم آپ کو پڑھائے گئے ان میں سے ایک علم طب بھی تھا۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے والد ماجد سے بھی طبابت کی کتابیں پڑھیں اور ان کی طرح ماہر اور حاذق طبیب بن گئے۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو خدائی الہام، کشوف اور رؤیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے علوم سے بھی ممسوح کیا گیا جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ غریبوں، بے سہاروں، مستحقوں اور مسکینوں کی خدمت کرنا، ان کا علاج معالجہ کرنا اور ان کو مفت ادویات مہیا کرنا آپؑ نے اپنے والد سے ورثے میں پایا تھا۔ طب آپؑ کا بھی پیشہ یا ذریعہ معاش نہ تھا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود و مہدی معہود مبعوث ہو کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ کو اس قسم کے دنیاوی شعبہ جات سے کوئی سروکار نہ تھا بس آپ علم طبابت کو خدمت خلق کا ایک ذریعہ سمجھ کر اپنائے ہوئے تھے۔

فرماتے ہیں ؎

مرا مقصودو مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

حضرت اقدسؑ اپنی بچپن کی تعلیم کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا۔ تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں۔ اس بزرگ کا نام فضل الہٰی تھا۔اور جب میری عمرقریباً دس برس کی ہوئی۔تو ایک عربی خوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے۔ جن کا نام فضل احمد تھا۔میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی۔اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرَف کی کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہاحاصل کیا۔ اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں۔ اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔ اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویامیں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے۔ کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آئے۔‘‘

(کتاب البریّہ ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 180)

چشم بصیرت سے مطالعہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ (1835ء1908-ء) نے اپنی روحانی آنکھ اور چشم بصیرت سے جہاں ’’علم الادیان‘‘ پر ایسی انقلابی روشنی ڈالی کہ دن چڑھا دیا وہاں ’’علم الابدان‘‘ یعنی میڈیکل سائنس اور طب کے سلسلہ میں بھی پوری عمر بے شمار روحانی تجربات و مشاہدات کے بعد دنیائے طب کے لئے ایسے بیش قیمت رہنما اصول رکھے جو صرف اور صرف ایک ربانی مصلح ہی کی خدا نما شخصیت سے مخصوص ہو سکتے ہیں اور علم طب میں ایسی نایاب اور قیمتی موتیوں سے مرصع تحقیق پیش کرنے میں آج تک طب اور میڈیکل سائنس کے ماہر فاضلوں کا لٹریچر بہت حد تک خاموش ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے ہمارے سامنے رکھی۔ اس مایہ ناز علم کو آنحضرت ﷺ نے علم ادیان کے بعد دوسرا درجہ بخشا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی یہ حقیقت واضح فرمائی کہ:

’’صحت عمدہ شے ہے، تمام کاروبار دینی اور دنیاوی صحت پر موقوف ہے صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ244)

ضروری ادویات اپنے پاس رکھتے

حضرت مسیح موعودؑنے باقاعدہ مطب نہیں کیا۔ کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے۔ اس لئے آپ اکثر مفید اور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی۔۔۔

سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے۔یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجدمفرح عنبری کے سپرد تھی۔عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے۔ مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فوراً نکال لیا۔

(حیات طیبہ صفحہ نمبر378)

خدا تعالیٰ خود علاج کرتا ہے

جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود اس دور کے ماہر، حاذق اور چوٹی کے طبیب بھی تھے۔ اور آپ کی نظر طبابت کے علوم پر بہت گہری تھی، آ پ نے علم طب کو روحانیت کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:۔ اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اللہ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے۔ اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا تعالیٰ کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا علاج کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ539)

طبیب اپنے بیمار کے واسطے دعا کرے

مخلوق خدا کے ساتھ ساتھ اپنا، اپنے خاندان، عزیزواقارب اور رفقاء خاص کا بھی علاج فرماتے اور دعا کے ذریعہ اللہ سے شفاء طلب فرماتے۔ دعا کے سلسلے میں آپؑ نے فرمایا :

طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ53)

قرآن کریم اور آنحضرتؐ کی صداقت

قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معقولی معجزات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:

’’اب اے نئی تحقیقات پر اترانے والو! خدا کے لئے ذرا انصاف کو کام میں لاؤ اور بتلاؤ کہ کیا وہ مذہب انسانی افترا ہو سکتا ہے جس میں ایسے حقائق پہلے سے موجود ہوں اور تیرہ سَوسال کی محنتوں، تحقیقاتوں اور جان کنیوں کا نتیجہ ہوں۔ یہ قرآن کریم اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معقولی معجزات ہیں اور دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔ دل پر مدار دوران خون کا ہے۔ آج کل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دورانِ خون کا مسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سَو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 170-169)

قرآن کریم کی عظمت اور علوم طبعی کی ترقی

’’ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے۔ قرآن کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہوگی۔

(ملفوظات جلداول ص362)

لمبی عمر پانے کا روحانی نسخہ

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے لمبی عمر پانے کا نسخہ تحریر فرمایا ہے ،فرماتے ہیں: ’’دوسروں کے لئے دعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں ان کی عمر دراز ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد:18) اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جا سکتی ہے وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے، جبکہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب زیادہ دعا کے ساتھ اٹھا سکتے ہیں۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو دنیا میں خیر کا موجب ہوتا ہے اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوتا ہے وہ جلدی اٹھا لیا جاتا ہے۔۔ ۔ پس انسان کو لازم ہے کہ وہ خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ بننے کے واسطے سوچتا رہے اور مطالعہ کرتا رہے جیسے طبابت میں حیلہ کام آتا ہے اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 353)

مختلف اشیاء میں اللہ تعالیٰ نے ہی خواص رکھے ہوتے ہیں، اس کی روشنی میں حضرت مسیح موعود اشیاء کے حقائق اور ان کے خواص کی حقیقت اور حکمت بیان کرتے ہوئے درج ذیل اقتباسات میں فرماتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اشیاء میں خواص رکھتا ہے

’’خواص الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہیں بلکہ یہ ماننا چاہئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ جیسے تر بد اسہال لاتی ہے یا سم الفار ہلاک کرتا ہے۔ اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ نکال لے تو پھر نہ تربد دست آور ہو سکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے نہ اسے کھا کر کوئی مر سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص 2)

حقائق الاشیاء کے ذرائع

فرمایا: ’’مصری کی ایک ڈلی کو کان پر رکھیں، تو اس کامزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتلا سکیں گے۔ ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے، تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے گی۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے مختلف قویٰ اور طاقتیں ہیں۔ اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو،تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں، تو کب ممکن ہے…تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا۔امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی۔ اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں۔انسان دھوکہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جبکہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 190)

خواص الاشیاء۔ہمارے علم کی بنیاد

’’علوم ہیں ہی کیا؟صرف خواص الاشیاء ہی کا تو نام ہے۔ سیارہ، ستارہ، نباتات کی تاثیریں اگر نہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم پر ایمان لانا انسان کے لئے مشکل ہو جاتا۔

یہ ایک یقینی امر ہے کہ ہمارے علم کی بنیاد خواص الاشیاء ہے۔ اس سے یہ غرض ہے کہ ہم حکمت سیکھیں۔علوم کا نام حکمت بھی رکھا ہے۔چنانچہ فرمایا: وَ مَنْ یُّوْ تَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراً۔ (البقرہ:270)‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ79)

اشیاء کے خواص کی حکمت

فرماتے ہیں:
’’مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔ ڈاکٹر خوب جانتے ہیں۔ عبدالکریم نام ایک شخص میرے پاس آیا۔ اس کے پیٹ کے اندر ایک رسولی تھی، جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جاتی تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو بندوق مارکر مار دینا چاہئے۔الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی۔ مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے تو اسے خودہی دست لگ جاتے ہیں۔ انسان جہا ں تک ممکن ہو علم پڑھنے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے، لیکن بالآخر اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے کچھ ہی نہیں کیا…انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھو کہ عصبہ مجوفہ کو سب وہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلاؤ کہ کیا ہے؟ آواز کی ماہیت پوچھو تو یہ کہہ دیں گے کہ کان کے پردہ پر یوں ہوتا ہے اور ووں ہوتا ہے، لیکن ماہیت آواز خاک بھی نہ بتلا سکیں گے۔ آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے۔ کنہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے۔ دیکھئے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے، لیکن ہمارا سرٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیں چلا جاتا۔ ہم بھی سلامت ہیں اور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے۔پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں۔کون دم مار سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا شتاب کا روں اور نادانوں کا کام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداول ص57)

خواص کے پردہ میں محجوب اشیاء

’’زمین کی ہر ایک چیز بزبان حال اپنی ثنا کر رہی ہے مثلاً سنا کہتی ہے کہ میں دوسرے درجہ کے آخری حصہ میں گرم اور اول درجہ میں خشک اور بلغم اور سودا اور صفرا اور اخلاط سوختہ کا مسہل ہوں اور دماغ کی منقّی ہوں اور صرع اور شقیقہ اور جنون اور صداع کہنہ و درد پہلو و ضیق النفس و قولنج و عرق النساء و نقرس و تشنیع عضل وداء الثعلب ودا ء الحیہ اور حکہ اور جرب اور بثورکہنہ اور اوجاع مفاصل بلغمی و صفراوی مخلوط باہم اور تمام امراض سوداوی کو نافع ہوں اور ریوندبول رہی ہے کہ میں مرکب القویٰ ہوں اور دوسرے درجہ کی پہلے مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور بالعرض مبرد بھی بوجہ شدت تحلیل ہوں اور رطوبات فضلیہ اپنے اندر رکھتی ہوں مجفف ہوں قابض ہوں جالی ہوں اور منضج اور مقطع موادلزجہ ہوں اور سموم باردہ کا تریاق ہوں خاص کر عقرب کیلئے اور اخلاط غلیظہ اور رقیقہ کا مسہل ہوں اور حیض اور بول کی مدر ہوں اور جگر کو قوت دیتی ہوں اور اس کے اور نیز طحال اور امعاء کے ُسدے کھولتی ہوں اور ریحوں کو تحلیل کرتی ہوںاور پرانی کھانسی کو مفید ہوں اور ضیق النفس اور سل اور قرحہ ریہ و امعاء اور استسقاء کی تمام قسموں اور یرقان سدی اور اسہال سدی اور ماساریقا اور ذوسنطاریا اور تحلیل نفخ اور ریاح اور اور ام باردہ احشا و تخمہ و مغص و بواسیر و نواسیر و تپ ربع کو مفید ہوں۔اور جدوار کہتی ہے کہ میں تیسرے درج ہ کے اول مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور حرارت غریزی سے بہت ہی مناسبت رکھتی ہوں اور مفرح اور مقوی قویٰ اور اعضاء رئیسہ دل اور دماغ اور کبد ہوں اور احشاء کی تقویت کرتی ہوں اور تمام گرم اور سرد زہروں کا تریاق ہوں اور اسی وجہ سے زرنباد اور مشک اور زنجبیل کا قلیل حصہ اپنے ساتھ ملا کر تیزاب گو گرد اور آب قاقلہ سفید اور آب پودینہ اور آب بادیان کے ساتھ ہیضہ و بائی کو باذن اللہ بہت مفید ہوں اور مسکن اوجاع اور مقوی باصرہ ہوں اورتفتیت حصاۃ اور قلع قولنج و عسر البول و رفع تپ ربع میں نفع رکھتی ہوں اور بقدر نیم مثقال گزیدہ مار اور عقرب کے لئے بہت ہی فائدہ مند ہوں یہاں تک کہ عقرب جرارہ کی بھی زہردور کرتی ہوں اور بید مشک اور عرق نیلوفر کے ساتھ دل کے ضعف کو بہت جلد نفع پہنچاتی ہوں اور کم ہوتی ہوئی نبض کو تھام لیتی ہوں اور گلاب کے ساتھ وجع مفاصل کو مفید ہوں اور سنگ گردہ اور مثانہ کو نافع ہوں اگر بول بند ہو جائے تو شیرہ تخم خیارین کے ساتھ جلد اس کو کھول دیتی ہوں اور قولنج ریحی کو مفید ہوں اور اگر بچہ پیدا ہونے میں مشکل پیش آجائے تو آب عنب الثعلب یا حلبہ یا شیرہ خار خسک کے ساتھ صرف دو دانگ پلانے سے وضع حمل کرا دیتی ہوں اور ام الصبیان اور اکثر امراض دماغی اوراعصابی کو مفید ہوںاوراورام مغابن یعنی پس گوش اور زیر بغل اور بن ران اور خناق اور خنازیراور تمام اورام گلو کو نفع پہنچاتی ہوں اور طاعون کے لئے مفید ہوں اور سرکہ کے ساتھ پلکوں کے ورم کو نفع دیتی ہوں اور دانتوں پر ملنے سے ان کے اس درد کو ساکن کر دیتی ہوں اور آنکھ میں چکانے سے رمد باردکو دور کر دیتی ہوں اور احلیل میں چکانے سے نافع حبس البول ہوں اور مشک وغیرہ ادویہ مناسبہ کے ساتھ باہ کیلئے سخت موثر ہوں اور صرع اور سکتہ اور فالج اور لقوہ اور استرخاء اور رعشہ اور خدر اور اس قسم کی تمام امراض کو نافع ہوں اوراعصاب اور دماغ کے لئے ایک اکسیر ہوں اور اگر میں نہ ملوں تو اکثر باتوں میں زرنباد میرا قائم مقام ہے۔

غرض یہ تمام چیزیں بزبان حال اپنی اپنی تعریف کر رہی ہیں اور محجوب بانفسہاہیں یعنی اپنے خواص کے پردہ میں محجوب ہیں اس لئے مبدء فیض سے دور پڑگئی ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5ص164۔163 )

ہزاروں بوٹیاں اور انسانی فطرت

دیسی جڑی بوٹیوں کی اہمیت اور ان کے کارآمد ہونے کے حوالے سے فرمایا:

’’جیسا بوٹیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور جمادات میں بھی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں۔ کوئی چاندی کی کان ہے، کوئی سونے کی، کوئی تانبے اور لوہے کی۔ اسی طرح پر انسانی فطرتیں مختلف قسم کی ہیں۔ بعض انسان اس قسم کی فطرت رکھتے ہیں کہ وہ ایک گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض کسی اور قسم کے گناہ سے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص15)

دیسی جڑی بوٹیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں

سیر میں برلب سڑک خود رو بوٹیوں کی طرف اشارہ کر کے اور حضرت مولوی حکیم نور الدیؓن کو مخاطب کر کے حضرت اقدس نے فرمایا کہ:

’’یہ دیسی بوٹیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ بوٹیاں بہت مفید ہیں۔ گندلوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہندو فقیر لوگ بعض اسی کو جمع کر رکھتے ہیں اور اسی پر گزارا کرتے ہیں۔ یہ بہت مقوی ہے اور اس کے کھانے سے بواسیر نہیں ہوتی۔ ایسا ہی کنڈیاری کے فائدے بیان کئے جو پاس ہی تھی۔‘‘

حضرت نے فرمایا کہ:

’’ہمارے ملک کے لوگ اکثر ان کے فوائد سے بے خبر ہیں اور اس طرح توجہ نہیں کرتے کہ ان کے ملک میں کیسی عمدہ دوائیں موجود ہیں جو کہ دیسی ہونے کے سبب ان کے مزاج کے موافق ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5ص196)

سفوف بھلاوہ کی افادیت

سفوف بھلاہ کا ذکر تھا۔فرمایا:

’’باہ کے مایوسوں کے واسطے مفید ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص529)

علم اور طبیعت کی مناسبت

مختلف علوم کے فلسفہ اور ان کے سائنسی عجائبات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’بعض کی فطرت علم حساب اور ہندسہ سے ایک مناسبت رکھتی ہے اور بعض کی علم طب سے اور بعض کی علم منطق اور کلام سے لیکن خود بخود یہ استعداد مخفیہ کسی کو محاسب اور مہندس یا طبیب اور منطقی نہیں بنا سکتی بلکہ ایسا شخص تعلیم استاد کا محتاج ہوتا ہے، اور پھر دانا استاد جب اس شخص کی طبیعت کو ایک خاص علم سے مناسبت دیکھتا ہے تو اس کے پڑھنے کی اس کو رغبت دیتا ہے اس کے مناسب یہ شعر ہے کہ

ہر کسے را بہر کارے ساختند
میل طبعش اندران اندا ختند‘‘

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6ص19ح)

علم عمل الترب کے خواص

’’علم عمل الترب ایک عظیم الشان علم ہے جوطبیعی کا ایک روحانی حصہ ہے جس میں بڑے بڑے خواص اور عجائبات پائے جاتے ہیں اور اس کی اصلیت یہ ہے کہ انسان جس طرح باعتبار اپنے مجموعی وجود کے تمام چیزوں پر خلیفۃاللہ ہے اور سب چیزیں اس کے تابع کر دی گئی ہیں اسی طرح انسان جس قدر اپنے اندر انسانی قویٰ رکھتا ہے تمام چیزیں ان قویٰ کی اس طرح پر تابع ہیں کہ شرائط مناسبہ کے ساتھ ان کا اثر قبول کر لیتی ہیں…اور یاد رکھنا چاہئے کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب بتلارہے ہیں کہ انسان میں جمیع کائنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 ص504)

انسان عالم صغیر ہے

فرمایا: ’’جاننا چاہئے کہ انسان بھی ایک عالم صغیر ہے اور عالم کبیر کے تمام شیون اور صفات اور خواص اور کیفیات اس میں بھری ہوئی ہیں جیسا کہ اس کی طاقتوں اور قوتوں سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ہر ایک چیز کی طاقت کا یہ نمونہ ظاہر کر سکتا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5ص173)

نادر الوقوع عجائبات

فرمایا: ’’بڑی غلطی جو حکما کو پیش آتی ہے اور بڑی بھاری ٹھوکر جو ان کو آگے قدم رکھنے سے روکتی ہے یہ ہے کہ وہ امور کثیر الوقوع کے لحاظ سے نادرالوقوع کی تحقیق کے درپے نہیں ہوتے اور کچھ ان کے آثار چلے آتے ہیں ان کو صرف قصے اور کہانیاں خیال کر کے اپنے سر پر سے ٹال دیتے ہیں حالانکہ یہ قدیم سے عادت اللہ ہے جو امور کثیر الوقوع کے ساتھ نادر الوقوع عجائبات بھی کبھی کبھی ظہور میں آتے رہتے ہیں اس کی نظیریں بہت ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے اور حکیم بقراط نے اپنی ایک طبی کتاب میں چند چشم دید بیماروں کا بھی حال لکھا ہے۔جو قواعد طبی اور تجربہ اطباء کے رو سے وہ ہر گزقابل علاج نہیں تھے مگر ان بیماروں نے عجیب طور پر شفاپائی جس کی نسبت ان کا خیال ہے کہ یہ شفا بعض نادر تاثیرات ارضی یا سماوی سے ہے۔اس جگہ ہم اس قدر اور لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بات صرف نوع انسان میں محدود نہیں کہ کثیر الوقوع اور نادر الوقوع خواص کا اس میں سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اگر غور کر کے دیکھیں تو یہ دوہرا سلسلہ ہر یک نوع میں پایا جاتا ہے مثلاً نباتات میں سے آک کے درخت کو دیکھو کہ کیسا تلخ اور زہر ناک ہوتا ہے مگر کبھی مدتوں اور برسوں کے بعد ایک قسم کی نبات اس میں پیدا ہو جاتی ہے جو نہایت شیریں اور لذیذ ہوتی ہے اب جس شخص نے اس نبات کو کبھی نہ دیکھا ہو اور معمولی قدیمی تلخی کو دیکھتا آیا ہو بے شک وہ اس نبات کو ایک امر طبعی کی نقیض سمجھے گا ایسا ہی بعض دوسری نوع کی چیزوں میں بھی دور دراز عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی خاصہ نادر ظہور میں آجاتا ہے کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ مظفرگڑھ میں ایک ایسا بکرا پیدا ہوا کہ جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد2ص98)

علوم فلسفہ طب بذریعہ اہل عرب آئے

فرمایا: ’’انگریزوں کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ انگلستان میں علوم و فنون کا پودہ عرب کے عالیشان مدارس سے آیا ہے اور دسویں صدی میں جب کہ یورپ جہالت میں پڑا ہوا تھا۔اہل یورپ کو تاریکی جہالت سے علم و عقل کی روشنی میں لانے والے مسلمان ہی تھے۔(دیکھو صفحہ95 کتاب جان ڈیون پورٹ صاحب) ایسا ہی رائے بہادر ڈاکٹر چیتن شاہ صاحب آنریری سرجن اور ڈاکٹر دتامل صاحب سول سرجن پنجاب ریویو جلد نہم میں لکھتے ہیں کہ اہل یورپ کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تمام علوم فلسفہ طب وغیرہ بذریعہ اہل عرب ان تک پہنچے ہیں۔ کیمسٹری یعنے علم کیمیا بھی اہل یورپ نے عروج سلطنت اسلامیہ میں عربوں سے حاصل کیا ہے۔ اگرچہ ہندی طبابت نے (جو بزعم آریوں کے ویدوں سے لی گئی ہے) جو ہماری اپنی وطنی طبابت ہے یونانی اور انگریزی طبابت سے کوئی چیز عاریتاً نہیں لی۔‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد2ص362)

پیوند کاری اور انسانی صانعیت

فرمایا: ’’یورپ کے اکثر کاریگر دانتوں کی جگہ دانت اور آنکھ کی پتلی کی جگہ آنکھ کی پتلی اور ٹانگوں کی جگہ ٹانگ اور بالوں کی جگہ مصنوعی بال لگا کر گزارہ چلا دیتے ہیں۔ بعض حکیموں نے چاند بنا کراور چڑھا کر محدود حد تک اس کی روشنی سے کام لیا ہے بعض نے پرند بنا کر کنجی دینے سے ایک حد تک انہیں اڑا کر دکھلا دیا ہے اور بعض نے مینہہ برسنے کی ترکیب نکالی اور کسی حدکے اندر اندر مینہہ برسادیا ایسا ہی قسم قسم کے پھول اور پھل اور موتی و دیگر جوہرات ایسے بنائے گئے ہیں جو دیکھنے والوں کو حیران کر دیا ہے اور ابھی انسان کی صانعیت کی کچھ انتہا نہیں کیونکہ وہ ترقیات غیر محدود کے لئے پیدا کیا گیا ہے جن کی تحصیل کے لئے وہ فطرتاً مشغول ہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد 2ص 201)

کیمرہ کے ذریعہ امراض کی تشخیص

فرمایا: ’’یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت ﷺ کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھا اور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وجع المفاصل و نقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اورمرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈیوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہل فراست کے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21ص366)

نیک نطفہ پر روح القدس کا اثر

فرمایا: ’’جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر روح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے۔‘‘

(رسالہ دعوت قوم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ56)

انسانی جسم میں سلسلہ تحلیل

’’کَانَایَاْ کُلٰنِ الطَّعَامَ

(المائدہ:76)

یعنی وہ دونوں حضرت مسیحؑ اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے۔اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقات قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پا کر معدوم ہو جاتا ہے اور دوسرا بدن بدل مایتحلل ہو جاتاہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کابھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پر اپنا اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے جیسے اگر روح کو یکدفعہ کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آثار یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے اور کبھی جسم کے آثار ہنسنے رونے کے روح پر پڑتے ہیں۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ92)

علم طب کی حقیقت، کرشمے اور فوائد کے بارے میں حضرت اقدس فرماتے ہیں:

طبابت بہت عمدہ پیشہ ہے

فرمایا ’’تحصیل دین کے بعد طبابت کا پیشہ بہت عمدہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص334)

مامور وقت کے یہ الفاظ طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے ایک سنہری سر ٹیفیکیٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔

عمیق در عمیق طب

’’ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں۔ جو طب جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں۔ قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طب جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہائت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں۔‘‘

(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد 23 ص103)

طب کے وراء محکمہ

طب تو ظاہری محکمہ ہے۔ ایک اس کے وراء محکمہ پردہ میں ہے جب تک وہاں دستخط نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔

(ملفوظات جلد 4ص353)

ہرقوم کو طب سے استفادہ کرنا چاہئے

چند مولوی اور مدرسہ طبیہ کے چند طالب علم اور طبیب آئے۔طب کا ذکر درمیان میں آیا۔ حضرت نے فرمایا کہ:

(مومنوں) کو انگریزی طب سے نفرت نہیں کرنی چاہئے۔ اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ حکمت کی بات تو مومن کی اپنی ہے۔ گم ہو کر کسی اور کے پاس چلی گئی تھی۔ پھر جہاں سے ملے جھٹ قبضہ کرلے اس میں ہمارا یہ منشا نہیں کہ ہم ڈاکٹری کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہئے کہ مفید بات جہاں ملے وہیں سے لے لے۔ ہندی، جاپانی، یونانی، انگریزی ہر طب سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے اور اس شعر کا مصداق اپنے آپ کوبنانا چاہئے۔

تمتع ز ہر گوشہ یا فتم
زہر خرمنے خوشہ یا فتم

تب ہی انسان کامل طبیب بنتا ہے۔طبیبوں نے تو عورتوں سے بھی نسخے حاصل کئے ہیں… لَیْسَ الْحَکِیْمُ اِلَّا ذُوْ تَجْرِبَۃٍ لَیْسَ الْحَلِیْمُ اِلاَّذُوْعُسْرَۃٍ ۔حکیم تجربہ سے بنتا ہے اور حلیم تکالیف اٹھاکر حلم دکھانے سے بنتا ہے اور یوں تو تجربوں کے بعد انسان رہ جاتا ہے کیونکہ قضا و قدر سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔

(ملفوظات جلد4ص507)

طبی کرشمے اور عجائبات

فرمایا: ’’مسیح کے معجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہٰی کا پتہ نہیں لگتا ۔جبکہ آج اس سے بڑھ کر طبی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا۔جس میں ایک وقت غسل کرنے والے شفا پا لیتے تھے اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں اور ہمارے ہندستان میں بھی بعض چشموں یا کنوؤں کے پانی میں ایسی تاثیریں ہوتی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ کنوئیں کے پانی سے جذامی اچھے ہونے لگے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2ص85)

طبابت ظنی علم ہے

فرمایا: ’’علم طبابت ظنی ہے۔ کسی کو کوئی دوا پسند کسی کو کوئی۔ ایک دوا ایک شخص کے لئے مضر ہوتی ہے دوسرے کے لئے وہی دوا نافع، دوائیوں کا راز اور شفا دینا خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی کو یہ علم نہیں۔ کل ایک دوائی میں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا ’’خطرناک‘‘ دوائیں اندازہ کرنے پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ضرورتوں کو لینا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5ص437)

بعض ادویہ کی بعض کے ساتھ مناسبت

طب اور معالجات کا تذکرہ تھا۔فرمایا:

’’یہ سب ظنی باتیں ہیں علاج وہی ہے جو خداتعالیٰ اندر ہی اندر کر دیتا ہے جو ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ علاج یقینی ہے وہ اپنے مرتبہ اور حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھتا ہے۔ بقراط نے لکھا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک بیمار آیا میں نے بعد دیکھنے حالات کے حکم لگایا کہ یہ ایک ہفتہ کے بعد مر جائے گا۔تیس سال کے بعد میں نے اس کو زندہ پایا۔

بعض ادویہ کو بعض کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ اسی بیماری میں ایک کے واسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے۔جب برے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سوجھتا۔ اسی واسطے (مومن) جب ان علوم کے وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی۔ نبض دیکھنے کے وقت سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتََنَا (البقرہ:33) کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھوالشافی لکھنا شروع کیا۔‘‘

(ملفوظات جلد4ص296)

علاج کی پانچ صورتیں

اسی طرح فرمایا:۔

’’علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں دوا سے، غذا سے، عمل سے، پر ہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہے وہ توجہ ہے… … دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص280)

دوران خون کا مسئلہ

’’دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔دل پر مداردوران خون کا ہے۔آجکل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دوران خون کامسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص170)

حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے روحانی علوم کے قیمتی موتیوں اور لعل و جواہر سے مزین خزائن عطا فرمائے اور ساتھ ہی دنیا وی علوم کی تفصیلات اور حقائق سے بھی آگاہ فرمایا۔ ان علوم میں علم طب سرفہرست ہے جس کے ایسے اصول خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے جو اس زمانہ میں اور کسی کے حصہ میں نہ آئے۔ قبل اس کے کہ دائمی شان کے حامل ان طبی اصولوں کو سپرد قرطاس کیا جائے حضرت اقدس ہی کے پیش فرمودہ اس اہم علم کے بنیادی حقائق، امراض، اس کی اقسام، حکمت اور ان کے علاج اور فلسفہ کے اصولوں سے آگاہی ضروری ہے۔

مرض کی اقسام

’’مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف ۔مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے۔اس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مختلف کی چنداں پروا نہیں کرتا۔اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان کو محسوس بھی نہیں کرتا۔اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خداتعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص529)

بعض عجیب و غریب امراض

’’مختلف امراض اس قسم کے ہیں کہ ان میں انسان کی پیش نہیں جاتی۔ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اس نے بیان کیا کہ میرے پیٹ میں رسولی پیدا ہوئی ہے۔ اور وہ دن بدن بڑھ کر پاخانہ کے راستہ کو بند کرتی جاتی ہے۔ جس ڈاکٹر کے پاس میں گیا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ اگر یہ مرض ہمیں ہوتی تو ہم بندوق مارکر خود کشی کر لیتے۔آخر وہ بیچارہ اسی مرض سے مرگیا۔

بعض لوگ ایسے مسلول ہوتے ہیں کہ ایک ایک پیالہ پیپ کا اندر سے نکلتا ہے۔ایک دفعہ ایک مریض آیا اس کی یہی حالت تھی۔ صرف اس کاپوست ہی رہ گیا تھااور سمجھدار بھی تھا مگر تاہم وہ یہی خیال کرتا تھا کہ میں زندہ رہوں گا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص437)

انبیاء کی خبیث امراض سے حفاظت

’’انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً آتشک ہو، جذام ہو یا اور کوئی ایسی ذلیل مرض۔ یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کو ہوتی ہیں۔ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبْیِثْیِنَ (النور:27) اس میں عام لفظ رکھا ہے اور نکات بھی عام ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص397)

بیمار پر دم کرنا

’’ایک شخص نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جائے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اس کو شفاء ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا بے شک قرآن شریف میں شفاء ہے روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے۔ مگر اس طرح کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے۔ قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خداتعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔‘‘

(بدر2۔اکتوبر1906ء)

بیماریوں کی کثرت کا فلسفہ

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیماریوں کی کثرت کا فلسفہ درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے:۔

’’اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تاکہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارض اور امراض میں گھرا ہوا پاکر اللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے ثباتی کا ہر دم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اور خدا سے بے پرواہ نہ ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ ص217)

اس ضمن میں مزید ہدایت فرمائی:۔

’’سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا توبہ و استغفار بہت کرنی چاہئے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ242)

’’ہر ایک مرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوتا ہے جب اللہ چاہتا ہے مرض مٹ جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص295)

حضرت اقدس نے اپنے ملفوظات میں خصوصاً بیماری سے شفا کے لئے دعاؤں کی بار بار تحریک فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:۔

’’میں بہت دعا کرتا ہوں۔ دعا ایسی شے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لاعلاج کہہ دیتے ہیں ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص265)

لاکھوں بیماریاں

حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی قدر بھی احتیاط کرے بیماریاں اتنی زیادہ اور مختلف اقسام کی ہیں کہ اگر اللہ کا فضل اُسے نہ بچائے تو بچنا ممکن نہیں ہے۔ اور پھر ایک بیماری کا علاج دس نئی بیماریوں کی بنیاد بن جاتا ہے اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں۔

’’ہمارے والدصاحب مرحوم بھی مشہور طبیب تھے جن کا پچاس برس کا تجربہ تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حکمی نسخہ کوئی نہیں اور اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ تصرف اللہ کا خانہ خالی رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے والا سعادت مند ہے۔ انسان مصیبت میں بددماغ نہ ہو اور غیر اللہ پر بھروسہ نہ کرے۔ یکدفعہ ہی خفیف عوارض شدید ہونے لگ جاتے ہیں۔ کبھی قلب کا علاج کرتے کرتے دماغ پر آفت آ جاتی ہے کبھی سردی کے پہلو پر علاج کرتے کرتے گرمی کا زور چڑھ جاتا ہے۔ کون ان بیماریوں پر حاوی ہو سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرنا چاہئے۔ انسان ان حشرات الارض اور سمّیات کو کب گن سکتا ہے۔ صرف بیماریوں کو بھی نہیں گن سکتا۔ لکھا ہے کہ صرف آنکھ ہی کی تین ہزار بیماریاں ہیں۔ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایسے طور پر غلبہ کرتی ہیں کہ ڈاکٹر نسخہ ہی نہیں لکھ چکتا جو بیمار کا خاتمہ ہو جاتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 166)

بیماریاں جہنم کا نمونہ بھی ہیں

’’برخلاف اس کے جو کچھ حالت انسان کی ہے وہ جہنم ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے۔ پھر حدیث شریف سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے۔ امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو لاحق حال ہوتے ہیں یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہے اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں اور جزا و سزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور …۔ مثلاً جذام ہی کو دیکھو کہ اعضاء گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضاء سے جاری ہے۔ آواز بیٹھ گئی ہے۔ ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے۔ پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں۔ عزیز سے عزیز بیوی، فرزند، ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پتھریاں ہو جاتی ہیں اور پیٹ میں رسولیاں ہو جاتی ہیں۔ یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتی ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اُس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پروا نہیں کرتا ہے۔ اُس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 372)

وبائی امراض

عربی سے ترجمہ:

حضرت اقدس ؑفرماتے ہیں:

‘‘ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ بعض مرضیں مثلاً آتشک کی بیماری ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور ایک آتشک زدہ عورت سے مرد کو آتشک ہوجاتی ہے اور ایسا ہی مرد سے عورت کو اور یہی صورت ٹیکا لگانے میں بھی مشاہدہ ہوتی ہے کیونکہ جس پر چیچک والے کے خمیر سے ٹیکا کا عمل کیا جاوے اس کے بدن پر بھی آثار چیچک ظاہر ہو جاتے ہیں پس یہی تو عدوی ہے سو ہم کیوں کر اس کا انکار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا انکار علوم حسیہ بدیہیہ کا انکار ہے جو تجارب طبیہ سے ثابت ہو چکے ہیں اور ان میںان بچوں کو بھی شک نہیں رہا جو کوچوں میں کھیلتے پھرتے ہیںچہ جائے کہ عقلمند مردوں کو کچھ شک ہو۔‘‘

(نورالحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد 8صفحہ14)

ایک عجیب مرض

’’طبیبوں نے ایک مرض لکھی ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ انسان جب چھینک لے تو اس کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص244)

باریک در باریک بیماریاں

’’یاد رکھنا چاہئے کہ انسان ایک نہایت ہی کمزور ہستی ہے۔ ایک ہی بیماری میں باریک در باریک اور بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ انسان غلطی سے کب تک بچ سکتا ہے انسان بڑا کمزور ہے۔ غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اکثر اوقات تشخیص میں ہی غلطی ہو جاتی ہے اور اگر تشخیص میں نہیں ہوتی تو پھر دوا میں ہو جاتی ہے۔ غرض انسان نہایت کمزور ہستی ہے غلطی سے خود بخود نہیں بچ سکتا۔ خداتعالیٰ کا فضل ہی چاہئے۔ اس کے فضل کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص278)

دوا اور تدبیر

’’کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو۔ اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو۔ سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔ تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہو گا جوخدا کا ارادہ ہو گا۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ 13)

بیماری بطور سزا اور عذاب

’’جب دنیا میں فسق و فجور پھیل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لوگ دور جا پڑتے ہیں اور اس سے لاپروا ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی پروا نہیں کرتا ہے۔ ایسی صورت میں پھر اس قسم کی وبائیں بطور عذاب نازل ہوتی ہیں ان بلاؤں اور وباؤں کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیا پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور عظمت ظاہر ہو اور فسق و فجور سے لوگ نفرت کر کے نیکی اور راستبازی کی طرف توجہ کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کی طرف جو اس وقت دنیا میں موجود ہوتا ہے توجہ کریں۔ اس زمانہ میں بھی فسق و فجور کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا ہے۔ راستبازی، تقویٰ عفت اور خدا ترسی اور خداشناسی بالکل اُٹھ گئی تھی۔ دین کی باتوں پر ہنسی کی جاتی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جو اُس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی زبان پر کیا تھا کہ مسیح موعود کے وقت دنیا میں مری بھیجوں گا اس طاعون کو اصلاح خلق کے لئے مسلّط کیا ہے۔ طاعون کو برا کہنا بھی گناہ ہے یہ تو خداتعالیٰ کا ایک مامور ہے جیسا کہ مَیں نے ہاتھی والی رویا میں دیکھا تھا، لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ باجود اس کے کہ بعض دیہات بالکل برباد ہوگئے ہیں اور ہر جگہ یہ آفت برپا ہے تو بھی ان شوخیوں، شرارتوں اور بیباکیوں میں فرق نہیں آیا جو اس سے پہلے بھی تھیں۔ مکرو فریب، ریاکاری بدستور پھیلی ہوئی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ634)

بیماریوں کے فوائد

اللہ تعالیٰ نے بیماریوں اور تکالیف کا یہ سارا سلسلہ بھی بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں بھی انسان کیلئے رحمت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک غیر مومن کیلئے جہاں بیماری مصیبت دکھائی دیتی ہے وہیں ایک مومن ان تکالیف کی وجہ سے خداتعالیٰ کے قرب کے مدارج طے کرتا ہے۔ کثرت سے دعاؤں کی طرف توجہ ہوتی ہے اور ہر لمحہ خدا تعالیٰ یاد رہتا ہے۔

بیماریوں کے ذکر پر فرمایا کہ:

’’بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النسا: 29) انسان چند روز کیلئے زندہ ہے۔ ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جو حی و قیوم ہے۔ جب وقت موعود آ جاتا ہے تو ہر ایک چیز السلام علیکم کہتی اور سارے قویٰ رخصت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ 240)

بیماریوں کی حکمت

ان مختلف امراض اور عوارض کے ذکر پر جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں فرمایا کہ:

’’اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ چند ایک بیماریاں ہی انسان کو لاحق کر دیتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے امراض ہیں جن میں وہ مبتلا ہوتا ہے۔ اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تا کہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارض اور امراض میں گھرا ہوا پا کر اللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے ثباتی کا ہر دم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اورخدا سے بے پروا نہ ہو جاوے‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 217)

پہلے مرض پھر طبیب کی شناخت

’’طبیب اس امر کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اول اپنے مرض کو شناخت کرے اور محسوس کرے کہ میں بیمارہوں اور پھر یہ شناخت کرے کہ طبیب کون ہے؟ جب تک یہ دو باتیں پیدا نہ ہوں وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مرض مختلف ہوتا ہے جیسے قولنج کا درد یعنی جو محسوس ہوتا ہے اور ایک مستوی جیسے برص کے داغ کہ ان کا کوئی درد اور تکلیف بظاہر محسوس نہیں ہوتی۔ انجام خطرناک ہوتا ہے مگر انسان ایسی صورتوں میں ایک قسم کا اطمینان پاتا ہے اور اس کی چنداں فکر نہیں کرتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان اول اپنے مرض کو شناخت کرے اوراسے محسوس کرے۔ پھر طبیب کو شناخت کرے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی معمولی حالت پر راضی ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص80)

امراض بدنی کے لئے ادویہ

’’یہ بات بتوجہ تمام یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے خدا نے امراض بدنی کے لئے بعض ادویہ پیدا کی ہیں اور عمدہ عمدہ چیزیں جیسے تریاق وغیرہ انواع اقسام کے آلام اسقام کے لئے دنیا میں موجود کی ہیں اور ان ادویہ میں ابتدا سے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جب کوئی بیمار بشرطیکہ اس کی بیماری درجہ شفایابی سے تجاوز نہ کرگئی ہو ان دواؤں کو برعایت پرہیز وغیرہ شرائط استعمال کرتا ہے تو اس حکیم مطلق کی اسی پر عادت جاری ہے کہ اس بیمار کو حسب استعداد اور قابلیت کسی قدر صحت اور تندرستی سے حصہ بخشتا ہے یا بکلی شفا عنایت کرتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، حاشیہ در حاشیہ روحانی خزائن جلد 1ص 354)

عیاشیوں کے ذریعہ مہلک امراض

’’اکثر لوگ دنیا کی نفسانی عیاشیوں میں اس خوش حالی کو طلب کرتے ہیں اور دن رات میخواری اور شہوات نفسانیہ کا شغل رکھ کر انجام کار طرح طرح کی مہلک امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور آخر کار سکتہ، فالج، رعشہ اور کزاز اور یا انتڑیوں یا جگر کے پھوڑوں میں مبتلاہو کر اور یا آتشک اور سوزاک کی قابل شرم مرض سے اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اور بباعث اس کے کہ ان کی قومیں قبل از وقت تحلیل ہو جاتی ہیں۔اس لئے وہ طبعی عمر سے بھی بے نصیب رہتے ہیں۔‘‘

(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20ص359)

مرگی کو ام الصبیان کہتے ہیں

’’مرگی کی بیماری کے مبتلااکثر شیاطین کو اسی طرح دیکھا کرتے ہیں وہ بعینہ ایسا ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ ہمیں شیطان فلاں فلاں جگہ لے گیا اور یہ یہ عجائبات دکھلائے اور مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بد صورت کھڑا ہے۔اول اس نے میری طرف توجہ کی اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دور ہو اے شیطان تیرا مجھ میں حصہ نہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کر لیا اور جس کو ساتھ کر لیا اس کو میں جانتا تھا اتنے میں آنکھ کھل گئی اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کر لیا تھا اور صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا اس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے…مرگی کو فن طبابت میں ام الصبیان کہتے ہیں یعنی بچوں کی ماں۔‘‘

(معیار المذاہب جلد9 ص483 حاشیہ)

مریض کا ہوش

’’بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق و سل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص433)

ذات الجنب کی وجہ سے بخار

’’جب مرض الموت کاوقت آجاوے تو وہ وقت دعا کا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیتا ہے۔اسی طرح پر جو حالتیں مہلک بیماریوں کی ہوتی ہیں ان میں بھی نظر آجاتا ہے مگر خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ مولوی (عبدالکریم سیالکوٹی)صاحب کے معاملہ میں ایک عجیب بات دیکھی گئی کہ ان کی اصل مرض سرطان جس کو انگریزی میں کاربنکل کہتے ہیں بالکل اچھا ہو گیا بلکہ خود انہوں نے ہاتھ پھیر کر دیکھا اور یہی کہتے رہے کہ اب میں دو چار روز میں پھرنے لگوں گا۔آخر ذات الجنب کی وجہ سے سخت بخار ہو گیا جو ایک سو چھ درجہ تک پہنچ گیا اور اسی عارضہ میں وفات پائی۔‘‘

(ملفوظات جلدچہارم ص487)

تداخل طعام بیماری کا موجب

24 دسمبر 1901ء کو آپ نے ایک آسٹریلوی سیاح عبدالحق صاحب سے دوران گفتگو فرمایا:۔

’’تداخل طعام درست نہیں ہے یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ اور کھا لیا پھر کچھ اور۔ اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوء ہضم ہو کر ہیضہ یا قے یا کسی اور بیماری کی نوبت آجائے ۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص81)

دوران خون کا مسئلہ

’’دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔ دل پر مداردوران خون کا ہے۔آجکل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دوران خون کامسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص170)

امراض جہنم کا نمونہ

’’حدیث شریف سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے۔امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو لاحق حال ہوتے ہیں۔یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہے اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں اور جزا و سزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور کفارہ جیسے لغو مسئلہ کی تردید کریں۔ مثلاً جذام ہی کو دیکھوکہ اعضاء گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضاء سے جاری ہے۔ آواز بیٹھ گئی ہے۔ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے۔پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں۔ عزیز سے عزیز بیوی، فرزند، ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ بعض اور خطرناک امراض میں مبتلاہو جاتے ہیں۔ پتھریاں ہو جاتی ہیں اور پیٹ میں رسولیاں ہوجاتی ہیں۔یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتی ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پروانہیں کرتا ہے۔ اس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص372)

سلب امراض اور سلب ذنوب میں فرق

’’علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں۔ دوا سے، غذا سے، عمل سے، پرہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہوتا ہے،وہ توجہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلب امراض کیا کرتے تھے۔………ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو جہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلب امراض ہوتا تھا، مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہوتا تھا۔……جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے۔ مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی۔اس لئے سلب ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی۔ کہ جو جماعت انہوں نے تیار کی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی۔ اور یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی بااثر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سو برس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اس وقت میں رکھتی تھی۔ مسیح اس میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص280)

پیشاب کی بیماری

مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سلمہ ربہ کو کثرت پیشاب کی دو تین دن سے پھر شکایت ہوگئی ہے اور آج اعلیٰ حضرت نے ان کا قارورہ منگوا کر دیکھا تھا جو کثیر مقدار میں تھا۔اس کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب کو مخاطب کر کے جو کچھ فرمایا اس سے آپ کی کمال شفقت اور ہمدردی کا ثبوت ملتا ہے اس لئے میں خلاصتہً اسے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں۔ فرمایا:

’’میں آپ کا پیشاب دیکھ کر بہت حیران ہو گیا۔میں نے تو اس کے بعد دعا ہی شروع کر دی اور انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔

مجھے خود چونکہ کثرت پیشاب کی شکایت ہے میں جانتا ہوں کہ کس قدر تکلیف ہوئی دل گھٹتا ہے اور پنڈلیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ بہت بے چینی اور گھبراہٹ ہو جاتی ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس رسالہ (براہین احمدیہ حصہ پنجم) کو ختم کرلینے کے کچھ دنوں تک صرف دعا ہی میں لگا رہوں گا۔

میں نے جو گولی آپ کو بنا کر دی تھی وہ مفید ثابت ہوئی تھی۔ آپ اس کا استعمال کریں میں بھیج دوں گا اور ختم ہونے پر اور دوا تیار ہو سکتی ہے۔آپ دودھ کثرت سے پئیں۔ وہ اس مرض میں بہت مفید ہے اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔ آپ کے پیشاب کو دیکھ کر مجھے تو حیرت ہی ہوئی کہ آپ کس طرح التزام کے ساتھ نمازوں میں آتے ہیں اور آپ کی آواز سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو شکایت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص252)

احتراز وبائی امراض

’’جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں اور اپنی بدرؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اور کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچتے رہتے ہیں۔پس گویا وہ اس طرح پر یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے وعدے سے فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پرواہ نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں ان کو آپکڑتی ہیں۔‘‘

(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد14ص337)

اللہ اپنے بندوں کو بچا لیتا ہے

عربی سے ترجمہ: ’’وہ خداجو اندھیرے کے وقت اپنا نور بھیجتا ہے اور بیماری کی کثرت کے وقت دوا ظاہر کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بے قراری کی حالت میں بچا لیتا ہے……آپ جانتے ہیں کہ ہر یک بیماری کی ایک دوا اور ہر یک اندھیرے کے واسطے روشنی ہے سو میرے پروردگار نے اردہ کیا کہ دنیا کو اندھیرے کے بعد روشن کرے۔‘‘

(نور الحق حصہ اول،روحانی خزائن جلد8ص564)

بیمار مایوس نہ ہو

فرمایا ’’میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لاعلاج نہیں ہر ایک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے جس مرض کو طبیب لاعلاج کہتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سے بیماروں کو اطباء ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفاء پانے کے واسطے بیمار کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی۔ بعض بیمار بالکل مایوس ہو جاتے ہیں یہ غلطی ہے خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اس کے ہاتھ میں سب شفاء ہے…بیمارکو چاہئے کہ توبہ استغفار میں مصروف ہو انسان صحت کی حالت میں کئی قسم کی غلطیاں کرتا ہے۔ کچھ گناہ حقوق اللہ کے متعلق ہوتے ہیں۔ اور کچھ حقوق عباد کے متعلق ہوتے ہیں ۔ہر دوقسم کی غلطیوں کی معانی مانگنی چاہئے اور دنیا میں جس شخص کو نقصان بے جا پہنچایا ہو۔ اس کو راضی کرنا چاہئے اور خداتعالیٰ کے حضور میں سچی توبہ کرنی چاہئے توبہ سے یہ مطلب نہیں کہ انسان جنتر منتر کی طرح کچھ الفاظ منہ سے بولتا رہے ۔بلکہ سچے دل سے اقرار ہونا چاہئے کہ میں آئندہ یہ گناہ نہ کروں گا اور اس پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے تو خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ ستار ہے۔ بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے تمہیں ضرورت نہیں کہ مخلوق کے سامنے اپنے گناہوں کا اظہار کرو۔ ہاں خدا تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘

(بدر 4۔اکتوبر 1904ء)

مریضوں کے لئے ادویات کی فراہمی

’’طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم ہو، لیکن اگر ادویہ نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتا ہے۔ بڑی سوچ اور فکر سے ایک نسخہ لکھ دے گا لیکن بازار سے وہ دوا نہ ملے، تو کیا کرے گا۔ کس قدر فضل ہے کہ ایک طرف علم دیا ہے اور دوسری طرف نباتات، جمادات، حیوانات جو مریضوں کے مناسب حال تھے پیدا کر دئیے ہیں اور ان میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں جو ہر زمانہ میں نااندیشہ ضروریات کے کام آسکتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بھی غیر مفید پیدا نہیں کی اور نہ جس کے خواص محدود ہوں۔ یہاں تک کہ پسو اور جوں تک بھی غیر مفید نہیں۔ لکھا ہے کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو تو بعض وقت جوں کو احلیل میں دینے سے پیشاب جاری ہو جاتا ہے۔ انسان ان اشیاء کی مدد سے کہاں تک فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے؟‘‘

(ملفوظات جلد اول ص314)

وبائی امراض کا الہامی علاج

فرمایا: ’’مجھے الہام ہوا سَلَامٌ عَلیْکُمْ طِبْتُمْ

پھر چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا۔ اس کا علاج خداتعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا ورد کیا جاوے

یَاحَفِیْظُ۔ یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ

رفیق خداتعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسماء باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔‘‘

(البدرمورخہ 18ستمبر1903ء)

(ملفوظات جلد سوم ص426)

کوئی بیماری لا علاج نہیں

’’ایک بیمار حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا اور اس نے دعا کے واسطے عرض کی اور اپنی حالت پر مایوسی کا اظہار کیا۔

حضرت نے فرمایا:

’’میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لا علاج نہیں۔ ہر ایک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے جس مرض کو طبیب لا علاج کہتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سی بیماریوں کو اطباء اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفا پانے کے واسطے بیمار کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی بعض بیمار بالکل مایوس ہو جاتے ہیں۔یہ غلطی ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیںہونا چاہئے اس کے ہاتھ میں سب شفاء ہے۔

سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراس والے ایک ضعیف آدمی ہیں۔ ان کو مرض ذیابیطس بھی ہے اور ساتھ ہی کاربنکل نہایت خوفناک شکل میں نمودارہوا اور پھر عمر بھی بڑھاپے کی ہے۔ ڈاکٹروں نے نہایت گہرا چیرہ دیا اور ان کی حالت نہایت خطرناک ہوگئی یہانتک کہ ان کی نسبت خطرہ کے اظہار کے خطوط آنے لگے۔ تب میں نے ان کے واسطے بہت دعا کی تو ایک روز اچانک ظہر کے وقت الہام ہوا۔‘‘

آثار زندگی

’’اس الہام کے بعد تھوڑی دیر میں مدراس سے تار آیا کہ اب سیٹھ صاحب موصوف کی حالت روبصحت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص59)

بیمار اپنا علاج کرائے

’’بیمار کو چاہئے کہ اول اپنا علاج کرائے۔ اگر بیمار اپنا علاج نہ کرے اور چند قصے سننے لگے تو اس سے وہ اچھا نہ ہو جائے گا۔ ایک شخص جو اپنی خراب صحت کے سبب دو چار روز میں مرنے والا ہے اگر وہ کہے کہ میں امریکہ کی سیر کے واسطے جاتا ہوں تاکہ دنیا کے عجائبات دیکھوں تو یہ اس کی نادانی ہے۔ اس کو تو چاہئے کہ اول اپنا علاج کرائے۔جب تندرست ہو جائے تو پھر سیر بھی کر سکتاہے۔ حالت بیماری میں تو سیرو سیاحت اور بھی نقصاں رساں ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص105)

علاج اور توکل میں ہم آہنگی

علاج اور توکل میں ہر گز کو ئی تضاد نہیں چنانچہ فرماتے ہیں:۔

’’پیغمبر خدا ﷺ خود کس قدر متوکل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 406)

کوئی مرض ناقابل علاج نہیں

’’حدیث میں آیا ہے مَا مِنْ دَائٍ اِلَّا وَلَہ‘ دَوَائٌ ایک مشہور ڈاکٹر کا ہمیں قول یاد ہے وہ کہتا ہے کہ کوئی مرض بھی ناقابل علاج نہیں ہے بلکہ یہ ہماری سمجھ اور عقل و علم کا نقص ہے کہ ہمارے علم کی رسائی وہاں تک نہیں ہوتی۔ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرض کے واسطے بعض ایسے ایسے اسباب پیدا کئے ہوں جن سے وہ شخص جس کو ہم ناقابل علاج یقین خیال کرتے ہیں قابل علاج اور صحت یاب ہو کر تندرست ہو جاوے پس قطعی حکم ہر گز نہ لگانا چاہئے بلکہ اگر رائے ظاہربھی کرنی ہو تو یوں کہہ دو کہ ہمیں ایسا شک پڑتا ہے مگر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسے سامان پیدا کردے کہ جن سے یہ روک اٹھ جاوے اور بیمار اچھا ہو جاوے۔ دعا ایک ایسا ہتھیار خداتعالیٰ نے بنایا ہے کہ انہونے کام بھی جن کو انسان ناممکن خیال کرتا ہے ہو جاتے ہیں کیونکہ خدا کے لئے کوئی بات بھی انہونی نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص500)

ہر مرض کا علاج

’’یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘

(ملفوظات جلد5 ص102)

علاج کی پانچ صورتیں

اسی طرح فرمایا:۔

’’علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں دوا سے، غذا سے، عمل سے، پر ہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہے وہ توجہ ہے… … دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص280)

لاعلاج امراض کا علاج

’’جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لاعلاج کہہ دیتے ہیں۔ ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ 256)

علاج بذریعہ الہام

حضرت مسیح موعودفرماتے ہیں:۔

’’طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے لیکن یاد رکھو کہ مؤثر حقیقی خداتعالیٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہئے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت خداتعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلادیتا ہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتا ہے۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتادیتا ہے۔یہ اس کا فضل ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ53)

ِلکُلِّ دَا ءٍدَوَاءٌ کا وسیع مفہوم

’’ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے۔ِلکُلِّ دَاءٍ دَوَا ءٌ۔ افسوس !لوگ آپ ؐ کے اس مبارک قول کی قدر نہیں کرتے اور اس کو صرف ظاہری امراض تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔ یہ کس قدر نادانی اور غلطی ہے۔ جس حال میں ایک فانی جسم کے لئے اس کی اصلاح اور بھلائی کے کل سامان موجود ہیں، تو کیا یہ ہو سکتاہے کہ انسان کی روحانی امراض کا مداوا اللہ تعالیٰ کے حضورکچھ بھی نہ ہو؟ہے! اور ضرورہے!!‘‘

(ملفوظات جلد اول ص86)

علاج اور انسانی علم

’’بعض دنیا دار فلسفی اور ڈاکٹر حضرات اپنے علم کو یقینی اور قطعی سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ انسان خواہ کس قدر بھی ترقی کر جائے اس کا علم ایک دائرے تک ہے اور بہت زیادہ معاملات ایسے ہیں جس کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ حضور فرماتے ہیں:

’’بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی۔ مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے تو اُسے خود ہی دَست لگ جاتے ہیں۔ انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے لیکن بالآخر اُس کو معلوم ہوگا کہ اُس نے کچھ ہی نہیں کیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 58)

دوا اور غذا کی تاثیرات

’’اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَائَ الدُّنْیاَ ِبمَصَابِیْحَ وَ حِفْظًا سے، یعنی حفظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوااور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الہٰی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پرتجلی گاہ اور مظہرالعجائب ہیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17ص282حاشیہ)

دوا کے استعمال میں بے احتیاطی نہیں کرنی چاہئے

’’غریب ممالک میں عام طور پر دواؤں کا استعمال بلاسوچے سمجھے اور بے احتیاطی سے کیا جاتا ہے۔ کسی ایک مریض کیلئے ڈاکٹر نے جو دوا دی وہ گھر میں پڑی رہتی ہے اور کسی دوسرے مریض کو بغیر مناسب غوروفکر کے استعمال کروا دی جاتی ہے۔ دوا کے استعمال میں یہ بے احتیاطی مناسب نہیں ہے اور اس کے نتائج خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ دوا ہمیشہ معالج کے مشورے کے بعد استعمال کرنی چاہئے اور دوا کی خوراک کا بھی پورے طور پر خیال رکھنا چاہئے۔‘‘

حضور فرماتے ہیں:

’’علم طبابت ظنی ہے کسی کو کوئی دوا پسند کسی کو کوئی۔ ایک دوا ایک شخص کے لئے مضر ہوتی ہے دوسرے کے لئے وہی دوا نافع۔ دوائیوں کا راز اور شفا دینا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی کو یہ علم نہیں کل ایک دوائی مَیں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا ’’خطرناک‘‘ دوائیں اندازہ کرنے پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے بلکہ ضرورتوں کو لینا چاہئے‘‘

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ437)


(ترتیب و تحقیق: ابوسدید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ