• 19 اپریل, 2024

ہماری امی جان مُحترمہ مُبارکہ بیگم صاحبہ مرحومہ

مُبارکہ مُبارک وجود
ہماری امی جان مُحترمہ مُبارکہ بیگم صاحبہ مرحومہ

ماں دُنیا کا ایک خوبصورت لفظ جوو روح میں ٹھنڈک ، ایک غیر مشروط پیار، اور تحفظ،کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ ماں کی گود اورماں کا لمس دُنیا کے ہربچے کا پہلا پیار، پہلا علم کاگہوارہ ہے۔ ماں کے قدموں میں جنت کی بشارت اور اُسکی خدمت میں عظمت کی گواہی رب کریم اور اُس کے رسول ﷺنے خوددی پھراُس ذات کریمی نے ماں کے دل میں اپنے پیار کا عکس ڈال کر ماں کے وجودکو بچے کے لیےدُنیا کا سب سے مضبوط اور گہرا رشتہ بنا دیا اوراس دُنیا میں اپنی مخلوق کی پیدائش اور پرورش کا انتظام اُس بزرگ وبرتر ذات نےماں کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ سُبحان اللہ

اپنی اولاد پر تن من دھن وار دینااور اپنے بچوں کے لیے ہر مصیبت اور طوفان کا سامنا کرنے کے لیے ڈٹ جانا ایک ماں کے حصہ میں آیا ہے اور ہر پریشانی اور دُکھ ماں کی جھولی میں ڈال کر بے فکر ہوجانا اور دُعائیں سمیٹنا اولاد کے حصہ میں آیا ہے۔ اولاد کو ماں کی ضرورت بے شک ہر عمر کے حصے میں ہمیشہ رہتی ہے ماں کی جُدائی اور اس دُنیا سے چلا جانا بلاشُبہ زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے۔

پیاری والدہ ماجدہ صاحبہ ہماری امی جی مُحترمہ مُبارکہ بیگم صاحبہ کو اس دُنیائے فانی سے رُخصت ہوئے گیارہ برس بیت گئے ۔ اُنکی یاد وں کو قلم کے سپُرد کرنے کےارادے نے بہت وقت لیا جب بھی لکھنے کا ارادہ کیا یوں لگتا تھاکہ امی جی کی محبت بھری یادوں میں ڈوب کرلفظوں میں ڈھالنے کا عمل کہیں میرے الفاظ کوآنسوؤں کی صورت میں نہ بہا دےاور میں ان کے بارے لکھنے کا صحیح حق نہ ادا کر سکوں ۔

اپنے سے جُدا ہوئےماں باپ کی یادیں زندگی کے ہرہر پل میں ساتھ ہی رہتی ہیں اُنکی آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہوتی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ اُنکےساتھ ان کی گود میں پُرشفقت محبت بھرے گزرےہوئےلمحے دل کے نہاں خانوں میں تا دم زندگی ہمیشہ تروتازہ اور آباد رہیں گے۔اللہ تعالیٰ مجھے احسن رنگ میں توفیق عطا فرماۓ کہ اپنی بزرگ پیاری ماں کی عنایتوں ، محبتوں، اور دُعاؤں کی یادوں کولفظوں کے پیرھن میں ڈھال کر انکی بے لوث خدمتوں کو خراج تحسین پیش کر سکوں آمین۔ہم اُنکی خدمتوں اورمُحبتوں کے حق کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے جو وہ اپنی زندگی میں ہمارے لیے کر گئیں اور دُعاؤں کی صورت میں بے شمار خزانے ہمارے لیے چھوڑ گئیں۔

ہماری والدہ محترمہ مُبارکہ بیگم صاحبہ کی ولادت ۱۹۲۸میں ہوئی والد صاحب کا نام حضرت مولوی عبدالرحمٰن تھاجوامیر جماعت احمدیہ کھاریاں بھی رہے۔ آپ حضرت مولوی فضل دینؓ صاحب یکے از۳۱۳ صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کے بڑے فرزند تھے۔ امی جی کے دادا جان حضرت مولوی فضل دین ؓصاحب نے حضرت مولوی بُرھان الدین ؓجہلمی یکے از صحابی ۳۱۳حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ مل کر احمدیت کے متعلق تحقیق کی اور پہلے حضرت مولوی بُرھان الدین ؓصاحب نے بیعت کی اسکے بعد حضرت مولوی فضل دین صاحب ؓنے قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور آنحضرت ﷺ کا سلام دیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کا نام اپنی کتاب انجام آتھم میں ۳۱۳صحابہ کی لسٹ میں درج فرمایا ہے۔

امی جی کی والدہ صاحبہ کا نام مُحترمہ فضل بیگم صاحبہ تھاجو نہایت پاکباز، صوم و صلوٰۃ کی پابند صاحب فراست خاتون تھیں، ان کے والد صاحب کا نام حضرت حافظ محمد صاحب تھا جو بھلیسر ضلع گجرات سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا سلسلہ نسب پُشتوں سے حفاظ کرام کی لڑیوں میں سےتھا۔

امی جی کا ددھیال اور ننھیال علم باعمل اپنے دور کا ایک ایسا خاندان تھا جو دُنیا کو قُرآن و دین کی تعلیم دینے کے لیےمشہور تھا، امی جی کی دادی جان محترمہ صحابیہ حافظہ زینب بی بی صاحبہ حافظہ قُرآن تھیں ۔وہ اپنے علاقے کی نڈر دینی غیرت رکھنے والی شریعت کے احکام پر کاربند رہنے والی خاتون تھیں اور قُرآن پاک کی تعلیم کے درس و تدریس میں مشغول رہتی تھیں۔

اس پس منظر کے پاکیزہ ماحول میں امی جی نے آنکھ کھولی ،اورطبیعت میں اپنے بزرگوں جیسی خوبیاں لیے پروان چڑھیں کہ اپنے رب کریم اور اس کے رسولﷺکی محبت میں سر شار دن رات اسکی یاد میں معمور رہتی تھیں ان کی ذکر الہی اور درود شریف سے تر زبان کی نغمگی مدھم لےمیں گھر کےکام کاج کرتے ہوئےہر وقت سُنائی دیتی تو ایک عجب پُر سکون تحفظ کا احساس ہوتا، اس کثرت سے ذکر الہٰی کرتیں کہ گھرکا ماحول معطرہو جاتا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی محبت کی ایسی لو لگا دی کہ دُنیا کی ہر لذت اس کے سامنے ہیچ سمجھتیں ۔ دُعا میں اپنے رب سے رازونیاز کرنا ہی ان کا محبوب مشغلہ بن گیا۔صاحب ِ کشوف ورؤیا تھیں بے شمار سچی خوابیں آتیں اور پُوری ہو جاتیں اور کئی دفعہ اس کثرت سے درود شریف کا کئی کئی دن ورد کرتیں کہ رسولِ پاک ﷺ کا خواب میں دیدار ہوا،امی جی کی یہ مبارک خوابیں انکے ہاتھ سے ڈائری میں لکھی ہوئی ہیں الحمدُللہ ۔ساری زندگی اول وقت نماز پر پابند رہنے والی تھیں اور باقاعدگی سے تہجدواشراق کے نوافل ادا کرتیں ، کہا کرتی تھیں کہ مُشکلات انسان کو اپنے رب سے نزدیک کر دیتی ہیں جو لُطف تنہائی میں رب کے حضور گڑگڑا کر دُعا مانگنے کا ہے عام حالات میں نہیں ہوتا۔ بتایا کرتی تھیں کہ جب بچے چھوٹے تھے اور تُمہارےاباجی ملازمت کے سلسلے میں دوسرے ممالک کے دوروں پر لمبی مُدت کے لیے چلے جایا کرتے تھے اور خط بھی بہت دنوں کے بعد ملا کرتے تھے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ اور مسائل کا ایک انبارہوتا تھاتو اسوقت صرف اور صرف دُعاؤ ں کا ہی سہارا ہوتا تھا ، اکثرتہجد کے نوافل کے علاوہ دن اور شام کی تنہائی میں کبھی کسی کوٹھڑی میں اور کبھی چھت پر ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے میں نے لمبی دُعائیں مانگنیں جو پیارے رب نےاس طرح معجزانہ رنگ قبول کر لیتیں کہ حیرت ہوتی تھی ۔

ہم بچوں کو بھی چھوٹے چھوٹے پیارے الفاظ میں کئی دُعائیں اور دُعائیہ نظمیں سکھائی ہوئی تھیں جو ہمارے منہ پر خود بخود جاری ہو جاتی تھیں ، تربیت کے سلسلے کا یہ طریق بچپن سے ہی اپنے رب سےمانگنے کا ایک سلیقہ سکھا دیتا ہے۔ مجھے اپنےہوش کے زمانےمیں قاعدہ یسرناالقرآن شروع کرنے سے بھی پہلے کئی زبانی یاد کروائی گئی دُعاؤں میں سے ایک تو رب زدنی علما کی دُعا فر فر یاد کر وا دی تھی، دوسرے ایک دُعا اپنی زبان میں اباجی کے لیے یاد کروائی (جسے میں اباجی کی دُعا کہا کرتی تھی )جس میں اباجی کی صحت و سلامتی، سفروں میں حفاظت، اور بخیریت واپس گھر آنے کی دُعا چھوٹے چھوٹے فقروں میں ازبر کروا دی جو میں ہر وقت دھراتی رہتی تھی کہ اباجی کے لیے دُعا کرنابہت بچپن سے ہی عادت بن گئی اور اللہ میاں سے راز و نیاز کرنے اور اُسےاپنا بنانے کی چاہ ہو گئی۔ پھر امی جی کی ایک بہت پیاری عادت جو دل میں گھر کر گئی وہ دُعائیہ کلام کو اپنی پیاری آواز میں اکثر گُنگنانا تھا، اس طرح بھی کئی نظمیں ہمیں بچپن میں زبانی یاد ہو گئیں، ایک دفعہ میں پہلی کلاس میں تھی اور بخار کی وجہ سے اسکول نہ گئی بستر میں امی جی ساتھ لیٹ گئیں اور کہنے لگیںآؤ تمہیں نظم سناؤں، پھر انہوں نے درثمین کی نظم چولہ بابا نانک سنائی اور میرے طرح طرح کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے اس نظم کا سارا پس منظر بھی سمجھایا،مجھے پانچ سال کی عمر میں سکھ ازم کے بارہ میں بتایا اور اس سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحقیق کے متعلق سمجھایا۔ تربیت کے سادہ اور دل میں اترنے والے اصولوں پر بہت بچپن سے ہی ہمیں گامزن کر دیا۔ الحمدُللہ۔

اسی طرح جونہی بچپن میں لکھنا آگیا تو ہمیں شروع سے ہی خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے لیے خط لکھنے کی طرف توجہ دلائی مجھے یاد ہے کہ میرا پہلا خط جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکو لکھوایا وہ امی جی نے املا کی طرزمیں خط شروع کرنے کا طریقہ ، القاب ، آداب ، سلام اور نفس مضمون لکھوایا اس کی وجہ سے مجھے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ خط کسی عام ہستی کے نام نہیں بلکہ خلیفہ وقت کے حضور دعا کےلئے عرض کرنا کوئی معمولی خط نہیں ہوتا۔ اس کے بعدمیں نے خود ہی خط لکھنا شروع کیا تو بھیجنے سے پہلے ضرور پروف ریڈنگ کے لیے چیک کیا کرتی تھیں کہ کوئی غلطی نہ کی ہو۔ ایک مڈل اسکول تک پڑھی ہوئی ماں کا اس قدرباریکی سے اپنے سب بچوں کی تربیت میں انفرادی طور پر خیال رکھنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ تربیت اولاد کے نُکتہ نگاہ کے پیش نظر یہ بظاہر چھوٹی مگر حقیقت میں بہت بڑی باتوں کی کچھ تفصیل لکھ رہی ہوں اسلیے کہ آجکل اور آئندہ آنے والی ماؤں کے لیے یہ بھی واضح کر سکوں کہ پرانے زمانے کی نسبتاً کم پڑھی لکھی ماؤں کےسادہ اور آسان اطواربچوں کی بہترین تربیت میں اعلیٰ طور پرکارگر ہوتے تھے کیونکہ دعاؤں کے ساتھ اللہ کے فضل پر کامل بھروسہ اور تقویٰ شامل ہوتا تھا۔

امی جی خود مطالعہ کا وسیع ذوق رکھتی تھیں اور فارغ وقت میں مختلف علمی اورجماعتی دینی کتابیں، رسائل اور جرائد زیر مطالعہ رکھتیں اپنے علم کو اور آگے بڑھانے کی ایک لگن ان میں پائی جاتی تھی اورعلمی مضامین ہمارے ساتھ شیئر بھی کرتی تھیں۔کینیڈا آنے کے بعد شروع میں انگلش کلاسز بھی جوائن کی تھیں مگر کچھ صحت کے مسائل کی وجہ سے جاری نہ رکھ سکیں اور یہاں کی لائبریری سے بڑے حروف والی اسٹوری بُکس لا کر ریڈنگ کیاکرتی تھیں ۔ کئی دفعہ کہا کرتی تھیں کہ یہاں اس مُلک میں مجھے کچھ زبان کا مسئلہ ہے ورنہ میں تو لوگوں کے دروازوں پر جا کر دعوت الی اللہ کروں اور اسلام کا پیغام پہنچاؤں۔

ہماری امی جی اپنے زمانے اور ماحول کی اکژ ہم عصر خواتین میں سے ایک خاص انٹلیکچوئل ذہن کی مالک تھیں، انہیں روایتی محلے دارخواتین کی طرح ادھر اُدھر کی فضول باتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا اور نہ ہی اپنے گھر میں کبھی ایسا مجمع جمع کیا تھا، بلکہ گھریلو ذمہ داریوں کی مصروفیت، بچوں کی تربیت اور پابندی سے اول وقت نماز، نوافل، قُرآن اور مطالعہ کی مصروفیات کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ ضائع کر سکیں۔ مُلکی، سیاسی اور بین الاقوامی حالات اور خبروں سے پوری طرح آگاہ رہتیں۔ گھر میں آنے والے سارے اخبارات پڑھتیں اور اتنا وسیع علم رکھتیں تھیں کہ پوری طرح حالات حاضرہ کو ڈسکس کرتیں تھیں۔بارک اوبامہ صاحب جب ریاستہائے مُتحدہ امریکہ کے صدر مُنتخب ہوئے تو اُنکی خدمت میں مبارکباد کا تفصیلی خط اردو میں لکھا۔ پہلے اپنے بیٹے یعنی ہمارے بھائی جان مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب (جن کے پاس آخر دم تک مقیم تھیں) سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ضرور لکھیں۔ ان کے پاس ترجمان موجود ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے نام مبارکہ کی مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے انکے دور کے بابرکت ہونے کی دعادی اور نیک خواہش کا ظہار کیا کہ اللہ کرے آپکا یہ دور مسلمانوں کے لیے امن اور تحفظ کا باعث ہو۔اور یہ تجویز بھی دی کہ کسی مُلک میں ذرائع آمد ورفت کا بہترین ہونا ترقی کا باعث ہوتا ہے ۔ امریکہ کی جن اسٹیٹس میں سڑکیں تاحال اچھی نہیں انہیں بھی بہترین طریقے پہ بنوایا جائے۔

امی جی ایک بہترین طرز تحریر کی مالک تھیں۔ لکھنے کا انداز بہت سادہ، پیارا اور دلنشیں تھا۔ اسی طرح بہت پیاری دعائیہ نظمیں بھی اکثر لکھتیں اور اپنی ڈائری میں ہی محدود رکھتیں تھیں۔ کبھی کبھی ہم سے بھی شیئر کیا کرتی تھیں۔ ان کے جواہر پارے آئندہ ضرور سب سے شیئر کروں گی۔ اللہ تعالیٰ مجھے ان امانتوں کو سب تک پہنچانے کی توفیق دے۔ آمین۔

قُرآن پاک سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ قُرآن کی تلاوت کے بغیر ہمارا دن نہیں شروع ہو سکتا تھا۔ علی الصُبح نماز کے بعدامی جی کی تلاوت قُرآن کی بلند سُریلی آوازہمارے گھر میں روز ایسے گونجتی کہ جس کے بغیر ہماری صُبح کا تصور نہ تھا۔ اور سب بچے نماز فجر کے بعد جب تک تلاوت قُرآن نہ کر لیتے ناشتہ نہیں ملتا یعنی ایک ایک کر کے امی جی کو(جو چولھے کے پاس گرم گرم پر اٹھے پکارہی ہوتیں) قُرآن پاک کا سبق سُناتے جاتے اور ناشتہ کرتے جاتے اور اسکول کے لیے تیار ہوتے جاتے۔

شام کو صحن میں چار پائیاں بچھ جاتیں جن پربیٹھ کر سب بہن بھائیوں کو اسکول کا کام کرواتیں اور پھر کھیلنے کی اجازت دیتیں۔ کئی دفعہ تو بذات خود بچوں کے اسکولوں میں ٹیچروں سے تعلیمی کار کردگی معلوم کرنے چلی جاتیں۔ حالانکہ اس زمانے میں عام گورنمنٹ اسکولوں میں پراگرس رپورٹ تو کُجا ٹیچرز سے بات چیت بھی دور کی بات ہوتی تھی۔ ماں باپ کو علم ہی نہ ہوتا تھا کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی کہتیں کہ سب اپنا اپنا ٹائم ٹیبل بنا لو اور اس کے مُطابق عمل کرو۔ وقت ضائع کرنا انہیں سخت ناپسند تھا۔ جماعت کے سب پروگراموں میں خود بھی شامل ہوتیں اور بچوں کو لازما ًاطفال، خدام اور ناصرات کی تنظیموں کے جلسوں اور اجتماعات پر مقامی اور مُلکی سطح تک بطور خاص بھجواتیں۔ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہ برتتیں۔ چونکہ ہمارے اباجی مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم، ریڈیو آفیسر سفینہ حجاج ملازمت کی وجہ سے بحری جہازوں پر بیرون مُلک سفروں میں رہتے اور سال میں ایک یا دو مرتبہ لمبی رُخصت پر آتےتھے۔ اس لیے ہم بہن بھائیوں کی دینی اور دُنیاوی تربیت کی کُلیتہ ًذمہ داری امی جی کے کندھوں پر تھی جسے آپ نے کمال خوبی اور اور فرض شناسی سے پُورا کیا جس کے اہل خاندان اور سب ملنے والے معترف ہوتے تھے۔ الحمدُللہ۔ ہمارےاباجی مکرم چو ہدری بشیر احمد صاحب مرحوم اس سلسلے میں امی جی کو خاص قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اکثر کہتے کہ تمہاری ماں کوئی معمولی عام انسان نہیں ہے۔ انہوں نے بہت محنت سے اکیلے بچوں کو پروان چڑھایا اور تربیت کی ہے۔ ان کی بہت خدمت کیا کرو۔ ایک دفعہ جب امی جی کی طبیعت ناساز تھی تو میں پتہ کرنے گئی تو دیکھا کہ ابا جی ٹرے میں بہت اچھے طریقے سے کھانا اور ساتھ گلدان میں تازے پھول سجا کر امی جی کو پیش کر رہے ہیں ۔میں بہت حیران ہوئی کہ واہ !یہ تو زبردست پیش کرنے کا انداز ہے۔ اباجی کہنے لگےکہ کیا تمہاری امی کوئی عام انسان ہیں؟ انہوں نے سب کی بہت خدمتیں کیں ہیں اور تم سب کو اچھی تربیت دی اور اس قابل بنایا ہے کہ دُنیا میں سر اُ ٹھا کر جی سکو اور پھریہ سب کُچھ اکیلے کیا ہے۔ وہ تو اس سے بہت زیادہ کی حقدار ہیں۔ فا لحمدُللہ علیٰ ذالک۔

امی جی خدمت دین کو بہت بڑا اعزاز سمجھتی تھیں اور شروع سے خواہش تھی کہ میری اولاد میں سے کو ئی وقف زندگی کی روایت کو آگے لے کر چلنے والا ہو۔ اس کے لیے بہت دُعائیں کرتی تھیں

ہمارے بڑے بھائی جان محترم چوہدری مُنیر احمد صاحب واقف زندگی (حال ڈائریکٹر مسرور ٹیلی پورٹ میری لینڈامریکہ) کے وقف کے بارہ میں گزارشات امی جی کی ہی زبانی پیش کرنے سے پہلے یہ بات بیان کردوں کہ امی جی بتاتی ہیں کہ ہمارے بڑے بھائی جان مکرم چوہدری منیر احمد صاحب دو یا تین سال کی عُمر میں کُچھ اسقدر بیمار ہو گئے کہ ڈاکٹر بھی نااُمید ہو گئے۔ ایک ماں کی حالت اس وقت کیا ہو گی سب سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ان دنوں کھاریاں میں احمدیہ مسجد کے چوبارے میں مقیم تھے۔ ہمارے نانا جان حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ کھاریاں ،روز نماز فجر کے بعد عزیزم منیر احمد کو اُٹھا کرحضرت مولوی صاحبؓ کے پاس دعا کی غرض پیش کرتے تو حضرت مولوی صاحبؓ کہتے کہ فکر نہ کریں اس نے بالکل ٹھیک ہو جانا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے کہ میں تو اس بچے کی آنکھ میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ بہت زیرک ہوگا۔ نانا جان نے جب یہ سب امی جی کو بتانا تو امی جی کہتی ہیں کہ میں یہ سوچتی تھی کہ شاید میرے بے قرار دل کی تسلی کی خاطر ایسا کہہ رہے ہیں ۔بظاہر تو کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر اگر خُدا چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ ایک دن عزیزم منیر احمد کی حالت بہت بگڑ گئی اور شام کا وقت تھا (اس زمانے میں کھاریاں میں بجلی نہیں آئی تھی) میں نے لالٹین پکڑی اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓکے پاس دعا کے لیے عرض کرنے کو گئی تو حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ اچھا یہ حالت ہے تو آج رات میں عزیزم منیر احمد کے لیے خاص دُعا کروں گا اور انہوں نے چیدہ چیدہ کھاریاں کے بزرگ افراد کے نام لیےجن میں امی جی کی بزرگ پھوپھی جان بے بے جی ہاجرہ بیگم صاحبہ بھی شامل تھیں کہ اس وقت ان کو جا کر کہو کہ مولوی صاحب نے کہا ہے کہ آج کی رات عزیزم منیر احمد کے لیےدو نفل ادا کریں۔ امی جی لاٹین پکڑے اسی وقت حضرت مولوی صاحب ؓکا پیغام پہنچانےدروازے دروازےبے قرار دل کے ساتھ کھاریاں کی اندھیری گلیوں میں چل پڑیں اور سب کو دعا کا کہہ کر ہی گھر لوٹیں۔ اگلی صُبح نانا جان نماز فجر کے بعد گھر لوٹے تو فرمایا کی حضرت مولانا صاحب ؓنے کہا ہے کہ منیر احمد صحت مند ہو جا ئے گا۔ ساری دوائیاں دینی بند کردیں۔ پھر ناناجان نے بیان کیا کہ حضرت مولانا غُلام رسول صاحب ؓراجیکی نے نماز کے بعد نانا جان کو مُخاطب کر کےفرمایا کہ مولوی صاحب! رات ایک عجب واقعہ رُو نما ہوا ہےکہ رات عشاء کی نماز کے بعد سویا ہوں تو تین بجے کے قریب آواز آئی کہ اُٹھ مُنیر کے لیے دُعا کر۔ اُٹھ کر سوچا کہ شاید ساتھ سوئے ہوئے لڑکے نے اُٹھایا ہے جبکہ وہ خود گہری نیند میں سویا ہے۔ جب اسے اُٹھایا اور پُوچھا کہ عطاءالہٰی (میرے مرحوم پھوپھا تھے) کیا آپ نے اُٹھایا ہے تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ یہ خُدا نے اُٹھایا ہے پھر میں نے مُنیر احمد کے لیے نوافل ادا کرنے شروع کیے تو سجدہ میں کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں مُنیر احمد کو ہاتھوں میں اُٹھائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں اور عرض کی کہ یا اللہ !اس بچے پر رحم کیا جائے کہ اس کی ماں بہت بے قرار ہے۔ اس نظارہ کے بعد کشفی حالت جاتی رہی۔ پھر فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ مُنیر احمد کو غیر معمولی طور پر مُعجزانہ صحت عطا فرمائے گا اور اسکی ماں کو یہ پیغام دیں اور کہیں کہ فکر نہ کرے۔ اس کے بعد مُنیر احمد کی صحت دن بدن ترقی کی جانب اسقدر مائل ہو گئی کہ جو دیکھتا حیران رہ جاتا۔ الحمدُللہ ان ہی دعاؤں کی بدولت پیارے بھائی جان مکرم مُنیر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی بڑی بیماریوں سے معجزانہ شفا دی اور خدمت دین کی برکت سے صحت عطا کی۔ فالحمدُللہ علیٰ ذٰلک۔

اب امی جی مرحومہ کی اپنی لکھی ہوئی ذاتی ڈائری کی تحریر کو من وعن اسی طرح پیش کرتی ہوں جو انہوں نے مکرم و محترم بھائی جان چوہدری مُنیر احمد صاحب کے وقف زندگی کے بارہ میں درج کیا۔ آپ لکھتی ہیں :
’’کہ جب عزیزم مُنیر احمد نے زندگی وقف کی میں نے تو اسکو ابھی ایک سال کا تھا اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا اور اللہ تعالیٰ سےعہد کیا کہ اے خُدا! تو اسکو صحت دے تو میں اسکو تیرے دین کی خدمت کے لئے دے دوں گی۔کسی کو بتایا تو نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ یاد کر کے دعا کرتی تھی اور بزرگوں سے دعا کے لیے عرض کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مُجھے اور اس بچے کو اس پر پورا اُترنے کی توفیق دے۔ جب خُدا کے فضل سے اس نے میٹرک پاس کیا تو میں نے اپنا اللہ تعالیٰ سے کیا وعدہ پورا کرنے کی غرض سے اس سے وقف کی خواہش کا ذکر کیاتو میرے پیارے بیٹے نے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہاں کر دی۔ مُجھے وقف کے مُطالبات کا کوئی علم نہ تھا۔جب ربوہ سے فارم پُر کرنے کے لیے ہمارے گھر آئے تومیں نے پڑھے اور وہ مُطالبات سخت نظر آئے تو یہ خیال آیا کہ اگر میرا بچہ ان مطالبات پر پورا نہ اتر سکا تو کیا انجام ہو گا؟ اس انجام سے میں بہت خوف ذدہ تھی۔ دل میں گھبراہٹ بہت تھی۔ اسکے لیے بہت دعا کی کہ خدانہ کرے کہ پیچھے ہٹ جائے تو کیا ہو گا۔ تو میرے مہربان قادروقدوس خدانے میرے دل کی حالت پر نظر کرتے ہوئےقُرآن پاک کی یہ آیت خواب میں بتائی:

ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر استقامت اختیار کی تو اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تُم وعدہ دیئے جاتے ہو۔ (سورۃ حٰم السجدہ: آیت: 31)

مُنیر احمد کے وقف کے بارے میں اضطراب تھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بتائی۔ اس کے بعد میرے دل کو جو اطمینان ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے منیر احمد کو کہا کہ آپ کواگراس نئے کورس میں ایک کلاس میں دوسال بھی لگانے پڑے تو ہم آپکو کُچھ نہیں کہیں گے اور آپکی پوری مدد کریں گے سو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور منیر احمد جامعہ پاس کر کے میدان عمل میں آگئےاور خدا کے فضل سے انہیں نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ الحمدُللہ جتنا بھی شُکر کروں کم ہے۔ خدا کے وعدے ہمیشہ سچے ہوتے ہیں۔ انسان کمزور ہے اپنے وعدے بھول جاتا ہے مگر خدا کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے۔اسی کی ذات پر یقین کامل ہے‘‘ بقلم مبارکہ بیگم

امی جی کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نےانکے دو نواسوں کو زندگی وقف کرنے کی توفیق عطافرمائی اور اپنی زندگی میں ان دونوں کو جامعہ احمدیہ کینیڈا میں تعلیم حاصل کرتے اور آگے بڑھتے دیکھ کر بہت رب کا شکر ادا کرتیں اور ان کے لیے دُعائیں کرتیں تھیں ۔گو کہ دونوں امی جی کی وفات کے کافی سالوں بعد جامعہ احمدیہ کینیڈا سے فارغ التحصیل ہوئے۔ انکی کامیابیوں میں امی جی کی دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے۔

خاکسارکےبیٹے عزیزم حماد احمد صاحب (وقف نو) مبلغ سلسلہ احمدیہ (حال اٹلانٹا، جارجیا، امریکہ) اور خاکسار کے بھانجے یعنی عزیزہ زاہدہ راحت کے بیٹے عزیزم فرحان احمد حمزہ (وقف نو) (پروفیسر جامعہ احمدیہ کینیڈا) ان دونوں کے لیے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلاتا ہوا مقبول خدمت دین کی توفیق دے۔ آمین۔

مُحترمہ امی جی کی پاکیزہ عادتوں میں سے یہ عادت بھی تھی جس پر آپ تمام زندگی کابند رہیں کہ تمام لازمی چندہ جات اول وقت ادا کرتی تھیں اور خلیفۂ وقت کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ایک سعادت سمجھتی تھیں ۔ اوائل جوانی سے موصیہ تھیں اور باقاعدہ چندہ ادا کرتیں تھیں ۔بچپن سے چندے ہمارے ہاتھوں سے دلواتیں تاکہ بچوںکو خود چندہ دینے کی عادت ہو جائے۔

اکثر ہمیں کہا کرتی تھیں کہ اپنا مال پاک کرنا چاہیئے اور اس دُنیا میں اسراف سے بچ کر وہاں خرچ کرو جہاں تمہارے اگلے جہان میں کام آسکے۔ اللہ کی راہ میں دینا ہی بہت بڑی بچت کی سکیم ہے پس اسی میں حصہ ڈالو۔ اصل سرمایہ یہی ہےجو ہم اگلے جہان کے لیے جمع کرتے ہیں ۔جب میں چھوٹی تھی تو اکثرمحلے کے غریب و نادار خاندانوں کے ہاں میرے ہاتھ مختلف اشیائے ضرورت مثلاً دانے، کپڑےاورپیسے وغیرہ بھجوایا کرتی تھی اور یہ تاکید بھی کرتی تھیں کہ کسی سے ذکر نہ کرنا کہ کُچھ دیاہے۔چھُپ کر خدمت خلق کرنے والی تھیں۔ نمود ونمائش سے کوسوں دُور کہ ایک ہاتھ سے دیتیں تو دوسرے کو پتہ بھی نہ چلتا۔ ہمارے بچپن میں ایک دن صُبح سویرے کہنے لگیں کہ خواب میں آیا ہے کہ ہر قسم کا صدقہ کرو۔ سوچنے لگیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ پھر اس دن صُبح سے شام اورپھر رات گئے تک امی جی نے گھر میں سے ہر طرح کی جنس مثلاً گندم، چاول ،آٹا اور کھانے پینے کی دیگر تمام اشیاء سے لے کر کپڑے، جوتے، پیسے غرض جس قدر ممکن ہو سکتا تھا تمام ضروریات زندگی کی اشیاءکا سامان دن بھر ضرورت مندوں کو پہنچایا۔

ہمارے گھر کئی ایسی خواتین اکثر آتیں جو حالات کی ستائی اور دُکھوں کی ماری ہوتیں یا جن کا کوئی والی وارث نہ ہوتا۔ امی جی گھنٹوں ان کےدُکھ درد سُنتیں اور ان کی ہر قسم کی مالی و اخلاقی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتیں۔بہت سی مجبور و مظلوم خواتین جو اکثر امی جی کے پاس آتی تھیں ان بہت سی سہیلیوں میں سے صرف چندکا ذکر کروں گی۔ایک ایسی ہی بُڑھیا جسے ہم ماسی ٹنگاں والی (ٹنگاں اسکے گاؤں کا نام تھا)کہتے تھےجو بیوہ تھی اور بیٹے کے نارواسلوک کے ہاتھوں تنگ تھی۔ وہ بیٹے سے ناراض ہو کر یا بیمار ہو کر ہمارے ہاں اچانک کئی کئی دن رہنے کے لیے آجاتی تھی۔ امی جی نے اسکا علاج دوادارو کرنا اورچارپائی پر بٹھا کرکھانے کھلانے۔ہمیں بھی کہنا کہ جاؤ ماسی کو یہ دے آؤ اوروہ دے آؤ۔ ماسی کے پاؤں داب دو۔پیدل چل کر کئی میل گاؤں سے آئی ہے۔اور پھراُسکے بیٹے کو کُچھ دنوں بعد بلا کر سمجھا بُجھا کر ماسی کو ساتھ روانہ کر دینا۔ کُچھ دنوں کے بعدماسی نے امی جی سے محبت کی وجہ سے یا کسی اور غرض سے پھر کئی دنوں کے لیے آجانا اور امی جی نے بہت محبت کا سلوک اس سے کرنا۔ غرض یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا۔امی جی کہتی تھیں بے چاری کا آگے پیچھے کوئی نہیں تو وہ ہمیں اپنا سمجھتی ہے اورضرورت کے وقت آجاتی ہےہمارا فرض ہےکہ اسکی مدد کریں اور دلجوئی کریں ۔

پھر ایک کشمیر کے لُٹے پٹے خاندانوں کی عورت جس کا نام ریشماں تھاجس کی بارہ بکریاں اور بہت سا اسباب سیلاب میں بہہ گیا تھا وہ اپنے بچوں کے ساتھ اچانک شام کوآگئی۔ اور سردی کا زمانہ تھا۔امی جی نے اسکے لیے گھر کا ضروری سامان ، کمبل ، سویٹر، برتن وغیرہ مہیا کیے اوراپنا گھر دوبارہ قائم کرنے کے لیے اسکی ہر ممکن مددکی۔ اکثر وہ آتی رہتی تھی۔ کبھی بہت دن تک نہ آتی تو امی جی کہتیں کہ اللہ خیر کرے ریشماں بہت دن سے نہیں آئی تو اللہ کا کرنا ایسا ہوتا کہ وہ اسی دن آجاتی اور امی جی اسکی ہر طرح کی مدد کرتیں، کھانا کھلاتیں اور خوب حال احوال پوچھتیں ۔امی جی کو اپنی یہ غریب و مسکین سہیلیاں بہت عزیز تھیں۔ وہ اس طرح کے نادار لوگوں کی مدد کر کے بہت خوشی کا ظہار کرتیں اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کا کہتیں تھیں ۔ امی جی نے اپنے عملی نمونے سے ہمیں سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل عبادات کے بعد اسکی راہ میں خرچ کرنا اور اُسکی مخلوق کی خدمت کرنا ہےاور اس پر وہ آخر تک عمل پیرا رہیں۔

گھر کے تمام انتظامات نہایت سلیقہ مندی اور مہارت سے چلاتیں۔ نامساعد حالات کا بہت بہادری اور عقلمندی سے مقابلہ کیا۔ سردیاں آتیں تو امی جی کے ہاتھ میں اون سلائیاں آ جاتیں سب کے لیے سوئیٹر بنے جاتے، نئے لحاف بنائے جاتے، گرمیوں میں اچاروں سے مرتبان بھرے جاتے اور عیدوں پر سلائی مشین پر سب بچوں کے لیے خوبصورت کپڑے سیتیں تو گھر میں مدد دینے والی لڑکی اور اسکے گھر والوں کو یاد رکھتیں۔ عید کے دن طرح طرح کے زردے، پلاؤ، کھیر بناتیں تو غرباء کے گھروں میں خصوصا ًتقسیم کرواتیں۔ گھر میں آئے ہر مہمان سے بہت خوش اخلاقی اور محبت کا برتاؤ کرتیں۔ بے حد مہمان نواز تھیں ۔ان کے بے حد لذیذ، سادہ اور غذائیت سے پُر دُعاؤں میں رچے ہوئے کھانے ہر ایک کے لیے ہر وقت تیار ہوتے۔گھراور بچے انتہائی صاف سُتھرا رکھتیں اور کام کاج کرتے وقت دُعاؤں کا ورد زبان پر جاری رہتا۔

جمعۃ المبارک کا دن خاص اہمیت اور مصروفیت کا دن ہوتا۔کپڑے دھوئے جاتے اور بچوں کو غسل اور صفائی ستھرائی کے مراحل سے گزار کر جمعہ پڑھنے لےجاتے۔اب گھرواپسی کا راستہ زیادہ ہی لمبا ہو جاتا وہ اس طرح کہ جمعہ سے واپس آتے ہوئے دس دس منٹ مساکین اور ضرورت مندوں کے گھروں کا حال احوال لازماً پوچھتے ہوئے گھر آنا ہوتا تھا ۔یہ امی جی کی روٹین تھی جس وجہ سےہم اور دوسرے چھوٹے بہن بھائی بچپن میں امی جی کا پلو پکڑے ساتھ ساتھ مختلف گھروں کا دورہ کر رہے ہوتےتھے۔ یہ امی جی کی پسندیدہ سوشل ایکٹیویٹی تھی جس میں کُچھ باتیں ہمارے پلے پڑتیں اور کُچھ ہم اپنے مشاہدوں کی نظر کر دیتے پھر گھر آکرلوگوں کی ضرورت کے مطابق کُچھ نہ کُچھ ان گھروں میں ضرور بھجوایا جاتاجو ہم کبھی اپنے چھوٹےیابڑے بھائی کے ساتھ جا کر دے آتے۔ یہ واقعات ذہن میں نقش ہو گئے ہیں۔ واقعی ماں باپ کا عمل ہی سب بڑا تربیت کا ہتھیار ہوتا ہےاور بچپن کے نقش کبھی بھی مٹائے نہیں مٹ سکتے۔

ہماری امی جی مرحومہ نے اپنی زندگی میں سب رشتہ داروں اور اپنے پرایوں کے ساتھ نہایت محبت و شفقت اور صلہ رحمی کا سلوک کیا اور انکو اپنی دعاؤں میں یادرکھا۔ اپنے ددھیال اور ننھیال سے حد درجہ محبت تھی۔ سب بزرگوں کے رشتوں کو دل و جان سے عزیز رکھا اور خیر خواہی کی ۔ اسی طرح اپنے سسرال (جو کہ انکی پیاری پھوپھی جان کا گھرانہ تھا) سے بہت پیار و محبت کا تعلق رکھا۔ بہت آؤبھگت کی۔ اور ہماری دادی جان محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ مرحومہ جو کہ امی جی کی پھوپھی جان بھی تھیں اور ہمارے داداجان محترم میاں محمد ابراہیم صاحب مرحوم کا ہر وقت گھر میں ذکر خیر کرتی رہتیں۔ اسی طرح خاندان کے دیگر بزرگان اکرام کاذکر خیر بھی کثرت سے کرتی تھیں تا کہ بچوں کے دلوں میں بھی بزرگوں کی وہی محبت قائم ہو جائے۔

امی جی کا دل محبت کا ایک ایساسمندرتھاجس میں سب اپنے اور پرائےسما جاتے تھے۔ جہاں جاتیں جس کو ملتیں اپنی پیاری صورت و سیرت اور انتہائی شفقت اور محبت کے سلوک کی وجہ سے دلوں میں گھر کر لیتیں اور پیار کے بندھن اس مضبوطی سے باندھ لیتیں کہ دُور و نزدیک کےسب رشتہ دارکھنچے چلے آتے۔پاکستان میں امی جی کی زندگی کا زیادہ حصہ گُزار۔پھر پچیس سال کینیڈا میں گُزارے اور ہر جگہ پیار اور محبت کے وسیع تعلقات قائم کئے اور نبھائے کہ ہر ملنے والا سمجھتا تھا کہ شاید میں ہی ان کے لیے بہت اہم ہوں۔ کینیڈا میں بھی جماعت کی چھوٹی بڑی خواتین کو بہت پیا ر و محبت سے ملتیں۔ کئی مسائل کی شکار ضررورت مند خواتین اور بچیوں نے اپنے لیے دعا کا کہنا توانہیں ہمیشہ دعا میں یاد رکھتیں اور فون کر کے حال احوال پوچھتی رہتیں۔ انہیں مفید مشورے دیتیں۔اور مثبت طرز خیال اور خدا کی شکر گُزاری کی طرف رہنمائی کرتیں۔اسی طرح دیگر کمیونٹی کی اور مقامی خواتین کے ساتھ جب ملتیںتواس محبت سے ملتیں کہ ملاقات یادگار بن جاتی۔

انکی وفات کے بعدیہ جان کرحیرت اورخوشی کا احساس ہواکہ جماعت کی خواتین ان سے کس قدرمُحبت کرتی تھیں اور ذاتی محبت کےتعلق بیان کرتے نہ تھکتی تھیں اور ابھی تک جہاں بھی ملتیں ہیں امی جی کی مُحبتوں کے پیارے قصے بیان کرتے ہوئے اُنکی آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں۔

ایک انتہائی باوقار، کامیاب اورعلم و عمل میں مصروف زندگی گُزار کر 82 سال کی عُمر میں راضیۃ مرضیہ کی حالت میں 2009ء میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئیں ۔

اے پاک پروردگار! ہماری پیاری امی جی تیری اک خاص پیاری بندی تھیں۔ انہیں اس دُنیا میں صرف تیری رضا ہی مطلوب رہی۔ وہ تیری خوشی کی خاطرتیری ہی یاد میں اس دنیا کی تمام ذمہ داریاں نبھاتی تھیں گویا دست باکار دل بایار والا ہی معاملہ تھا۔ اے ارحم الراحمین خدا ! تُو ان کی روح پر بے انتہا پیا ر کی نظر ڈالتا ہوا بے انتہا بخشش اور رحمت اور مغفرت کا سلوک کر اور ان کے درجات اپنی بہشت بریں میں اپنے پیاروں کے ساتھ بلند کرتا چلا جا ۔آمین۔

ہماری ماں نے ہماری خاطرممتاکی محبت میں جودُکھ اُٹھائے اورتکالیف برداشت کیں اور ہماری خدمتیں کیں ،محبتیں نچھاور کیں ، دعائیں کیں ہماری تکلیفوں پر راتو ں کو جاگیں اورپیار کےپھاہےلگا کرہمیں راحت وا ٓرام بخشا۔ہم اس حق کا عشر عشیر تک بھی ادا نہیں کر سکے ۔اے اللہ !تو ہی ہماری کمزوریوں سے صرف نظر کر اور معاف فرما تا ہم اور ہماری نسلیں ان کی دعاؤں کے اصلی وارث بن سکیں ۔ آمین۔

(ناصرہ احمد، بریمپٹن ،کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اپریل 2021