• 20 اپریل, 2024

کمیونیکیشن سائنس از روئے قرآن

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں انسانی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت قرار دیا ہے۔ عبادت کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق ہونا بھی ضروری ہے اور اس کی ذات کا عرفان حاصل ہونا بھی لازمی ہے۔ اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ابتداء انسانیت سے ہی انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انبیاؑ نے آکر جہاں مخلوق کے خالق سے تعلق قائم کرنے کے لئے اپنے ذاتی نمونے دکھائے۔ وہیں پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی ذات کا عرفان عطاء کرنے کے لئے انبیاء سے ہم کلام ہو کر الہامی کتب کانزول فرمایا اور علم کے ابواب بنی نوع انسان کے لئے کھولے۔ جب دنیا ذہنی ارتقاء حاصل کر کہ اپنی عقلی بلوغت کو پہنچ گئی تو اپنے سب سے پیارے نبی اور اپنی سب سے کامل کتاب کو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نازل فرمایا۔

اللہ تعالیٰ سورۃ رحمن میں فرماتا ہے الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الِانْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (سورۃ رحمٰن 2-5)

بے انتہارحم کرنے والا اور بن مانگے دینے والا۔ اُس نے قرآن کی تعلیم دی۔ انسان کو پیداکیا۔ اسے بیان سکھایا۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ‘‘

پس اس دور میں قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب الٰہی ہے جو ہر قسم کی خیر و برکت اور علم کا خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مضمون ھٰذا میں قرآن شریف سے موجودہ دور کے ایک سبجیکٹ جسے کمیونیکیشن سائنسز یا میڈیا کا مضمون کہا جاتا ہے کہ ایک ماڈل کو قرآن سے ثابت کرنا مقصود ہے۔

کمیونیکیشن سائنسز کا ایک ماڈل جو SMCR Model یا Berlos Model of Communication کہلاتا ہے، 1960ء میں پیش کیا گیا۔ اس ماڈل کے چاربنیادی اجزاء ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

S:Sender M:Message C:Channel R:Receiver

لیکن قرآن کریم نے تقریبا چودہ سو سال قبل اس ماڈل کو پیش کیا اور قرآن کریم کی ابتداء میں اس ماڈل آف کمیو نیکیشن کو رکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ ثابت فرما دیا کہ اس الہام میں کسی قسم کا کوئی جھول یا رخنہ نہیں۔ ایک ٹیبل کی مدد سے میں اس ماڈل کو قرآن سے ثابت کرتا ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اس مضمون اپنی کتاب براہین احمدیہ میں علل اربعہ کی صورت میں بیان فرمایا ہے۔

۱(علت فاعلی ۲)علت مدی ۳) علت صوری ۴) علت غائی

جیسا کہ آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’آلٓمّ ذَالِکَ الْکِتَابُلَارَیْبَ فِیْہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن پر غور کرنا چاہیئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہء مذکور کا جواب دیا ہے۔

کمیونیکیشن ماڈل قرآن کریم تفصیل
Sender
پیغام بھیجنے والا
آلٓمّ
أنا اللہ أعلم۔ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں
الم کی ابتداء کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ثابت فرما دیا کہ یہ کتاب میرے منبعِ علم سے پھوٹی ہے اور میں ہی اس کتاب کو نازل کرنے والا اور اس پیغام کو بھیجنے والا ہوں۔
Message
پیغام
ذَالِکَ الْکِتَابُ
یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے
ذٰلک الکتاب کے ذریعہ فرمایا کہ یہ وہ پیغام ہے جو ایک کتاب کی صورت میں ہوگااور وہ کتاب ایک عظیم الشان کتاب ہو گی۔
Channel
ذریعہ
لَا رَیْبَ فِیْہِ
اس میں کوئی شک نہیں
لا ریب فیہ فرما کر ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ فرما دیا کہ اس کتاب میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں۔ نہ اس کی صورت میں اور نہ ہی اس کے نزول میں کیونکہ اس پیغام کو لے کر آنے والے جبرائیل ؑ ہیں۔
Receiver
پیغام وصول کرنے والا
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن
متقیوں کے لئے ہدایت ہے
ھدی للمتقین فرما کر اس پیغام کو وصول کرنے والوں کے متعلق نشان دہی فرمادی کہ اس کتاب کو بہت سے لوگ پڑھیں گے لیکن فائدہ اس سے متقی اٹھائیں گے۔

اوّل قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا آلٓم میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں۔

پھر بعد اس کے علت مادی قرآن کے بیان میں فرمائی اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا ذَالِکَ الْکِتَابُ وہ کتاب ہے یعنے ایسی عظیم الشان اور عالی مرتبت کتاب ہے جس کی علت مادی علم الٰہی ہے یعنی جس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا منبع اور چشمہ ذات قدیم حضرت حکیم مطلق ہے۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وہ کا لفظ اختیار کرنے سے جو ُ بعد اور دوری کے لئے آتا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ کتاب اس ذاتِ عالی صفات کے علم سے ظہور پذیر ہے جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہے جس کے علومِ کاملہ و اسرار دقیقہ نظر انسانی کی حد جولان سے بہت بعید اور دور ہیں۔

پھر بعد اس کے علت صوری کا قابل تعریف ہونا ظاہر فرمایا اور کہا لَارَیْبَ فِیْہِ یعنے قرآن اپنی ذات میں ایسی صورت مدلل و معقول پر واقعہ ہے کہ کسی نوع کے شک کرنے کی اس میں گنجائش نہیں۔ یعنی وہ دوسری کتابوں کی طرح بطور کتھا اور کہانی کے نہیں۔ بلکہ ادلّہئِ یقینیہ و براہین قطعیہ پر مشتمل ہے اور اپنے مطالب پر حجج بینہ اور دلائل شافیہ بیان کرتا ہے اور فی نفسہ ایک معجزہ ہے جو شکوک اور شبہات کے دور کرنے میں سیف قاطع کا حکم رکھتا ہے۔ اور خدا شناسی کے بارے میں صرف ہونا چاہیئے کے ظنی مرتبہ میں نہیں چھوڑتا بلکہ ہے کے یقینی اور قطعی مرتبہ تک پہنچاتا ہے۔

یہ تو علل ثلاثہ کی عظمت کا بیان فرمایا اور پھر باوجود عظیم الشان ہونے ان ہرسہ علتوں کے جن کو تاثیر اور اصلاح میں دخل عظیم ہے۔ علت رابعہ یعنے علت غائی نزول قرآن شریف کو جو رہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کردیا اور فرمایا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن یعنے یہ کتاب صرف ان جواہر قابلہ کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و فہم مستقیم و شوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجہ ایمان و خداشناسی و تقویٰ کامل پر پہنچ جائیں گے۔ یعنے جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے۔ اور وہ معارف حقانی میں ترقی کرسکتے ہیں۔ وہ بالآخر اس کتاب سے ہدایت پاجائیں گے اور بہرحال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی۔ اور قبل اس کے جو وہ مریں۔ خدا ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا۔ اب دیکھو اسؔ جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرمادیا کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پاجائیں گے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ200 حاشیہ11)

کمیو نیکیشن سائنسز کا مضمون جدید دور کا تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کی بنیاد آنحضرت ﷺ کے دور مبارک سے ہمیں ملتی ہے۔ عربوں میں عمومی رواج تھا کہ ہر موقع کی مناسبت سے شاعری کرتے تھے۔ خوشی کا موقع ہو یا غم کا موقع، کسی کی تعریف کرنی ہو یا مذمت مطلوب ہو، شاعری کو سہارا بنایا جاتا تھا۔ منکر ین آنحضرت ﷺ کی پاک ذات کے متعلق بھی ہجویہ شاعری کرتے تھے (نعوذباللہ)۔ اس موقع پر صحابی رسول، شاعر نبوی حضرت حسّان بن ثابت ؓ اپنے منظوم کلام کے ذریعہ کفار کی اس ہجو کا جواب دیا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو دعا بھی دی کہ الّلھمّ ایّد حسّان بروح القدس اے اللہ حسّان کی روح القدس سے تائید فرما کیونکہ یہ کفار کو ہجو کا جواب دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت حسّان بن ثابتؓ دور نبوی میں اسلام کے پریس ادارہ کے طور پر کام کر رہے تھے اور اس دور میں یہ محاذ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے سنبھالا ہے۔ جس کا اعتراف غیروں نے بھی کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اس دور میں جس طرح اسلام اور محمد ﷺ کا دفاع کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے علم اور صلاحیتوں سے اسلام، قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی خدمت اور دفاع کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

(حسان محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 23 جون 2020ء